بے یقینی کے سائے!


بے یقینی کی کیفیت کسی بھی معاملے میں اچھی نہیں ہوتی۔ اسے المیہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک کے سیاسی اور معاشی حالات پر ہمیشہ بے یقینی کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں۔ اب انتخابات کی آمد آمد ہے۔ لیکن اس معاملے پر بھی بے یقینی کے سائے چھائے ہوئے ہیں۔ وفاقی حکومت عندیہ دے چکی ہے کہ وہ اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد حکومت کی باگ ڈور نگران حکومت کے حوالے کر دے گی۔ حکومت کی آئینی مدت مکمل ہونے میں چند دن باقی رہ گئے ہیں۔

رخصتی کے دروازے پر کھڑی وفاقی حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2023 منظور کروایا ہے۔ اس ترمیمی بل میں نگران حکومت کے اختیارات میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر نگران حکومت کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ پہلے سے جاری ترقیاتی منصوبوں کو جاری رکھ سکے گی۔ بالکل اسی طرح نگران حکومت معیشت کے حوالے سے فیصلے کرنے کے لئے با اختیار ہو گی۔ اس ترمیمی بل پر کافی لے دے ہو رہی ہے۔

کچھ سیاسی جماعتیں اور صحافتی تجزیہ کار معترض ہیں کہ حکومت کو رخصتی سے چند دن قبل اس بل کو لانے کی کیا ضرورت تھی؟ مخالفین وفاقی حکومت کی نیت پر شک کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس سے قبل بہت سوں کو ڈر تھا کہ شہباز حکومت کوئی نہ کوئی آئینی طریقہ اور جواز تراش کر اپنی مدت اقتدار میں ایک سال کا اضافہ کر لے گی۔ اب نگران حکومت کے بارے میں اس خدشے کا اظہار ہو رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ترمیمی بل کے ذریعے نگران حکومت کو طاقتور بنانا دراصل نگران حکومت کا عرصہ اقتدار بڑھانے کے منصوبے کا حصہ ہے۔

اس سارے قضیے میں حکومت کا موقف ہے کہ اس قانون سازی کا مقصد انتخابی اصلاحات اور معاشی فیصلوں کا تسلسل قائم رکھنا ہے۔ نہایت تگ و دو کے بعد آئی۔ ایم۔ ایف کے ساتھ حکومت پاکستان کے معاملات طے ہوئے ہیں۔ اب اگر چند ماہ تک معاشی معاملات التوا کا شکار رہتے ہیں تو اس صورتحال کے ملکی حالات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ یہی جواز ترقیاتی منصوبوں سے متعلق اختیارات کے بارے میں دیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر نگران حکومتوں میں پہلے سے جاری ترقیاتی منصوبوں پر کام روک دیا جاتا ہے۔ جاری منصوبے التوا کا شکار ہوتے ہیں تو ان کی لاگت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ کروڑوں، اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ زیر تعمیر سڑکوں، شاہراہوں، پلوں، وغیرہ پر جاری کام رکنے سے عوام کو بھی مہینوں تلک مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

میڈیا پر اس ترمیمی بل کے جس حصے پر سب سے زیادہ بات ہو رہی ہے، وہ نگران حکومت سے متعلق ہے۔ تاہم سیاسی اور صحافتی حلقوں میں بل میں الیکشن کے حوالے سے شامل نہایت اہم ترامیم کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ 2018 میں ملکی تاریخ کے سب سے مہنگے انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ انتخابی نتائج کی ترسیل کے لئے ایک مہنگا آر۔ ٹی۔ ایس (results transmitting system) متعارف کروایا گیا۔ لیکن ہوا یہ کہ مذکورہ سسٹم عین وقت پر بیٹھ گیا۔

کئی سال گزرنے کے بعد یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ اس سسٹم کو بٹھا دیا گیا تھا تاکہ نتائج کا رخ تحریک انصاف کے حق میں موڑ ا جا سکے۔ اب الیکشن ایکٹ ترمیمی بل میں انتخابی نتائج کی فوری اور بلا تاخیر ترسیل کو یقینی بنانے کے لئے نکات شامل کیے گئے ہیں۔ نئی قانون سازی کے تحت پریذائیڈنگ افسر فوری طور پر انتخابی نتائج الیکشن کمیشن اور آر۔ او تک پہنچانے کا ذمہ دار ہو گا۔ بل میں یہ شق بھی شامل ہے کہ سیکیورٹی افسران کو پولنگ بوتھ کے اندر تعینات نہیں کیا جائے گا۔

یہ جوان پولنگ بوتھ کے باہر موجود رہیں گے۔ ترمیمی بل میں خواتین، خواجہ سراؤں اور معذور افراد کے ووٹ ڈالنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اسے میڈیا اور سیاست دانوں کی یک نگاہی کہنا چاہیے کہ ترمیمی بل پر ہونے والی بحث میں ان اہم نکات کا ذکر کم کم ہی ہو رہا ہے۔ ساری بحث نگران حکومت تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے پیشن گوئی کر دی ہے کہ سپریم کورٹ اس قانون پر عمل درآمد روک دے گی۔ یعنی اس قانون کا وجود بھی بے یقینی کے گھیرے میں ہے۔

اس سارے قصے میں اس بات کا ذکر ضروری ہے۔ 2013 میں جب عمران خان نے جب دھاندلی کا شور مچایا تھا تو اس وقت نواز شریف حکومت نے ایک انتخابی اصلاحات کمیٹی بنائی تھی۔ تحریک انصاف سمیت تمام جماعتیں اس کمیٹی کا حصہ تھیں۔ اسحاق ڈار صاحب کی سربراہی میں قائم اس کمیٹی نے کم و بیش 130 میٹنگوں کے بعد اپنی تجاویز دی تھیں۔ ان تجاویز کی روشنی میں قانون سازی ہوئی تھی۔ موجودہ الیکشن ترمیمی بل اسی عمل کا ایک تسلسل ہے۔ تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتیں اس ترمیمی بل کے حوالے سے مشاورتی عمل میں شامل تھیں۔ باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ علی ظفر صاحب نے کمیٹی میں اس ترمیمی بل کی حمایت کی اور باقاعدہ دستخط بھی کیے۔ لیکن میڈیا کے سامنے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے اس کو تنقید کا نشانہ بنا یا۔ اس قسم کے سیاسی رویوں سے ہی سیاسی معاملات میں بے یقینی کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔

اس سارے قصے میں ابھی نگران وزیر اعظم کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ چند دن پہلے اس عہدے کے لئے اسحاق ڈار صاحب کا نام زیر گردش تھا۔ مخالفین نے اس تجویز پر خوب تنقید کی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سیاسی جماعت کا نہایت اہم رکن اور وزیر خزانہ نگران وزیر اعظم بنا دیا جائے۔ یہ تنقید یقیناً قابل جواز ہے۔ نگران وزیر اعظم کا معاملہ ابھی بے یقینی میں گھرا ہوا ہے۔ ہم یہ بھی سنتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف صاحب وطن واپس آرہے ہیں۔

وہ الیکشن میں حصہ لیں گے اور وزارت عظمیٰ کے امید وار ہوں گے۔ دوسری طرف اطلاع آتی ہے کہ ان کے آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ سیاسی منظر نامے میں یہ تاثر بھی موجود ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان صاحب پر جو کرپشن مقدمات چل رہے ہیں۔ ان میں انہیں سزا ہوگی اور وہ نا اہل ہو جائیں گے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ ان کی پارٹی یعنی تحریک انصاف انتخابی عمل سے باہر ہو جائے گی۔ یعنی اہم سیاسی اور انتخابی معاملات کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔

انتخابات کسی ملک او ر اس کے سیاسی نظام کے لئے نہایت اہم ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں انتخابات اور اس سے جڑے معاملات پر بے یقینی کی کیفیت طاری ہے۔ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ انتخابات ہونے بھی ہیں یا نہیں۔ ہونے ہیں تو کب ہوں گے؟ نگران حکومت کتنا عرصہ قائم رہے گی؟ یہ بھی نہیں معلوم کہ انتخابات شفاف ہوں گے یا 2018 کی طرح آر۔ ٹی۔ ایس بیٹھ جائے گا اور نتائج تبدیل ہو جائیں گے۔ دنیا کے مہذب ممالک میں انتخابات اور اس سے جڑے تمام معاملہ تو طے شدہ تاریخوں کے مطابق چلتے ہیں۔ لیکن ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ہم یقین اور بے یقینی کے درمیان لٹکتے رہتے ہیں۔

بہرحال امید کی جا سکتی ہے کہ یہ حکومت رخصت ہو۔ نگران حکومت قائم ہو۔ خیر و عافیت سے انتخابات ہوں۔ اس سارے معاملے میں انتخابی نتائج کی شفافیت سب سے حساس معاملہ ہے۔ سیاسی پسند، نا پسند سے قطع نظر، لازم ہے کہ انتخابات شفاف ہوں۔ نتائج کی فوری اور بر وقت ترسیل کو یقینی بنایا جائے۔ انتخابی نتائج تسلیم کیے جائیں اور پانچ سال کے لئے قائم ہونے والی حکومت کو چلنے دیا جائے۔ اللہ کرے کہ آنے والے انتخابات ہمارے ملک اور عوام کے لئے بہتری کی امید لے کر آئیں۔ آمین

۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments