شاہد محمود ندیم: ضمیر کا ناقابل اصلاح قیدی


سلمان رشدی نے اپنے اولین ناول میں تقسیم ہند کے ارد گرد دونوں ملکوں میں پیدا ہونے والی نسل کو ”نیم شب کے بچوں“ کا نام دیا تھا۔ ناول میں نو آبادیاتی غلامی سے نجات کو ایک نئی دنیا کی پیدائش کی امید سے تعبیر کیا گیا تھا۔ میرے ملک میں رہنے والوں کو سرحد کے پرلی طرف ان امیدوں کی تعبیر کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے اور نہ اس بارے میں جاننے کی خواہش کو مستحسن گردانا جاتا ہے۔ میں سرحد کی اس سمت کا حال البتہ کسی حد تک جانتا ہوں جو میرے حصے میں آئی تھی۔ یہاں کا مختصر احوال یہ ہے کہ 70 برس کی اس کتھا کو تین نسلوں کے زیاں کی کہانی کہنا چاہیے۔ یہاں زیادہ ایسے تھے جنہوں نے سرکاری اور نصابی بیانیے کو سینے سے لگایا۔ رات کو دن اور ظلمت کو ضیا قرار دیا اور رفعتیں پائیں۔ یہ وہ رفعتیں تھیں جو جاہ و حشم کے بلند ہوتے زینوں کا التباس دیتی ہیں لیکن انفرادی امکان کے انہدام اور اجتماعی انحطاط کے تاریک کنویں میں اتر جاتی ہیں۔ تھوڑے بلکہ بہت تھوڑے ایسے تھے جنہوں نے آزادی اور انسانی وقار کے خواب کو زندہ رکھا۔ دردمندی کی لو کو اپنی ہتھیلیوں کے حصار میں رکھا۔ سلاسل کا گیت بنتے رہے۔ قید خانوں کی اس نفیس ’بوئے نفس‘ میں اپنا دیانت دار پسینہ اور لہو شامل کرتے رہے جس کے بارے میں گیانیوں نے کہا ہے کہ یہ وہ خوشبو ہے کہ آمروں کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے اسے ستر ہزار میل کے فاصلے سے بھی سونگھ نہیں پائیں گے۔ وطن کی گلیاں اجالنے کا فیصلہ اپنے ضمیر کی تنہائی میں کیا جاتا ہے۔ یہ فیصلہ کرنے والے پاکستان کے خوددار بیٹوں اور باوقار بیٹیوں نے اپنے گریبان کو لشکر کا علم بنایا اور دیس کے گلی کوچوں میں اپنے خواب بیچنے نکلے۔

یہ لکھ لٹ تعداد میں بہت کم تھے لیکن انہوں نے پاکستان اور پاکستان میں بسنے والے افتادگان خاک کا پرچم سرنگوں نہیں ہونے دیا۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں رہنے والے ایک روز جھوٹ، استحصال، امتیاز اور منافقت کی سرنگ کے اس پار روشنیوں کے شہر میں ضرور پہنچیں گے۔ جب ایسا ہو گا تو اس لاحاصل سفر کی تاریخ بھی لکھی جائے گی۔ اس تاریخ میں 25 دسمبر 1947ء کو کشمیر کے قصبے سوپور میں پیدا ہونے والے شاہد محمود ندیم کا نام ان قابل احترام پاکستانیوں کی فہرست میں شامل ہو گا جنہوں نے جناح کے خواب کو لیاقت علی خان کے غیر جمہوری مقاصد کی دہلیز پر بھینٹ نہیں کیا۔ جنہوں نے ایوب خان کی بنیادی جمہوریتوں کی فصیل بے اماں کے سامنے مادر ملت کے ساتھ کھڑے ہو کر بنیادی آزادیوں کی پکار بلند کی۔ جنہوں نے سنہرے بنگال کی گیت بنتی ندیوں کو یحییٰ خانی محبت کے زم زم پر ترجیح دی۔ جنہوں نے 1973 ءکے آئین کو ظفر احمد انصاری رپورٹ کے ہاتھوں یرغمال نہیں ہونے دیا۔ جنہوں نے کشمیر سے سچی محبت کی اور اسے انگار وادی بنانے والوں کے قصیدے نہیں لکھے۔ جنہوں نے سیاسی عمل کو طالع آزماؤں کے ہاتھ رہن نہیں رکھا۔ جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جہاد کیا۔

شاہد محمود ندیم کی دیالو شخصیت ہفت پہلو ہے۔ جمہوریت کے لیے جدوجہد ہو یا ثقافت کی سیتا کو خوش نااندیش ملائیت کے راون سے چھڑانا ہو، انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنا ہو یا شہری آزادیوں کا مقدمہ لڑنا ہو، آئین کی سمت بڑھتے خون آشام بھیڑیوں کی راہ میں سپر ہونا ہو یا تمثیل کی روشنیوں کو زندہ رکھنا ہو، ادب کے انحطاط پر تشویش ہو یا تمدنی مکالمے کی آبیاری کرنا ہو، شاہد محمود ندیم نے جنوں کے کسی فرمان کو واپس نہیں پھیرا۔ شاہد محمود ندیم ایک گنگناتا ساز ہے، جس کے ہر تار سے ایک ہی راگ برآمد ہوتا ہے، انسان سے محبت اور وطن سے وابستگی کا سدا بہار راگ، جس کی تاثیر کو سنسر کی پنسل اور محتسب کی بندوق سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

1966 ء کا موسم گرما پاکستان کی نوجوان نسل کے لیے امید کا موسم بن کر نمودار ہوا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا تھا اور مسلم لیگی یبوست اور ایوب خانی جبروت سے تنگ آئے ہوئے اہل پاکستان کے لیے جمہوریت کا پیغام لے کر ملکی افق پر ابھرے تھے۔ اٹھارہ سالہ شاہد محمود ندیم نے ’ریگستان کا پھول‘ کے نام سے اپنا پہلا مضمون شیر محمد کی ادارت میں شائع ہونے والے مجلے قندیل میں لکھا تھا۔ ریگستان کا یہ پھول ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ شاہد محمود ندیم نے خود لکھا ہے، ’میرا تعلق اس نسل سے ہے جس نے سیاسی اور سماجی شعور اس وقت حاصل کیا جب جناب ذوالفقار علی بھٹو سیاست کے آسمان پر نمودار ہوئے۔ ‘

ایوب خان کے دس سالہ دور آمریت کے خلاف تحریک شروع ہوئی تو نازو نعم میں پلا گورنمنٹ کالج کا طالب علم شاہد محمود ندیم جنرل موسیٰ خان کی وحشی صفت پنجاب پولیس کا مقابلہ کرنے سڑکوں پر نکل آیا۔ فروری 1969ء کی کچھ سرد راتیں شاہد محمود نے تھانہ سول لائنز کی سرد بارکوں میں ٹھٹھرتے ہوئے گزاریں۔ آغا یحییٰ خان نامی ’سادہ سپاہی‘ اسلام آباد میں وارد ہوا تو اس کے جلو میں نواب زادہ شیر علی خان تھا جس نے مذہبی سیاست کی لالٹین اٹھا رکھی تھی۔ اس عہد میں بائیس سالہ شاہد محمود ندیم کو جمہوریت مانگنے کے جرم میں فوجی عدالت میں پیش ہونا پڑا۔

بھٹو حکومت کے ابتدائی ماہ و سال رنگوں اور پھولوں کے بہت سے امکانات لے کر سامنے آئے تھے۔ شاہد محمود ندیم نے ٹیلی ویژن اور ڈرامے کی کیاری سنبھال لی۔ ٹیلی ویژن ٹریڈ یونین میں سرگرم ہوئے۔ یہ وہ لاہور تھا جہاں امانت علی خان کا نغمہ گونجتا تھا۔ جہاں شاکر علی کی نئی تخلیق ایک خبر کا درجہ رکھتی تھی۔ اس لاہور میں فہیم جوزی، امین مغل، مسعود منور، زبیر رانا اور یوسف کامران کے جوان جذبوں پر صوفی غلام مصطفی تبسم کا دست شفقت سایہ فگن تھا۔ موسم بدلا مگر آنے والی رت نہیں گدرائی، یہ خزاں تو گداز دلوں کے لیے نئے امتحانوں کی خبر لائی تھی۔ ضیا الحق کی طویل رات وطن کے دروازوں پر دستک دے رہی تھی۔ اس عشرہ ¿زیاں کے اتار چڑھاؤ پر آنکھ رکھنے والوں کو یاد ہے کہ آمریت کے خلاف جمہور کی پہلی طاقتور آواز پاکستان ٹیلی ویژن سے اٹھی تھی۔ 16 فروری 1978ء کو ہڑتال شروع ہوئی۔ 19 فروری کو سلطان بے صفا کی اجازت کے بغیر کلمہ حق کہنے کے مجرم فوجی عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت سرسری تھی اور سزائیں عبرتناک۔ شاہد محمود ندیم کو پندرہ کوڑوں اور ایک سال قید بامشقت کا اعزاز ملا۔ ایک مذہبی تہوار کے موقع پر ملنے والی نمائشی رعایتوں کی بدولت اس کی پشت کوڑوں کے نشان سے محفوظ رہی لیکن جمہوریت کی پری کے عشاق تو سوز نہاں کے انگاروں پر لوٹتے ہیں۔ دیدار محمل کا آہو صفت جذبہ ان کے سینوں پر جذب کے درے لگاتا ہے۔ انہی دروں کی دھمک سنتا اور سہتا شاہد محمود میانوالی جیل جا پہنچا لیکن اس سے پہلے کوٹ لکھپت جیل میں وہ ذوالفقار علی بھٹو سے اپنی محبت کا ایک علامتی اظہار کرنا نہیں بھولا۔ بھٹو صاحب ایام اسیری میں اپنے مشقتی کے ساتھ بیڈ منٹن کھیلا کرتے تھے۔ اپنے محبوب رہنما کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے شاہد محمود بارک کی آٹھ فٹ بلند دیوار پر جا چڑھا۔ ایسا نہیں کہ اسے اس مہم جوئی کا انجام معلوم نہیں تھا مگر دیکھئے وہ اس وارفتگی کو کن لفظوں میں بیان کرتا ہے۔

”دیوار کے دوسری طرف اے کلاس کوٹھری کے صحن میں وہ بیڈ منٹن کھیل رہا تھا۔ سفید شلوار قمیض اور سفید فلیٹ شوز سے میچ کرتے ہوئے لہراتے ہوئے لمبے سفید بال، وہ بڑے انہماک اور جوش کے ساتھ سفید شٹل کاک پر نشانے لگا رہا تھا۔ ہمیں یوں لگا جیسے ہم جیل کی مٹیالی اینٹوں والی دیوار پار کر کے کسی اور دنیا میں پہنچ گئے ہوں۔ یہ خوبصورت ’خوش لباس اور پروقار کھلاڑی‘ جس نے اپنی ذہانت ’اپنے علم‘ اپنی فراست اور اپنی کرشماتی شخصیت کے زور پر عالمی اور قومی سیاست کے کورٹس پر شاطر اور منجھے ہوئے کھلاڑیوں کو پے درپے مات دی تھی۔ قید و بند ’کردار کشی‘ سازشوں ’ججوں اور جرنیلوں کی توہین کے نشتر اس کے جوش‘ اس کی سپرٹ کو کمزور کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اس کی ایک ایک حرکت میں ردھم تھا ’جذبہ تھا‘ حسن تھا۔ وہ بیڈ منٹن نہیں کھیل رہا تھا ’شاعری کر رہا تھا‘ خواب دیکھ اور دکھا رہا تھا ’خطاب کر رہا تھا۔ ہم مبہوت کھڑے اس منظر کو آنکھوں میں بھر رہے تھے‘ اس ہوا کو محسوس کر رہے تھے ’جو اس کے بالوں کو چھو کے گزر رہی تھی۔ اچانک اس کی نظر ہم پر پڑی۔ ایک لمحے کے لیے وہ ٹھٹک گیا۔ اس کا ریکٹ ہوا میں معلق رہ گیا۔ پھر اس کے چہرے پر وہی دلآویز مسکراہٹ نمودار ہوئی جس نے لاکھوں غریبوں‘ مظلوموں اور دھتکارے ہوؤں کو دیوانہ بنا رکھا تھا۔“

میانوالی جیل کی اچھی کہی۔ ساہیوال جیل، حیدر آباد جیل، مچھ جیل اور میانوالی جیل، آمریت کی طویل روایت اور عوامی مزاحمت کی استقامت نے پاکستان کی سیاسی لغت کو کیسے کیسے استعارے دیے۔ شاہد محمود ندیم میانوالی جیل پہنچا تو چین سے نہیں بیٹھا۔ وہ خود آمریت کے دست ستم کا شکار تھا مگر سزائے موت کے قیدیوں سے مل کر ان کے حالات اور ان کی ذہنی کیفیت معلوم کرنے میں مصروف رہتا تھا۔ خود ہی لکھتا ہے۔

’میں ضیا الحق کی‘ اسلام پسند ’آمریت کے زمانے میں میانوالی میں قید کاٹ رہا تھا۔ مجھے پھانسی کے قیدیوں کے احاطے سے متصل کوٹھری میں رکھا گیا تھا۔ سہ پہر کو پھانسی کے منتظر قیدیوں کو باری باری مختصر سی ”ٹہلائی“ کے لیے باہر نکالا جاتا تھا تو میں پہرے داروں سے نظر بچا کر ان کے احاطے میں گھس جاتا اور ان قیدیوں سے ملتا جو آئندہ چند دنوں میں سولی پر لٹکنے والے تھے، جن کی تمام اپیلیں خارج ہو چکی تھیں۔ بلیک وارنٹ جاری ہو چکے تھے یا ہونے والے تھے۔ ان قیدیوں کو زندہ کہنا زندگی کے ساتھ مذاق ہوتا۔ ان کے چہروں پر زندگی کے کوئی آثار نہیں ہوتے تھے۔ چہرے کسی لاش کی طرح سفید اور آنکھیں چمک سے محروم ہوتی تھیں۔ جب میں ہاتھ ملاتا تو لگتا کسی مردے سے ہاتھ ملا رہا ہوں۔ جب میں ان سے گلے ملتا تو نہ دل کی دھڑکن محسوس ہوتی، نہ سانس کی تپش‘ ۔
مارچ 1979 ءمیں رہائی ملی تو دیس کی قید حبس دوام میں بدل چکی تھی۔ مرزا سلامت علی  دبیر نے کیسی خوبصورت بات کہی تھی۔
چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا
نہ پھول تھے، نہ چمن تھا، نہ آشیانہ تھا
مضمون تو مختلف ہے مگر فانی بدایونی کے شعر میں تصرف کر لیں تو پاکستان کے ساتھ ضیا الحق کا سلوک سمجھ آتا ہے۔ فانی مرحوم نے کہا تھا۔
مجھ کو اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے، کیا رہائی ہے
آمریت کسی کو اپنا نہیں بناتی۔ آمریت ہم وطنوں کو غیر بنانے کا عمل ہے۔
مجھ کو ملا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے، کیا رہائی ہے
شاہد محمود ندیم کو اسیری کے دوران ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ضمیر کا قیدی قرار دیا تھا۔ انسانی حقوق کی اصطلاح میں ضمیر کا قیدی انہیں قرار دیا جاتا ہے جو اپنے کسی فعل کی بنا پہ نہیں بلکہ ایقان کی پاداش میں قید کیے جاتے ہیں۔ شاہد محمود ندیم کی 76 برس پر محیط زندگی پر ایک نظر ڈالیں تو خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے رابطہ کر کے درخواست کی جائے کہ مسمی شاہد محمود ندیم کو ضمیر کا ناقابل اصلاح قیدی قرار دیا جائے۔
شاہد محمود ندیم میانوالی جیل میں سزائے موت کے منتظر قیدیوں سے ہاتھ ملاتا تو اسے لگتا کسی مردے سے ہاتھ ملا رہا ہے۔ جب رہا ہوا تو اسے علم ہوا کہ پورے ملک کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ اپنے قد سے بڑے عزائم کے مزمن مریضوں کے دلوں میں پیوست جمہوری کانٹے کو بھی گڑھی خدا بخش روانہ کرنے کی تیاری ہو چکی تھی۔ شاہد محمود ندیم پنجابی ادبی روایت کا شناور ہے۔ اس نے خود سے کہا ہو گا۔
ماہی موت دا سنیہا دتا گھل وے
اس نگری توں دور چناں چل وے
سو اس نے رخت سفر باندھا اور لندن جا پہنچا۔ ان دنوں بلامبالغہ ہزاروں پاکستانی ایسے تھے جو سیاسی پناہ کے نام پر یورپ پہنچے، وطن دوستی کو ہتھیلی پر سجا کر دست فروشی کی اور پھر دیار مغرب ہی کے ہو رہے۔ ان میں سے کچھ تو جماعت اسلامی کے باقاعدہ صالحین بھی تھے جو غالباً وطن میں جمہوریت کی خدمت کرنے کے بعد اہل مغرب کو نور بصیرت سے روشناس کرانے یورپ پہنچے تھے۔ انہوں نے حلف اٹھا کر پیپلز پارٹی سے وابستگی کا اعلان کیا۔ پناہ مل گئی تو منکوحات اور ازدواجی سود مرکب کو بھی وہیں بلا لیا۔ معاملہ کچھ ایسا ناقابل فہم نہیں۔ غالباً حلف سے انحراف کرنا پاکستان کے دائیں بازو کی سنت جاریہ ہے۔ شاہد محمود ندیم نے ایسا نہیں کیا۔ لندن میں بیٹھ کر ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ساتھ کام کرتا رہا۔ پہلے پاکستان میں ناخن کا قرض ادا کر رہا تھا، اب دنیا بھر میں جمہوریت اور آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے مورچے میں جا بیٹھا۔ سچا سپاہی وردی کا محتاج نہیں ہوتا۔ ان دنوں شاہد محمود انگریزی ماہنامے ہیرلڈ میں احوال وطن بھی لکھا کرتا تھا۔ پاکستان میں ان بزرجمہروں کی کمی نہیں تھی جو ہاتھ ملتے تھے کہ اب شاہد محمود ان کے پنجہ ستم سے دور تھا لیکن آمریت کے دسترخوانی قبیلے پر اپنے قلم سے مسلسل کچوکے لگا رہا تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے لندن میں بیٹھ کر آمریت کے خلاف مزاحمت کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا تو شاہد محمود ان کے ساتھیوں میں تھا۔ یہیں بیٹھ کر اس نے پاکستان میں عوام دوست تھیٹر کا خاکہ تیار کیا۔ اجوکا کا خیال کوئی دس برس پہلے شاہد محمود کے ایک کھیل ہی سے لیا گیا تھا۔ مدیحہ گوہر اس پر کام کر رہی تھیں۔ فکر اور فن کے خطوط میں ہم آہنگی تھی۔ مدیحہ اور شاہد ہم سفر ہو گئے۔ یہ سفر آج بھی جاری ہے اور اس نے پاکستان میں مقصدی تھیٹر کی روایت کو اس طرح آگے بڑھایا ہے کہ اجوکا کے کھیل جنوبی ایشیا، یورپ اور امریکا میں کھیلے جاتے ہیں۔ لاہور میں جاہ پرست عالمگیر کے درویش صفت بھائی دارا کی صدا بلند ہوتی ہے تو چندی گڑھ میں بلھے شاہ کا آوازہ گونجتا ہے۔ کیلی فورنیا کے قصبے وینس میں ٹریپڈ (Trapped ) کے کردار سوال اٹھاتے ہیں کہ ”ہم کس مشکل میں ہیں۔ نہ ہم طالبان اور القاعدہ کے ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں اور نہ امریکی جارحیت پر خاموش رہ سکتے ہیں۔ ہم اپنا حلیہ تو بدل سکتے ہیں مگر اپنے رنگ، اپنے عقیدے اور اپنی ثقافت کو کیسے کھرچ سکتے ہیں“ ۔ شاہد محمود ندیم کے ڈراموں اور اجوکا کے فنکاروں نے پاکستان میں تمثیل کی ترویج میں وہی کردار ادا کیا ہے جو انگریزی صحافت میں مظہر علی خان کے ویو پوائنٹ نے ادا کیا تھا۔
پاکستان کی تاریخ ایک طرفہ تماشا ہے کہ یہاں جمہوریت حادثے کے طور پر نمودار ہوتی ہے اور آمریت کو نوشتہ دیوار خیال کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک حادثے کے نتیجے میں 1988 ءمیں جمہوریت کا وقفہ نمودار ہوا تھا بعینہ جیسے ملک ٹوٹنے پر پیپلز پارٹی کو کچھ برس کی مہلت ارپن کی گئی تھی۔ شاہد محمود ندیم 1988 ءمیں وطن واپس آ چکا تھا۔ ’بری‘ اور ’جھلی کتھے جاوے‘ جیسے فکر انگیز کھیلوں کی صورت میں لیلائے وطن کے گیسو تراش رہا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کا وقفہ گل شروع ہوا تو شاہد محمود کو پی ٹی وی کی ان غلام گردشوں میں داخلے کا اذن ملا جہاں سے اسے گیارہ برس پہلے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس نے پرانی خدمات کی دکان سجا کر اعلیٰ افسر بننے کی بجائے اپنی روایت قائم رکھی۔ ’نیلے ہاتھ‘ جیسے کھیلوں کی مدد سے تعزز فروشوں کے سینے پر مونگ دلتا رہا۔ بیس مہینے بعد مرحوم خالد حسن کے لفظوں میں Empire struck back۔ چند ہی گھنٹوں کے اندر پی ٹی وی کو شاہد محمود ندیم سے پاک کر دیا گیا۔ انتظار حسین نے اس پر اپنے رنگ میں کیا پتے کی بات لکھی تھی۔ ”پیپلز پارٹی کی حکومت بعد میں برخاست کی جاتی ہے شاہد محمود ندیم کی فارغ خطی کا پروانہ پہلے تیار کر لیا جاتا ہے“ ۔

بیس برس گزر گئے۔ آمریت اور جمہوریت میں دھوپ چھاؤں کا کھیل جاری ہے۔ آمریت کی دھوپ موسم گرما کی دوپہروں کی طرح طویل اور بے مہر، جمہوریت کی چھاؤں سرما کی شاموں کی طرح مختصر اور اداس۔ ایک تبدیلی البتہ اس دوران آئی۔ شاہد نے صحافت میں انگریزی کی بجائے اردو کو ذریعہ اظہار بنا لیا۔ اس دوران میں وردی نے مفتی کی صورت میں جو اتحادی ڈھونڈا تھا وہ بیرونی مالی امداد، ہتھیاروں کی نامعلوم رسد اور غریبوں کے بچوں کا لہو پی کر طالبان نامی عفریت کا روپ دھار چکا تھا۔ یہ اژدھا پاکستان کی دہلیز ہی پر نہیں، وطن کے پائیں باغ میں بھی پھنکار رہا ہے۔ شاہد محمود ندیم نے ڈبل کیبن گاڑیوں پر سوار کلاشنکوف بردار خدائی فوج داروں پر اپنا قلم تان لیا۔ دو اقتباسات ملاحظہ کریں۔
”میں پوچھتا ہوں اصل مجاہد کون ہے؟ جو دھمکیوں اور کردار کشی کے باوجود انتہا پسند قوتوں کو بے نقاب کر رہا ہے، لکھ کر، بول کر، کارٹون بنا کر، نعرہ لگا کر، معاشرتی اصطلاح کے ذریعے، سماجی انصاف کے لیے جدوجہد کر کے۔ یا وہ جو خوف، دہشت اور مذہبی استحصال کے ذریعے کوشش کر رہے ہیں کہ ہم سچ لکھنا، بولنا اور سوچنا بند کر دیں“ ۔
دارالحکومت اسلام آباد میں حکمران اشرافیہ کی قیام گاہوں اور دفاتر کے گرد فصیل کھینچنے کی تجویز سامنے آئی تو شاہد محمود ندیم نے لکھا۔
”خدارا محصور ذہنیت کی فصیل سے باہر نکلیں۔ یہ پسپائی کا قلعہ بند ہونے کا موقع نہیں۔ اگر ہمیں اپنے ملک کو وحشی اور خونخوار حملہ آوروں سے بچانا ہے تو اس کے لیے دیواریں توڑنے کی، دشمن کے مورچوں اور فصیلوں کو برباد کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت ہے کھلی جنگ کا، جس میں فوج اور پولیس کے ساتھ ساتھ سیاسی اور عوامی قوتوں کی بھرپور شرکت کی ضرورت ہے“ ۔
شاہد محمود ندیم روزنامہ ’آج کل‘ میں برسوں کالم لکھتے رہے۔ راقم مذکورہ اخبار میں ادارتی صفحے کی تدوین پر مامور تھا۔ شاہد محمود ندیم کا کالم جمعہ کے روز موصول ہوتا تھا۔ اسلام آباد میں بیٹھ کر اپنی اعصاب شکن ذمہ داریوں سے وقت نکال کر لکھا ہوا کالم فیکس پر موصول ہوتا تو میں نوجوانوں جیسے اشتیاق سے اسے ہاتھ میں لیتا۔ میری نظریں خوبصورت سواد خط میں تحریر کالم پر پھسلتی ہی چلی جاتیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے مہر بند بالشتیوں کے درمیان بیٹھ کر لکھے ہوئے ان مختصر کالموں میں ایسی نامیاتی اکائی اور جذبے کا وفور بند ہوتے تھے کہ بقول چراغ حسن حسرت، ”معلوم ہوتا ہے، کل کا بنا ہوا شعر ہے، ہاتھ سے لکھا ہوا نہیں“ ۔ شاہد محمود کی رواں دواں نثر، سیاسی اصابت اور پھر نشتر جیسا طنز، تخلیق کار جس صنف پر توجہ کر لے، فنی مہارت کہے دیتی ہے کہ مولانا روم کے پیروکاروں کی بانسری انگلیوں سے نہیں بجتی، یہ ساز تو دل کی دھڑکنوں سے ضرب پاتا ہے۔ شاہد محمود ندیم کی آواز میں مزاحمت اور احتجاج اپنی جگہ، لیکن اس کا حقیقی جذبہ تو بے پایاں محبت اور ختم نہ ہونے والی امید ہے۔ اسی لیے تو اس نے لکھا ہے۔ ”ہر رات کی صبح ہوتی ہے۔ دہشت اور جبر کی جو کالی رات ہم پر طاری ہے، اس کی صبح بھی ناگزیر ہے۔ آس اور ترقی کا سویرا کسی کے روکے رک نہیں سکتا“ ۔
پاکستانی صحافت میں استعارے کا درجہ پانے والے خالد حسن کی رحلت پر شاہد محمود ندیم نے ایک خوبصورت کالم لکھا تھا۔ یہ ایک اعلیٰ ظرف ہم عصر کا ایک دوسرے قدآور پاکستانی کو خراج تحسین تھا۔
”اس کی تیز تجزیاتی نظر، اس کی انگریزوں سے شستہ انگریزی اور پنجابیوں سے بڑھ کر لچھے دار پنجابی، اس کی بے مثال حس مزاح، اس کی حب الوطنی جس کی آب و تاب جلاوطنی کے برسوں میں اور بھی بڑھ گئی تھی اور سب سے بڑھ کر اس کا پاکستان اور پاکستانیوں پر اعتماد اور ایقان۔ وہ اعلیٰ پائے کی صحافت کے رول ماڈلز میں سے تھا۔ دیانت، کمٹ منٹ اور تدبر، جسے اب صحافت کے لیے بوجھ سمجھا جاتا ہے، خالد حسن کے صحافیانہ کیریئر کا طرہ امتیاز تھے“ ۔
خالد حسن اور شاہد محمود میں صرف کشمیر سے تعلق کا اشتراک نہیں تھا۔ شاہد محمود نے خالد حسن کے بارے میں جو لکھا وہ خود شاہد محمود پر بھی پوری طرح منطبق ہوتا ہے تاہم مجھے شاہد محمود کی اس بات سے اتفاق نہیں کہ صحافت میں دیانت، کمٹ منٹ اور تدبر جیسی خوبیاں اب بوجھ سمجھی جاتی ہیں۔ شاہد محمود ندیم تمہاری سوچ اور تمہارا فن بوجھ نہیں، پاکستان کا حقیقی اثاثہ ہیں کیونکہ ناصر کاظمی نے تمہارے قبیلے کے بارے میں حکم لگا رکھا ہے کہ تم زمین کا بوجھ اٹھانے والوں میں سے ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments