لاہور اور کراچی کا ایک تقابلی جائزہ


2020 میں کراچی چھوڑ کر لاہور ہجرت کی تو ایسا لگتا تھا کہ بقیہ عمر ساری شہرِِ جاناں کا غم کھا جائے گا۔ اور کچھ حد تک ایسا ہوا بھی۔ سو ایک ڈیڑھ سال تک ہمیں اپنے شہرِِ گزشتہ کا ہجر دیمک کی طرح کھاتا رہا مگر رفتہ رفتہ جذبات ماند ہوئے اور عقل انگڑائیاں لے کر اُٹھی تو حقائق پر غور شروع کیا۔

الغرض آج کی تاریخ میں کراچی اور لاہور کا تقابل کرنا ہو تو ہمارے چند معروضی معیارات پرکھ لیجیے، فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی!

پہلا پیمانہ انفراسٹرکچر اور سہولیات کی فراہمی ہے۔

کراچی کی ڈبلیو 11 اور ’جعفر طیارہ‘ میں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور ٹریفک کے انبوہِ بے پایاں سے گزر کر جب ہم گھر لوٹتے تھے تو شکن آلود ماتھے پر فرسٹریشن اور تھکاوٹ نمایاں ہوتی تھی۔ اب یہی سفر ’آر اے بازار‘ سے ’مال روڈ‘ تک اے سی والی ٹھنڈی سپیڈو بس میں سہولت کے ساتھ ہوجاتا ہے۔

یونہی کبھی ’کیماڑی‘ سے ’ڈرگ روڈ‘ پہنچنے تک کا سفر کئی گھنٹے کھا جاتا تھا مگر یہاں فیروزپور، کینال، مال اور جیل روڈ کا بِچھا جال ایک منزل کو کئی کئی متبادل سڑکیں دے کر رستے ہموار اور زندگی آسان کر دیتا ہے۔

دوسرا پیمانہ قانون کی بالادستی ہے۔

کراچی کی ابتر انفراسٹرکچر کی صورتحال میں کلیدی کردار اس عوام کا ہے جسے ’نیو ٹاؤن‘ پر لگا کوئی ٹریفک اشارہ اور ’صدر‘ میں کھڑا کوئی ٹریفک اہلکار روک ہی نہیں سکتا۔ موٹر سائیکل تو ایک طرف وہاں بڑی گاڑیوں حتی کہ بسوں اور ٹرکوں کو بھی ٹریفک اصولوں سے کوئی سروکار نہیں۔

جبکہ لاہور کا یہ عالم ہے کہ آپ ہیلمٹ پہنے بغیر سڑک ماپنے کا سوچ بھی نہیں سکتے وگرنہ نیلی وردی والا فرشتہ آپ پر چالان کا قہر ڈھانے سے ذرا نہیں کترائے گا۔

تیسرا پیمانہ عام جنتا میں سوک سینس کا شعار ہے۔

کراچی میں ایک سیاسی و مذہبی ہنگامہ آتا ہے اور بس ٹرانسپورٹ، تعلیمی اداروں یہاں تک کہ کاروباری سرگرمیوں کو بھی معطل ہوتے دیر نہیں لگتی اور ہجوم ’سٹیڈیم روڈ‘ سے ’ناگن چورنگی‘ تک سب تہس نہس کر دیتا ہے۔ جبکہ لاہور میں یہ موہوم سا رجحان یتیم خانے چوک کے چند مولویوں اور زمان پارک وقوعہ میں نظر آیا اس سے پہلے عوام کی ایسی جہالت کا سراغ خال خال ہی ملے گا۔

چوتھا پیمانہ طلباء کا پروفیشنل رجحان ہے۔

چونکہ کراچی کی سیاسی تاریخ انتہائی ہولناک اور مہاجر قوم کے استحصال سے بھری پڑی ہے سو نتیجتاً وہاں کے طلباء میں سیاسی تناظرات قابلِ بھروسا اور امید کے لائق رہے ہی نہیں۔ لہذا طلباء کا رجحان سیاسی سٹرکچر کا حصہ بننے کے بجائے بزنس اور چارٹڈ اکاؤنٹنگ کی جانب نظر آتا ہے جبکہ پنجاب اور خاص کر لاہور میں سیاسی سٹرکچر اور بیوروکریسی کا ایسا جنون سوار ہے کہ ہر بندہ ’سی ایس ایس‘ کا شیدائی دکھتا۔

پانچواں پیمانہ سماجی رجحانات اور سوچ ہے۔

لاہور میں پنجابی روایات، شعر و ادب، جگت بازی اور فکر و فلسفہ عوامی تھیم ہیں۔ کہیں کہیں کاسٹ (ذات) اور پنجابی نیشنلزم کے معدودے تنگ نظر بھی مل جاتے ہیں۔ جبکہ کراچی میں سیاسی فہم و ادراک، بنیادی ضروریات کے مسائل اور تفرقہ بازی کی تقسیم بہت نمایاں ہے۔ وہ لاہور جو سالوں سے نون لیگ کا اندھا مقلد بنا رہا اور اب عمران خان کے نعروں پہ ناچتا ہے وہ بلدیہ، لیاری اور ناظم آباد کے سیاسی تنوع اور فکر کا اندازہ بھی نہیں کر سکتا۔ مگر کراچی کی مذہبی شدت پسندی اور تعصب بھی بے نظیر ہے۔

آخری پیمانہ سیر و سیاحت اور چٹ پٹے کھانے ہیں۔

حضورِ والا لاہور کے سب ریستوران اور ڈھابے چھان مارے مگر بہادر آباد اور جوہر کی بریانی کا عشرِ عشیر بھی نہیں ملے گا۔ مصالحہ دار کھانوں میں ’ملینیم مال‘ کے سامنے موجود شنواری بھی لاہور کے اونچے اور مہنگے کیفوں سے زیادہ لذیذ ہیں۔ لیکن سیاحت کے لیے ’گڈانی‘ اور ’ٹرٹل بیچ‘ ، ’سی ویو‘ کے گدلے پانی سے قدرِ ِ بہتر ہیں مگر لاہور کے قدیم محلے، عمارتیں اور بوڑھا راوی آج بھی پنجابی ثقافت اور مغلیہ تاریخ کا شفاف آئینہ دار ہے۔ ناسٹلجیا کہیں نہیں کھویا، آئیے دیکھیے جناب۔

بقول شاعر
سحرِ برلن سے ہی پوچھو تو گواہی مِل جائے
وہی سرمستی لاہور سدا یاد رہی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments