پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم معاہدہ: شہباز شریف کے نام ایک کھلا خط


محترم جناب میاں محمد شہباز شریف صاحب، آداب!

امید کرتا ہوں آپ اپنے اتحادیوں کے ہمراہ بخیر و عافیت ہوں گے۔ سندھ کی بدقسمتی رہی ہے کہ اقتدار کی بندر بانٹ کے چکر میں یہ صوبہ پیپلز پارٹی جیسی نا اہل، ناقص، ابن الوقت، موقع پرست اور کرپٹ جماعت کو لکھ کر ہی دیا گیا ہے کہ جس کے باعث مسلم لیگ نواز ہو یا پاکستان تحریک انصاف لیکن دونوں وفاقی جماعتوں کی ترجیحات سے سندھ ہمیشہ غائب ہی رہا ہے۔ چنانچہ ہمارے مقدر میں یہی ایک گلی سڑی جماعت آئی ہوئی ہے جس کی جمہوریت کی وصف دراصل سندھ کے خزانے کو لوٹنا، کرپشن، بیروزگاری، بھوک و افلاس اور غربت کے علاوہ اور کچھ نہیں رہی۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار میں شامل میں ہونے سے قبل میں ذاتی طور پر بحیثیت دیہی سندھ کا ووٹر پنجاب میں آپ کی حکمرانی کو حسرت کی نگاہوں سے دیکھتا تھا اور اس وقت تک اقتدار کی میوزیکل چیئر میں شامل دو جماعتوں یعنی پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی میں سے سب سے زیادہ مسلم لیگ نواز سے متاثر تھا جس کا باعث محض آپ کی کاوشوں سے پنجاب کے اندر ہونے والی انقلابی تعمیر و ترقی اور آپ کا انداز حکمرانی تھا۔

موٹر ویز کا جال، کالی پیلی ٹیکسی، لیپ ٹاپ اسکیم، ماسٹرس کے طلباء کو فیسوں کی واپسی، شہر لاہور کی حیرت انگیز تعمیر و ترقی، میٹرو بس اور اورنج لائن ریل گاڑی وغیرہ کم از کم میرے لئے حیرت کا باعث اس لئے تھی کیونکہ میں اس سندھ کا بدنصیب ووٹر تھا کہ جس کی حکومت کو ماسوائے جمہوریت اور شہداء کے راگ الاپنے کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا۔

محترم خادم اعلیٰ صاحب، آپ کے گزشتہ اقتدار کے خاتمے کے بعد جس انداز سے جناب میاں محمد نواز شریف صاحب، جناب خواجہ سعد رفیق صاحب، جناب رانا ثناء اللہ صاحب کو نشانہ بنایا گیا، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے اس طرز احتساب نے آپ کی جماعت کے لئے میری ہمدردیوں میں مزید اضافہ کر لیا تھا کیونکہ اس دور میں ایک دیہی سندھ کا ووٹر ہونے کی حیثیت سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ سب سے بڑا اختلاف یہ ہوتا تھا کہ پنجاب کے اندر تعمیر و ترقی کے باوجود بھی اس طرح محض پاکستان مسلم لیگ نواز ہی کی قیادت کو اسیر بنانے کی منطق کم از کم میری سمجھ سے بالاتر تھی کیونکہ میں سمجھتا تھا اس کا آغاز پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سے ہونا چاہیے تھا لیکن پاکستان تحریک انصاف ان کے احتساب میں بری طرح ناکام رہی اور اس طرح آپ کی جماعت کے ساتھ ہماری ہمدردیاں بڑھنے کا موقع پروان چڑھتا رہا۔

حضرت، کچھ عرصہ بعد محترم میاں محمد نواز شریف صاحب اور محترمہ مریم نواز صاحبہ کی تقاریر میں کچھ ایسی باتوں کی گونج سنائی دی کہ ایک لمحہ کے لئے محسوس ہوتا تھا جیسے وہ دونوں رہنماء پاکستان کی چھوٹی اور محکوم اقوام کی آواز بن گئے ہوں کیونکہ اسے قبل اس طرح کے تحفظات کا اظہار چھوٹے صوبوں کے سیاسی و سماجی حلقوں میں برملا سنائی دیتا تھا لیکن یہ میری زندگی میں پہلی مرتبہ ہو رہا تھا کہ کوئی وفاقی جماعت پاکستان کی محکوم اقوام کی ترجمانی کا بیڑہ اٹھانے کی سرخیل ثابت ہوئی ہو۔

یہی وجہ تھی کہ اس دور میں محترم میاں محمد نواز شریف صاحب اور محترمہ مریم نواز صاحبہ کی پیروی ایک حد تک عقیدت میں تبدیل ہو چکی تھی اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف آپ کی جانب سے ہونے والی باتوں پر ہم بیگانی شادی میں عبداللہ بنے ہوئے لبیک کہا کرتے تھے کیونکہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی ترجیحات میں سندھ کے اندر تنظیم سازی کا عمل شامل ہی نہیں تھا۔

بعد ازاں جب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی بنیاد رکھی گئی، اس وقت بھی میں محض اس غرض سے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو عوام کے مسائل کا حل تسلیم کرتا رہا کیونکہ اس کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ نواز کا کلیدی کردار تھا باوجود اس کے کہ اس وقت بحیثیت سندھ کا ووٹر ہوتے ہوئے شدید ترین تحفظات بھی تھے کہ پیپلز پارٹی اپنی روایات کے تحت اقتدار کی لالچ اور سندھ کے خزانے کو لوٹنے کی غرض سے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے اس قدر سخت اور سچ پر مبنی موقف کی تائید کر ہی نہیں پائے گی۔

چنانچہ میرا اس وقت بھی یہی خیال تھا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو اگر کسی جماعت نے موقع پاتے ہوئے نقصان پہنچایا تو وہ پیپلز پارٹی کے علاوہ اور کوئی جماعت نہیں ہوگی اور وقت نے میری اس بات کو سچ ہی ثابت کیا۔ وقت گزرتا رہا اور میری سوچ ہی کے عین مطابق پاکستان پیپلز پارٹی حسب عادت و حسب توفیق پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی پیٹھ میں چھرے گھونپنے کی ذمہ داری بخوبی انجام دیتی رہی لیکن پاکستان مسلم لیگ نواز کی جانب سے ان کو پے در پے اپنی صفوں میں شامل رکھنا وہ حادثہ ثابت ہوا کہ جس نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ بشمول پاکستان مسلم لیگ نواز سے ہمدردیاں ختم کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔

خیر، وقت گزرتا رہا، حالات و نزاکت کروٹ بدلتی رہیں اور ہم تھے جو خاموشی سے حالات کا جائزہ لئے جا رہے تھے لیکن پاکستان مسلم لیگ نواز کی رفاقتیں تھیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے مزید پختہ ہوتی جا رہی تھیں اور اسی طرح ہم بھی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ سے کنارہ کش ہوتے جا رہے تھے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کا رویہ کوئی نیا تو نہیں تھا کیونکہ یہ ان کی روایات ہیں جس کے باعث میں اس جماعت کے لئے ابتداء میں ہی ”ابن الوقت اور موقع پرست“ کے الفاظ بروئے کار لا چکا ہوں لیکن اس تمام تر صورتحال کے باوجود بھی پاکستان پیپلز پارٹی کو پیش پیش رکھنے کے باعث کم از کم ذاتی طور پر میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ سے بدظن ہو چکا تھا اور اس آگ پر مزید تیل چھڑکنے کا کام کیا تحریک عدم اعتماد نے کہ جس کے دوران پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی حتمی طور پر ایک ہی سکے کے دو مختلف رخ محسوس ہونے لگے تاہم وزیر اعظم محترم عمران خان صاحب کی 6 مارچ کو میلسی میں کی گئی فیصلہ کن تقریر نے اچانک سے میری ہمدردیاں پاکستان تحریک انصاف کی طرف موڑ دیں کیونکہ دیہی سندھ کا ووٹر ہونے کے باعث میں جس پاکستان پیپلز پارٹی کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ سے نالاں تھا دراصل اسی پیپلز پارٹی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جناب عمران خان صاحب نے فرمایا کہ ”اگر میں تحریک عدم اعتماد سے بچ گیا تو پھر سوچو آپ لوگوں کے ساتھ کیا کروں گا؟“

دراصل پاکستان تحریک انصاف کی ترجیحات سے بھی سندھ تو غائب ہی رہا تھا لیکن باوجود اس کے اس ایک نقطے کے اوپر پاکستان تحریک انصاف اور وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب کی مشروط حمایت میں ہی عافیت جانی کیونکہ جس طرح سے گزشتہ کم و بیش 15 برس سے سندھ نے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو بری طرح جھیلا ہے، کم از کم میرے نزدیک کسی بھی جماعت کی حمایت کے لئے یہ پیمانہ تھا کہ وہ کس حد تک پیپلز پارٹی کے کڑے احتساب اور اس کی قیادت کی کرپشن کے خلاف آپریشن کا آغاز کرتی ہے۔ چنانچہ اسی امید پر وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب پر اعتماد بڑھنے لگا۔

محترم میاں شہباز شریف صاحب، اس پیش رفت کے بعد بھی سندھ میں مجموعی طور پر واضح تقسیم دیکھی گئی اور بہت تھوڑا حصہ میری مانند جناب عمران خان صاحب کی حمایت کرنے لگا لیکن اکثریت اب بھی پیپلز پارٹی کے مارے ہوئے ہونے کے باوجود بھی جناب عمران خان صاحب کی مخالف تھی جس کی بڑی وجہ ان کی جانب سے پے در پے سندھ کو نظرانداز کرنا اور مہنگائی کا طوفان تھی لیکن سندھ میں محترم عمران خان صاحب کی اس مخالفت کا ایک مرتبہ پھر موقع جانتے ہوئے پیپلز پارٹی نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور وہ اس مخالفت کو اپنی حمایت کے طور پر گنواتی رہی جو بنیادی طور پر زمینی حقائق کے برعکس تھا۔

خیر، سونے پے سہاگہ ثابت ہوا آپ کی جانب سے متحدہ اپوزیشن میں متحدہ قومی موومنٹ کی شمولیت کے دوران پیش پیش رہنا اور میں اس عمل کو سندھ کے ووٹرز کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں سمجھتا کہ جس کے باعث سندھ کے اندر صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی اور سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور بالخصوص ان کے اور متحدہ کے مابین اتحاد کے خلاف پہلے سے موجود نفرت ایک حد تک محترم عمران خان صاحب کو فائدہ پہنچا گئی اور سندھ کے اندر گزشتہ روز سے لے کر اس سے متعلق کیے گئے معاہدے کے سیاق و سباق پر شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے جس کی ذمہ داری آپ پر عائد ہو رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بالآخر دیہی ووٹر ہونے کی حیثیت سے میں نے اس خط کی مدد سے اپنا احتجاج آپ تک پہنچانا لازم سمجھا۔

حضور، پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ کا اتحاد سندھ کے لوگ کسی صورت قبول نہیں کرتے اور دوسری بات یہ کہ اس معاہدے میں وہی نکات شامل ہیں کہ جن پر سندھ کے لوگوں کو شدید تحفظات تھے لیکن بدقسمتی سے پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے لوگوں کے احتجاج کو اس لئے بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھتی کیونکہ ان کی سیاست کی بنیاد ہی ”خود بھی کھاؤ اور ہمیں بھی کھلاؤ“ پر محیط ہے اس لئے میں سندھ کا ایک ووٹر ہونے کی حیثیت سے نہ صرف آپ کے حضور اپنا شدید احتجاج نوٹ کروا رہا ہوں بلکہ یہ بھی واضح کرنا لازمی سمجھتا ہوں کہ آپ کی کاوشوں سے پاکستان پیپلز پارٹی کی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شمولیت اور پھر متحدہ کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے نتیجے میں ہمارے پاس محترم عمران خان صاحب کی حمایت کے علاوہ اور کوئی راہ نہیں ہے۔

30 مارچ 2022 بروز بدھ کو متحدہ کی شمولیت والی پریس کانفرنس میں آپ نے قول فرمایا کہ:

”متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ ہونے والے اتحاد سے متعلق جناب آصف علی زرداری صاحب، جناب بلاول بھٹو صاحب کا خصوصی طور پر شکرگزار ہوں کہ انہوں نے ان تمام مذاکرات میں اور ان تمام مشاورت کے اس عمل میں کھلے دل اور کھلے ذہن کے ساتھ ماضی کو ایک طرف رکھتے ہوئے ایک نئے سفر کا آغاز کیا ہے اور وہ سفر کیا ہے؟ وہ پاکستان کی ترقی، وہ پاکستان کی خوشحالی، وہ سندھ کی ترقی، وہ سندھ کی خوشحالی، وہ کراچی کی ترقی، وہ کراچی کی خوشحالی۔ کل رات جب ہم سب اکٹھے ہوئے تو آخری لمحات میں ایم کیو ایم کی جانب سے یہ کہا گیا کہ بات بہت حد تک مکمل ہو چکی لیکن ابھی ایک دو پوائنٹس ہیں وہ بھی حل ہو جائیں گے۔ ہم سب اس بات کے گواہ ہیں کہ اسی وقت سابق صدر آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو نے دعوت دی ایم کیو ایم کو کہ آئیے دوسرے کمرے میں بیٹھ کے ان کو بھی طے کر لیں اور بیس منٹ کے اندر وہ معاملات طے ہو گئے اور اس کے بعد اس معاہدے پر تمام اکابرین نے دستخط کیے۔ یہ ایک بڑی خوش آئند بات ہے۔“

جناب میاں محمد شہباز شریف صاحب،

1۔ اگر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، سندھ اور کراچی کی ترقی و خوشحالی میں اس قدر کردار ادا کرتی ہے تو پھر آپ ہی کے گزشتہ دور میں وزیر اعظم جناب میاں محمد نواز شریف صاحب کو یہ ضرورت پیش کیوں آئی کہ وہ انہی کے دور میں کراچی کے اندر رینجرز آپریشن کی مدد لیں؟

2۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کراچی کی موجودہ پرامن حالات کا سہرا جناب میاں محمد نواز شریف صاحب کے سر ہی جاتا ہے؟ اگر ہاں تو پھر ایک بات طے ہے کہ متحدہ کا پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ معاہدہ طے پانے میں آپ کا پیش پیش رہنا سیاسی ضرورت ہے اور اس میں آپ کی جانب سے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے سندھ اور بالخصوص شہر کراچی کے تحفظ کو بالائے طاق رکھا گیا ہے۔

3۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں شہر کراچی ایک مرتبہ پھر کسی امتحان کا سامنا کرنے کی سکت رکھتا ہے؟

4۔ سندھ کے لوگ اپنے وجود میں بے حد مہمان نواز اور پیار کرنے والے ہیں لیکن ہمیشہ لسانیت کے نام پر ان کے جذبات کو مجروح کیا گیا ہے اور سندھ میں علیحدہ صوبے کے مطالبات کیے گئے ہیں؟ ہم کس بنیاد پر آپ کی ضمانت قبول کریں اگر معاہدے کی نکات میں ہی اس طرح کے نکات زینت بنے ہوئے ہیں؟

5۔ اگر محترم آصف علی زرداری صاحب اور محترم بلاول بھٹو زرداری صاحب کی جانب سے آپ کے بقول فراغ دلی کا مظاہرہ کیا گیا ہے تو کیا وہ پہلے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے ایسا نہیں کرتے آئے ہیں؟ اگر ہاں تو پھر آپ کی جانب سے سندھ میں کرپشن، نا انصافی، ناقص حکمرانی اور جاگیرداروں کی حکومت کو اپنے ہمراہ بٹھانے پر سندھ کے لوگ آپ کو اسی صف بندی میں رکھ رہے ہیں جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کو رکھا گیا ہے۔

6۔ محض 20 منٹ کے اندر متحدہ کے تمام تر مطالبات مانتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کا رضامند ہونا دراصل سندھ کے کروڑوں لوگوں کے ووٹ کی توہین تھا جس پر آپ کی جانب سے فخر کا انداز اپنایا گیا۔

7۔ بحیثیت سندھ کا ایک عام ووٹر میں اس تمام تر صورتحال کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز، اس کے تمام تر اکابرین اور اس معاہدے پر دستخط کرنے والے قائدین کے اس عمل کو من و عن مسترد کر رہا ہوں اور اپنی تمام تر ہمدردیاں اس غرض سے پاکستان تحریک انصاف کے سپرد کر رہا ہوں کہ ایک دن انہیں موقع ملے گا اور وہ سندھ کے لوگوں کی امنگوں کا تقدس رکھتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کا احتساب یقینی بنائے گی۔

جناب، میرے اس خط لکھنے کا مقصد محض یہ تھا کہ آپ کو اس بات کا احساس دلاؤں کے کس طرح آپ سے اپنی سیاست کے چکر میں غلطیاں سرزد ہوئیں جن کے باعث آپ اپنے ہمدردوں کا حلقہ کھو بیٹھے۔ چنانچہ، ایک ووٹر کی حیثیت سے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی زیر قیادت بننے والی کسی بھی حکومت پر پیشگی عدم اعتماد کا اظہار کرتا ہوں۔

والسلام!
(سالار لطیف)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments