کورین ڈراموں کی بے بس اور نازک خواتین جو اب مضبوط اور پر تشدد ہو گئیں

وائبیک وینیما، جولی یونینگ لی اور سمانتھا حق - بی بی سی ورلڈ سروس


سٹرانگ گرل نام سون سول کے ایک ہار میں خود شاختہ یورٹ میں بیٹھی ہوئی

Netflix
اپنے گھر کی تمام خواتین کی طرح ’سٹرانگ گرل نام سونگ‘ سوپر ہیومن طاقت کے ساتھ پیدا ہوئیں

بہت سارے کورین ڈراموں میں اب پیچیدہ اور طاقتور خواتین کردار نظر آتے ہیں جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ کوریا کے معاشرے میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے اور میڈیا کے رجحانات میں بھی تبدیلی آئی ہے۔

کورین ڈراموں کو کے- ڈرامہ کہا جاتا ہے۔ کے ڈراموں میں اب اس کا امکان کافی زیادہ ہے کہ جتنے مرد مرکزی کردار ہوں گے اتنے ہی ڈراموں میں آپ کو خواتین کا مرکزی کردار ملے گا۔

گذشتہ سال کا سب سے کامیاب ڈرامہ ’دی گلوری (The Glory)‘ تھا۔ یہ ایک ایسی خاتون کی کہانی تھی جو نوجوانی میں انھیں بُلی کرنے والے لوگوں سے کئی سال بعد بدلہ لیتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور مقبول ڈرامے ’ایکسٹرآڈنری اٹارنی وُو (Extraordinary Attorney Woo)‘ میں مرکزی کردار ایک آٹزم کا شکار خاتون وکیل ہیں۔

کے ڈراما میں خواتین کے کردار ہمیشہ سے اتنے دلچسپ نہیں تھے۔ روایتی طور پر ڈرامے ایسے بنائے جاتے تھے جن کو سارا گھر اکٹھے بیٹھ کر دیکھ سکتا تھا لیکن اب ان ڈراموں میں سیکس سین، بائسیکشول تعلقات اور بزرگ افراد کی رومانی زندگی پر مبنی ڈرامے بن رہے ہیں جو ممنوعات کے تصور کو توڑ رہے ہیں۔

کورین سکرین رائٹرز ایسوسی ایشن کی وائس چیئر ہونگ انمی کہتی ہیں ’1990 کے پیٹے میں کورین ڈرامے ’چائےبول‘ کے بارے میں ہوتے تھے۔ امیر وارث جو غریب عورتوں کے ساتھ محبت کرتے تھے۔‘

’بوائز اوور فلاورز (Boys Over Flowers)‘ جیسے ڈرامے بہت عام تھے جن میں امیر وارث لڑکے غریب محنت کش عورت کے ساتھ محبت میں گرفتار ہو جاتے تھے۔ اس یانرا کا نام ’کینڈی گرل‘ کہا جاتا ہے۔ یہ نام جاپانی اینیمے (کارٹون کی قسم) کینڈی کینڈی کے نام پر رکھا گیا ہے جو ایک خوش رہنے والی اور محنت کش لڑکی کی کہانی ہے جو ایک شہزادے کا انتظار کر رہی ہے جو اس کی زندگی تبدیل کر دے گا۔

کینڈی کینڈی کی پینٹنگ سول کی ایک آرٹ گیلری میں
کینڈی کینڈی کی پینٹنگ سول کی ایک آرٹ گیلری میں

ہونگ کہتی ہیں کہ ’اب ایسا نہیں ہوتا۔ خاتون ہیروئن تبدیل ہو گئی ہیں، وہ بہت خودمختار ہیں اور ایک پیشہ وارانہ ملازمت کرتی ہیں اور شادی کے بارے میں زیادہ فکرمند نہیں ہیں۔‘

ڈراموں میں امیر اور طاقتور کرداروں کو اب بھی پسند کیا جاتا ہے لیکن اب وہ خواتین بھی ہو سکتی ہیں۔ ’کریش لینڈنگ آن یو(Crash Landing On You) ایک مثال ہے جو عالمی سطح پر مقبول ہوئی یہ ایک امری جنوبی کوریا خاتون کی ایک شمالی کوریا کے فوجی افسر کے ساتھ کی کہانی ہے۔

اداکارہ اور سنگر اوم جونگ ہوا کورین انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی سب سے زیادہ طاقتور خواتین میں سے ایک ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ 1990 کے پیٹے میں خواتین کرداروں پر کم توجہ دی جاتی تھی اور ایک بہترین ساتھی ملنا ہی ان کی زندگی کا مقصد مانا جاتا تھا۔

’اب ہمیں بہت ساری ایسی طاقتور خواتین کے کردار نظر آتے ہیں جو اپنی مرضی سے زندگی گزار رہی ہیں اور میں بہت خوش قسمت اور خوش ہوں کہ میں ان کی کہانیاں بتا سکتی ہوں۔‘

54 سال کی اداکارہ نے حال ہی میں ’ڈاکٹر چا‘ نام کے ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ یہ ڈرامہ ایک درمیانی عمر کی خاتون کی ہے کہ 20 سال تک اپنے ناشکرے گھروالوں کی دیکھ بھال کرنے کے بعد اپنی طبی تعلیم مکمل کرنے کا فیصلہ کرتی ہیں۔

اوم کہتی ہیں ’ڈاکٹر چا اپنے خواب پورے کرنے کا فیصلہ کرتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے ماں والی اپنی ذمہ داریاں پوری کر لی ہیں۔ ان کا سفر بہت متاثرکن ہے۔‘

جب انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا تو یہ بھی سوچا نہیں جا سکتا تھا کہ درمیانی عمر کی خاتوں کا ڈرامے میں مرکزی کردار ہو سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں ’جب آپ 30 سال کی ہو جاتی تھیں تو آپ کو مرکزی کردار نہیں مل سکتے تھے۔ اگر آپ کی عمر 35 سال سے زیادہ ہوتی تھی تو آپ کو فیملی کی والدہ کے طور پر کاسٹ کیا جاتا تھا۔ عمر کی وجہ سے بہت ہونہار اور خوبصورت خواتین سکرین سے غائب ہو جاتی تھیں۔‘

اوم کا کہنا ہے کہ ڈراموں میں خواتین کی نمائندگی میں تبدیلی کی بڑی وجہ جنوبی کوریا کی بہترین معاشی ترقی ہے۔ آدھی صدی میں جنوبی کوریا کا جی ڈی پی پر کیپیٹا 400 ڈالر سے بڑھ کر 35000 ڈالر ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ سے معاشرے میں تبدیلیاں ہوئی ہیں اور اس میں خواتین کے معاشرے میں مقام میں بھی تبدیلی ہوئی ہے۔

سکرپ رائٹر ہونگ کہتی ہیں ’کورین خواتین بہت پڑھی لکھی ہیں وہ شادی اور بچوں کے بجائے معاشی کامیابی چاہتی ہیں۔‘

جنوبی کوریا کی پیدائش کی شرح دنیا میں سب سہ کم ہے اور خواتین کی مساوات کے اقدامات پر اس کو بہت کم پوائنٹس دیے جاتے ہیں۔ مرد ساتھیوں کے مقابلے میں جنوبی کوریا میں خواتین کو اوسطً ایک تہائی کم تنخواہ ملتی ہے۔

لیکن کم از کم کورین ڈراموں میں خواتین طاقت پکڑ رہی ہیں۔

فوربس کے کورین ڈرامہ کی نقاد جان میکڈونلڈ کہتی ہیں روایتی کہانیوں سے ہٹ کر موجودہ صورتحال کی بڑی وجہ کیبل چینلز اور سٹریمنگ پلیٹ فارم ہیں جو زیادہ خطرہ لے کر کچھ نیا کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ 2016 میں نیٹفلک نے پہلی دفعہ کورین ڈرامے میں سرمایہ لگایا۔ ’کنگڈم‘ قدیم دور میں زومبیز کے حملے کی کہانی ہے اور دوسرے سیزن میں ایک خاتون مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔

2019 تک ایسے ڈراموں میں اضافہ ہوا جو ملازمت کے گرد ہوتے ہیں۔ ان میں ایسی کہانیاں تھیں جن میں خواتین کے پاس عدالتوں اور سیاست میں اثرورسوکھ ہوتا، ایسے پرانے ادوار کے ڈرامے بھی سامنے آئے جن میں خواتین طاقت میں دکھائی دیں۔

جان مکڈونلڈ کہتی ہیں ’آپ کو ملازمت والی خواتین زیادہ نظر آنے لگیں، خواتین ایسے مسئلوں کو حل کر رہی تھیں جن کا مردوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔‘

کورونا کے لاکڈاؤن کے دوران اس تبدیلی میں تیزی آئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وبا کے دوران گھر میں بیٹھ کر ڈرامے زیادہ دیکھ رہے تھے اور اس کی وجہ سے کورین ڈراموں کی ویور شپ تین گناہ زیادہ ہو گئی۔

اس سال جان نے جتنے کورین ڈرامے دیکھے ان میں سے آدھوں میں مضبوط خواتین کے کردار ہیں جو پہلے سے بہت مختلف تھا۔

’میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہ جو کچھ کورین معاشرے میں ہو رہا ہے وہ دکھا رہا ہے لیکن ڈرامے ضرور مشعل راہ بن رہے ہیں۔‘

وہ یاد کرتی ہیں کہ کیسے ’کوزبی شو‘ کو جب پہلی دفعہ ٹی وی پر نسلی عصبیت کا شکار جنوبی افریقہ میں دکھایا گیا تو لوگوں نے پہلی دفعہ مڈل کلاس سیاہ فام لوگ دیکھے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ انھوں نے کبھی سیاہ فام لوگوں کوبظاہر پیشہ ور نہیں دیکھا تھا، اور اس نے معاشرے پر اثر کیا۔‘

خواتین سوپر ہیروز

ڈرامہ رائٹر بیک می کیونگ نے کورین ڈراموں میں خواتین کی کہانیوں کا آغاز کیا تھا اور ان کے ڈراموں میں اکثر ممنوعہ موضوعات پر بات ہوتی ہے۔

وہ کہتی ہیں ’ہر شو کے ساتھ میں حدود کو توڑنے کی کوشش کرتی ہوں۔‘

بیک می کیونگ

Baek Mi-kyoung
بیک می کیونگ نے ’دی لیڈی ان ڈگنیٹی‘ اور ’سٹرانگ گرل بونگ سون‘ جیسے ڈراموں میں مضبوط خواتین کرداروں کی بنیاد کیا

بیک کے 2021 کے کامیاب ڈرامے ’مائن‘ میں دو خواتین کے درمیان محبت کی کہانی بتائی گئی ہے، یہ پہلی دفعہ ہوا کہ کورین ٹی وی پر دونوں اصناف کے ساتھ جنسی تعلق رکھنے کا رجحان دکھائی گئی۔ تنقید کے باوجود ڈرامہ کامیاب رہا۔

لیکن خواتین کی کہانیاں چلانا ہمیشہ سے آسان نہیں رہا۔ بیک کی 2017 کی سیریز ’دی لیڈی ان ڈگنیٹی‘ کو کئی دفعہ براڈکاسٹرز نے مسترد کر دیا۔

انھوں نے کہا ’وہ سوچتے تھے کہ ایک درمیانی عمر کی خاتون کی کہانی کمرشل کامیاب نہیں ہوگی۔‘

کورین ڈرامہ ’سٹرانگ گرل بونگ سون (Strong Girl Bong-soon)‘ ایک لڑکی کی کہانی ہے جس کے خاندان میں خواتین کے پاس مافوق الفطرت (سپر نیچرل) طاقت ہوتی ہے۔ اس ڈرامے کی بڑی کامیابی کے بعد کورین براڈکاسٹر نے ’لیڈی ان ڈگنیٹی‘ پر خطرہ مول لیا۔ اس ڈرامے نے ان ریکارڈز کو توڑا جو ’سٹرانگ گرل بونگ سون‘ نے کچھ عرصہ قبل ہی توڑے تھے۔

بیک کہتی ہیں ’میں نے بہت اس پراجیکٹ کی مخالفت کا سامنا کیا لیکن خوش قسمتی سے یہ ایک بڑی ہٹ تھی۔‘

’جب سے میرا ڈرامہ کامیاب ہوا ہے خواتین کردار زیادہ پیش قدم، طاقتور، کافی زبردست اور خودمختار ہو گئیں ہیں۔ لیکن میں ابھی بھی مطمئن نہیں ہوں۔ میں بڑی تبدیلی لانا چاہتی ہوں۔‘

ان کی ایک تازہ ترین مزاحیا سیریز ایک اور خاتون سپر ہیرو کے متعلق ہے، سٹرانگ گرل نام سون، اس میں انھوں نے ایک اور ممنوعہ موضوع کا سامنا کرنے کی کوشش کی ہے۔ معمر افراد میں پیار۔

وہ کہتی ہیں ’کورین ناظرین مزاحیا رومینٹک ڈراموں کے دیوانے ہیں لیکن صرف جوان لوگوں پر۔ یہ تضاد ہے۔ زیادہ تر ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھے لوگ بزرگ ہیں لیکن انھیں معمر افراد کے درمیان محبت کی کہانی نہیں پسند۔‘

وہ کہتی ہیں کہ انھیں کہا گیا تھا معمر لوگوں کے جنسی تعلقات پر کہانی نہ لکھیں کیونکہ یہ ڈر ہے کہ لوگ اسے نہیں دیکھیں گے۔

بیک کہتی ہیں ’لیکن معمر خواتین کا حق ہے کہ وہ اپنی زندگی میں محبت کریں۔‘

اس کے ڈرامے میں نام سون کی نانی کا کردار 67 سال کی کم ہائے سُک ادا کرتی ہیں۔ ان کی دادی کو ایک باریسٹا کے ساتھ محبت ہو جاتی ہے اور شو کے دوران ایک سین میں وہ اسے اپنے کندھے پر اٹھا کر ہوٹل میں لے جاتی ہیں۔

اس ڈرامے میں کردار کی نانی کہتی ہیں کہ انھوں نے کورین ڈرامے دیکھنا چھوڑ دیے ہیں کیونکہ ان میں صرف محبت میں گرفتار جوان لوگوں کو دکھایا جاتا ہے۔ ان کا کردار کہتا ہے ’بزرگوں کے بھی دل ہوتے ہیں۔ ہمارے بدن تو بوڑھے ہو گئے ہیں لیکن دل ابھی بھی دھڑکتا ہے۔‘

بیک کہتی ہیں ’یہ میرے لیے ایک اہم پیغام ہے۔‘

ان کا یہ خواب تھا کہ وہ پہلی خواتین سپر ہیروز کی نسل پر سیریز لکھتیں لیکن محدود بجٹ نے ان کے سپیشل افیکٹس کو محدود کر دیا۔ وہ کہتی ہیں ’مارول اور میری کہانیوں میں بہت فرق ہے۔‘

ہونگ ٹی وی اور فلموں دونوں کے لیے سکرپٹ لکھتی ہیں وہ کہتی ہیں ’خواتین (مرکزی کردار) والے سکرپٹ کے لیے سرمایا ملنا مشکل ہے۔ جب خاتون مرکزی کردار ہوتی ہے تو بجٹ بہت کم ہوتا ہے۔ مجھے اس سے بہت مایوسی ہوتی ہے۔‘

2016 میں ان کی پہلی فلم کی مرکزی کردار بھی خاتون تھیں۔’مسنگ‘ ایک زیادہ کام کرنے والی طلاق شدہ مان کی کہانی تھی جو اپنی اغوا ہوئی بیٹی کو ڈھونڈتی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’مجھے اپنے اوپر بہت فخر ہے کیونکہ میں نے خاتون ہیروئن والی فلم بنائی۔‘

کورونا کی وبا کے دوران کوریا کی فلم انڈسٹری اچھی نہیں چلی لیکن کے ڈراما کے ناظرین کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا۔ سٹریمنگ سروسز آزادی اظہار اور بڑا بجٹ دیتی ہیں اور بہت سے فلمیں بنانے والوں نے ڈرامے بنانا شروع کر دیے۔ کے ڈراموں اور سینیما کے درمیان خلیج کم ہو گئی ہے۔ نیٹ فلکس کی سب سے زیادہ دیکھے جانے والی سیریز ’سکوئڈ گیم‘ کو فلم سازوں نے بنایا۔

سکویڈ گیم نیٹفلکس کی تاریخ میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی سیریز ہے
سکویڈ گیم نیٹفلکس کی تاریخ میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی سیریز ہے

کورونا کی وبا سے پہلے ایک سال میں 80 بڑے بجٹ کی فلمیں بنائی جاتی تھیں لیکن اس سال صرف چھ بنی ہیں۔ ہونگ کہتی ہتں ’فلسازوں کے لیے دکھ کی بات ہے لیکن میرے خیال سے کورین مواد کے لیے یہ اچھا ہے۔‘

نظر یہ آتا ہے کہ سٹریمنگ سروس کی طرف سے سرمایہ اور اس کے ساتھ ڈراموں میں تبدیلیاں جاری رہیں گی۔ نیٹفلکس 2.5 بلین ڈالر سرمایہ لگانے کی تیاری کر رہا ہے جبکہ 2022 میں اس کے 60 فیصد صارف نے ایک کورین ڈرامہ دیکھا۔ ڈزنی، ایمازون پرائم اور دیگر سروسز بھی اس طرف سرمایہ لگا رہی ہیں۔

ہونگ کہتی ہیں اب انھیں لکھتے ہوئے بجٹ کے بارے میں نہیں سوچنا پڑتا لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھیں اس بات کی بھی فکر ہے کہ ایکشن والے شوز کے پیچھے کہیں کم شور والی خواتین کی کہانیاں ایک طرف نہ کر دی جائیں۔

وہ کہتی ہیں ’مجھے لگتا ہے وہ ناظرین کے لیے زیادہ سے زیادہ یہ چاہتے ہیں۔ خواتین رائٹرز اس سے تھوڑا تنگ آ جاتی ہیں۔‘

جان مکڈونلڈ کہتی ہیں کہ سکویڈ گیم کبھی نہ بنتی اگر نیٹفلکس اس کے لیے پیسے نہ دیتا کیونکہ کوریا کے روایتی ٹی وی اسے ’بہت تشدد سے بھری ہوئی اور عجیب‘ کہتے۔

انھیں ابھی سے نظر آ رہا ہے کہ سٹریمنگ سروس کورین ڈراموں کو تبدیل کر رہے ہیں۔ ’میں نے انھیں 14 سال پہلے دیکھنا شروع کیا۔ بہت کم تشدد ہوتا تھا اور سیکس بھی بہت کم تھا۔ آپ کو صرف ایک بوسے کے لیے 10 ویں قسط تک کا انتظار کرنا پڑتا تھا اور اب تو ایسا بالکل نہیں ہوتا۔‘

خواتین کردار اب تشدد میں بھی حصہ لے رہی ہیں۔ ’مائی نیم‘ ڈرامے میں ایک پولیس اہلکار کی بیٹی ان کی موت کا بدلہ لینے کی کوشش کرتی ہے۔ اس ڈرامے میں بہت سا تشدد اور لڑائی تھی اور اس کے علاوہ سیکس سین بھی تھا۔

کے ڈراموں کی عالمی شہرت ایک پاکیزہ کہانی کی ہے۔

جان میکڈونلڈ کہتی ہیں ’کے ڈراموں میں خواتین کی جنسی زندگی آزاد اور راحت بھری نہیں ہوتی۔ لیکن اب یہ بھی تبدیل ہو رہا ہے۔‘

کے ڈراموں میں مختلف جنسی شناختوں اور جنسی رجحانات کو مثبت انداز میں دکھایا جا رہا ہے۔

’ایتےوان کلاس‘ میں ایک ٹرانسجینڈر کردار کو دکھایا جاتا ہے جس کا احترام ہوتا ہے۔ یہ شو ایک ویب ٹون سے بنائی گئی تھی۔ ویب ٹون ایک قسم کے کورین کامک ہیں جنھیں فون کا سیدھا رکھ کر پڑھا جاتا ہے۔ ان کے اکثر لاکھوں مداح ہوتے ہیں جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کہانیوں کو ڈراموں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

کاکااو انٹرٹینمنٹ کی ایکزیکیٹو منیونگ ایلیسیا ہونگ نے اسے ویب ٹون سے ڈرامے میں تبدیل کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ جتنا ایک ویب ٹون مقبول ہو انتا ہی اسے ڈرامے میں بدلنے والوں پر ذمہ داریوں کا اضافہ ہوتا ہے۔

وہ کہتی ہیں ’ہمیں بہت احتیاط کرنی ہوتی ہے کہ عالمی ناظرین ناراض نہ ہو جائیں۔‘

’جب رومینٹک سین آتے تھے تو ہمیں کورین ڈراموں میں زیادہ جارحانہ مرد کردار ہوتے تھے۔ ہمیں یہ خطرناک لگا تو ہم نے مسئلہ بننے سے پہلے اس سے نمٹ لیا۔‘

الیسیا ہونگ کہتی ہیں کہ کے ڈراموں اور کے پاپ اصل میں دکھاتے ہیں کہ مردوں میں مردانہ وجاہت ہونا ضروری نہیں۔ وہ کہتی ہیں ’آپ بہت حساس ہو سکتے ہیں لیکن آپ پھر بھی ایک زبردست کردار ہو سکتے ہیں۔‘

ایتےوان کلاس ویب ٹون پر مبنی ڈرامہ تھا

Netflix
ایتےوان کلاس ویب ٹون پر مبنی ڈرامہ تھا

کلاسک کے ڈراموں میں ہیرو ابتدا میں ایک قسم ’مغرور‘ ہوتے ہیں جان میکڈونلڈ کہتی ہیں کہ اس کے باوجود انھیں کو پہلی چیز پسند آئی تھی وہ مردوں کو روتے ہوئے دیکھنا اور اپنے جذبات کا اظہار کرنا تھا۔

انھوں نے کہا ’میرے خیال سے خواتین کے ڈراموں کی طرف راغب ہونے کی وجہ ان میں مردوں کو دکھانے کا انداز ہے۔ وہ شروع میں مردانہ وجاہت دکھاتے ہیں لیکن اندر سے وہ نرم اور بہت رومینٹک ہوتے ہیں۔‘

وہ امید کرتی ہیں کہ ڈرامہ زیادہ تبدل نہیں ہو گے کیونکہ وہ جیسے ہیں اسی وجہ سے انھیں پسند کیا جاتا ہے۔

لیکن وہ کہتی ہیں ’شاید اب وقت آگیا ہے کہ مرد اس بات کو نوٹ کریں کہ خواتین کی تصورات میں کیا شامل ہے۔ خواتین صدیوں سے مردوں کے تصورات کو پورا کرتی رہی ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32804 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments