پاکستان کے انجنیئرز کا معاشی استحصال اور ارباب اختیار کی عدم دلچسپی


انجنیئر جو کبھی معاشرے میں تعمیری و تعلیمی معیار کے عکاس ہوا کرتے تھے، بد قسمتی سے آج ان کے مقام و مرتبے اور ایک طوائف کی معاشرے میں حیثیت کے درمیان کوئی خاطر خواہ فرق نھیں۔ میری اس شعبہ سے وابستگی ہمیشہ مجھے اس بات کا احساس دلائے رکھتی ہے کہ میں ایسے معاشرے کا حصہ ہوں جس نے ایک عالمی سطح کے شعبہ ء تعلیم سے وابستہ لوگوں سے ان کا وقار چھین کر انھیں بے روزگاری کے اندوہ ناک گڑھے میں زندہ دفن کر دیا یا انہیں نجی اداروں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا گیا۔

انہیں نجی کمپنیوں نے انجنیئرز کو رقاصہ کا کردار دے کر من مانی اجرت پہ ان سے کام لیا اور بعد اذاں ان کو بے روزگاری کی اندھیر نگری کے نذر کر دیا گیا۔ اور بچے کھچے جو رہ جاتے وہ مجبوراً پندرہ ہزار کے عوض ملکی و قومی ترقی میں حصہ ڈالتے۔ اور کام کی شدت اتنی کہ چند کوڑیوں کے عوض ان کی تمام تر سماجی و ذہنی استطاعت کو خرید لیا جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسی طبقہ سے وابستہ کچھ نام نہاد لوگ بھی اس کار خیر میں پیش پیش رہتے آئے ہیں۔

بے روزگاری کے چنگل میں پھنسے نوجوان انجنیئر یا تو چند کوڑیوں کے عوض ضمیر فروشی کے مرتکب ہوتے ہیں یا پھر کسی مجرم پیشہ گروہ کا حصہ بن کر معاشرے میں ذلت کا سبب بنتے ہیں۔ حکمران ٹولہ بھی انجنیئرز کو ان کا سروس سٹرکچر نہ دے کر اس غفلت میں شریک جرم ہے۔ اور اس سارے معاملے میں اہم بات یہ ہے کہ ایسے نو جوان انجنیئرز کی تعداد ایک لاکھ سے مزید بڑھنے کا خدشہ لاحق ہے۔ ذمہ داران کی جانب سے خاطر خواہ اقدامات نہ لئے گئے تو مستقبل قریب میں معاشی خود سوزی و بدحالی کی وعید ہے۔

سونے پہ سہاگہ یہ کہ اب انجنیئرز کی آسامیوں پر نان انجنیئرز کو بھرتی اور ترقی دینے جیسا قابل مذمت عمل بھی شروع ہو چکا ہے جس کو روکنا نہ صرف وقت کی اہم ضرورت ہے بلکہ اس کے متعلق واضح قانون سازی کی جائے تاکہ ملک کے معمار کی جڑیں کھوکھلی ہونے سے بچائی جائیں اور انجنیئرز ان تمام مسائل سے نکل کر ملک و قوم کے لیے جدوجہد جاری رکھیں۔ اور یہ بات بھی واضح ہے کہ یہ کام اتنا مشکل نہیں ہے کیونکہ ہر دور میں حکومتی ٹیم میں کوئی نہ کوئی انجنیئر ضرور رہے ہیں خواہ وہ انجنیئر احسن اقبال ہوں، انجنیئر خرم دستگیر ہوں یا قومی اعلی منصب پر فائز انجنیئر شاہد خاقان عباسی ہوں۔ بھلے وہ سیاسی نسبت سے ان عہدوں پر فائز رہے ہیں مگر ایسا ممکن نہیں کہ وہ انجینئرنگ کے شعبے کے زوال اور ان کے اسباب سے بے خبر ہوں۔ ارباب اختیار انجنیئرز کو بھی اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ اس شعبہ سے منسلک ساڑھے تین لاکھ نوجوان انجنیئرز کا مستقبل تاریک ہونے سے بچایا جا سکے

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments