پاکستان کی معاشی حالت : مسائل وجوہات اور حل


کسی بھی ملک کی معاشی بدحالی کے پیچھے اس کے حکمرانوں کی بد دیانتی کے ساتھ ساتھ اس ریاست کی ناکام خارجہ پالیسی بھی ہوتی ہے۔ ایسے ہی ریاست کی ترقی اس کی بہترین خارجہ پالیسی پر انحصار کرتی ہے اور بہترین خارجہ پالیسی مختلف عوامل پر منحصر ہوتی ہے، جیسے کہ ریاست کی جغرافیائی سیاسی صورتحال، اقتصادی ترجیحات، ثقافتی اقدار اور عالمی اتحاد۔ بہترین خارجہ پالیسی وہ ہوتی ہے جو قومی مفادات کو آگے بڑھاتی ہے اور عالمی استحکام، خوشحالی اور تعاون کو بھی فروغ دیتی ہے۔

خارجہ پالیسی میں تجارت عام طور پر اہم ترین عنصر ہوتا ہے۔ جس کے ذریعے ممالک ایک دوسرے کے ساتھ معاشی تعلقات قائم کرتے ہیں، یہ تعلقات ملکی اقتصاد کے لئے بہتری کا سبب بنتے ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ پڑوس ممالک کے ساتھ قائم ہونے والے تجارتی تعلقات ملکی معیشت کے لیے از حد فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں۔

زندگی تجربات کا نام ہے ہم مسلسل ہر گزرے دن سے کچھ سیکھ کر آنے والے دن کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ ان ہی تجربات کے ذریعے نئے دوست بناتے ہیں، مثبت تبدیلیاں لاتے ہیں اور ماضی میں ہوئی غلطیوں سے سیکھتے ہیں۔

جو کوئی بھی اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھتا یا انہیں نظر انداز کرتا ہے وہ ناکام رہتا ہے۔ کوئی بھی فردِ واحد ہو یا ریاست جتنا جلدی اپنی غلطی سے سیکھے اور اسے درست کر لے اتنا اس کی ترقی کے لیے بہتر ہوتا ہے۔

انشاءاللہ 14 اگست 2023 ء کو پاکستان اپنے 76 سال مکمل کر لے گا۔ 76 سالوں میں ایک انسان بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے تک کا سفر طے کر لیتا ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ 76 سالوں میں بھی ہمارا ملک اپنے اچھے بُرے، دوست دشمن، فائدہ نقصان کی سمجھ نہیں رکھتا جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں ہی۔

ہم نے نہ تو اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش کی اور نہ ہی دوسروں کو ترقی کرتا دیکھ ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی۔ زیادہ دور کی نہیں اپنے پڑوسی ممالک کی ہی بات کر لیں۔ چین، ایک ایسا ملک جو بیک وقت امریکہ اور سوویت یونین جیسی دو سپر پاورز سے برسر پیکار تھا جیسے ہی خطرے کا اندیشہ ہوا اس نے فوراً دشمن کا دشمن دوست والی حکمت عملی اپناتے ہوئے سوویت یونین کے ساتھ تعلقات بہتر بنا کر امریکہ کے خلاف صف بندی شروع کردی۔ اس طرح روس چین کا اہم اتحادی بن گیا اور صنعت کو ترقی دینے کے لیے چین کو بہت سی اہم ٹیکنالوجیز بھی فراہم کی، لیکن حال ہی میں ہونے والی روس یوکرین کی جنگ کے نتیجے میں روس پر عائد پابندیوں کے بعد روس کو چین کی زیادہ ضرورت ہے اور چین نے بھی مشکل کی گھڑی میں روس سے دوستی کا فرض نبھایا اور شانہ با شانہ کھڑا رہا۔ یہی دوستی کا تقاضا بھی ہوتا ہے۔

ایک نظر دوسرے پڑوسی ملک ایران کی جانب بھی کرلیتے ہیں ایران سعودیہ کے درمیان کشیدگی برسوں سے جاری ہے۔ شدید ترین اختلافات کے باوجود آج ملکی مفاد کی خاطر دونوں ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں۔

ایسی ہی حکمت عملی پر عمل پیرا آپ کو بھارت بھی دکھائی دے گا جو کسی پراکسی وار کا حصہ بننے کے بجائے ملکی مفاد، سالمیت اور ترقی کو ترجیح دیتا ہے۔ ان ہی ترجیحات کی بنا پر کوئی ملک عظیم ریاست کی طور پر دنیا میں ابھرتا ہے۔ پھر آخر ایسا کیوں ہے کہ ہمارا ملک کبھی کسی پراکسی وار کا حصہ بن کر اپنا نقصان کر لیتا ہے تو کبھی غلامی کی زنجیریں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ ہم چاہے جتنی باتیں کر لیں۔ عوام سے ٹیکس کی مد میں چاہے جتنا پیسہ بٹور لیا جائے یہ کبھی بھی ملک کو بحران سے نجات دلوانے کا مستقل حل نہیں ہو سکتا۔ ملکی صنعتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ ایک غیر جانبدار خارجہ پالیسی انتہائی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

ہر آنے والی حکومت نئے وعدوں کے ساتھ آتی ہے اور ہر جانے والی مخالف سیاسی جماعت کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے یعنی بلیم گیم کھیلتے ہوئے رُخصت ہوجاتی ہے۔ قومی خزانے کی حالت حکمرانوں کی دیانتداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تو مجھے کہہ لینے دیجیے ہمیں تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments