امریکہ: بچوں کا رویہ ’تبدیل‘ کرنے کے لیے بنائے گئے کیمپ جہاں بچوں کی موت تک ہو جاتی

کیلی لی کوپر - بی بی سی نیوز


پیرس ہلٹن

دو ہزار کی دہائی کے سب سے مقبول چہروں میں سے ایک پیرس ہلٹن کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ان کی کہانی جانتے ہیں۔ لہذا جب 40 سالہ پیرس ہلٹن نے گذشتہ برس اپنی زندگی کے متعلق ایک یوٹیوب دستاویزی فلم جاری کی تھی تو بہت سے لوگوں کو ان کے دہائیوں سے جاری صدمے سے نکلنے کی جدوجہد کے بارے میں جان کر حیرت ہوئی تھی۔

پیرس ہلٹن نے روتے ہوئے بتایا تھا کہ کیسے انھیں اجنبیوں نے ان کے بیڈ روم میں نیند سے بیدار کیا تھا اور انھیں زبردستی ملک کے دوسرے کونے میں لے جایا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مدد کے لیے ان کی پکار آج بھی ان کے لیے ڈراؤنے خواب ہیں جو انھیں سونے میں مشکلات پیدا کرتی ہیں۔

اگرچہ ان کی کہانی حیران کن ہے لیکن انوکھی نہیں ہے۔ پیرس ہلٹن ان ہزاروں امریکی بچوں میں سے ایک ہیں جنھیں ہر سال ان کی والدین کی جانب سے ایک نجی نیٹ ورک کے ‘ٹف لو’ یا سخت گیر پیار کے نام سے مشہور سمر کیمپس میں بھیجا جاتا ہے تاکہ ان کے رویوں میں بہتری لائی جا سکے۔

لیکن ہر سال کتنے بچوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے، کوئی نہیں جانتا کیونکہ کوئی ان کا ریکارڈ نہیں رکھتا۔

’مجھے میرے والدین نے اغوا کروایا اور مجھے پہاڑوں کے درمیان چھوڑ آئے۔‘ یہ کہنا ہے ٹک ٹاک پر ایک 21 سالہ امریکی نوجوان ڈینیئل کا جن کی ویڈیو کو دس لاکھ سے زیادہ مرتبہ دیکھا گیا ہے۔

ایک نو عمر نوجوان کے طور پر ڈینیئل اینگزائٹی اور ڈپریشن کے شکار تھے۔ وہ اس وقت 15 برس کے تھے جب انھوں نے اپنے آپ کو اتنا شدید جسمانی نقصان پہنچایا تھا کہ انھیں ہسپتال داخل کروانا پڑا تھا۔ وہ اس وقت ہسپتال میں تھے جب دو آدمیوں نے انھیں آدھی رات کو جھنجھوڑ کر جگایا۔

انھوں نے ان سے کہا کہ یہ ان پر منحصر ہے کہ یہ عمل کتنا آسان یا مشکل ہو گا کیونکہ وہ جتنی مزاحمت کریں گے اتنا ہی اُن کے لیے مشکل ہو گا۔ تھوڑی سی مزاحمت کے بعد ڈینیئل ان افراد کے ساتھ چل پڑے۔ لیکن جب ڈینیئل نے اجنبی فرد سے یہ پوچھا کہ کھانے کے لیے رکتے وقت کیا وہ کچھ لمحوں کے لیے اپنے والدین سے ٹیلیفون پر بات کر سکتے ہیں تو انھوں نے اسے ہتھکڑی لگانے کی دھمکی دی۔

ڈینیئل کو یوٹاہ کے دور دراز علاقے میں ایک تربیتی پروگرام کے تحت بھیجا گیا تھا جہاں انھوں نے 77 دن کھلے آسمان تلے گزارے تھے، اور راشن اٹھائے ایک دن میں میلوں ہائیکنگ کی تھی۔ انھیں اس دوران سردی لگنا، بھوکا رہنا، ہفتوں گندے رہنا اور دوسروں کو وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرتا دیکھنا یا اپنی جان لینے کی کوشش کرتا دیکھنا اچھی طرح یاد ہے۔

دیگر بہت سوں کی طرح جنھیں اس تربیتی کیمپ میں بھیجا گیا تھا انھیں اس کے بعد مونٹانا میں ایک طویل دورانیے کے کیمپ میں بھیج دیا گیا جہاں انھیں مزید 15 ماہ گزارنے تھے۔

کیمپ

امریکہ میں ’دی ٹربلڈ ٹین انڈسٹری (ٹی ٹی آئی)‘ ایسے نجی تربیتی مراکز کے لیے ایک اصطلاح بن چکی ہے جو ملک میں بلوغت کے دوران نوجوانوں کے رویوں میں تبدیلی لانے کے لیے کام کرتے ہیں۔ اس انڈسٹری میں بوٹ کیمپس سے لے کر بورڈنگ سکولز تک کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے جہاں نوجوانوں کے رویوں اور ذہنی صحت کے مسائل اور کھانے کی خراب عادات سے لے کر منشیات کے استعمال وغیرہ کی عادات کو ختم کیا جاتا ہے۔

جن لوگوں نے پیرس ہلٹن یا ڈینیئل کو اٹھایا تھا، ان کا تعلق ایسی کمپنیوں کے ساتھ ہے جن کی مارکیٹنگ ایسے والدین کو کی جاتی ہے جنھیں یہ خدشات ہوں کہ ان کے بچے ان پروگرامز میں رجسٹر کروائے جانے پر ردعمل دے سکتے ہیں۔

نوجوانوں کو لے جانے والی ان سروسز کی مناسب تشہیر کی جاتی ہے اور اکثر ان تربیتی پروگرامز کے ساتھ ہی تجویز کیا جاتا ہے کہ والدین چند ہزار ڈالرز مزید دیں تو ان کے بچوں کو بحفاظت ان کے بستر سے اٹھا کر ملک کے دوسرے کونے میں چھوڑ دیا جائے گا۔

والدین کو اکثر یہ سروس کسی تیسرے فریق کی جانب سے تجویز کی جاتی ہے جب وہ یہ سوچتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی ذہنی صحت یا رویے میں سدھار لانے کی کوشش میں تھک گئے ہیں۔

ایسے پروگرامز اپنی مارکیٹنگ شرطیہ اور کامیاب نتائج کے دعوؤں کے ساتھ ساتھ ایسے تربیتی پروگراموں میں شامل ہونے والے طلبا اور والدین کے تعریفی بیانات، اور انٹرنیٹ پر زندگی بدل دینے اور حتیٰ کے زندگی بچا لیے جانے کے تبصروں کے ذریعے کرتے ہیں۔

مگر برسوں سے ایسے تربیتی پروگرام یا سمر کیمپس میں شامل ہونے والے افراد اس کی ایک مختلف تصویر پیش کرتے رہے ہیں اور ایسے مراکز کے خلاف جذباتی اور جسمانی تشدد کے الزامات عائد کر کے مجرمانہ شکایات اور مقدمات درج کرواتے رہے ہیں۔

بی بی سی نے ایسے ہی 20 افراد سے بات کی ہے جن کی عمریں 20 سے 40 برس کے درمیان ہیں۔ انھوں نے گذشتہ چند دہائیوں کے دوران اس شعبے میں اپنے تجربات کے بارے میں بتایا ہے۔

اگرچہ ان تمام افراد کے انفرادی پس منظر اور ان کو تربیتی مراکز میں بھیجے جانے کی وجوہات مختلف ہیں، لیکن انٹرنیٹ پر ’ٹربلڈ ٹین سروائیورز‘ کے گروپس اور ان افراد کے اکاونٹس سے ایک جیسا رجحان دیکھنے کو ملتا ہے۔

اس طرح کے تربیتی مراکز کی سرکاری سطح پر کسی وفاقی ادارے کی جانب سے نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے امریکہ میں ان تربیتی مراکز کی تعداد اور سالانہ یہاں تربیت حاصل کرنے والے امریکی نوجوان کی تعداد کے بارے میں واضح اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔

امریکی حکومت کے محکمہ احتساب کو سنہ 2007 میں پوری صنعت میں کوتاہی برتنے اور تشدد کرنے کے الزامات کی تحقیقات کا کام سونپا گیا تھا لیکن ریاستی سطح پر لائسنس کے الگ الگ اصولوں اور ان تربیتی مراکز کی جانب سے اپنی سرگرمیوں کے بارے میں ’بوٹ کیمپ یا علاج کے بورڈنگ سکول‘ جیسے مبہم ناموں کے استعمال کی وجہ سے قومی سطح پر اس کے بارے میں جاننا مشکل ہو گیا تھا۔

محکمہ احتساب کے تفتیش کاروں نے تشدد کے ہزاروں الزامات کا پتہ لگایا تھا اور انھوں نے پورے امریکہ میں اور بیرون ملک امریکی ملکیت میں چلنے والے مراکز میں متعدد اموات کی جانچ کی تھی۔

محکمہ احتساب کے تفتیش کاروں کی رپورٹ میں ان مراکز کے عملے کی قابلیت اور مطلوبہ تربیت پر تحفظات کے ساتھ ساتھ ان مراکز کی جانب سے والدین کے سامنے کیے جانے والے مکروہ اور قابل اعتراض مارکیٹنگ طریقوں کو بھی بیان کیا گیا تھا۔

کانگریس میں اس کے بعد ہونے والی سماعتوں میں وہ والدین بھی گواہی دیتے دکھائی دیے جن کے بچے ان مراکز میں ہی مر چکے تھے۔

سنتھیا کلارک ہاروی ان میں سے ایک ہیں۔ ان کی پندرہ سالہ بیٹی اریکا سنہ 2002 میں نیواڈا میں ایک ایسے ہی مرکز میں دوران تربیت جنگل میں گزارے گئے اپنے پہلے ہی دن کے دوران ہیٹ سٹروک اور جسم میں پانی کی کمی سے ہلاک ہو گئی تھیں۔

سینتھیا اپنی بیٹی کو ایک شوخ و چنچل، سمجھدار اور ایتھلیٹک نوجوان لڑکی کی طرح یاد کرتی ہیں جو ہمیشہ پڑھائی میں اچھی تھی جب تک کہ 14 برس کی عمر میں اسے ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا نہیں تھا۔

کیمپ

ان کی بیٹی کے ذہنی صحت کے مسائل نے اسے خودکشی کے خیالات کی طرف راغب کر دیا تھا اور اس نے غیر قانونی منشیات کا استعمال شروع کر دیا تھا۔

جب ایریکا کو سکول سے نکال دیا گیا اور وہ ہسپتال داخل ہوئی تب اس کا خاندان اس کے مستقبل کو لے کر بہت خوفزدہ ہو گیا تھا۔

اس وقت حالات بگڑے جب ایریکا کی صحت بہتر ہو رہی تھی لیکن اس کے سائیکاٹرسٹ نے تجویز دی کی کہ اس قسم کا ریزیڈینشل طریقہ علاج اس کی صحت کے لیے کار آمد ثابت ہو گا۔

جس پروگرام کا ان کے خاندان نے انتخاب کیا وہ جانا مانا اور اچھی شہرت کا حامل تھا۔ انھیں لگا کہ ایریکا محفوظ ہاتھوں میں ہے اور وہ اپنے تجربات سے سیکھے گی۔ ہفتوں کی سوچ و بچار اور منصوبہ بندی کے بعد انھوں نے ایریکا کی چھوٹی بہن کے ساتھ ایک فیملی ٹرپ کے بہانے نیواڈا کا دورہ کیا۔

جب ایریکا پر یہ دھوکہ عیاں ہوا تو وہ غصہ اور خوفزدہ ہو گئی اور اس نے کار سے باہر آنے سے منع کر دیا۔

گھنٹوں کی مزاحمت اور دیگر خاندانوں کے گروپ سمیت تھیراپی سیشنز کے بعد اسے اور دیگر بچوں کو لے جایا گیا۔

یہ وہ آخری بار تھی جب سنتھیا اور ان کے شوہر نے اپنی بیٹی کو زندہ دیکھا تھا۔

اسی شام جس وقت وہ واپس ایریزونا اپنے گھر پہنچے تو ان کے فون کی آنسرنگ مشین پر اس ریزیڈینشل کیمپ کی جانب سے ان کے لیے ایک پیغام موجود تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ایریکا کے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا ہے اور عملہ اس کا سانس بحال کرنے کے لیے سی پی آر کر رہا ہے۔

سنتھیا کا کہنا ہے کہ ‘انھیں وقت کا دورانیہ یاد نہیں لیکن اس وقت تک ایریکا کی موت ہوئے شاید کچھ وقت گزر چکا تھا۔’

ایریکا کی موت کی اطلاع میں صرف یہ کہا گیا تھا کہ وہ ان کی ہلاکت نیواڈا میں ہائیکنگ کرتے ہوئی۔ ان کے والدین کو ہفتوں تک ان کی موت کی وجوہات کے بارے میں بتایا نہیں گیا تھا اور مقدمے کے ذریعے وہ تمام دستاویزات حاصل کرنے اور اس بارے میں حقیقت جاننے کے لیے انھیں ایک سال لگا کہ اس دن آخر ہوا کیا تھا۔

سنتھیا کا کہنا ہے کہ آخر کار انھوں نے ایک نامعلوم رقم کے عوض ریزیڈینشل پروگرام سے اس شرط پر سمجھوتہ کر لیا کہ وہ اپنی بیٹی کی موت کے حالات کے بارے میں آزادانہ طور پر بات کر سکتے ہیں۔

سنتھیا کو علم ہوا کہ کیسے ان کی بیٹی ایریکا کو دن بھر طبیعت خراب ہونے کے باوجود ہائیکنگ کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا رہا۔ بعد ازاں انھوں نے کانگریس میں گواہی دی تھی کہ ریزیڈینشل پروگرام کے عملے نے ان کی بیٹی کی خراب حالت کو غلط طور پر ضدی رویہ سمجھا تھا۔

کیمپ

حتیٰ کہ جب ایریکا ہائیکنگ کے دوران پہاڑی راستے سے جھاڑیوں اور چٹان پر گری تھی تب بھی اسے ایک گھنٹے تک طبی امداد نہیں دی گئی تھی۔

اس ہائیکنگ ٹریک کی دور دراز جگہ اور عملے کی جانب سے ایریکا کی تلاش اور طبی امداد پہنچانے کے لیے جگہ کا تعین کرنے کے غلطیوں کے ایک سلسلے کے باعث ایمرجنسی ہیلی کاپٹر کو اسے ہسپتال پہنچانے میں گھنٹوں لگے جہاں اسے باقاعدہ طور پر مردہ قرار دیا گیا تھا۔ اگر وقت ضائع نہ کیا جاتا تو اس کی زندگی بچائی جا سکتی تھی۔

سنتھیا جو کچھ ہوا اس کے دکھ اور پچھتاوے میں ہیں اور وہ ایسے دوسرے والدین سے رابطہ کرنے آئی ہیں جن کے ساتھ بھی ایسے ناقابل تصور واقعات پیش آئے ہیں۔

ان کی بیٹی کی ہلاکت پر اس ریزیڈینشل پروگرام کے خلاف کبھی کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا تھا لیکن اب 19 برس بعد سنتھیا اس صنعت کے بارے میں بڑے پیمانے میں اصلاحات کے بارے میں عوامی سطح پر بات کر رہی ہیں۔

کانگریس کی سماعتوں میں ایسے مراکز کی جانب سے نیشنل ایسوسی ایشن آف تھیراپیوٹک سکولز اینڈ پروگرامز (نیٹسیپ) نامی تنظیم جو اس نوعیت کی سب سے بڑی تنظیم ہے پیش ہوئی ہے جہاں وکلا نے حفاظتی اقدامات اور طریقہ کار پر اس کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔

نیٹسیپ کی ویب سائٹ کہتی ہے کہ اس صنعت میں وقت کے ساتھ تبدیلی آئی ہے اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ اس صنعت سے وابستہ اداروں میں اخلاقی معیارات موجود ہیں اور اس کی ضرورت ہے کہ یہ ادارے کسی ریاستی یا وفاقی ادارے سے اپنا لائسنس حاصل کریں اور علاج معالجے کی خدمات کو کسی قابل ماہرکلنیکل تھیراپسٹ کے زیر نگرانی حاصل کریں۔ اور یہ تنظیم خود کسی ادارے کو کوئی لائسنس جاری کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔

اس کے متعلق مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ نگرانی کے موجودہ معیارات ناکافی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قومی سطح پر ایسے اداروں کی نگرانی کی ایک واضح اور جامع پالیسی نہ ہونے کے باعث بہت سے برے ادارے اس صنعت میں شامل ہو چکے ہیں اور وہ اپنے مراکز یا ریزیڈینشل کیمپس کے نام تبدیل کر کے دوبارہ متحرک ہیں۔

ایسے اداروں کے خلاف مہم کرنے والے افراد نے آن لائن نیٹ ورکس بھی قائم کیے ہیں جہاں وہ ایسے اداروں سے بچ جانے والے افراد کی نشاندہی کرتے ہیں اور ملک بھر میں وہ لوگوں سے رابطہ کر کے انھیں مدد فراہم کرتے ہیں۔ وہ ان بدنام اداروں میں مبینہ زیادتوں اور ان کے بدلتے ناموں اور ان کے عملے کے متعلق معلومات اکٹھی کر کے ایک دوسرے سے تبادلہ کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ریڈیٹ پر ایسے ہی ایک گروپ کے 20 ہزار سے زیادہ اراکان ہیں۔

حالانکہ حالیہ برسوں میں بہت سے متنازع ادارے اور پروگرام بند کر دیے گئے ہیں لیکن پھر بھی اس صنعت پر الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔

بی بی سی کے ساتھ ایسے ہی پروگراموں میں شامل رہنے والے بہت سے افراد نے اپنی جو کہانیاں سنائی ہیں ان میں بہت مماثلت ہے۔ چاہے وہ لوگ برسوں پہلے ان مراکز نکل چکے ہوں یا حالیہ چند برسوں کے دوران فارغ ہوئے۔ سب کی کہانیاں ایک جیسی ہیں۔

ان میں سے بہت نے ان مراکز میں لائے جانے والے طریقہ کار کو غیر انسانی اور ہتک آمیز قرار دیا۔ جنھیں ٹرانسپورٹ کمپنیاں یعنی اجنبی افراد زبردستی اٹھا کر لائے تھے انھوں نے اسے خوفناک اور اوسان خطا کر دینے والا تجربہ بتایا۔ کچھ نے جنسی بدسلوکی، جارحانہ انداز میں برہنہ کر کے تلاشی لینا اور معائنہ کرنے کے متعلق بھی شکایات کیں۔

ایک شخص جنھیں صنفی شناخت کے مسائل کے باعث ڈپریشن کا شکار ہونے پر وہاں بھیجا گیا تھا نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ 14 برس کی عمر میں انھیں ہتک آمیز کنوار پن کے ٹیسٹ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ دیگر نے بتایا کہ انھیں ان کیمپوں میں سر مونڈ دینے، منشیات کے متعلق ٹیسٹ کے لیے خون کے نمونے لیے جانے کا سامنا کرنا پڑا جبکہ وہ منشیات استعمال کرنے کے عادی نہیں تھے۔

کچھ نے دعویٰ کیا کہ انھیں ان کیمپوں میں قید تنہائی میں رکھا گیا اور ان کا کہنا تھا کہ ان سے بھی امید کی جاتی تھی کہ وہ دیگر افراد کو سزا دیں یا تنہا رکھیں۔

ان کیپموں کے بہت سے بیان کردہ طریقے فعال شمولیت کی سطحوں پر مبنی تھے جن میں ‘اٹیک تھراپی’ جیسے سیشن بھی تھے جن میں گروپ کے اراکین سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ آگے بڑھنے اور بنیادی مراعات کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کریں اور ایک دوسرے پر تنقید کریں۔

جبکہ دیگر افراد نے جسمانی مشقت، اجتماعی سزاؤں اور لازمی خاموشی کے ادوار کے بارے میں بات کی جو ہفتوں تک جاری رہ سکتے ہیں۔

ان سب کا کہنا تھا کہ ان کے وہاں قیام کے دوران انتہائی جابرانہ ماحول میں انھیں بیرونی دنیا سے رابطوں پر سنسرشپ کا سامنا تھا۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ ان کے والدین کو ان پروگرامز کی حقیقت کے بارے میں غلط بتایا گیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ وہاں کے قواعد نوجوانوں اور ان کے خاندانوں کے درمیان بداعتمادی کو بڑھاوا دیتے تھے۔

کچھ کو یاد ہے کہ کیسے ان کے رشتوں کو نقصان پہنچا تھا کہ ان کیمپوں سے نکل آنے کے بعد بھی وہ کسی کو وہاں پیش آئے اپنے تجربات بتانے سے خوفزدہ رہتے تھے کہ کہیں انھیں واپس نہ بھیج دیا جائے یا کوئی ان کی بات پر یقین نہیں کرے گا۔

چند نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے وہاں جسمانی تشدد، نوجوانوں کو خود کو نقصان پہنچاتے اور خود کشی کی کوشش کرتے دیکھا تھا۔ اور بہت سے لوگ ایسے افراد کو جانتے تھے جنھوں نے ان کیمپوں کو چھوڑنے کے بعد خود کشی کر لی تھیں۔

کچھ بعد میں صدمے کے باعث ذہنی تناؤ کا شکار ہو گئے تھے اور انھیں لمبے عرصے تک معاشرتی مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا جن میں دوسروں پر اعتبار کرنا شامل ہے۔

سنہ 2006 میں صحافی میا سلاوٹز نے ایک کتاب لکھی تھی جس میں والدین پر زور دیا گیا تھا کہ وہ بچوں میں طرز عمل اور رویے میں تبدیلی کے مراکز کا سہارا لینے کے بجائے بچوں کے لیے شواہد پر مبنی علاج تلاش کریں۔

ان کی کتاب میں اس صنعت میں استعمال کیے جانے والے بہت سے ہتھکنڈوں کے سراغ ملتے ہیں جو دہائیوں سے ایسے متنازع اور بدنام مراکز استعمال کر رہے ہیں۔

تبدیلی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کی ‘ٹف لو’ انڈسٹری جس کی شروعات 1980 کی دہائی میں ہوئی تھی نے بہت سے والدین کو اپنے نوجوانوں کی تربیت اور معاشرتی بدنامی سے بچانے میں مدد فراہم کی ہے۔

سلاوِٹز سمیت بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ جو خاندان یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کو منشیات کے استعمال جیسے معاملات کی وجہ سے جیل میں ڈال دیا جائے گا یا ان کی موت واقع ہو جائے گی ایسے مراکز ان والدین کے ساتھ مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اور ان کا استحصال کرتے ہیں۔

کیمپ

یہ بھی پڑھیے

جاپان میں بچے سکول کیوں نہیں جانا چاہتے

تعلیمی اداروں میں جنسی ہراس: ’گھر والوں کو لگتا ہے کہ استاد کبھی غلط نہیں ہو سکتا‘

’چین میں ہزاروں بچے والدین سے جدا کیے جا رہے ہیں‘

مستقبل کے کروڑ پتی بنانے والا کیمپ

سلاوٹز اور ان مراکز کے سابق مکینوں کے ساتھ کام کرنے والی کلینیکل ماہر نفسیات اور نیورو سائنسدان ڈاکٹر کیٹ ٹریئٹ کا کہنا ہے کہ ان مراکز سے پہنچنے والا صدمہ در حقیقت طویل مدت تک نشے کی عادت یا برے تعلقات کا باعث بن سکتا ہے۔

ان مراکز میں داخل رہنے والے بہت سے افراد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ابتدا میں وہ اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کو ٹھیک سمجھتے تھے اور انھوں نے دوسروں کے بچوں کی بھی ان کیمپوں میں بھیجے جانے کی حمایت کی تھی۔ کچھ کو ان پروگرامز کے متعلق رائے تبدیل کرنے میں برسوں لگے تھے۔

ڈاکٹر ٹروئٹ نے ان مراکز کے چند سابق افراد میں جو صدمہ دیکھا ہے وہ اس کا موازنہ سابق جنگی قیدیوں کے صدمے سے کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے تجربات نے ان کی شخصیت کو نقصان پہنچایا تھا خاص طور پر بلوغت کے حساس اور اہم دور میں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ایک مخصوص قسم کے صدمے کے باعث یہ افراد علاج کروانا محفوظ نہیں سمجھتے کیونکہ ماضی میں جو ان کے معالج تھے وہ ہی مجرم تھے۔’

پیرس ہلٹن نے انکشاف کیا تھا کہ یوٹاہ میں پرووو کینیئن نامی ریزیڈینشل پروگرام میں ایک سال رکھے جانے اور 18 برس کی عمر تک پہنچے سے قبل متعدد ایسے مراکز سے فرار ہوئی تھیں۔

یہ پیرس ہے نامی دستاویزی فلم میں انھیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ دوبارہ ملتے دکھایا گیا ہے، جب وہ عوامی سطح پر ان مراکز میں پیش آنے والے جذباتی اور جسمانی زیادتی کے مبینہ تجربات جس میں قید تنہائی جیسی سزاؤں کے الزامات بھی شامل ہیں کے صدمے کے بارے میں بات کرتے ہیں۔

پرووو کینیئن نامی ریزیڈینشل پروگرام آج بھی جاری ہے۔ ان کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ یہ سنہ 2000 میں نئے مالک کو بیچ دیا گیا تھا اور اس سے پہلے کے آپریشنز اور پروگرامز کے متعلق وہ کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اب وہ قید تنہائی یا میکنیکل طور پر روکنے کے طریقوں کا استعمال نہیں کرتے۔

پیرس ہلٹن کی دستاویزی فلم کو تین کروڑ سے زیادہ مرتبہ دیکھا جا چکا ہے اور اس کے ریلیز ہونے سے اب تک وہ مسلسل اس کے بارے میں بات کرتی رہی ہیں۔

اس دستاویزی فلم میں ان کے کردار نے ان کی اس شناخت کو کافی متاثر کیا جو انھوں نے اپنے کاروبار اور برانڈ کے باعث بنایا تھا۔ حالانکہ ان کی نوجوانی کی زندگی کی حقیقت وہ لوگ پہلے ہی جانتے تھے جو اسی نظام سے گزرے تھے تاہم ان کا کہنا ہے کہ کسی مشہور شخص کی جانب سے اس بارے میں بات کرنا اس مسئلہ کی سنجیدگی، آگاہی اور مصدقہ ہونے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

معاشرے کے افراد کا کہنا ہے کہ اس دستاویزی فلم میں کچھ کو پہلی بار اپنے تجربے کے بارے میں بات کرنے کا اختیار دیا گیا ہے وہ کس اذیت سے گزرے ہیں یا والدین سمیت دوسروں کی مدد کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔

کچھ سابق ارکان ’بریکنگ کوڈ سائلینس‘ کے تصور کے تحت متحد ہوئے ہیں اور یہ اشارہ کچھ مراکز میں سزا کے طور پر لازمی سماجی تنہائی میں رکھے جانے کی طرف ہے۔

کیمپ

پیرس ہلٹن کے ساتھ پرووو کینیئن جانے والی کیتھرین میکنمارا کہتی ہیں کہ ’ان میں سے کئی مراکز میں قاعدہ ہے کہ آپ پروگرام ختم ہونے کے بعد کسی کا فون نمبر نہیں لے سکتے۔ چنانچہ ہمارا کبھی رابطہ نہیں رہ سکا۔

کیتھرین اور چند دیگر لوگ اب ساتھ مل کر ایک غیر منافع بخش تنظیم پر کام کر رہے ہیں تاکہ اس طرح کے پروگرامز کے بارے میں آگاہی پھیلائی جائے، اُن لوگوں کو مدد فراہم کی جائے جو اس سب سے گزر چکے ہیں اور تبدیلی کے لیے مہم چلائی جائے۔

دیگر سیلیبریٹیز مثلاً پیرس جیکسن اور ٹیٹو آرٹسٹ کیٹ وون ڈی بھی اس دستاویزی فلم سے متاثر ہونے کے بعد اپنے تجربات کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔

ریپ گلوکارہ بھیڈ بھیبھی جن کا اصل نام ڈینیئلا بریگولی ہے نے ٹی وی شخصیت ڈاکٹر فل سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ اُنھوں نے ان سمیت دیگر کئی بچوں کو اپنے مشہور ٹی وی پروگرام کے ذریعے ان مراکز میں بھیجا تھا۔

ان سے پہلے ایک اور خاتون نے مقدمہ دائر کیا تھا کہ وہ بھی اسی بورڈنگ کیمپ میں تھیں اور اس کے ایک سٹاف رکن کی جانب سے مبینہ جنسی تشدد کی رپورٹ کرنے پر اُن کو سزا دی گئی تھی۔

بی بی سی نے اس مرکز سے تبصرے کے لیے رابطہ کر رکھا ہے تاہم وہ اس سے قبل اپنے خلاف الزامات کا انکار کرتے آئے ہیں۔

ڈاکٹر فل میکگرا نے ایک انٹرویو میں کہا کہ انھیں بریگولی کے مبینہ برے تجربات سن کر افسوس ہوا ہے مگر اُنھوں نے خود کو اپنے شو کو بریگولی کے دعووں سے دور کر لیا۔

کیمپ

وہ نوجوان جو کبھی اپنے تجربات کے باعث اپنے ٹین ایج ساتھیوں سے الگ تھلگ رہے، اب سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اس حوالے سے بات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کچھ لوگوں نے تو ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر اپنی کہانیاں سنا کر زبردست شہرت حاصل کی ہے۔ مگر اس میں سے کچھ بھی ذاتی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ بی بی سی نے ایک ایسے ہی شخص کو بھیجے گئے قانونی نوٹسز دیکھے ہیں۔

ڈینیئل نے جب گذشتہ سال سے اپنی اور دیگر لوگوں کی کہانیاں سنانی شروع کیں، تب سے اب تک اُن کے دو لاکھ 40 ہزار فالوورز ہو چکے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں لائکس مل چکے ہیں۔

اب اُنھیں روزانہ درجنوں ایسے لوگوں کے پیغامات ملتے ہیں جو اس سب سے گزر چکے ہیں اور کئی والدین بھی ان سے رابطہ کر کے بتاتے ہیں کہ اُنھوں نے اُن کی ویڈیوز دیکھنے کے بعد اپنے بچوں کو ان پروگرامز میں بھیجنے کا منصوبہ ترک کر دیا ہے۔

’جب میں 15 سال کا تھا، تب مجھے پتا ہوتا کہ کتنے لوگ میرے لیے لڑ رہے ہیں، تو مجھے بہت سکون ملتا۔‘

کچھ معاملات میں تو سوشل میڈیا واضح تبدیلی کا ذریعہ بھی بنا ہے۔ امینڈا ہاؤس ہولڈر نامی ایک خاتون نے ٹک ٹاک کے ذریعے اپنے والدین کے زیرِ انتظام میزوری کے ایک مذہبی بورڈنگ سکول میں لڑکیوں سے مبینہ برے سلوک کے بارے میں آگہی پھیلائی۔ ان کی ویڈیوز کو کروڑوں مرتبہ دیکھا گیا اور بالآخر حکام نے سکول بند کر دیا۔

استغاثہ نے اس جوڑے کے خلاف جسمانی اور جنسی تشدد کے ایک سو سے زائد الزامات عائد کیے ہیں جن کا انھوں نے انکار کیا ہے۔

اس سب کے ساتھ ریاستی سطح پر بھی متعدد قانونی اصلاحات کی جا رہی ہیں۔

ہاؤس ہولڈر نے میزوری میں مذہبی اداروں کو نگرانی سے حاصل استثنیٰ ختم کرنے کے حق میں بیان دیا جس کے تحت ان کے والدین کے جیسے نجی مذہبی اداروں میں حالات کی نگرانی نہیں کی جاتی تھی۔

کیمپ

اُنھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ جاننا بہت سکون آور ہے کہ مستقبل میں بچے اس سب سے نہیں گزریں گے جس سے ہم گزرے ہیں۔‘ اور اُنھیں امید ہے کہ وہ اس فوجداری مقدمے میں ثبوت فراہم کر پائیں گی۔

ہلٹن ایک ایسے گروپ کا حصہ تھیں جس نے قانون سازوں کے سامنے اس حوالے سے تجربات سنائے تاکہ اُنھیں ریاست یوٹاہ میں بہتر قانون سازی کرنے پر قائل کیا جا سکے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ امریکہ میں اس طرح کے مراکز کی سب سے بڑی تعداد یوٹاہ میں ہی ہے۔

اُنھوں نے کہا: ’مجھے نہیں معلوم کہ میرے برے خواب کبھی ختم ہوں گے یا نہیں، لیکن میں یہ جانتی ہوں کہ لاکھوں بچے اس سب سے گزر رہے ہیں، اور اگر شاید میں اُن کے برے خوابوں کو روک سکوں تو میرے برے خواب رک جائیں گے۔‘

مگر اُن کے اور دوسروں کے لیے اصل مقصد قومی تبدیلی ہے۔

اس طرح کے مراکز کی نگرانی اور قواعد و ضوابط لانے کی ماضی کی کوششیں کانگریس میں ناکام ہوئی ہیں۔

مگر ڈیموکریٹک رکنِ کانگریس ایڈم شف کے دفتر نے بی بی سی کو تصدیق کی کہ وہ ریزیڈنشل مراکز میں استحصال کی ممانعت، اس کے خاتمے اور قومی سطح پر ایسے اداروں کی نگرانی بڑھانے کی قانون سازی دوبارہ متعارف کروانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

کیمپ

ایریکا ہاروی آج 30 کے پیٹے میں ہوتیں۔

سنتھیا کہتی ہیں: ’سال در سال یہ غم ختم نہیں ہوتا۔‘

وہ وفاقی قانون سازی کے لیے ہونے والی سماعت میں آخری مرتبہ تقریباً ایک دہائی قبل شریک ہوئی تھیں۔ مگر تمام تر مشکلات کے باوجود وہ پُرامید ہیں۔

گذشتہ سال سے اس مہم میں آنے والی تیزی سے سنتھیا کی ہمت میں اضافہ ہوا ہے۔

’جب میں نے ایریکا کی موت کے بعد پہلی مرتبہ اس بارے میں کام شروع کیا تو متاثرین تو تھے لیکن اُن کی کوئی سنتا نہیں تھا۔ اب لوگ اُن کی بات سننا شروع ہوئے ہیں۔‘

پیرس ہلٹن کی تصاویر کیون اوسٹاجیوسکی نے لیں جبکہ دیگر تمام تصاویر گیٹی سٹاک سے حاصل کی گئیں۔ تمام تصاویر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32732 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp