بے سروسامانی کے زندگی گزارنے والے کشمیری


کہا جاتا ہے کہ کشمیر میں ایک زمانے میں انسانی جانوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی، ایک مسلمان اگر کسی انگریز کے ہاتھوں بے دردی سے مارا جاتا تو معاوضہ کے طور پر لواحقین کو صرف 16 روپیہ ادا کیا جاتا تھا۔ یہ معاوضہ لواحقین تک پہنچتے پہنچتے گھٹ کر صرف 2 روپے رہ جاتا تھا، درحقیقت ایک انسانی جان کی قیمت صرف دو روپے تھی۔ 16 مارچ 1846ء میں جب انگریزوں نے ریاست جموں و کشمیر کو ڈوگرہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں 75 لاکھ میں فروخت کر دی، تو پہلی دفعہ انسانوں کی قیمت 2 روپے سے بڑھ کر سات روپے تک پہنچ گئی۔

گلاب سنگھ ایک ان پڑھ شحض تھا۔ اس کی طرح اس کا جانشین رنبیر سنگھ بھی قطعی ان پڑھ اور جاہل تھا۔ البتہ اس نے اپنے ولی عہد پرتاب سنگھ کے لئے کوئی اتالیق ضرور مقرر کیا تھا۔ پرتاب سنگھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے افیون کھانے کی لت تھی، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ انتہائی چالاک شحص بھی تھا۔ انگریزوں کے ساتھ وہ اپنے تعلقات استوار رکھتا تھا۔ اور اس طرح وہ ڈوگرہ خاندان میں سیاہ و سفید کا مالک بننے میں کسی حد تک کامیاب تھا۔

مہاراجہ پرتاب سنگھ بے اولاد تھا۔ اس لیے راجہ امر سنگھ اپنے بیٹے ہری سنگھ کو ریاست کا وارث بنانے میں تگ و دو کی اور آخرکار اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔ راجہ ہری سنگھ 1925 میں مسند نشین ہوا اور عیش و عشرت کی زندگی میں مست ہو گیا اور جنت نظیر وادی میں ایک دفعہ پھر ظلم و ستم شروع ہو گیا۔ اسی زمانے میں میں جموں میں بھی چوہدری غلام عباس، اے آر ساغر اور دیگر چند ساتھیوں نے کچھ تنظیموں کی بنیاد رکھی۔ 1931ء میں مسلمانوں کے ایک جم غفیر کو جمعہ کی نماز ادا کرنے سے روکا گیا۔

ایک ہندو کانسٹیبل نے قرآن مجید کی بے حرمتی کی۔ احتجاج کرنے پر شیخ عبداللہ اور غلام عباس گرفتار کر لیے گئے۔ 14 اگست 1931ء کو جموں و کشمیر میں پہلی بار کشمیر ڈے منایا گیا۔ سولہ سال بعد اسی تاریخ کو پاکستان وجود میں آیا۔ اب ہر سال 14 اگست کو پاکستان ڈے منایا جاتا ہے۔ لیکن کشمیر کا ایک بہت بڑا حصہ اب بھی انڈیا کے پاس ہے۔ پاکستان بننے کے بعد ہی گلگت سکاؤٹس اور ریاستی فوج نے گلگت کے مقامی مسلمانوں سے مل کر علم بغاوت بلند کیا۔

اب سرینگر سے اپنی شکست کو یقینی سمجھ کر ہندو راجپوت ہری سنگھ اپنے محلات کا بیش قیمت سامان آٹھ دس ٹرکوں پر لاد کر ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ بزدل حکمران نے انڈیا کے ساتھ الحاق کر لیا۔ یہاں پر چند غلطیاں جو قبائلی فوج سے سرزد ہوئیں ملاحظہ فرمائیں۔

سرینگر کے ہوائی اڈے پر مسلمان جنگجو قبضہ کرنے میں ناکام رہے۔ اگر سرینگر کا ہوائی اڈہ کسی طرح ہاتھ آتا تو انڈین ایئر فورس کسی حد تک پسپا ہو جاتی۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان کے چھوڑے ہوئے بہت سے جاسوسوں نے بھی مجاہدوں کی صفوں میں شامل ہو کر اس قسم کی افواہیں پھیلا دیں کہ ہندوستان کی منظم فوج کیل و کانٹے سے لیس ہو کر میدان جنگ میں اتر آئی ہے۔

تیسرا قیاس یہ ہے کہ مقبول شیروانی نام کے ایک نشینل کانفرنسی سیاست دان نے مجاہدین کے ایک لشکر کی بارہ مولا تک رہنمائی کرنے کے بہانے اسے ایک ایسے طویل راستے پر ڈال دیا کہ سرینگر کی طرح بڑھنے کا انتہائی فیصلہ کن وقت ہاتھ سے نکل گیا۔

کشمیر کے محاذ پر مجاہدین کی پسپائی ان سب وجوہات کا حتمی نتیجہ ہے۔ ایک اور وجہ جنرل گریسی کی فوری طور پر فوج بھیجنے سے انکار بھی ہے جس کا بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے حکم کیا تھا۔ اسی طرح یہ مسئلہ سات دہائیوں تک آج بھی عالمی انصاف کے ایوانوں میں لٹکا ہوا ہے اور مسلمان آج بھی کشمیر میں بے سر و سامانی کی زندگی میں آزادی کی امید لیے بیٹھے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments