پہلے اور دوسرے کی بحث – سیاسی و سماجی تناظر میں


آپ کی نظر میں یہ بیوقوفانہ بات ہو سکتی ہے، جذباتی بیان ہو سکتا ہے، جب کہ میں دیکھ رہا ہوں ایک عرصہ سے بلوچوں اور پشتونوں کے ساتھ جو ”دوسرے“ والا سلوک روا رکھا جا رہا ہے اس کے نتیجے میں جو بغاوت کی لہر اٹھی ہے وہ دراصل جبر و تشدد کے ردعمل کا نتیجہ ہے اور یہ بغاوت محض بغاوت نہیں بلکہ شعور سے بھرپور جبر و تشدد کی پالیسیوں کا انحراف ہے۔ بغاوت کی لہر اپنے مراحل طے کرتی ہوئی اب نفرت سے مزاحمت میں بدل چکی ہے۔

اک لحظہ کے لیے یہاں آپ کو روکنا چاہوں گا۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں تاریخ میں جب جب خلاف عقل جبر و تشدد روا رکھا گیا، اس بارے پہلے وہاں نفرت نے جنم لیا پھر نفرت سے بغاوت نے سر ابھارا بالآخر بغاوت، مزاحمت میں بدل گئی۔ نشان خاطر رہے عوامی مزاحمت شعوری اعتبار سے اپنی مضبوط جڑیں لیے ہوتی ہے لہذا فتح انہی کا مقدر ہوتی ہے۔ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ اب کے جاری رجحان ساز مارچ و تحریک میں خواتین کی معقول تعداد بھی شامل ہو چکی ہے، مزید شمولیت کا سلسلہ پے در پے بڑھتا جا رہا ہے۔

جاری الیکشن کے بعد پنجاب میں عوامی شعور بھی بغاوت میں بدل جائے گا پھر کچھ عرصہ بعد یہاں بھی رجحان ساز مزاحمت کا آغاز ہو گا اور نتائج آپ سب کے سامنے ہوں گے۔ بہرحال مجھے تو اتنا معلوم ہے کہ سیاسی و سماجی شعور کو جبر و تشدد سے دبایا نہیں جا سکتا بلکہ اس طرح وہ نفرت، بغاوت اور مزاحمت میں بدل جایا کرتا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ باخبری کی لہر کلی سطح پر سرایت کرتی جا رہی ہے۔

ان کو ہمیشہ کی طرح اب بھی اپنی طاقت پر ناز ہے لیکن انہیں کون سمجھائے کہ عوام کی طاقت کے آگے سب ہیچ مایہ ہے۔ اب یہاں ”دوسرا“ میدان میں آ چکا ہے جو کہ ”پہلے“ کی جگہ پر آ کر اجارہ دار قوتوں سے سوال کر رہا ہے، ”دوسرے“ کی محض باتیں نہیں بلکہ وہ استدلال سے بھرپور سوالات ہیں جن کی بنیاد میں شکوے، آہیں، سسکیاں، کرب و درد ہیں جو مقتدر قوتوں کی طرف سے روا رکھے جانے والے جبر و تشدد کا نتیجہ ہیں، ان سوالات میں عام و خاص بلکہ سب کی بقا ہے۔

وہ طبقات کی بنیاد پر طاقت کو للکار رہا ہے، وہ باتوں و عمل کی دوئی کو مٹانا چاہتا ہے، وہ ”پہلے“ اور ”دوسرے“ کی طرح کئی ثنویتوں کو چیلنج کر چکا ہے، لطف کی بات کہ ہماری نوجوان نسل میں سیاسی شعور آ رہا ہے اور بالخصوص ”دوسرے“ کا خود سے نکل کر میدان میں آنا اور اسی بنیاد پر بہت جلد اصل قوتوں کا سلسلہ متزلزل ہونے والا ہے۔

درج بالا تناظر میں کچھ سنجیدہ دانشور بھی یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ہمارے یہاں آہنی طاقتیں اس قدر مضبوط ہیں کہ ان کو مات دینا چنداں آسان نہیں۔ میں ایسے کہے کو ”حتمیت“ سے تعبیر کروں گا، اس کا مطلب جو شے ایک بار سماج میں وسیع سطح پر قائم ہو جائے، اس کو چیلنج ہی نہیں کیا جا سکتا جب کہ تاریخی تجربات سے واضح ہے کہ کئی ”مرکزوں“ کا شیرازہ بکھیرا جا چکا ہے، آخر ایسے بیانیوں سے کیوں کر یاسیت پھیلائی جاتی ہے؟ کیا ایسی باتیں واقعی مایوس کن صورت حال کی عکاس ہوتی ہیں یا اس کے پیچھے بھی سوچے سمجھے بیانیے کام کر رہے ہوتے ہیں؟

نفرت کا عنصر جب ”دوسرے“ (دوسرے، سے یہاں مراد عورت ہے ) میں سیاسی شعور کے اعتبار سے سرایت کر جائے تو اسے خطرے کی گھنٹی سمجھنا چاہیے اور یہ گھنٹی جب مرکز میں سرعام بج جائے تو اس کو عام و خاص سنتے ہیں، اس وقت اسے سب سن چکے ہیں۔ ”دوسرا“ ( ”دوسرا“ یہاں دونوں حوالہ سے مراد ہے یعنی طاقتور کے مقابل کمزور اور مرد کے مقابل عورت ) ایک دفعہ پھر لا مرکز ہو چکا ہے اور اپنی یعنی ”دوسرے“ کی طاقت کے ساتھ مرکز کو آہنی بنیادوں پر للکارے گا۔ افسوس اس بات پر ہے وہ اب بھی ”دوسرے“ کے لیے خطرے کی گھٹیاں بجانے میں لگے ہوئے ہیں حالاں کہ ”دوسرا“ کب کا ”پہلے“ کو چیلنج کر چکا ہے۔

چھوٹے بیانیے اب اپنی توانا آواز کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں، یہ سلسلہ آئے روز بڑھتا جائے گا، چونکہ چھوٹا بیانیہ اب محض سطحی طور پر چھوٹا نہیں ہے بلکہ اپنے اندر وہ بڑا بیانیہ بننے کے رجحان بھی لیے ہوئے ہے۔ ایسے دکھائی دے رہا جیسے کئی چھوٹے بیانیے مل کر بڑے بیانیوں کا قلع قمع کرنے جا رہے ہیں۔

جن کے پاس طاقت کی آئیڈیالوجی ہے وہ ابھی تک اپنی قوت کے زعم میں مبتلا ہیں، ان کی نخچیروں سے جو عام لوگ زغن بھرے جاتے ہیں وہ اس سے بھی لطف لے رہے ہیں۔ ہیہات ہیہات۔ عنقریب ہے وہ وقت جب ”مرکز“ کا شیرازہ بکھر جائے گا، نظری سطح پر تو چیلنج ہو چکا ہے جب کہ عملی سطح پر مزاحمتوں کے سلسلے جاری ہیں۔ نیلی بار، راوی بار اور ساندل بار جو آشتی زمانہ تھے وہ بھی اسی زد پر ہیں، اب پیچھے بچا ہی کیا ہے چونکہ اب تو کسی کو ہم غدار بھی نہیں کہہ سکتے، سب بیانیے بک گئے اب تو کوئی خریدار ہی نہیں رہا۔

ریاست، جمہور سے قائم ہوتی ہے۔ ریاست کا سلوک اپنے عوام کے ساتھ مساوی بنیادوں پر ہونا چاہیے لیکن جب ریاست ہی اپنے باسیوں کے ساتھ ”دوسرے“ والا رویہ اپنانا شروع کر دے تو اس کا مطلب وہ خود کو ”پہلے“ کی پوزیشن پر فائز کر چکی ہے اور یہ ”پہلے“ اور ”دوسرے“ کی تفریق سماج میں عدم توازن کا باعث بنتی ہے، یہ ثنویت بالآخر سماجی بگاڑ کی طرف لے جاتی ہے اور معاشروں میں یہ دوئی کلی سطح پر ریاست کو خطرے کی جانب دھکیل دیتی ہے، تاہم ہمارے سماج میں نظری و عملی سطح پر اکثر جگہوں پر یہ ثنویت قائم ہے، المیہ اس بات کا ہے کہ اب ریاست اس تفریق کو عملی طور سرانجام دینا شروع کر چکی ہے جو کہ اسے منطقی انجام سے دوچار کرے گا۔ ریاستی سطح پر یہ ثنویت ہرگز نہیں ہونی چاہیے اور اس کی نفی جزوی سے کلی سطح پر ہونی چاہیے، اسی میں ہی ریاست کی بقا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments