“عظیم تر روس” کا احیا؟


اپنے سے مختلف خیالات رکھنے والوں کی اندھی نفرت سے مغلوب ہوئے ہم پاکستان کو دورِ حاضر کے تناظر میں چانچنے کے قابل ہی نہیں رہے۔ فرض کئے بیٹھے ہیں کہ دنیا وہی ہی ہے جیسے مثال کے طور پر 1990 کی دہائی میں تھی جب سوویت یونین پاش پاش ہوکر محض روس تک سکڑگیا تھا اور دنیا ایک نئے نظام کے تابع ہو گئی جسے ”نیو ورلڈ آرڈر“ کا نام دیا گیا۔ اس آرڈر یا نظام نے امریکہ کو دنیا کی واحد سپرطاقت بنادیا اور تقریباََ ہر ملک کی معیشت کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے طے کردہ قواعد کے تحت چلنے کو مجبور کر دیا۔

نائن الیون کے بعد مگر یہ نظام اپنی گرفت کھونا شروع ہو گیا ہے۔ افغانستان اور عراق پر ہولناک جنگیں مسلط کرنے کے باوجود امریکہ ان ممالک میں اپنی ترجیحات کے حصول میں قطعاً ناکام رہا۔ایران کا تین سے زیادہ دہائیوں سے اقتصادی اور سفارتی مقاطعہ اسے نیوورلڈ آ رڈر کے روبرو جھکانے میں کامیاب نہیں ہوپایا۔سوویت یونین سے روس تک سکڑا ملک بھی ا ب اپنی ”تاریخی“ شناخت کو ڈٹ گیا ہے۔ دو برس سے یوکرین کے خلاف جاری جنگ درحقیقت ”عظیم تر روس“ کے احیا کا اظہار ہی تو ہے۔

نیو ورلڈ آرڈر کی بدولت یہ بات بھی تقریباً طے ہوئی نظر آئی کہ صہیونی انتہا پسندوں کی خواہشات کے مطابق قائم  ہوئے اسرائیل کے ساتھ اب تمام مسلمان ممالک کو ”معمول“ کے تعلقات استوار کرنا ہوں گے۔ ٹرمپ کے دور میں نام نہاد ”ابراہم معاہدہ“ ہوا جس کے تحت خلیجی ممالک کو اسرائیل کی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کے ساتھ مل کر ایران کے خلاف عجم وعرب کے مابین قدیمی چپقلش کو نئی صورت فراہم کرنے کے ارادے باندھے گئے۔ان ارادوں نے عوامی جمہوریہ چین کو چونکادیا۔صدیوں سے دیوار چین کے ”اس پار“ محدود رہا چین اپنی جغرافیائی حدوں میں توسیع کا خواہاں نہیں رہا۔ یورپ کی سامراجی قوتوں نے مگر دیگر خطوں پر کامل کنٹرول کی جو روش متعارف کروائی ان کی وجہ سے چین بھی تبت اور سنکیانگ کو اپنا ”اٹوٹ انگ“ بنانے کو مجبور ہوا۔ امریکہ کے برعکس رواں صدی کے آغاز تک مگر اس نے کبھی ”عالمی کردار“ ا دا کرنے میں وقت ضائع نہیں کیا تھا۔

ٹرمپ کے متعارف کردہ ”ابراہم معاہدہ“ نے مگر اسے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کو مائل کیا۔ ان دوممالک کے مابین سفارتی تعلقات چین کی کاوشوں سے اب بحال ہوچکے ہیں۔واشنگٹن کے لئے مگر یہ پریشانی کی خبر تھی۔اسی باعث سعودی عرب پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے دباﺅ بڑھنا شروع ہوگیا۔ یہ وعدہ بھی ہوا کہ اگر سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد اس سے تجارتی روابط بڑھانا شروع ہو جائے تو امریکہ اس کے دفاع کے لئے ”ایٹمی چھتری“ بھی فراہم کردے گا۔ مجوزہ ”ایٹمی چھتری“ یقینا ایران سے ”دفاع“ کے لئے تیار کی جانا تھی۔

فلسطینیوں کی مزا حمتی تنظیموں میں سے محض ایک (اور میں ”صرف ایک“ پر اصرارکروں گا) حماس نے مگر ”ابراہم معاہدے“ کے تحت بنائے منصوبوں کی تکمیل کے لئے بے تحاشا مسائل کھڑے کر دیے ہیں۔ رواں مہینے کی سات تاریخ کی صبح غزہ سے اسرائیل میں فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کے بعد فقط یہودیوں پر مشتمل بنائی بستیوں میں گھس کر انہوں نے موساد جیسی خفیہ ایجنسیوں کی محدودات کو بے نقاب کردیا۔اسرائیل 7 اکتوبر 2023 کے دن سے اپنی خفت کی وجہ سے وحشت ناک بن چکا ہے۔غزہ کی پٹی تک محدود ہوئے 23 لاکھ فلسطینی جن کی اکثریت شاید حماس کی سیاسی اور عسکری سوچ کی حامی نہیں مسلسل فضائی بمباری کی زد میں ہے۔پانی اور بجلی کی ترسیل کے لئے غزہ کے باسیوں کا کامل انحصار اسرائیل ہی پر رہا ہے۔بتدریج وہاں محصور ہوئے انسانوں کو ان سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔

غصے سے وحشی ہوا اسرائیل تقاضا کررہا ہے کہ فلسطینی اجتماعی طور پر غزہ کو خالی کر دیں۔غزہ سے نکل کر لیکن وہ مصر ہی میں پناہ گزین ہوسکتے ہیں اور مصر انہیں پناہ دینے کو ہرگز تیار نہیں ہے۔ فرض کیا کہ عالمی دباﺅ اور ”انسانی امداد“ کے نام پر بھاری بھر کم رقوم کی فراہمی مصر کو اپنے ہاں غزہ سے آئے فلسطینیوں کو ”مہاجر کیمپوں“ میں رکھنے کو آمادہ کر بھی لے تو غزہ کے بے تحاشہ باسی وہاں جانا نہیں چاہیں گے۔ 1948 کے بعد جوان ہوئی نسلیں جبلی طورپر جان چکی ہیں کہ ایک بار وہ اپنے آبائی گھر چھوڑنے کو آمادہ ہوگئے تو وہا ں لوٹنے کے امکانات معدوم ترہوجائیں گے۔فلسطینیوں سے خالی ہوا غزہ ”عظیم تر اسرائیل“ ہی میں ہڑپ کر دیا جائے گا۔

اپنی مٹی سے محبت میں فلسطینی ظلم کی آخری حدیں بھی برداشت کرنے کو لہٰذا بضد نظر آرہے ہیں۔ان پر مزید بمباری اسرائیل کو جنگی اعتبار سے اب فائدے کے بجائے نقصان سے دو چار کرے گی۔اس کے علاوہ وہ دنیا کو ایسا ملک بھی دکھنا شروع ہوجائے گا جو غصے سے وحشت ناک ہوا بچوں ،خواتین اور بوڑھے افراد پر مشتمل شہری آبادیوں کو ماضی کے منگول لشکروں کی طرح تباہ کئے جارہاہے۔ حماس کسی ملک کا نہیں بلکہ ایک تنظیم کا نام ہے جس کے رہ نما تو پہچانے جاسکتے ہیں مگر اس کے متحرک کارکنوں کی مکمل نشان دہی ناممکن ہے۔اس حقیقت کو نگا ہ میں رکھتے ہوئے اسرائیل اب کسی مزاحمتی تنظیم نہیں بلکہ کسی ”ملک “یا ”ریاست“ کو 7 اکتوبر 2023 کے واقعات کا ”اصل ذمہ دار “ ٹھہراتے ہوئے نشانہ بنانا چاہ رہا ہے۔ امریکہ بھی نائن الیون کے بعد ملاعمر کے افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا اگرچہ اس روز امریکہ میں جو حملے ہوئے ان کا ایک بھی افغان ذمہ دار نہیں تھا۔ اسرائیل ا پنے ”نائن الیون“ کا ذمہ دار اب ایران کو ثابت کرنا چاہ رہا ہے۔ہمارا ریگولر اور سوشل میڈیا مگر اس جانب کماحقہ توجہ نہیں دے رہا۔ ہمیں اس پہلو پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے ہمہ وقت خبردار رہنا ہو گا۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments