شہزادے کی ماں کا مجسمہ: عریانی یا اعلیٰ ذوق؟


”یہ کیا واہیاتی اور فحش پن ہے؟ میرا سوال یہ ہے کہ آخر اس گندی تصویر کی وجہ ہی کیا ہے؟ کیا آپ کو شرم نہیں آتی کہ ایسے اخلاق باختہ اور عریاں مناظر دیکھتے ہیں؟ آخر آپ کس وضع کے انسان ہیں؟“ یہ اور اس جیسے بہت سے چبھتے ہوئے سوال متوقع ہیں۔

لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا سچ میں یہ تجسیم اخلاق باختہ اور فحش ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ مجسمہ ”عصمت“ یا ”حیا“ (Modesty) سے موسوم ہے۔ اس کا ایک اور نام ”چھپا ہوا سچ“ بھی ہے۔ اسے سین سیورو کے اطالوی شہزادے، ریمونڈو ڈی سینگرو نے اپنی مرحوم ماں سسیلیا، جنہیں وہ بے نظیر ماں کہا کرتے تھے، کی یادگار کے طور پر بنوایا تھا۔

اس مجسمے کو اٹلی کے شہر نیپلز کے چیپل آف سین سیورو (Cappella Sansevero) میں نصب کیا گیا ہے۔ شہزادے کی ماں کا انتقال اس وقت ہو گیا تھا جب وہ ایک نوجوان خاتون تھیں اور شہزادہ ابھی بہت چھوٹا تھا۔ دلچسپ سوال یہ ہے کہ اس طرح کا مجسمہ قبرستان کی ایک ایسی عبادت گاہ میں کیوں لگایا جائے گا جہاں مسیحی اپنے مردے دفناتے ہیں اور ان کی بخشش کے لیے عبادت کرتے ہیں؟ پھر ایک شہزادہ کیوں یہ چاہے گا کہ اس کی مرحوم ماں کا جوان جسم نمائش کے لیے لگایا جائے تاکہ فوت شدگان کی آخری رسومات کو آئے لوگ اس مجسمے کی زیارت کر سکیں؟

سنگ مرمر کا بنا ہوا یہ مجسمہ چلنے کی حالت میں ہے، جس کا وزن دوسرے پاؤں پر پہلے سے زیادہ ہے۔ اس طرز قیام سے اس کو انسانی وصف اور حرکت کا تاثر ملتا ہے گویا وہ حرکت میں ہے۔ اس کی نفیس چادر، جو بذات خود سنگ مرمر کی بنی ہے، جس طرح سے اس کے جسم پر پڑی ہے وہ بھی اس کے حرکت میں ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کی توجہ ناظرین سے پرے ہے، اور شفاف پردے نے اس کی آنکھیں ڈھکی ہوئی ہیں۔

اس کا انداز مدعو کرنے والا ہے۔ تاہم، اس کا چہرہ ایک الگ کہانی کہہ رہا ہے۔ اس کے پستانوں کو زیادہ ابھارنے کے لیے پردے کا استعمال ہنرمندی کا اعلیٰ ثبوت ہے۔ اس کے پیٹ کے وسطی حصہ میں پڑنے والے کومل گڑھے اس کے پٹھوں کے تناؤ اور جسم کے آہنگ کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس کے زیر ناف حصے کو گہنا دیا گیا ہے تاکہ یہ بالواسطہ جنسی تحرک کا مؤجب نا ہو۔ اس کا ملائم جسم تقریباً سیال ہے جیسے اس میں ہڈیاں نا ہوں اور وہ ایک ہموار اور کامل انسان ہو۔ ان مثالی خصوصیات سے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا کی نہیں بلکہ ایک الوہی عورت ہے۔

یہاں، فنکار، انٹونیو کوراڈینی، جو کہ مقدس رومی شہنشاہ چارلس پنجم کے شاہی مجسمہ ساز تھے، عورت کے جسم پر فطری خوبصورتی سے رکھے ہوئے پردے کی تشکیل میں ایک کمال حاصل کرتے ہیں۔ اس مجسمے کا واحد مقصد سیسیلیا کی یاد منانا نہیں ہے بلکہ پردہ دار عورت کو حکمت کا محور سمجھا جا سکتا ہے نیز پردہ کی شبیہ سچ کی بہت عمدہ وضاحت کرتی ہے۔

اگرچہ اس عورت کا پردہ اس کی چھاتیوں، پیٹ اور چہرے سے قریب قریب شفاف ہے، تاہم اسرار اور انکشاف دونوں کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔ پردہ غیر منقول ہے، جو کامل وضاحت کو ناقابل حصول بنا دیتا ہے۔ ناقابل رسائی ہونا سب کچھ دیکھنے کی آرزو پیدا کرتا ہے، پردہ پکڑنے کی خواہش، اسے ہٹا کے نیچے دیکھنے کی جستجو، کہ نیچے کیا ہے۔

اس کا جسم آنکھوں میں کھینچتا ہے، اور اس کی پرکشش ہئیت کا بہت تھوڑا سا حصہ چھپا بھی رہتا ہے کیونکہ پردہ ابھی بھی اس کو ڈھانپ دیتا ہے، جس سے رومانویت اور رواداری کے درمیان توازن پیدا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جب دیکھنے والا عورت کے بارے میں عمیق مشاہدہ کرتا ہے تو بھی، وہ ایک طرف دیکھتی رہتی ہے، جیسا کہ حتمی فیصلہ کر چکی ہو کہ ناظرین کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ اصل میں کون ہے۔

اس مجسمے کے حوالے سے سچائی کا تصور انتہائی دلچسپ ہے۔ سچ کی نزاکت کا ایک عنصر خود پردے کی بھی پیچیدہ تفصیل میں دکھایا گیا ہے۔ پردہ کی لطافت، سچائی کی نزاکت کو بتاتی ہے کہ سچ کتنا شفاف ہوتا ہے اور اتنی ہی آسانی سے پراگندہ ہو سکتا ہے۔ اس فن پارے نے سچائی کی نوعیت کے بارے میں اہم سوالات اٹھائے ہیں، کیا آفاقی سچ کبھی واقعی واضح بھی ہوتا ہے یا پھر یہ ہمیشہ مہین سے پردے میں ملفوف رہتا ہے۔ بادی النظر میں یہ عورت سچائی کا ایک نمونہ ہے، سچائی جو ایک پرکشش ساتھی ہے، جو نظر سے قریب بھی ہے لیکن کبھی بھی پوری طرح سے بے نقاب نہیں ہوتی۔

اسی حوالے سے ایک مزید پہلو آفاقی سچائیوں کی کشش کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سچ ہمیشہ پرکشش ہوتا ہے مگر اس تک رسائی بلاواسطہ نہیں ہوتی۔ سچائی کبھی بھی اپنا آپ آسانی سے آشکار نہیں کرتی بلکہ اس کے لیے جدوجہد بنیادی شرط ہے۔ اس خوبصورت عورت کا دیکھنے والے سے براہ راست نظریں نا ملانا ایک انتہائی گہرے پیغام کا حامل ہے کہ کامل حقیقت قریب قریب ناقابل دریافت ہے۔ اس کے کھڑے کھڑے سر پستان حق کی کشش کو واضح کرتے ہیں کہ حق سب سے زیادہ پرکشش ہوتا ہے مگر اسی رعایت سے اس تک رسائی بھی آسان نہیں ہوتی۔

اس مجسمے کے ممالیاتی غدود ایک اور پہلو بھی اجاگر کرتے ہیں جو کہ جسم کا فحاشی سے تعلق ہے۔ جیسا کہ مذکور ہے کہ یہ مجسمہ ایک ماں کی یادگار کے طور پر ایک عبادت گاہ میں لگایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ مسیحیوں میں بتوں کی پوجا نہیں ہوتی چنانچہ یہ مجسمہ مسیحی قبرستان کی ایک عبادت گاہ میں حصول برکت کے لیے رکھا گیا ہے۔ اس مجسمے کی مدد سے یہ وضاحت کی گئی ہے کہ جنسی اعضاء فحاشی کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ جسم تو جمالیاتی پہلووں کو اجاگر کرتا ہے نیز جنسی اعضاء کا تعلق افزائش اور خوشحالی سے ہے۔

اچنبھے کی بات ہے کہ ماں جیسی پاکیزہ ترین ہستی کے جنسی اعضا کو چھپانے کی کوشش نہیں کی گئی؟ کیا ایک لمحے کے لیے بھی تصور کیا جا سکتا کہ ایسے سنجیدہ موقع پر جہاں فن کار کی ساری کاوش ستائش و فہمائش کی بجائے آرائش و زیبائش میں سمٹ آئی ہو، وہاں اسے جنسی لذت کا خیال کیسے آ سکتا ہے؟ اور خصوصاً جب کہ وہ اپنے جذبوں کا اظہار نہ کر رہا ہو بلکہ ولی عہد نے ایک اہم فرض اس کے سپرد کیا ہو۔ ایسے مقام پر صرف ایسے لوگوں کا ذہن جنس آلود ہو سکتا ہے جو جمالیاتی احساس سے عاری اور چھچھورے پن کا شکار ہوں۔

برہنہ جسم دیکھنے اور دکھانے کے لیے بڑی فنکارانہ قوت، سنجیدگی اور گہرے اخلاقی و روحانی احساس کی ضرورت ہے۔ جسم اور بالخصوص جنسی اعضا کو پاک سمجھنا غالباً سب سے مشکل مسئلہ ہے جو انسانی ضمیر کے سامنے آ سکتا ہے۔ جسم کو روح کے برابر پاکیزہ اور لطیف محسوس کرنا ایک ایسا مقام ہے جو فرد اور قوم دونوں کو تہذیب کی انتہائی بلندی پر ہی پہنچ کر حاصل ہوتا ہے۔

مجسمہ ساز نے یہاں بجائے غیر ضروری تقدس پیدا کرنے کے ایک بے ساختگی دی ہے۔ وہی بے ساختگی اور شگفتگی جو طمانیت کا اعادہ کرتی ہے۔ حالانکہ مجسمہ حرکت نہیں کرتا مگر سکون کا تحرک ضرور پیدا کرتا ہے اور یہ سکون اور ہم آہنگی ہی انسانی ترقی کا استعارہ ہے۔

یہاں پریشان کن بات لذت کا تصور اور گندگی ہے۔ جنس اور جنسی اعضاء ہمیشہ لذت سے جڑے رہے ہیں اور رہبانیت پسند معاشروں میں دنیاوی لذت کی اکثر چیزیں بالعموم ناپسندیدہ ہی گردانی جاتیں ہیں چنانچہ جنس بھی امر ممنوعہ سمجھی جاتی ہے۔ حالانکہ سچائی اور حکمت کا جس طرح کامل اظہار اس فن پارے نے کیا ہے وہ شاید ایک ہزار وعظ بھی نا کر پائیں تب بھی اکثریت کے نزدیک یہ مجسمہ فحاشی و گندگی کا غماز ہو سکتا ہے۔

ایک فرد کی حیثیت سے، وہ عورت اپنے واہموں کا شکار ہو سکتی ہے، اس کی نظر اس کی انتہائی شائستگی کی وجہ سے پرے ہے، جو دور خلا میں سچائی کی تلاش کر رہی ہے، لیکن اس تلاش حق کے باوجود وہ اپنا پردہ نہیں جھٹکتی مبادا وہ خود پہ ایک نظر ہی ڈال سکے۔ اس نے نہ صرف ایک تجریدی معنی میں سچائی کی نوعیت پر سوال اٹھایا بلکہ ہمیں مناہی اور خوف سے نجات دیتے ہوئے یہ جاننے کے لئے اکسایا ہے کہ ہم واقعی میں کون ہیں؟

خیر، آپ غیر ضروری طوالت کو معاف رکھتے ہوئے پہلے پیرے پر غور کریں۔ اگر اس مجسمے کو دیکھتے ہی آپ کے ذہن میں بھی یہی تشکیک پیدا ہوئی تو مبارک ہو، آپ نے اعلیٰ ذوق کی طرف سفر کا آغاز کر دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments