انڈیا میں تقاریب میں ناچنے والی خواتین کا استحصال: ’مجھے پنجرے میں ناچنا پڑتا ہے، لوگ ہماری ویڈیو بناتے اور گالیاں دیتے ہیں‘

چنکی سنہا - نمائندہ بی بی سی


ریکارڈنگ روم چھوٹا ہے۔ کچھ خواتین انتظار میں کھڑی ہیں۔ انھیں اپنی کہانیاں ریکارڈ کرانی ہیں۔ انھیں بتایا گیا کہ یہ ان کے لیے مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ کوئی ان کی کہانیاں پڑھ کر یا سن کر انھیں بچانے کے لیے آگے آ سکتا ہے۔ یہ ان کے لیے ایک امید کی کرن کی مانند ہے۔

ایک عورت جو اپنی عمر کی تیسری دہائی کے اواخر میں ہے ان لڑکیوں کا تعارف کرواتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ لڑکیاں بہار کے کچھ علاقوں کی بعض شادیوں یا پارٹیز میں مخصوص آرکسٹرا بینڈ میں ناچتی ہیں اور گاتی ہیں لیکن پرفارمنس کے دوران انھیں اکثر زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

انھیں زبردستی چھوا جاتا ہے۔ ان کی چھاتی پکڑ لی جاتی ہے اور کبھی کبھی ان کا ریپ بھی ہو جاتا ہے۔

شادیوں کی اس قسم کی تقاریب میں فائرنگ عام بات ہے۔ اکثر اس قسم کی فائرنگ میں ان لڑکیوں کی ہلاکت کی بھی خبریں آتی ہیں۔

24 جون کو بہار کے نالندہ ضلع میں شادی کی ایسی ہی ایک تقریب میں فائرنگ سے سواتی نامی ایک لڑکی کی موت ہو گئی۔ گولی اس کے سر میں لگی۔ ایک مرد ڈانسر کو بھی گولی لگی۔

کووڈ 19 کے سبب ان خواتین ڈانسروں کی قابل رحم حالت

لڑکیوں کا کہنا ہے کہ کورونا کی وبا نے انھیں مزید خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کام ملنا مشکل ہو گیا ہے۔ مکان کا کرایہ ادا کرنے اور گھر خرچ چلانے کا مسئلہ درپیش ہے۔ آرکیسٹرا بینڈ میں گانے والی ریکھا ورما کا کہنا ہے کہ کچھ کو تو جسم فروشی کے کام کے لیے مجبور ہونا پڑا۔

ریکھا راشٹریہ کلاکار مہاسنگھ یعنی نیشنل آرٹسٹ فیڈریشن کی صدر ہیں۔ انھوں نے آرکسٹرا میں کام کرنے والے مرد اور خواتین فنکاروں کے حقوق کے لیے سنہ 2018 میں اس تنظیم کی بنیاد ڈالی تھی۔

ان خواتین میں سے ایک عورت اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے رونے لگتی ہیں۔ ان کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ جاتا ہے اور مسکارا ان کے رخساروں سے نیچے آ گیا۔ بالوں میں بھورے رنگ کا احساس ہوتا ہے۔ انھوں نے نیلے رنگ کا کرتا اور ستاروں والی شلوار پہن رکھی ہے اور ان کے ہاتھ میں سنہرے رنگ کا پرس ہے۔

آنکھیں بڑی ہیں اور بائیں ہاتھ پر تتلی کا ٹیٹو ہے۔ نام دیویہ ہے لیکن یہ اصل نام نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں اداکارہ دیویا بھارتی (اب اس دنیا میں نہیں) بہت پسند ہیں۔ وہ ان کی طرح بننا چاہتی تھیں۔ اسی لیے انھوں نے اپنا نام دیویا رکھا لیکن زندگی آسان نہیں۔

دیویا کو شراب کے نشے میں دھت مردوں کے بیچ ناچنا پڑتا ہے۔ یہ لوگ ان خواتین رقاصاؤں کی چھاتی پکڑ لیتے ہیں۔ ان پر پتھر پھینکتے ہیں، یہاں تک کہ ان پر بندوقیں بھی تان لیتے ہیں۔

شوہر کی اذیت سے سٹیج تک کا سفر

دیویا بہار کے پورنیا ضلع میں پیدا ہوئیں۔ جب وہ نو عمر تھیں تو ان کا کنبہ کام کی تلاش میں پنجاب چلا گیا۔ ان کی شادی 13 سال کی عمر میں کر دی گئی اور ان کے بعد وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہنے لگیں۔

شوہر پیشے سے ڈرائیور تھا۔ وہ اکثر مار پیٹ کرتا اور گالیاں دیتا تھا۔ ایک دن جب شوہر نے انھیں گھر سے باہر نکال دیا تو دیویا نے اپنی بیٹیوں کے ساتھ پٹنہ کے لیے ٹرین پکڑ لی۔ ایک آن لائن ملاقات میں، ایک شخص نے انھیں ’شوٹنگ‘ میں کام دلانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔

اس نے دیویا کو میٹھا پور کے ایک فلیٹ میں اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ رکھا اور کہا کہ وہ سٹیج شو میں ناچ کر پیسہ کما سکتی ہے۔ دیویا نے کہا کہ انھوں نے ’17 برسوں تک اپنے شوہر کے ہاتھوں بدسلوکی کا سامنا کیا۔‘

آخر کار دیویا رواں سال فروری میں ڈانس کے شعبے سے منسلک ہو گئیں۔ وہ 28 سال کی ہیں اور جانتی ہیں کہ یہ وہ جگہ نہیں جہاں وہ پہنچنا چاہتی تھیں لیکن وبائی مرض اور ان کے اپنے حالات نے انھیں مجبور کر دیا۔

شمالی ریاست بہار اور اتر پردیش کی شادی کی تقاریب میں یہاں تک کہ یوم پیدائش کی تقاریب میں کم کپڑوں میں خواتین ڈانسرز کا ناچنا عام ہے لیکن پچھلے کچھ برسوں میں سٹیج پر رقص کرنے والی ان خواتین کے خلاف مظالم میں اضافہ ہوا ہے۔ ڈانس دیکھنے آنے والے افراد زبردستی انھیں ڈانس فلور پر دبوچنے لگتے ہیں اور کبھی کبھی تو ریپ بھی کر دیتے ہیں۔

دیویا ان واقعات کو بیان کر کے رونے لگتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’کوئی عزت نہیں۔ میں کچھ اور بننا چاہتی تھی لیکن یہاں پہنچ گئي اور اب پھنس گئی ہوں۔‘

وہ کہتی ہیں ’آپ جانتی ہیں کہ مجھے کس چیز سے زیادہ نفرت ہے؟ مجھے پنجرے میں ناچنا پڑتا ہے۔ اسے پورے گاؤں میں جلوس کی شکل میں لے جایا جاتا ہے۔ لوگ ہماری ویڈیو بناتے ہیں۔ ہمیں طعنہ دیتے ہیں۔ ہمیں گالیاں دیتے ہیں۔‘

پنجرے میں ڈانس اور گدھ نما لوگوں کا ہجوم

ان لڑکیون کو جن پنجروں میں رقص کرایا جاتا وہ ایک قسم کی پہیے والی ٹرالیاں ہوتی ہیں۔ یہ انتظام اس لیے کیا گیا ہے کہ لوگ خواتین رقاصوں کو چھو نہ سکیں۔ آرکسٹرا بینڈ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ ان خواتین کی حفاظت کے لیے ہے لیکن ایسے پنجروں میں رقص کرنا ان خواتین کی پرائیویسی میں دخل جیسا ہے۔ دیویا کا کہنا ہے کہ ’پنجرا تو آخر کار پنجرا ہی ہے۔‘

سٹیح سے تو دیویا کو کم از کم اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ یہ اس دنیا سے مماثلت رکھتا ہے جہاں وہ جانا چاہتی تھیں لیکن ان کی نظر میں پنجرا تو پنجرا ہے۔

جون کے مہینے کی ایک شب اسی طرح چمکدار لباس پہنے تین لڑکیاں ایک پنجرے میں ناچ رہی تھیں۔ کچھ مردوں نے انھیں گھیر لیا اور اپنے موبائل پر ویڈیو بنانا شروع کر دیا۔ ٹرالی پھسلتی ہوئی شادی کی تقریب کے مقام کی طرف بڑھ رہی تھی۔

وہاں تک پہنچنے سے قبل ٹرالی کئی بار رکی۔ لاؤڈ سپیکر پر گانا زور سے چل رہا تھا۔ پنجرے والی لڑکیاں چاندی کے پنکھوں والے پرندوں کی طرح لگتی تھیں۔ ’آرکسٹرا بینڈ‘ میں جس قسم کا رقص ہوتا ہے اسی طرح یہ لڑکیاں اپنے کولہوں اور اپنی چھاتیوں کو ہلا رہی تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

انڈین برادری جہاں جسم فروشی ایک روایت ہے

وبا اور لاک ڈاؤن سیکس ورکرز کو کیسے متاثر کر رہے ہیں؟

سابق فوٹو جرنلسٹ نیرج پریہ درشی کوئلور (بہار) میں اپنے گھر سے یہ جلوس دیکھ رہے تھے۔ اس پورے ماحول کو انھوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے شیئر کر دیا۔ جلد ہی یہ ویڈیو وائرل ہو گئی اور یہ منظر دیکھ کر بہت سے لوگوں نے اسے شادیوں اور پارٹیز میں ناچنے والی ڈانسر خواتین کی عزت پر حملہ قرار دیا۔

نیرج کہتے ہیں ’آپ جانوروں کے ساتھ بھی ایسا سلوک نہیں کرتے ہیں۔ میں نے ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا تھا۔‘

ڈانسر لڑکیوں کے لیے اس طرح کا پنجرا بہت سال پہلے منظرعام پر آیا تھا۔ ایسی تقریبات میں رقص کرنے والی لڑکیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے پیش نظر اسے ’ایجاد‘ کیا گیا تھا۔ پنجرا اس طرح کے پیشے کے زوال، انتشار اور استحصال کی علامت ہے۔

اب وبائی امراض اور اس کے نتیجے میں نافذ ہونے والے لاک ڈاؤن نے شادیوں سے متعلق کاروبار کو تقریباً بند کر دیا ہے۔ ان حالات نے ان لڑکیوں کو ایسے نازک موڑ پر پہنچا دیا ہے جہاں سے وہ جسم فروشی سمیت بہت سے دوسرے کام کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ ان کی سودے بازی کی طاقت ختم ہو گئی ہے۔ انھیں محسوس ہوتا ہے کہ پنجرے میں رقص کرتے ہوئے وہ خود چڑیا گھر میں بند جانوروں کی طرح ہو گئی ہیں۔

دیویا نے کہا کہ ’ہماری حالت جانوروں سے بھی بدتر ہے۔ لوگ ہمارا شکار کرتے ہیں۔ یہ رقص کا پنجرا نہیں۔‘

https://twitter.com/neerajexpress/status/1401949028875526146

غربت سے بچنے کے لیے ڈانس لائن

آکانکشا کی بہن کو ایک رات اسی طرح کے ایک ڈانس پروگرام میں گولی لگ گئی۔ گولی نے ان کے سر میں سوراخ کر دیا لیکن وہ بچ گئیں۔ اب وہ خطرے سے باہر ہیں۔لیکن اس واقعے نے آکانکشا کو ہلا کر رکھ دیا۔ آرکسٹرا کے مالک منیش کا کہنا تھا کہ انھوں نے ایف آئی آر درج کرنے کی کوشش کی لیکن پولیس نے مقدمہ درج نہیں کیا۔

اپنے گھر میں ان خواتین سے ناچنے کا انتظام کرانے والے راہل سنگھ نے کہا کہ ان فنکاروں کے لیے یہ ایک بہت بڑی پریشانی ہے۔ کوئی ان کی بات نہیں سنتا۔ انھوں نے کہا کہ وہ وہاں موجود نہیں تھے جہاں رقص ہو رہا تھا لیکن وہاں کوئی فائرنگ نہیں ہوئی تھی۔

آکانکشا اور ان کی بہن پچھلے تین برسوں سے بہار میں ’آرکسٹرا بینڈ‘ نامی گروپ سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے سنا تھا کہ اس طرح کے ڈانس پروگراموں میں لڑکیوں کو گولی مار دی جاتی ہے۔ چھیڑ چھاڑ بھی ہوتی ہے۔ شراب پینے کے بعد جو لوگ ڈانس دیکھنے آتے ہیں وہ سٹیج پر چڑھ کر انھیں دبوچ لیتے ہیں۔

آکانکشا نے کہا کہ ’ہم نے یہ بھی سنا تھا کہ بعض اوقات بندوق کی نوک پر ان کا ریپ بھی ہوتا ہے۔‘

لیکن ان بہنوں کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ ان کے سارے راستے برسوں قبل ختم ہو گئے تھے جب ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ دونوں بہنیں وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے علاقے گوالیار سے تعلق رکھتی ہیں۔

ماں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں۔ اس کنبے کے پاس آمدنی کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا تو وہ سکول کی فیس کہاں سے ادا کرتے۔ مجبوری میں انھیں اپنی تعلیم چھوڑنی پڑی۔

یہ بھی پڑھیے

کیا ممبئی میں سیکس ورکرز کے لیے ’پیسے کمانے کے مواقع ختم ہو چکے ہیں؟‘

سونو پنجابن، جس نے جسم فروشی کو ’عوامی خدمت‘ قرار دیا

آکانکشا نے پڑوسی ڈانس سکول میں رقص کی تعلیم دینا شروع کیا۔ کبھی کبھی انھیں کسی فنکشن میں رقص کرنے کے لیے پیسے بھی مل جاتے تھے۔ یہیں سے ان کے بہار جانے کا راستہ طے ہوا۔ ڈانس سکول چلانے والے شخص نے ان کا تعارف کومل نامی خاتون سے کرایا۔

اس خاتون نے انھیں اچھا موقع اور رقم کا وعدہ کیا۔ دونوں بہنوں کو بتایا گیا کہ اگر وہ ان کے ساتھ بہار منتقل ہو جائیں تو انھیں ٹیلی ویژن کی پرفارمنس اور سٹیج شوز کے آڈیشن کا موقع ملے گا۔ اگر وہ منتخب ہونے کے بعد پرفارم کرتی ہیں تو انھیں زیادہ پیسہ مل جائے گا اور لوگ بھی نوٹس کریں گے۔

ماں نے زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی لیکن بہنیں بہت پرجوش تھیں۔ آکانکشا اپنی ماں کے لیے ایک گھر بنانا چاہتی تھی۔ امیروں کے گھروں کی طرح جن میں فرش پر ٹائلیں لگی ہوتی ہیں۔ اس دوران وہ ایک جھونپڑی میں رہتی تھیں۔ گھر کا خواب پورا کرنے میں کافی وقت لگتا لیکن نئی تجویز سے یہ بظاہر حقیقت میں ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ آکانکشا کی دوسری بہت سی چھوٹی چھوٹی خواہشات بھی تھیں۔ جیسے ماں کے لیے چاندی کی پازیب بنانے کی خواہش۔

جب دونوں بہنیں پٹنہ آئیں تو کومل نے انھیں پاواپوری کے ایک کمرے میں رکھوا دیا اور بتایا کہ انھیں ناچنا ہو گا اور کما کر اسے پیسہ دینا پڑے گا۔ کومل انھیں صرف اس وقت کمرے سے باہر جانے دیتی جب بالکل ضروری ہوتا۔

دونوں بہنیں پیسہ کمانا چاہتی تھیں لیکن گھنٹوں مسلسل ناچنے کے بعد بھی انھیں ایک دن میں صرف 1700 روپے ملتے تھے۔ انھوں نے حساب لگایا کہ اگر وہ دن کے وقت صرف جاگرن (مذہی تقریب) میں ہی ناچتی ہیں تو بھی وہ زیادہ کما لیں گی اور کچھ بچانے کے بعد گھر واپس آ جائیں گی۔

ان بہنوں کا خیال تھا کہ اگر وہ اسی طرح ناچتی رہیں تو آخر میں سب کچھ آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گا لیکن اس دوران آکانکشا کی بہن سواتی کو گولی لگ گئی۔

آرکسٹرا بینڈ میں لوگ شراب پی کر رقص دیکھنے آتے ہیں۔ وہاں یہ عام بات ہے۔ اسی طرح کے ایک ڈانس پروگرام میں شراب پینے کے بعد آنے والے لوگوں نے ہوا میں فائرنگ شروع کر دی۔ اس کے بعد انھوں نے لڑکیوں کے ساتھ ناچنا شروع کر دیا اور انھیں پکڑنے اور چھیڑنے لگے۔ دونوں بہنوں کا خیال تھا کہ وہ بات کو سنبھال لیں گی لیکن اس دوران رقص دیکھنے والے لوگوں کے درمیان لڑائی چھڑ گئی اور گولیاں چلنا شروع ہو گئیں۔

اس فائرنگ میں آکانکشا کی بہن کو گولی لگی۔ کسی طرح انھیں پٹنہ کے ایک ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ پٹنہ کے نجی ہسپتال میں علاج کروانا ان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ آخر کار سواتی کو چھٹی مل گئی۔

دلی یونیورسٹی میں پروفیسر مننا کمار پانڈے کا کہنا ہے کہ ’سرمایہ دارانہ ماحول میں نئی ٹیکنالوجی کی آمد اور اس کے بعد کورونا کی تباہی کی وجہ سے آرکسٹرا بینڈ میں کام کرنے والی خواتین کی حالت قابل رحم ہو گئی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’پہلے بھی استحصال ہوتا تھا لیکن بعد میں ایسا لگا کہ خواتین طاقتور بن کر ابھریں گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان خواتین کو سمجھوتہ کرنے پر مجبور کیا گیا۔ یہ ایک خوفناک بات ہے۔‘

پارٹیز اور شادیوں میں ناچنے والی ریکھا ورما کا کہنا ہے کہ یہ خواتین کمزور پس منظر سے آتی ہیں اور پہلے ہی سے ایسی زندگی گزار رہی ہوتی ہیں جس میں کوئی عزت نہیں ہوتی۔

اب انھوں نے ان خواتین فنکاروں کے تحفظ اور حقوق کے لیے ایک تنظیم تشکیل دی ہے۔ حکومت نے ان خواتین فنکاروں کو تسلیم نہیں کیا۔ لہذا وہ حکومت کے فلاحی پروگراموں کا بھی حصہ نہیں ہیں۔

ریکھا کہتی ہیں ’میں ان کو تحفظ فراہم کرانے کی کوشش کر رہی ہوں۔ ہمیں فنکار کے طور پر بھی نہیں تسلیم کیا جاتا۔‘

اپنی کہانی سناتے ہوئے ریکھا ورما کی زبان اس وقت لڑکھڑا جاتی ہے جب وہ اپنی زندگی میں پیش آنے والی ذلت اور اذیت کے بارے میں بات کرتی ہیں۔ کم عمری میں ہی وہ پولیس میں تقرری کے ایک امتحان میں پاس ہو گئی تھیں لیکن مالی دشواریوں کی وجہ سے حتمی طور پر وہ منتخب نہیں ہو سکیں۔

پیسے کی کمی کے سبب انھیں آرکسٹرا بینڈ میں شامل ہونا پڑا۔ پہلے جاگرن میں اور شادی کی تقریبات میں گانا شروع کیا۔ اچھا گانے کے لیے ایک گلوکار سے سیکھنا بھی شروع کیا لیکن پیسے کی کمی کی وجہ سے یہ بھی ادھورا ہی رہ گیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم لوگ ہی گا گا کر گلوکاروں کو مقبول بناتے ہیں۔ ورنہ کون ان کا نام جانتا لیکن ہم ہمیشہ پردے کے پیچھے ہی رہتے ہیں۔‘

یہ لڑکیاں انسانی سمگلنگ کا شکار ہیں

ان آرکسٹرا بینڈوں میں کام کرنے والی زیادہ تر لڑکیاں انسانی سمگلنگ کا شکار ہیں۔ یہ ملک کی مختلف ریاستوں اور بہار سے ملحقہ ملک نیپال سے بھی لائی جاتی ہیں۔ پچھلے سال 10 دسمبر کو اسی طرح کی ایک لڑکی جو رکسول میں آرکسٹرا میں کام کرتی تھی، اسے گولی مار دی گئی تھی۔

23 ستمبر سنہ 2020 کو سمستی پور میں ایک نوجوان نے ایک ڈانسر کو گولی مار دی۔ ان میں سے بیشتر واقعات اخباروں میں بھی شائع نہیں ہوتے ہیں۔ پولیس شاذ و نادر ہی مقدمہ درج کرتی ہے کیونکہ اول تو کسی کو ایسے معاملے میں کوئی ثبوت یا گواہ نہیں مل پاتے ہیں۔ دوئم ان خواتین کو بدنما داغ سمجھا جاتا ہے اور معاشرے میں ان کے بارے میں بہت ہی خراب خیالات پائے جاتے ہیں۔ یہ خواتین چھپ چھپ کر رہتی ہیں۔ ان خواتین کو معاشرے کا تعاون بالکل بھی نہیں ملتا لہذا ان کا تمام اداروں سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔

نیشنل آرٹسٹ فیڈریشن کے بانی اخلاق خان کا کہنا ہے کہ ’مسئلہ عزت و وقار کا ہے۔ بہار میں آرکسٹرا بینڈ پھل پھول رہے ہیں کیونکہ وہ غیر قانونی کام کرتے ہیں۔ یہ بینڈ تو اپنی رجسٹریشن تک نہیں کراتے ہیں۔ یہ تفریح نہیں بلکہ کچھ اور ہی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’معاشرے میں ان لڑکیوں کے بارے میں جو خیال اور رویہ ہے اس کی وجہ سے کوئی ان کے لیے آگے نہیں آتا۔ بینڈ مالکان کچھ نہیں کرتے ہیں۔ وہ انھیں چوس کر چھوڑ دیتے ہیں۔ بہار اور اتر پردیش میں ایسے ہزاروں آرکسٹرا بینڈ موجود ہیں جو تفریح کی آڑ میں خواتین کے استحصال کا اڈہ بن گئے ہیں۔‘

پروفیسر مننا کمار پانڈے کا کہنا ہے کہ پچھلے کچھ برسوں سے لڑکیوں کو شادی یا پارٹی تقریبات میں ناچنے کی دعوت دینا ایک ’سٹیٹس سمبل‘ یعنی رتبے کی علامت بن گیا ہے۔ ایسی مجالس میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں اور پھر گولیاں چلائی جاتی ہیں۔ یہ بہار کی ستم ظریفی ہے کہ یہاں شراب پر پابندی ہے لیکن شادیوں اور پارٹیوں میں یہ آسانی سے دستیاب ہے۔

ان دنوں سکرین پر جنسی جذبات ابھارنے کے لیے جس طرح کے گرما گرم مناظر دکھائے جاتے ہیں اس کا سامعین کی دلچسپی پر گہرا اثر پڑا ہے۔ ایسے مناظر دیکھنے کے بعد لوگ آرکسٹرا بینڈ کے پروگرام میں بھی اسی طرح کی براہ راست پرفارمنس کا مطالبہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بہت سی لڑکیاں اس کے زیر اثر آجاتی ہیں۔

زیادہ تر لڑکیاں نابالغ ہوتی ہیں اور انھیں پیسوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ کوئی تربیت یافتہ ڈانسر نہیں ہوتی ہیں۔

دیویا کے لیے تربیت یافتہ ڈانسر ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لڑکیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مختصر کپڑے پہن کر رقص کریں۔ دیویا کو یہ پسند نہیں لیکن وہ یہ بھی جانتی ہیں کہ اس انڈسٹری میں ان کے پاس صرف چند سال باقی رہ گئے ہیں۔ منتظمین نے ان کا پیسہ رکھا ہوا ہے۔ انھیں کرایہ ادا کرنا ہے اور بچے کے سکول کی فیس دینی ہے۔

دیویہ کا کہنا ہے کہ ’ہم اپنی سودے بازی کی طاقت کھو دی ہے۔‘

اپنے کپڑے سنبھال کر وہ کہتی ہیں کہ ’لوگ گدھ کی طرح ہمارے پاس آتے ہیں۔ وہ ہمارے کپڑے تک پھاڑ دیتے ہیں۔‘

سٹیج سے لے کر پنجروں تک ہر وقت ان کا شکار کیا جاتا ہے۔ یہ ان کی زندگی ہے۔ ایک پنجرے والے جانور کی زندگی۔

دیویا اب بھی خواب دیکھتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ انھیں فلموں سے کتنا لگاؤ تھا۔

جب بھی کسی رات کسی ڈانس پروگرام میں ان کے گرد لوگ گدھ کی گھومنے لگتے ہیں تو وہ خوبصورت اداکارہ کا چہرہ یاد کرتی ہیں جس کے نام پر انھوں نے اپنا نام رکھا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32664 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp