نواز شریف کے مستقبل پر بدستور سوالیہ نشان


معاملہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے تمام ججوں پر مشتمل بنچ کے زیر غور تھا۔اس سے متعلق کارروائی بھی ملک کی تاریخ میں پہلی بار کئی گھنٹوں تک ٹی وی سکرینوں کے لئے براہ راست نشر کرنے کو میسر رہی۔ بدھ کی شام بالآخر ایک مختصر فیصلہ بھی سنادیا گیا ہے۔اس کے باوجود میرے اور آپ جیسے لاکھوں پاکستانی یہ طے نہیں کرپارہے کہ بدھ کی شام جو فیصلہ آیا ہے اس کی بدولت نواز شریف چار سال تک پھیلی جلاوطنی کے بعد رواں مہینے کی 21 تاریخ کو وطن لوٹ کر اگلے برس کی جنوری میں متوقع انتخابات میں ذاتی طورپر حصہ لے پائیں گے یا نہیں۔

اگر تو آپ نواز شریف سے اندھی نفرت میں مبتلا ہیں تو آپ کی نظر میں ثاقب نثار کا سپریم کورٹ آصف سعید کھوسہ جیسے ”منصفوں“ کی بدولت پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہے شخص کو ”جھوٹا اور خائن“ قرار دینے کے بعد کسی بھی عوامی عہدے کے لئے تاحیات نااہل قرار دے چکا ہے۔ مذکورہ نااہلی کے لئے آئین کی ایک ایسی شق کا اطلاق ہوا جو ”جھوٹا اور خائن“ قرا ر پائے شخص کے لئے کم از کم یا زیادہ سے زیادہ سزا کا تعین نہیں کرتی۔ اس ضمن میں جو ابہام جان بوجھ کر یا غلطی سے اپنی جگہ موجود ہے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نواز شریف کو تاحیات نااہلی کا مستحق گردانا گیا تھا۔

سپریم کورٹ کے دیے فیصلے کے خلاف اپیل کا کوئی فورم موجود نہیں۔ اس حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے نواز شریف کے مخالفین مصر ہیں کہ نواز شریف کو ”تاحیات“ پابندی سے بچانے کے لئے لازمی ہے کہ آئین کی ان شقوں میں ترمیم ہو جو عوامی نمائندوں کا ”صادق وامین“ ہونا یقینی بناتی ہیں۔ مجوزہ ترمیم کی بدولت ”جھوٹا اور خائن“ قرار پائے سیاستدان کو پانچ سال تک انتخابی اکھاڑے سے باہر رکھنے کی گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔

نواز شریف کے معتقدین مگر یہ سوچ رہے ہیں کہ شہباز حکومت کے دوران انتخابی قوانین میں جو ترامیم پارلیمان سے منظور کروائی گئی ہیں ان میں سے ایک ”جھوٹے اور خائن“ ٹھہرائے سیاستدان کواب فقط پانچ سال تک انتخابی اکھاڑے سے باہر رکھتی ہے۔مذکورہ ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے ہمیں یہ بھی یاد دلایا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے کئی عزت مآب جج سیاستدانوں کی نااہلی سے جڑے معاملات پر غور کرتے ہوئے اپنے ریمارکس کے ذریعے اکثر یہ تجویز دیتے رہے کہ منتخب پارلیمان ”تاحیات نااہلی“ کے حوالے سے موجود ابہام کو قانون سازی کی بدولت دورکر سکتی ہے۔”آئین میں ترمیم“ کا واضح الفاظ میں تقاضا نہیں ہوا۔ لہٰذا فرض کرلیتے ہیں کہ شہباز حکومت نے جو ”ایکٹ آف پارلیمان“ بنایا ہے وہ نواز شریف کو آئندہ انتخابا ت میں حصہ لینے کا اہل بنادے گی۔

آئین ا ور قانون کی مبادیات اور کلیدی حرکیات سے میں قطعاََ نابلد ہوں۔کج بحثی میں وقت ضائع کرنے کے بجائے مان لیتا ہوں کہ شہباز حکومت نے ”نااہلی“ کی جو حد طے کی ہے اس کی بدولت نواز شریف اب آئندہ انتخاب میں قومی اسمبلی کی کسی نشست سے بطور امیدوار کھڑے ہونے کے حق دار بن چکے ہیں۔وہ منتخب ہوکر قومی اسمبلی پہنچ گئے تو مسلم لیگ (نون) کی سادہ اکثریت یا چند دوسری جماعتوں کے ساتھ اتحاد کی بدولت وہ چوتھی بار وطن عزیز کے وزیر اعظم بھی منتخب ہوسکتے ہیں۔یہ حقیقت مگر اس کے باوجود برقرار رہے گی کہ ثاقب نثار کی قیادت میں قائم سپریم کورٹ نے انہیں 2017 میں ”جھوٹا اور خائن“ قرار دیا تھا۔ ”نااہلی“ کے پانچ سال مکمل کرنے کے بعد وہ چوتھی بار پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوجانے کے بعد اپنی ذات پر لگے ”جھوٹے اور خائن“ کا داغ مٹا نہیں پائیں گے۔

جو سوال میں اٹھا رہا ہوں اس کے بارے میں ”مٹی پاﺅ“ کا مشورہ دیتے ہوئے ملک میں ”سیاسی استحکام“ کی ضرورت پر زور دیا جائے گا۔ اقتدار میں واپسی کو بے چین مسلم لیگ (نون)  کے کئی سرکردہ رہ نما اور دیرینہ کارکن یہ الزام بھی لگا سکتے ہیں کہ ”جھوٹے اور خائن“ کی تکرار سے میں نواز شریف کو پنجابی محاورے والی ”تیلی“ لگاتے ہوئے اشتعال دلانے کی کوشش کررہا ہوں۔نہایت دیانتداری سے التجا کررہا ہوں کہ نواز شریف کو اشتعال دلانا مقصود نہیں۔عمر کے اس حصے میں داخل ہو چکا ہوں جہاں پھکڑپن کی جانب طبیعت مائل ہی نہیں ہوتی۔ بے تحاشہ تجربات نے سیاسی اور معاشی استحکام کی اہمیت بھی ذہن میں پوری طرح بٹھا دی ہے۔

ریاستیں مگر ”مٹی پاﺅ“ والے رویے سے ہرگز مستحکم نہیں ہوتیں۔ ”استحکام“ واضح طور پر تشکیل دیے آئینی اور قانونی ڈھانچوں کے بغیر ممکن ہی نہیں۔بدھ کی شام سپریم کورٹ نے واضح اکثریت سے یہ اصول طے کردیا ہے کہ پارلیمان کے بنائے قانون کا سپریم کورٹ کو احترام کرنا ہوگا۔یہ بات بھی طے ہوگئی کہ پارلیمان کے بنائے قانون کے مطابق اب چیف جسٹس فرعونی اختیارات کے ساتھ ”ازخود“ ملکی مسائل طے کرنے کا ڈرامہ نہیں رچا سکتا۔ ہمارے تحریری آئین میں عوامی نمائندوں کو ”جھوٹا اور خائن“ ٹھہرانے والی شقیں مگر اپنی جگہ موجود ہیں۔میرے اور آپ کے ووٹوں سے منتخب ہوئے سیاستدان ہی محض 62/63 والی چھلنی سے گزرکرخود کو ”صادق وامین“ ثابت کرنے کو مجبور ہیں۔ ایسی چھلنی سے لیکن ہماری ریاست کے دیگر طاقتور اداروں کے کلیدی عہدے دار محفوظ  رکھے جاتے ہیں۔

پارلیمان کے علاوہ ہماری ریاست کے دیگرستون بضد ہیں کہ ان کے ہاں”اندرونی احتساب“ کا نظام بہت مضبوط ہے۔اس کے ہوتے ہوئے نااہل اور بدعنوان افراد کا ان اداروں کے کلیدی عہدوں پر فائز ہونا ممکن ہی نہیں۔ مذکورہ دعویٰ کو کھوکھلا اور بے بنیاد ثابت کرنے کے لئے مجھے کئی نام اور ان کے ملکی سیاست میں کردار یاد آ رہے ہیں۔ پیدائشی بزدل ہوتے ہوئے لیکن میں انہیں بیان کرنے کی جرات سے محروم ہوں۔ اس التجا کے بعد کالم ختم کرتا ہوں کہ سیاستدان بھی ”اندرونی احتساب“ کا کوئی بندوبست ڈھونڈلیں۔ وگرنہ ان میں سے بے تحاشہ افراد کوتاریخ بطور ”جھوٹا اور خائن“ہی یادرکھے گی۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments