شائزو فرینیا اور مختلف مکاتب فکر (2)


جب ہم شائزوفرینیا کے نام، تصور اور تفہیم کا سائنسی نقطۂ نظر سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارا مختلف مکاتب فکر سے تعارف ہوتا ہے۔ کسی بھی پیچیدہ صورت حال کو سمجھنے کے لیے مختلف ماہرین اپنے اپنے تجربے، مشاہدے، مطالعے اور تجزیے سے مختلف نتائج تک پہنچے ہیں لیکن ایک سنجیدہ طالب علم ان تمام مکاتب کا خلوص سے مطالعہ کرتا ہے تاکہ اس موضوع پر اس کی معلومات سطحی نہ رہیں بلکہ عالمانہ ہوں۔

میں ان مختلف مکاتب فکر کو مختصراً بیان کروں گا تاکہ پڑھنے والوں پر ذہنی بیماریوں کے بارے ماہرین کی آراء کا نقطہ نظر واضح ہو سکے اور وہ جان سکیں کہ بیسویں صدی میں ذہنی بیماریوں اور خاص طور پر شائزوفرینیا کی تفہیم میں کتنا انقلاب آیا ہے۔ میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ یہ مکاتب فکر کسی خاص گروہ کے ممبر نہ تھے لیکن چونکہ مجھے ان کی تحریروں میں کچھ چیزیں مشترک نظر آئیں اس لیے میں نے ان کو فرداً فرداً بیان کرنے کی بجائے چند گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے تا کہ موضوع کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

1۔ بیانیہ مکتب فکر (Descriptive)

کسی بھی موضوع کو سائنسی نقطۂ نظر سے سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ ان کی بنیاد تصورات اور خیالات کی بجائے حقائق اور مشاہدات پر رکھی جائے۔ اس سلسلے میں بلائلر ’کریپلن کے نام اہم ہیں۔ اگرچہ شائزوفرینیا کا نام بلائلر نے تجویز کیا تھا لیکن اس سے پہلے کریپلن نے اسی بیماری پر ڈیمنشیا پریکوکس کے نام سے کافی کام کیا تھا۔ کریپلن سے بھی پہلے مورل نے یہ اصطلاح اپنے ایک مریض کی کہانی لکھتے ہوئے 1860ء میں استعمال کی تھی۔ مورل کا مریض چونکہ چودہ سال کی عمر میں اپنا ذہنی توازن کھو چکا تھا اس لیے مورل کا خیال تھا کہ ڈیمنشیا کی بیماری جو اکثر لوگوں کو بڑھاپے میں متاثر کرتی ہے وہ بیماری اس کے مریض کو نوجوانی میں ہی ہو گئی تھی اسی لیے اس نے اس کا نام ڈیمنشیا پریکوکس رکھا۔

اس تشخیص کا منفی پہلو یہ تھا کہ چونکہ بڑھاپے کے ڈیمنشیا کا کوئی علاج نہیں تھا اس لیے مورل اور دوسرے ماہرین یہ سمجھے کہ ڈیمنشیا پریکوکس بھی لاعلاج ہے۔ اس طرح طبی حلقوں میں اس نام کی وجہ سے مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔ کریپلن نے ایسے مریضوں کے علاج کے دوران اپنے مشاہدات پر مبنی ایک کتاب بھی لکھی جس کا نام تھا Dementia Praecox and Paraphrenia یہ کتاب  1919 ء میں چھپی تھی۔
کریپلن نے اس بیماری کی چار اقسام بھی بیان کیں اور ان کا نام Hebephrenic/Cataonic/Paranoid/Simple رکھا تھا۔ جوں جوں کریپلن کی بصیرتیں بڑھنے لگیں اس نے مریض اور اس کے مرض پر خاندانی اور معاشرتی اثرات کا بھی مطالعہ کرنا شروع کر دیا تھا۔

بلائلر جس نے شائزوفرینیا کا نام تجویز کیا تھا۔ یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ اس مرض میں ذہن کے مختلف کام جو صحت کی حالت میں نظم و ضبط کی صورت میں آگے بڑھتے ہیں بے ترتیبی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ذہنی توازن کھونے کی وجہ سے ان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے چنانچہ اس بیماری کے نئے نام کی وجہ سے اس کا نیا مفہوم بھی اجاگر ہوا۔

بلائلر نے Latent Schizophrenia کا تصور بھی پیش کیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ بعض لوگوں میں یہ مرض خفیہ ہوتا ہے اور بحران کی صورت میں پیدا ہوتا ہے لیکن بعد میں یہ تصور ترک کر دیا گیا اور کسی شخص کو اس وقت تک مریض نہ کہنے کی روایت پڑی جب تک اس کے عوارض اور علامات کھل کر سامنے نہ آجائیں۔ بلائلر نے آہستہ آہستہ نفسیاتی عوامل کو بھی اہمیت دینی شروع کی اور فرائڈ کی بصیرتوں سے متاثر ہوا، اس نے حیاتیاتی اور نفسیاتی عوامل اور محرکات میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کی۔ بلائلر کی بصیرت آج تک قابل قدر سمجھی جاتی ہے وہ مرض کی علامات کو چار حصوں میں تقسیم کرتا ہے تاکہ ماہرین کو تشخیص کرنے میں آسانی ہو، اس نے انہیں 4 As کے نام سے پیش کیا جو:

Autism
Ambivalence
Affect
Association

اور آج بھی بہت سے ماہرین نفسیات اسے استعمال کرتے ہیں۔ ان علامات پر مستقبل کی کسی قسط میں توجہ مرکوز کی جائے گی۔ بلائلر نے شائزوفرینیا کے بارے میں جو کتاب 1919 میں رقم کی تھی اس کا انگریزی میں ترجمہ 1950 میں ہوا تھا۔

2۔ تحلیل نفسی مکتبہ فکر (Psycho-analytical)

جس دور میں کریپلن اور بلائلر شائزوفرینیا کے مرض کی تشخیص اور علامات پر اپنی توجہ مرکوز کر رہے تھے اسی دور میں چند ماہرین نفسیات مریض کی ذہنی کیفیت اور اس کے تضادات کی تفہیم کو زیر مطالعہ لا رہے تھے اس سلسلے میں سگمنڈ فرائڈ اور کارل ینگ کی تصانیف ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔ ویسے تو ان دونوں ماہرین کی بصیرت بے پناہ ہے۔ ان کی تصانیف اور ان پر لکھی ہوئی کتابوں سے لائبریریاں بھری پڑی ہیں لیکن یہاں میں چند ایک نکات کا ذکر کروں گا جن کا ہمارے موضوع سے تعلق ہے۔

فرائڈ نے اس ذہنی کیفیت کا جسے ہم سائیکوسس کہتے ہیں اور جو ذہنی توازن کھونے کی بنیادی کڑی ہے نہایت سنجیدگی سے مطالعہ کیا۔ فرائڈ نے 1894 اور 1896 میں سائیکوسس اور پیرانویا پر مقالات لکھے جن میں انسانی ذہن کی حفاظتی تدابیر کا بھی ذکر کیا۔ فرائڈ کا کہنا تھا کہ پیرانویا میں مریض پروجیکشن کی حفاظتی تدبیر استعمال کرتا ہے۔ اس حفاظتی تدبیر کے مطابق جب مریض کے لیے ایک خاص قسم کے جذبات پریشانی کا سبب بنتے ہیں تو وہ انہیں دوسرے شخص کی طرف منتقل کر دیتا ہے اور یہ عمل کئی مراحل سے گزرتا ہے جسے مختصراً یوں پیش جا سکتا ہے۔

میں اس سے محبت کرتا ہوں
میں اس سے محبت نہیں کرتا
میں اس سے نفرت کرتا ہوں
وہ مجھ سے نفرت کرتا ہے
پیرونویا اور سکزوفرینیا کے مریض کی نفسیاتی کیفیت کو سمجھنے میں پروجیکشن کی حفاظتی تدبیر ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔

فرائڈ کی نفسیاتی تحقیق کے جہاں بہت سے مثبت پہلو ہیں وہیں ایک منفی پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ فرائڈ کا خیال تھا کہ چونکہ شائزوفرینیا کا مریض کسی دوسرے انسان سے جذباتی تعلق قائم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اس لیے اس کا نفسیاتی علاج نہیں ہو سکتا ۔ اسی لیے فرائڈ سکزوفرینیا کے مریضوں کو تحلیل نفسی کے لیے قبول نہ کرتا تھا۔

فرائڈ پہلا ماہر نفسیات تھا جس نے شائزوفرینیا کے عوارض کو نفسیاتی نقطۂ نگاہ سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی اگرچہ آج ہم ان عوارض کی تفہیم قدرے مختلف انداز میں کرتے ہیں لیکن فرائڈ سے کئی حوالوں سے اختلاف کرنے کے باوجود ہم فرائڈ کی عظمت سے انکار نہیں کر سکتے۔

فرائڈ کے علاوہ یونگ نے بھی اس سلسلے میں اہم مشاہدے پیش کیے اس کی کتاب  1930ء میں Psychology of Dementia Praecox کے عنوان سے چھپی تھی۔ ینگ مریض کو چند الفاظ دیتا تھا اور پھر ان سے کہتا تھا کہ ان کے ذہن میں جو کچھ آئے وہ اس کا اظہار کرتے رہیں اس طرح اس نے نفسیاتی مطالعہ کے لیے WORD ASSOCIATION TEST بنایا تھا۔ ینگ کا خیال تھا کہ مریض کے عوارض اس کے لاشعوری تضادات کی وجہ سے ہیں جن پر مریض کو کوئی اختیار نہیں۔ یونگ کا خیال تھا کہ شائزوفرینیا کے مرض کی صورت میں مریض کا لاشعور اس کے شعور پر غالب آ جاتا ہے اور مریض اپنے مرض میں مقید ہوجاتا ہے۔

3۔ انسانی رشتوں کا مکتبہ فکر (INTERRPERSONAL)

اس مکتبہ فکر کا بانی امریکی ماہر نفسیات ہیری سٹاک سالیوان ہے جس نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں انسان کے لاشعور میں جھانکنے کی کوشش کی بجائے اس کے رشتوں پر زیادہ غور و فکر کرنا چاہیے۔ اس نے ثابت کیا کہ ہم ذہنی صحت اور بیماری کے بارے میں ان کی رشتوں کے حوالے سے بہت سی بصیرت حاصل کر سکتے ہیں۔ سالیوان کے فلسفے میں شائزوفرینیا جیسی ذہنی بیماری میں انسانوں کی عزت نفس کو کلیدی حیثیت حاصل ہے

اس کا خیال ہے کہ بچہ بڑوں کے رحم وکرم پر ہوتا ہے اگر اس کے ماں باپ، رشتہ دار، اساتذہ اسے مثبت احساس دلاتے رہیں تو وہ اپنے آپ کو پسند کرنے لگتا ہے، اور اگر اس پر ہمیشہ تنقید کرتے رہیں تو اس کا اپنے بارے میں تصور مجروح ہوتا رہتا ہے اور وہ اپنے آپ کو ناپسند کرنے لگتا ہے۔

اگر والدین بچے سے کہتے ہیں کہ
تم خوبصورت ہو،
تم قابل ہو،
تم طاقتور ہو،

تو ایک دن وہ یہ باور کرنے لگتا ہے کہ میں خوبصورت ہوں۔ میں قابل ہوں، میں طاقتور ہوں، لیکن اگر والدین یہ کہتے رہیں کہ

تم بدصورت ہو،
تم کند ذہن ہو،
تم کمزور ہو
تو ایک دن بچہ یہ باور کرنے لگتا ہے کہ میں بدصورت ہوں، میں کند ذہن ہوں، میں کمزور ہوں۔

سالیوان ذات کے مثبت تصور کو گڈ می اور منفی تصور کو بیڈ می کے نام سے پکارتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر منفی تصور اتنا بڑھ جائے کہ مریض کے لیے ناقابل برداشت ہو جائے تو کسی نفسیاتی بحران کے دوران وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے۔ نفسیاتی بحران کے دوران بیڈ می کا ایک حصہ نوٹ می بن جاتا ہے اور مریض کو غیبی آوازیں آنے لگتی ہیں جو اس سے کہتی ہیں

تم بدصورت ہو
تم چغد ہو
تم بے وقوف ہو

جو اس کے لیے مقابلتاً کم تکلیف دہ ہوتا ہے۔ سالیوان نے ہمیشہ مریض کے علاج میں اس کی عزت نفس کے احترام پر زور دیا۔

سالیوان کے نقطۂ نظر کو ماہر نفسیات فریڈا فرام رائخمین نے چند قدم آگے بڑھایا، اس نے انہی اصولوں کو نفسیاتی ہسپتال کے ان مریضوں پر استعمال کیا جو وہاں برسوں سے داخل تھے۔ اس کا خیال تھا کہ ہمیں مریضوں کو اپنے علاج میں ڈھالنے کی بجائے جیسا کہ فرائڈ کی خواہش تھی، اپنے طریقہ علاج کو مریضوں کی ضرورت کے مطابق ڈھالنا چاہیے۔ مثال کے طور پر اس نے کہا کہ شائزوفرینیا کے مریض کے لیے ہفتے میں ایک دفعہ ایک گھنٹے کے انٹرویو کی بجائے ہفتے میں تین دفعہ بیس بیس منٹ کا انٹرویو زیادہ حقیقت پسندانہ اور مفید ہو گا۔ وہ مریضوں سے کہتی کہ اگرچہ وہ ان کے توہمات اور غیبی آوازوں کے تجربے کو سمجھنے سے قاصر ہے لیکن پھر بھی ان کی مدد کرنے کو تیار ہے۔

4۔ وجودیت اور انسانی دوستی کا مکتبہ فکر (Existentialist and Humanistic)

یہ ان ماہرین کا مکتب ہے جنہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں مرض کی بجائے مریض کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے اور اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ مریض نے جن دشوار ’تکلیف دہ اور نامساعد حالات میں پرورش پائی ہے اور قدم قدم پر جس طرح اس کی ذات، اس کی انا، اس کی خود داری مجروح ہوتی ہے ان حالات میں وہ اپنا ذہنی توازن نہ کھوتا تو اور کیا کرتا۔

اس مکتبہ فکر کا ایک اہم نام آر ڈی لینگ ہیں جن کی کتاب THE DIVIDED SELF سکزوفرینیا کے وجودی اور انسان دوستی کے نظریے کو سمجھنے میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ لینگ کا کہنا تھا کہ ہمیں شائزوفرینیا کے مریض کے بارے میں ہمدردانہ رویہ رکھنا چاہیے۔ لینگ ایک ماہر نفسیات ہی نہیں ایک ادیب بھی تھے۔ انہوں نے شائزوفرینیا کے بارے میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بہت سے پروگرام کیے تا کہ عوام و خواص ذہنی بیماری اور صحت کے بارے میں جان سکیں۔

5۔ خاندانی نظام کا مکتبہ فکر (FAMILY Systems School)

پچھلی چند دہائیوں میں جس مکتبۂ فکر اور علاج نے مغربی دنیا میں بہت مقبولیت حاصل کی ہے وہ خاندانی نظام کا نظریہ ہے۔ اس نظریے کو پیش کرنے والے ماہرین نفسیات میں ہیلی ’منوچن اور مرے بوون سرفہرست ہیں۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ شائزوفرینیا کا مریض ایک خاندانی نظام کا حصہ ہوتا ہے اس لیے جب تک ہم اس پورے نظام کو نہ سمجھیں گے اور اس کا علاج نہ کریں گے ہم زیادہ کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ مریض کو ہسپتال میں داخل کر کے علاج کریں گے تو وہ ٹھیک ہو جائے گا لیکن جونہی وہ واپس اپنے ذہنی بیمار خاندان میں جائے گا اس کے دوبارہ بیمار ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے اس لیے ان ماہرین نے پورے خاندان کے ساتھ کام کرنے کی ترغیب دی ہے اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کسی ایک عمل کی ایک وجہ نہیں ہوتی بلکہ ہر عمل کے پس پردہ بہت سے عوامل اور محرکات کارفرما ہوتے ہیں اور جب تک ہم ان سب کو مدنظر نہ رکھیں ہم اپنے علاج میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اس طرح انہوں نے نفسیاتی تحقیق اور علاج کا کینوس کافی وسیع کر دیا ہے۔

خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے جاننے والے اب آہستہ آہستہ ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں اور مسائل کو مل جل کر حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس سے مریضوں اور ان کے خاندانوں کو بہتر علاج ملنے کے امکانات اجاگر ہو رہے ہیں۔ (جاری ہے )

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 691 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments