اکثر شب تنہائی میں


بیس اکتوبر نادر کاکوروی کی برسی ہے۔ 111 ویں برسی۔ اگر آپ کہیں کہ ”کاکوروی کون؟“ تو اس استعجاب میں آپ تنہا نہیں ہیں۔ منشی علی خان المعروف نادر کاکوروی 1857 لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ انہیں زندگی میں بھی کم ہی پذیرائی نصیب ہوئی۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ جنہیں دنیا جانتی ہے وہ ان کے معترف ہیں۔ اقبال نے ایک ہی شعر میں دو نابغہ شخصیات سے انس کا اظہار کیا ہے۔

نادر و نیرنگ ہیں اقبال میرے ہم صفیر
ہے اسی تثلیث فی التوحید کا سودا مجھے

نیرنگ بھیک اقبال کے دوست اور اسی ہاسٹل کے مقیم تھے جہاں علامہ کا زمانہ طالبعلمی میں گزران تھا۔ نادر کو اقبال سے ملاقات کا موقع نہیں ملا۔

عہد حاضر میں نادر کاکوروی کی وجہ شہرت ایک انگریزی نظم کا ترجمہ ہے۔ اندازہ کیجئیے جو شخص کسی بیگانی زبان میں لکھی گئی نظم کا ایسا شاندار ترجمہ کرنے کی قدرت رکھتا ہو وہ طبع زاد کتنا شاندار کہتا ہو گا۔ ان کا مجموعہ کلام ”جذبات نادر“ کے نام سے دستیاب ہے۔

آئرش شاعر سر تھامس موور کی مشہور نظم
”In the Stilly Night“

کا ترجمہ ”اکثر شب تنہائی میں“ جناب کاکوروی صاحب کا تحفہ ہے۔ موور لفظ کے مطالب میں ایک شمالی افریقی سیاہ میلان آدمی کے بھی ہیں۔ ایک آئرش شخص جس کا نام موور ہے، اس کی نظم کا ترجمہ ایک ایسی قوم کے فرد نے کیا جسے استعمار سیاہ فام ہی تصور کرتا ہے۔ کمال نظم ہے ”اکثر شب تنہائی میں“ اسے محض ترجمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تھامس موور کی نظم قدرے مختصر ہے، کاکوروی صاحب نے اس میں ہندوستانی معاشرت اور حساسیت شامل فرما کر اسے واقعی نادر ہی کر دیا ہے۔ اس نظم میں ایک اور دلچسپ کام کاکوروی صاحب کا انگریزی لفظ ”ہال“ کا بلا تکلف استعمال ہے۔ گو اس تعمیراتی وضع کا نزدیک ترین اردو مترادف یعنی ”دیوان“ نہایت سہولت سے استعمال کیا جاسکتا تھا۔ مثلاً

پرنالے ہیں روزن نہیں
’دیوان‘ ہے، آ نگن نہیں

”اکثر شب تنہائی میں“ مختلف گلوکاروں نے گائی ہے۔ یہاں ایک نہایت دلچسپ امر لائق توجہ ہے، اس پر مختصر تبصرہ یہاں کئیے دیتے ہیں، تفصیلی بات کسی اور موقع کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ اردو کے دو بڑے شعرا کے سلسلہ میں کوئی بحث و تمحیص نہیں ہے، تاہم اگر دو بڑی غزلیں منتخب کرنی ہوں تو وہ لازم نہیں کہ میر اور غالب ہی کی ہوں۔ اسی طرح نہایت مقبول غزلیں بڑے یا مشہور استادوں کی گائی ہوئی سب سے زیادہ معروف نہیں ہیں۔ ”اکثر شب تنہائی میں“ استاد امانت علی خان صاحب نے بھی گائی ہے اور ریشماں نے بھی۔ فقیر کی ناچیز رائے میں خانصاحب کی گائی ہوئی بالکل ایسی ہے جیسے کوئی بچہ اسکول کی اسمبلی میں نرسری رائم پڑھ رہا ہو۔ جبکہ ریشماں نے اس نظم کی گائیکی میں ”شب تنہائی“ کا ایسا ماحول قائم کیا ہے کہ بھری دوپہر اور بھرے بازار میں بھی سنئیے تو کیفیت ظہور نظر کے شعر کی سی ہوجاتی ہے

سناٹا جب تنہائی کے زہر میں بجھتا ہے
وہ گھڑیاں کیوں کر کٹتی ہیں کیسے بتائیں تمہیں
آج نادر کاکوروی صاحب کی ایک سو گیارہویں برسی پر ان کا ترجمہ اور تھامس موور کی نظم ایک ساتھ پڑھیے
اکثر شب تنہائی میں
کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی دلچسپیاں
بیتے ہوئے دن عیش کے
بنتے ہیں شمع زندگی
اور ڈالتے ہیں روشنی
میرے دل صد چاک پر
وہ بچپن اور وہ سادگی
وہ رونا وہ ہنسنا کبھی
پھر وہ جوانی کے مزے
وہ دل لگی وہ قہقہے
وہ عشق وہ عہد و وفا
وہ وعدہ اور وہ شکریہ
وہ لذت بزم طرب
یاد آتے ہیں ایک ایک سب
دل کا کنول جو روز و شب
رہتا شگفتہ تھا سو اب
اس کا یہ ابتر حال ہے
اک سبزۂ پا مال ہے
اک پھول کملایا ہوا
ٹوٹا ہوا بکھرا ہوا
روندا پڑا ہے خاک پر
یوں ہی شب تنہائی میں
کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی ناکامیاں
بیتے ہوئے دن رنج کے
بنتے ہیں شمع بے کسی
اور ڈالتے ہیں روشنی
ان حسرتوں کی قبر پر
جو آرزوئیں پہلے تھیں
پھر غم سے حسرت بن گئیں
غم دو ستوں کی فوت کا
ان کی جواناں موت کا
لے دیکھ شیشے میں مرے
ان حسرتوں کا خون ہے
جو گردش ایام سے
جو قسمت ناکام سے
یا عیش غم انجام سے
مرگ بت گلفام سے
خود میرے غم میں مر گئیں
کس طرح پاؤں میں حزیں
قابو دل بے صبر پر
جب آہ ان احباب کو
میں یاد کر اٹھتا ہوں جو
یوں مجھ سے پہلے اٹھ گئے
جس طرح طائر باغ کے
یا جیسے پھول اور پتیاں
گر جائیں سب قبل از خزاں
اور خشک رہ جائے شجر
اس وقت تنہائی مری
بن کر مجسم بے کسی
کر دیتی ہے پیش نظر
ہو حق سا اک ویران گھر
ویران جس کو چھوڑ کے
سب رہنے والے چل بسے
ٹوٹے کواڑ اور کھڑکیاں
چھت کے ٹپکنے کے نشاں
پرنالے ہیں روزن نہیں
یہ ہال ہے، آ نگن نہیں
پردے نہیں، چلمن نہیں
اک شمع تک روشن نہیں
میرے سوا جس میں کوئی
جھا نکے نہ بھولے سے کبھی
وہ خانۂ خالی ہے دل
پو چھے نہ جس کو دیو بھی
اجڑا ہوا ویران گھر
یوں ہی شب تنہائی میں
کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی دلچسپیاں
بیتے ہوئے دن عیش کے
بنتے ہیں شمع زندگی
اور ڈالتے ہیں روشنی
میرے دل صد چاک پر

Oft in the Stilly Night
Thomas Moore

Oft, in the stilly night,
Ere slumber ’s chain has bound me,
Fond memory brings the light
Of other days around me;
The smiles, the tears,
Of boyhood ’s years,
The words of love then spoken;
The eyes that shone,
Now dimm ’d and gone,
The cheerful hearts now broken!
Thus, in the stilly night,
Ere slumber ’s chain hath bound me,
Sad memory brings the light
Of other days around me.
When I remember all
The friends, so link ’d together,
I ’ve seen around me fall,
Like leaves in wintry weather;
I feel like one
Who treads alone
Some banquet-hall deserted,
Whose lights are fled,
Whose garlands dead,
And all but he departed!
Thus, in the stilly night,
Ere slumber ’s chain has bound me,
Sad memory brings the light
Of other days around me.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).