مالدیپ کے بعد بنگلہ دیش میں بھی ’انڈیا آؤٹ‘ کا نعرہ: کیا بنگلہ دیش مالدیپ کے نقش قدم پر چلنے میں کامیاب ہو پائے گا؟

مرزا اے بی بیگ - بی بی سی اردو، نئی دہلی


بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد

’میرا سوال ہے کہ اُن کی بیویوں کے پاس کتنی انڈین ساڑھیاں ہیں؟ وہ اپنی بیویوں سے یہ انڈین ساڑھیاں لے کر انھیں جلا کیوں نہیں دیتے؟‘

یہ سوال بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے ملک میں حزب اختلاف کی جماعت بنگلہ دیش نیشل پارٹی (بی این پی) کے بعض رہنماؤں کی جانب سے انڈین مصنوعات کے بائیکاٹ کے مطالبے کے جواب میں کیا ہے۔

اور وزیر اعظم حیسنہ واجد نے بس اتنا کہنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی جماعت عوامی لیگ کی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اُن کا مزید کہنا تھا کہ انڈیا سے آنے والے ’گرم مصالحے، پیاز، لہسن اور دیگر اشیا بھی اپوزیشن (بی این پی) رہنماؤں کے گھروں میں نہیں نظر آنے چاہییں۔‘

انھوں نے کہا کہ جب حزب اختلاف کی جماعت ’بی این پی‘ اقتدار میں تھی تو اُن کی حکومت کے وزرا اور اُن کی بیویاں انڈیا کے دوروں کے دوران ساڑھیاں خریدتے تھے اور انھیں بنگلہ دیش میں فروخت کرتے تھے۔

بنگلہ دیش کے اخبار ’ڈیلی سٹار‘ کے مطابق شیخ حسینہ کے یہ ’طنز سے بھرے‘ ریمارکس حزب اختلاف کے رہنما روح الکبیر رضوی کی جانب سے انڈین مصنوعات کے خلاف علامتی احتجاج کے طور پر اپنی کشمیری شال سڑک پر پھینکنے کے بعد سامنے آئے ہیں۔

انڈیا آؤٹ مہم کیا ہے؟

انڈین مصنوعات کا بائیکاٹ
بنگلہ دیش میں حالیہ دنوں انڈین مصنوعات کے بائیکاٹ کے لیے ریلیاں نکلتی دیکھی جا رہی ہیں

بنگلہ دیش میں یہ پیش رفت ’انڈیا آؤٹ‘ مہم کے پس منظر میں دیھکی جا رہی ہے۔

بنگلہ دیش میں یہ مہم کچھ انفلوئنسرز، سماجی کارکنوں اور اثرورسوخ رکھنے والی شخصیات کی طرف سے شروع کی گئی ہے جسے عوام اور حزب اختلاف کے سیاستدانوں کے ایک حصے کی حمایت حاصل ہے۔ اس مہم نے اپوزیشن ’بی این پی‘ کی طرف سے بائیکاٹ کیے جانے والے انتخابات میں عوامی لیگ کی حالیہ کامیابی کے بعد زور پکڑا ہے۔

مہم کو چلانے والے اتحاد ’پیپلز ایکٹیوسٹ کولیشن‘ کی ایک ویڈیو کو چند روز قبل ایک صارف نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا ہے جس میں ’انڈیا آؤٹ‘ مہم کے کے تحت انڈین مصنوعات کے بائیکاٹ پر بات کی گئی ہے۔

https://twitter.com/revolt_71/status/1762447726900641885

یاد رہے کہ گذشتہ سال انڈیا کے ایک اور پڑوسی ملک مالدیپ میں ’انڈیا آؤٹ‘ کے نعرے پر صدارتی انتخاب کی مہم چلانے والےمحمد معیزو نے انڈیا حامی کہلائے جانے والے صدر محمد صالح کو شکست دے کر صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کی تھی۔

اور اس کامیابی کے بعد محمد معیزو نے چین کے ساتھ قربت بڑھائی اور انڈیا کو مالدیپ سے سکیورٹی کے نام پر موجود افواج کو ہٹانے پر مجبور کیا، جسے اب مرحلہ وار طور پر ہٹایا جا رہا ہے۔

تو کیا اب بنگلہ دیش میں بھی ایسی کوئی پیش رفت ہو سکتی ہے؟

اگرچہ بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کی جماعت ’بی این پی‘ کے کچھ سرکردہ رہنماؤں جیسا کہ مسٹر رضوی نے اس مہم کی حمایت کا اظہار کیا ہے تاہم پارٹی نے ابھی تک اس پر باضابطہ اپنا موقف واضح طور پر بیان نہیں کیا ہے۔

’ٹیلی گراف‘ اخبار کے مطابق بی این پی کے میڈیا سیل کے رکن اور رہنما سائرالکبیر خان نے کہا ہے: ’ہماری پالیسی ساز تنظیم نے اس معاملے پر بحث کی ہے کیونکہ کچھ رہنماؤں نے بائیکاٹ کی کال پر پارٹی کے موقف کی وضاحت چاہی تھی۔ لیکن ابھی تک ہماری پارٹی کا اس پر کوئی باضابطہ مؤقف نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ عوام کی طرف سے ایک کال ہے اور ہمارے کچھ رہنما اس کی حمایت کر رہے ہیں۔‘

خالدہ ضیا
بنگلہ دیش میں حزب اختلاف کی رہنما خالدہ ضیا کے بیٹے اب ان کی جماعت کو چلا رہے ہیں

’ہر پڑوسی انڈیا سے ناراض ہے‘

دوسری جانب انڈین ریاست مغربی بنگال میں برسر اقتدار ترنمامول کانگریس کے رکن پارلیمان جواہر سرکار نے بنگلہ دیش میں پیدا ہونے والی اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انھوں نے بنگلہ دیش میں جاری مہم پر تبصرہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا: ’ہر پڑوسی انڈیا سے ناراض ہے۔ پاکستان دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے، چین نواز نیپال انڈین غنڈہ گردی سے نفرت کرتا ہے، لنکا کو تملوں اور باسزم کی وجہ سے (انڈیا کے ساتھ) مسائل ہیں، مالدیپ نے ہمیں لات مار کر باہر نکال دیا، بھوٹان چین کی طرف جھک رہا ہے، اور اب بنگلہ دیش میں ’انڈیا آؤٹ‘ تحریک سرگرم ہے۔‘

https://twitter.com/jawharsircar/status/1755534601697493116

واشنگٹن میں مقیم بنگلہ دیشی صحافی مشفق الفضل انصاری نے اس بابت امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھو میلر سے ایک سوال پوچھا۔ مشفق انصاری نے پوچھا کہ ’بنگلہ دیش میں ’انڈیا آوٹ‘ کی مہم زور پکڑتی جا رہی ہے۔ لوگ انڈین مصنوعات کا بڑے پیمانے پر بائیکاٹ کر رہے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ انڈیا پس پردہ شیخ حسینہ کو اقتدار میں برقرار رکھنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ آپ ان حالات کو کس طرح دیکھتے ہیں؟‘

اس کے جواب میں میتھو میلر نے کہا: ’ہمارے پاس اس مہم کی رپورٹس ہیں، لیکن ہم کسی صارف کے فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے، چاہے وہ بنگلہ دیش میں ہو یا دنیا کے کسی اور حصے میں۔ لیکن ہم بنگلہ دیش اور انڈیا دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات کی قدر کرتے ہیں اور ہم دونوں ممالک کی حکومتوں کے ساتھ کام کرتے رہیں گے۔۔۔‘

https://twitter.com/MushfiqulFazal/status/1767280341645938983

کیا بنگلہ دیش مالدیپ کی راہ پر چل رہا ہے؟

ہم نے اس بابت جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے پروفیسر سنجے بھاردواج سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ مالدیپ کی ’انڈیا آؤٹ‘ مہم سے بنگلہ دیش کی ’انڈیا آؤٹ‘ مہم کا تقابل نہیں کیا جا سکتا۔

پروفیسر سنجے کہتے ہیں کہ مالدیپ ایک چھوٹا ملک ہے اور وہ پوری طرح سے ایک سنی اکثریتی خطہ ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش بہت بڑا ہے جہاں ہندو آبادی بھی کافی ہے۔ انھوں نے کہا مالدیپ کے صدر محمد معیزو کو اپنے سے مقابلے میں آنے والی جماعت کے اندرونی اختلافات کا بھی فائدہ پہنچے جبکہ دوسری جانب چین مالدیپ میں تقریبا ایک دہائی سے سرگرم ہے۔

انھوں نے کہا کہ صدر معیزو بھی انڈیا کے معاملے میں حساس ہیں چنانچہ جب اُن کے ایک وزیر نے انڈیا مخالف بیان دیا تھا تو انھوں نے اس کا سختی سے نوٹس لیا تھا۔

پروفیسر سنجے بھاردواج نے کہا کہ ’جہاں تک بنگلہ دیش کا سوال ہے تو یہ تین طرف سے زمین سے انڈیا سے گھرا ہے جبکہ چوتھی طرف خلیج بنگال ہے۔ دونوں ممالک کی مشترکہ روایت رہی ہے اور دونوں طرف بنگالی بولنے والی برادریاں رہتی ہیں جس میں ہندو مسلم دونوں شامل ہیں۔ ان کے درمیان شادی بیاہ کے رشتے ہیں اور مشترک تہذیبی اقدار ہیں۔ ان کا ایک دوسرے پر بہت زیادہ انحصار ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’بنگلہ دیش کا انحصار انڈیا پر اس قدر ہے کہ کلکتہ میں شاپنگ کیے بغیر تو انھیں عید میں بھی مزہ نہیں آتا ہے۔‘

ان کے مطابق معیشت کے معاملے میں انڈیا بنگلہ دیش پر منحصر ہے تو بنگلہ دیش سکیورٹی اور سیاسی استحکام کے معاملے پر انڈیا پر بہت انحصار کرتا ہے۔

’بنگلہ دیش انڈیا بائیکاٹ کا متحمل نہیں ہو سکتا‘

پرفیسر سنجے نے کہا کہ ’اگر انڈین مصنوعات کا بنگلہ دیش میں بائیکاٹ کیا گیا تو مہنگائی بہت زیادہ بڑھے گی، کچن کے مصالحوں سے لے کر ادویات تک پر بنگلہ دیش کا انڈیا پر انحصار ہے۔ یہاں تک کہ پیاز، لہسن، ناریل تیل، خوردنی تیل سب انھیں انڈیا سے فراہم ہوتا ہے۔ یہ صرف کپڑے کے بائیکاٹ کی بات نہیں کہ کام چل جائے یہ ان کے لیے زیست کا مسئلہ ہے اور ان کا انڈیا پر بہت زیادہ انحصار ہے۔‘

مسٹر بھاردواج کے مطابق اگرچہ بنگلہ دیش تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں شامل ہے اور وہاں چین اور جاپان کے اشتراک میں انفراسٹرکچر کے ترقیاتی منصوبے اور کام ہو رہے ہیں لیکن ان کے لیے پتھر سے لے کر بجری تک سب انڈیا سے جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آج کے دور میں جب معیشت بازار پر مبنی ہے تو ’بائیکاٹ‘ گھسی پٹی چیز ہو گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ جو ’انڈیا آؤٹ‘ کی مہم چلا رہے ہیں وہ بنگلہ دیش کی سیاست میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ یہاں تک کہ حزب اختلاف کی پارٹی بی این پی والے بھی اُن کے پوری طرح حامی نہیں ہیں کیونکہ اس کا ان کو الٹا نقصان ہو سکتا ہے۔

’یہ درست ہے کہ وہ (اپوزیشن) اپنا احیا چاہتے ہیں، لیکن یہ ان کے لیے بیک فائر بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ سابق وزیر اعظم اور بی این پی کی رہنما خالدہ ضیا کے بڑے بیٹے طارق رحمان اس پارٹی کو لندن سے چلا رہے ہیں اور زمینی سطح پر ان کی موجودگی بہت کمزور ہو چکی ہے۔‘

’اور ابھی سامنے کوئی انتخابات بھی نہیں ہیں، اس لیے اس کا انھیں خاطر خواہ کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ابھی بظاہر اس مہم کا مقصد سیاسی بنیادوں پر حکومت کو، معیشت کو اور ملک کو غیر مستحکم کرنا لگتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ چین کا تو بنگلہ دیش میں پہلے سے ہی عمل دخل ہے، لیکن یہ مالدیپ کی طرح کام نہیں کرے گا۔

یاد رہے کہ انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان 4100 کلومیٹر کی سرحد ہے اور ان کے درمیان گہرے تاریخی، ثقافتی اور اقتصادی تعلقات ہیں۔ اس لیے ایک مستحکم، خوشحال اور دوستانہ بنگلہ دیش انڈیا کے مفاد میں ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انڈیا شیخ حسینہ کی حکومت کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا نظر آ رہا ہے اور یہ کہ بنگلہ دیش جنوبی ایشیا میں اس کا سب سے قریبی اور مضبوط اتحادی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32637 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments