بارہویں فیل


نوآبادیاتی کی وجہ سے پیدا ہونی والی طبقاتی نظام اور اس کے مسائل پر بنی فلم ”بارہویں فیل“ کو ہندی سنیما کی دنیا میں یاد رکھا جائے گا۔ اور اس طرح کی سبق آموز فلمیں ہی آج وقت کی ضرورت ہیں۔ کیونکہ یہ فلمیں بآسانی معاشرتی تضادات کو عام لوگوں کو سمجھانے میں مدد کریں گی۔ وگرنہ عام لوگوں کو نیم سرمایہ اور نیم جاگیرداری نظام اور اس کو کنٹرول کرنے والے بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل کو سمجھنا اب بہت مشکل ہو گیا ہے۔

اکثر و بیشتر ہندوستانی فلموں میں پروٹیگنسٹ (ہیرو) کی زندگی کے اندر ایک اتار کو دکھایا جاتا ہے۔ اس کی اکثر وجہ غریبی دکھائی جاتی ہے۔ اور اس کو امیر ہونے کے لے ایک بیک گراؤنڈ میوزک کے ساتھ ایک دلچسپ کلپ کی ضرورت پڑتی ہے، اور اس کے بعد وہ امیر بن جاتا ہے اور اس کی زندگی پھر سے رواں ہوجاتی ہے۔ مگر یہ پوری فلم ہیرو کی سٹرگل کو دکھاتی ہے اور ہیرو طبقاتی نظام کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل سے جنگ کرتا رہتا ہے۔

میں اس کو فلم سے زیادہ ایک سبق آموز ڈاکومنٹری سمجھتا ہوں۔ جب پہلی دفعہ ڈی ایس پی نے گاؤں کے کالج میں ہونے والے امتحانات میں نقل کو روکنے کی کوشش کی تو اس کو گاؤں کے سربراہ کا حوالہ دیا گیا۔ دھمکی خیز گفتگو اور پرنسپل کی طرف سے رشوت دینے کی کوشش اور غریب بچوں کی مستقبل کی تباہی کی نوید سنادی گئی، کہ اگر یہ نقل کر کے پاس ہوجائیں گے تو شاید ان کو درجہ چہارم کی کوئی ملازمت مل جائے گی۔ مگر ایس پی نہ مانے اس نقل کی روکنے کی وجہ سے صرف منوج کو ہی فائدہ ہوا۔

نقل روکنے کی وجہ سے اس نے ایف ایس سی تھرڈ ڈویژن کے ساتھ پاس کیا۔ بعد میں اس ڈویژن نے اس کو کامیاب بنایا۔ کیونکہ منوج نے ایس پی سے وعدہ کرنے کے بعد دوبارہ کبھی چیٹنگ نہیں کی حتی کہ فائنل انٹرویو میں بھی نہیں۔ اس کے باقی تمام گاؤں کے رہائشیوں نے دوبارہ بھی نقل کی۔ یہ آج کی ہر گاؤں کی تعلیم کی کہانی ہے۔

اور پھر منوج کے والد کو ایمانداری کی سزا ملی، جو اکثر اس طبقے کی ملازمین کو ملتی ہے۔ کیونکہ وہ اپنی مذہبی اخلاقیات کی بنا پر نظام سے ٹکر لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور پھر گھر کو بھوکا کرنے کے بعد دوبارہ نظام کی سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہیں اور پھر اس کے مطابق کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور پھر انگریزی زبان کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل۔ کیونکہ زبان نوآبادیاتی کی مین پلر ہوا کرتی ہے۔

”یہ صرف تمہاری لڑائی نہیں ہے؟ ہم سب کی لڑائی ہے، ایک کی جیت ہوگی تو کروڑوں بھیڑ بکریوں کی جیت ہوگی“

یہ وہ بولا جانے والا جملہ ہے جو طبقاتی جنگ کی عکاسی کرتی ہے۔

لڑکی کا ساتھ ملنا اور اس کا رویہ حقیقی عورت ذات کی روپ دکھا رہی ہے کہ اس کے اندر ممتا والے جذبات پائے جاتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ نے مزید اس کی ہمت بڑھائی اور اس کی جاب میں اس کی میٹیویشن کو برقرار رکھا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ محبت اور انسان دوستی انسان کو کچھ بھی کرا سکتی ہے۔

اور ہر دفعہ پرچوں میں فیل ہونے کے بعد اس کا دوست پانڈے اپنے ابے کو اس دفعہ فیل ہونے کے عذر، اگلے دفعہ پاس ہونے کی یقیں دہانی کراتا اور اس کے پاگل پن کا سبب بھی اس کی مرضی کے خلاف اس کے باپ کا فیصلہ تھا۔ کیونکہ باپ اس کو کرپٹ بنانا چاہتا تھا۔

اور سدھا کی کمیشن کرنے کی وجہ اس لڑکی کی ڈیتھ تھی، جس کی ایف آئی آر میں مین وجہ درج نہ تھی۔ وہ ڈاکٹر بن کر یہ کام نہیں کر سکتی تو کام چھوڑ کر سی ایس پی بن کر اس کو انصاف دلانا چاہتی تھی۔ اور شروع میں منوج اور سدھا کا ساتھ نہ ہونا دوبارہ طبقاتی تفریق ظاہر کرتی ہے۔

دوست کو جب پولیس نے پکڑا تو پولیس والوں کو خود نہیں پتہ تھا کہ مسئلہ کیا ہے۔ کیونکہ قانون کی سمجھ نہ پولیس والے کو تھی اور نہ اس کے دوست کو۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست اور اس کے شہری کو ایک دوسرے کے رشتہ کا نہیں پتہ۔ کیونکہ ریاست صرف ایک طبقہ کی مفاد کو مدنظر رکھ کر اپنی پالیسیاں بناتی ہے۔ اور عام لوگوں کے ساتھ رویہ بھی کچھ ٹھیک نہیں رہتا۔

اس نظام کو کوئی بدلنا نہیں چاہتا جس کے پاس پاور ہے وہ اسے نہیں چھوڑنا چاہتا
ان پڑھ لوگ ان کا ووٹ بینک ہیں۔ زبان صرف ایک رابطے کا ذریعہ ہے۔

آخر میں وہ سوال کے جواب میں کہتا ہے کہ اگر میں فیل ہوجاتا ہوں تو گاؤں جاکر بچوں کو پڑھاؤں گا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کمیشن بھی عوام کی خدمت کے لئے کرنا چاہتا تھا۔ جس میں آخری دفعہ سب کی محنت اور ان کی نیک نیتی کی وجہ سے کامیابی مل جاتی ہے۔ میں ودھو ونود چوپڑا کو اس فلم کی کامیابی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments