مہربان سائبان بالآخر رخصت ہوا


شعیب ہاشمی صاحب کافی عرصہ سے علیل تھے۔ ان کی بابت ”بری خبر“ آنے کے بارے میں لہٰذا میں کئی مہینوں سے تیار تھا۔ اس کے باوجود پیر کے روز ان کے انتقال کی مصدقہ خبر ملی تو جی دہل گیا۔ یوں محسوس ہوا کہ اپنے ساتھ میری جوانی کا بہت بڑا حصہ بھی وہ لے گئے ہیں۔ یادداشتوں کا ذخیرہ یک دم خالی ہو گیا۔

شعیب صاحب پکے لاہوری تھے۔ اس شہر کے قدیمی گھرانوں کے حسب نسب اور نئی نسلوں کی بابت ہر شے سے باخبر۔ ریڈیو پاکستان لاہور کے سکول براڈکاسٹ کے پروگراموں میں حصہ لینے کے لئے مجھے ہر ہفتے کم از کم دو بار گھر سے پیدل چلتے ہوئے ریڈیو کی عمارت جانا ہوتا تھا۔ اس عمارت کے پچھواڑے میں ان دنوں پاکستان ٹیلی وژن کی بنیاد رکھی جا رہی تھی۔ پروگرام سے فارغ ہو کر منہ اٹھائے وہاں چلا جاتا۔ وہاں کام کرتے لوگوں کو رشک سے دیکھتا رہتا۔

گرمیوں کی ایک سخت دوپہر وہاں گیا تو بھاری بھر کم دکھتے موٹی مونچھوں والے ایک صاحب نے رعب دار لاہوری زبان میں مجھے للکارا۔ مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ ہر دوسرے روز میں وہاں کس لئے منڈلاتا رہتا ہوں۔ گھبرا کر وہاں سے کھسکنے کی کوشش کی تو مصنوعی غصے سے انہوں نے اپنے پاس بلا لیا۔ میرا نام پوچھا۔ سکول اور محلے کے ذکر کے بعد خاندان کے بارے میں سرعت سے معلومات جمع کر لیں۔ میرے ایک تایا زاد بھائی سے ان کی شناسائی تھی۔ نہایت بے تکلفی سے انہیں ”ناکارہ“ ٹھہرانے کے بعد ”اطلاع“ مجھے یہ دی کہ سکول براڈ کاسٹ کے کوئز پروگرام میں ہر ہفتے کامیاب ہونا عندیہ دے رہا ہے کہ میں ”ذہین ہو سکتا ہوں“۔ یہ ارشاد فرمانے کے بعد کھوج یہ لگانا چاہی کہ ”پڑھاکو“ ٹائپ نظر آنے کے باوجود میں ٹی وی کی عمارت میں کیوں گھس آتا ہوں۔ برجستہ سادگی اور دیانت سے میں نے انہیں جواب دیا کہ مجھے وہاں کے سٹوڈیوز میں دیواروں پر ہوا نیلا رنگ بہت بھاتا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ یہاں استعمال ہونے والی ہر شے آسمانی رنگ کی کیوں ہوتی ہے۔ میرے بچگانہ خیالات کو انہوں نے بہت توجہ سے سنا۔ مسخروں کی طرح آنکھیں پھیلا کر ان سے لطف اندوز ہوتے رہے۔

میں نے تقریر جھاڑ لی تو پنجابی میں صرف اتنا سمجھایا کہ ٹی وی کے لئے جو کیمرے ان دنوں استعمال ہوتے تھے وہ نیلے رنگ کو زیادہ جاذب نظر بناتے ہیں۔ ان سے ملنے ”سٹار“ ٹائپ کئی افراد بھی ہماری گفتگو کے دوران ان کے گرد جمع ہونا شروع ہو گئے۔ ان سب سے انہوں نے بہت شفقت سے مجھے متعارف کروایا۔ ساتھ ہی یہ فقرہ بھی کس دیا کہ مجھ سے مل کر انہیں اطمینان ہوا ہے کہ رنگ محل کا مشن ہائی سکول ”اب بھی“ چند ”پڑھاکو“ طلبا پیدا کر رہا ہے۔ شعیب صاحب کی بے اعتنائی دکھتی شفقت کی بدولت ہی بالآخر آغا ناصر جیسے غیر معمولی ذہانت کے حامل ٹی وی پروڈیوسر سے قربت نصیب ہوئی۔ منو بھائی کے چہیتے چمچوں میں بھی شامل ہو گیا۔

بدقسمتی مگر یہ ہوئی کہ میٹرک کا امتحان قابل رشک نمبروں کے ساتھ پاس کرنے کے بعد 1971 میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ مل گیا۔ میں وہاں داخل ہونے سے قبل ہی ”انقلابی“ ہو چکا تھا۔ مجھے گماں تھا کہ نصاب کے لئے جو کتابیں تیار کی جاتی ہیں وہ آپ کے ذہن میں ابلتے سوالات کے تشفی بخش جواب فراہم نہیں کرتیں۔ مجھے کلاس اٹینڈ کرنے کی ضرورت نہیں۔ امتحان قریب آئے تو نصابی کتابوں پر دو تین ماہ کی توجہ کی بدولت ڈگری کے حصول کی طرف بڑھ جاؤں گا۔ فلسفہ اور انگریزی ادب میری ترجیح تھے۔ انٹرمیڈیٹ کے لئے مگر ایک اور مضمون بھی اختیار کرنا لازمی تھا۔ میں نے بے دلی میں اکنامکس کو چن لیا۔ اسے چن لیا تو چند دنوں بعد دریافت ہوا کہ اس مضمون کی ہفتے میں ایک بار کلاس شعیب صاحب بھی لیتے ہیں۔ ان کی کلاس سے غائب ہونے کی جرات کوئی طالب علم دکھا ہی نہیں سکتا تھا۔ میں البتہ ”انقلابی“ ہو چکا تھا۔ جرات دکھا دی۔ اس کے نتیجے میں جو بھگتا اس کا ذکر کرنے کی ہمت نہیں۔ سر جھکائے اس کے بعد ان کی کلاس ہر صورت اٹینڈ کرتا رہا۔ اس کے باوجود آخری ملاقات تک مجھے ”بد دا پتر بھگوڑا“ کہہ کر بلاتے رہے۔

شعیب صاحب گورنمنٹ کالج کی ڈرامیٹک کلب کے سرپرست بھی تھے۔ ان کی بہت خواہش تھی کہ میں اس کلب کا متحرک رکن بنوں۔ وہ مصر تھے کہ میرا مشاہدہ اور یادداشت تھیٹر کے ہنر کے لئے بہت کارآمد ہے۔ میں لیکن ”انقلاب“ لانا چاہ رہا تھا۔ شعیب صاحب اس کے بے چینی سے منتظر نہیں تھے۔ بہت خلوص سے یہ سوچتے کہ معاشرے یک دم تبدیل نہیں ہوتے۔ کئی نسلوں کو ابلاغ کے تمام تر ذرائع تخلیقی انداز میں استعمال کرتے ہوئے معاشروں کو بدلنا پڑتا ہے۔ مزاح کی صنف کو وہ اس تناظر میں اہم ترین گردانتے تھے۔ ہمارے ہاں بھانڈوں کی قائم کردہ روایت کو عقیدت سے سراہتے۔ مجھ سے گلہ ان کا یہ بھی رہا کہ میں ”انہماک“ کی نعمت سے قطعاً محروم ہوں۔ انہماک سے محروم ذہانت ان کی دانست میں بالآخر بانجھ ثابت ہوتی ہے۔

انہماک کی عادت پختہ کرنے کے لئے وہ ”ترکھانوں“ کی طرح لکڑی سے کوئی شے تیار کرنے میں کافی وقت صرف کرتے۔ جسمانی مشقت ان کے لئے ایک نوعیت کا ”ریاض“ تھا جو کامیاب ترین گلوکار بھی ہر صبح اپنے لئے لازمی محسوس کرتا۔ صلاحیتوں سے مالا مال شخصیت کو مسلسل ”ریاض“ سے صیقل کرنے کے باوجود شعیب صاحب عاجزی اور انکساری کی حتمی علامت ہی رہے۔ خود کو ”سیلیبرٹی“ شمار ہی کبھی نہیں کیا۔ اپنے ہم عصروں سے گپ شپ میں وقت گزارنے کے بجائے وہ ان نوجوان فنکاروں کی تلاش میں رہتے جو تخلیقی امکانات سے مالا مال تھے۔ شعیب صاحب حیران کن سادگی اور پرکاری سے ایسے باصلاحیت نوجوانوں کو ”مزید“ کے لئے اکسانے میں کامیاب ہو جاتے۔ ان میں سے چند ایک نے نام کما لینے کے بعد شعیب صاحب سے بے اعتنائی اختیار کرلی۔ ایک لمحے کو بھی لیکن شعیب صاحب نے انہیں ان کی ”اوقات“ یاد دلانے کی کوشش نہیں کی۔ اپنے ہر چہیتے شاگرد سے انہیں شدید گلہ محض اس وقت ہوتا جب وہ لاہور میں کئی دن گزارنے کے باوجود ”سلام کرنے“ ان کے ہاں حاضری نہ دیتا۔ میری بیوی سے لاہور میں دو بار ان کی شادیوں میں ملاقات ہوئی۔ پہلی ملاقات میں وہ بہت حیران ہوئی جب وہ خود اٹھ کر اس کے پاس آئے اور بے تکلفی سے پوچھا ”بدنصیب بچی تیرا بد دا پتر بندا کتھے وے“۔ دونوں بار میں لاہور میں موجود نہیں تھا اور یوں جاں بخشی ہو گئی۔

صلاحیتوں بھرے نوجوانوں کا ہمہ وقت مہربان سائبان بالآخر اس دنیا سے رخصت ہوا۔ میں ان کے سکھائے رویے کے مطابق ”اکڑ بکڑ بمبے پو۔ اسی نوے پورے سو“ کہتے ہوئے ”ملال“ کا اظہار کرنے کو مجبور محسوس کر رہا ہوں۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments