بھونگ مندر میں توڑ پھوڑ: کمسن ہندو بچے کی توہین مذہب کے الزام میں گرفتاری، ایس ایچ کو برطرف نہ کرنے پر سپریم کورٹ برہم

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


جنوبی پنجاب کے شہر رحیم یار خان میں مندر میں توڑ پھوڑ اور آگ لگانے کے معاملے میں از خود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے توہین مذہب کے الزام میں کمسن ہندو بچے کو گرفتار کرنے پر متعقلہ تھانے کے ایس ایچ او کو نوکری سے برطرف نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔

گذشتہ ہفتے پاکستان میں ضلع رحیم یار خان کے علاقے بھونگ میں چند مشتعل افراد نے ایک مندر پر حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی تھی اور مندر کے چند حصوں کو آگ لگا دی تھی۔ اس سے قبل 23 جولائی کو رحیم یار خان پولیس نے ایک نامعلوم لڑکے کے خلاف مسجد کے احاطے میں پیشاب کرنے کے الزام کے تحت مقدمے کا اندراج کیا تھا۔ ایف آئی آر سیکشن 295 اے کے تحت درج کی گئی تھی۔

اس ایف آئی آر کے اندراج کے بعد مقامی پولیس نے ایک کمسن ہندو بچے کو گرفتار کیا تھا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رحیم یار خان پولیس کے سربراہ اسد سرفراز کا کہنا تھا کہ پولیس نے اس معاملے میں اپنی تحقیقات مکمل کر لی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہندو بچے کی عمر کو مدنظر رکھتے ہوئے سفارش کی گئی ہے کہ اس حوالے سے درج مقدمے میں توہین مذہب کی دفعہ کو ختم کر دیا جائے۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر رحیم یار خان کا کہنا تھا کہ پولیس نے اس حوالے سے رپورٹ ٹرائل کورٹ میں جمع کروا دی ہے اور اب یہ ٹرائل کورٹ پر ہے کہ وہ اس رپورٹ کو تسلیم کرتی ہے یا نہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس مقدمے سے توہین مذہب کی دفعہ کو ختم کرنا اب عدالت کا کام ہے۔

اسد سرفراز کا کہنا تھا کہ مندر میں توڑ پھوڑ کے واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور جلد ہی حتمی چالان متعقلہ عدالت میں پیش کر دیا جائے گا۔

دوسری جانب جمعہ کے روز سپریم کورٹ میں مندر میں توڑ پھوڑ کے واقعے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے پنجاب پولیس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’متعقلہ تھانے کے اس انچارج کو ابھی تک نوکری سے برطرف کیوں نہیں کیا گیا جس نے آٹھ سالہ ہندو بچے کو گرفتار کیا تھا۔‘

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب قاسم چوہان نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کے اعلی حکام نے ایس ایچ او کو ان کے عہدے سے ہٹا کر محکمانہ کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سابقہ ایس ایچ او کی طرف سے بچے کو گرفتار کرنا اقرار جرم ہے، اب اس میں مزید محکمانہ انکوائری کی کیا ضرورت ہے؟

انھوں نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اس پولیس افسر کو شوکاز جاری کریں اور اس کے بعد نوکری سے فارغ کریں۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’پولیس افسر کسی بھی تھانے میں سفارش سے لگتا ہے اور اگر انکوائری کا معاملہ سست روی کا شکار ہوا تو سابقہ ایس ایچ او کہیں اور نکل جائیں گے۔‘

پولیس

بینچ میں موجود جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مندر کو نقصان پہنچانے کا معاملہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں اختلافات کا نہیں بلکہ ضلعی انتظامیہ کی نیت کا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’بلوچستان کے علاقے ژوب میں بھی اسی قسم کا واقعہ پیش آیا تھا اور اس مندر کی دوبارہ تزیئن و آرائش کر کے ایک تقریب کا انقعاد کیا جس میں مقامی عالم دین مہمان خصوصی تھے۔

سپریم کورٹ نے رحیم یار خان کے واقعے سے متعلق پولیس کی طرف سے جمع کروائی گئی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعہ کی تفتیش میں معمولی نوعیت کے اقدامات کیے گئے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ رحیم یار خان کے جس علاقے میں یہ واقعہ ہوا اس سے کچھ ہی فاصلے پر کچے کے علاقے جرائم پیشہ عناصر پناہ لیے ہوئے ہیں جو کہ امن وامان خراب کر رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گذشتہ 74 برس سے ہم ابھی تک ڈاکوؤں سے نجات حاصل نہیں کر سکے۔

عدالت کو بتایا گیا کہ ابھی تک پولیس نے اس مقدمے میں 95 افراد کو گرفتار کیا ہے جن کی شناخت کے لیے نادرا سے مدد لی جا رہی ہے اور انھیں اس حوالے سے خط بھی لکھا ہے جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ ’خط بابو لوگ لکھتے ہیں اور پولیس حکام خط نہیں لکھتے بلکہ عملی اقدامات کرتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس واقعے میں ملوث افراد کی شناخت سی سی ٹی وی فوٹیج سے واضح ہے تو پھر خط لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔‘

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نادرا کے حکام دو سال تک بھی اس خط کا جواب نہ دیں۔‘

عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ ایک ہفتے کے اندر اندر ذمہ داروں کی شناخت کر کے ان کے خلاف قانونی کارروائی کریں جبکہ بے گناہ افراد کو رہا کر دیا جائے۔

ہندوؤں کی تنظیم کے نمائندے اور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار نے عدالت کو بتایا کہ علاقہ مکینوں نے بتایا ہے کہ پولیس نے اس مقدمے میں متعدد بے گناہ افراد کو بھی حراست میں لیا ہے۔

عدالت نے حکم دیا کہ اس مقدمے کا ٹرائل بلا تاخیر شروع کر کے اس کو چار ماہ میں مکمل کیا جائے جبکہ پنجاب حکومت اس مقدمے کی پیروی کے لیے پراسیکیوٹر مقرر کرے۔

عدالت نے اس مقدمے میں نامزد ملزمان سے مندر کی دوبارہ تزئین و آرائش پر اٹھنے والے اخراجات کی رقم لے کر مندر انتظامیہ کے حوالے کرنے کا بھی حکم دیا۔

سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ مندر کے اندورنی حصے کی تزیئن وآرائش مکمل ہوگئی ہے جبکہ بیرونی حصے پر کام جاری ہے۔

عدالت نے پنجاب پولیس کے سربراہ کو ایک ماہ میں اس مقدمے کی تفتیش میں ہونے والی پیشرفت کے بارے میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32667 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp