پولیو رضاکاروں کی جانیں اتنی سستی کیوں ہیں؟


\"akhter1952ء میں پولیو کی ویکسین تیار کرنے والے ڈاکٹر جوناس سالک (Jonas Salk) کو شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ ان کی ایجاد کردہ یہ دوا، ایک جانب تو لاکھوں لوگوں کو تاحیات معذوری سے بچا لے گی، مگر پاکستان جیسے ملک میں انہی لوگوں کی جان لینے کی وجہ بنے گی، جو ان بچوں کو معذوری سے بچانے کے لیے گھر گھر جائیں گی، جن کے والدین بھی انہیں ہنستا کھیلتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔

یہ 1947ء کا زمانہ تھا جب امریکا نے یہ فیصلا کیا، کہ پولیو جیسے مرض سے نجات حاصل کی جائے، اور اس کے لیے ڈاکٹر جوناس سالک کو چنا گیا۔ انہیں پٹس برگ یونیورسٹی کی وائرس ریسرچ لیب کا ہیڈ مقرر کیا گیا، جنہوں نے وہاں رہ کر اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر کے، آخرکار پولیو کی دوا تیار کر لی۔ یہ میڈیکل کی دنیا میں ایک بہت بڑا کارنامہ تھا۔ کیوں کہ اس وقت امریکا خود پولیو کے وائرس کی وجہ سے سخت متاثر ہو رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ امریکی صدر فرینک روز ویلٹ بھی اسی بیماری کا شکار ہوئے تھے، اور انہوں نے اپنی باقی زندگی وہیل چیئر پہ گزار دی تھی۔ جیسے ہی ویکسین ایجاد ہوئی تو اسے تجرباتی طور پہ 1954 میں استعمال کیا گیا۔

اس کے استعمال سے قبل امریکا میں پولیو کے 1955ء میں 28985 کیس تھے، جو کہ کم ہو کر 5894 ہوگئے۔ اس طرح پولیو کی دوا پوری دنیا میں استعمال ہونے لگی۔ جس طرح کسی زمانے میں چیچک ایک لا علاج مرض تھا اور اس کی وجہ سے کئی لوگوں کی اموات ہو چکی تھیں، اسی طرح پولیو کا وائرس بھی لا علاج بن گیا تھا۔ مگر جب اس دوا کا استعمال شروع ہوا تو لوگوں کی زندگیاں معذوری کی زنجیروں سے آزاد ہوتی گئیں اور اب ماسوائے پاکستان جیسے ممالک کے، پوری دنیا میں اس مرض کا خاتمہ ہو چکا ہے۔

پاکستان میں دو دہائیوں سے اس مرض کے خاتمے کی مہم جاری ہے۔ مگر اب تک اس کا خاتمہ نہیں ہوسکا۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 2009ء سے لے کر 2016ء تک پولیو کے 949 کیس ظاہر ہوئے ہیں، جن میں سے پنجاب میں، اس وائرس کا شکار 49، سندھ میں 130، خیبر پختونخوا میں 202، فاٹا میں 433، بلوچستان میں 133، اور گلگت بلستان میں 2 بچے اس کا شکار ہوئے۔ یعنی ہم اتنے عرصے میں ایک ایسی بیماری کا خاتمہ نہیں کر سکے جو کہ اب لاعلاج نہیں ہے بلکہ قابل علاج ہے۔

ہمارے ملک میں پولیو رضارکاروں کو قتل کرنا ایک عام سی بات ہے۔ کئی برسوں سے پولیو مہم کے آغاز ہوتے ہی پولیو ورکر پر حملے، انہیں دھمکانا اور قتل کرنے جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ پولیو کے عالمی دن کے موقع پر صوبہ سندھ کے ضلع عمرکوٹ میں ایک پولیو رضاکار کو گولیاں ماردی گئیں۔ پتھورو پولیس کے مطابق مرزا برج تعلقہ پتھورو کے قریب مرزا محمد حسن کا رہائشی گل محمد مرزا اپنی ٹیم کے ارکان کے ہمراہ ڈیوٹی سرانجام دینے کے لیے جارہا تھا کہ آریسر بس اسٹاپ کے قریب موٹرسائیکل سوار دو نامعلوم افراد نے ان پر فائرنگ کردی۔

پاکستان کے وہ حصے جن میں پولیو کے کیس ظاہر ہو رہے ہیں، وہاں پر اس بات کو شدت سے محسوس کیا گیا ہے کہ وہاں انتہاپسندی والے عناصر موجود ہیں۔ ملائوں سے اس مہم کے خلاف فتوے جاری کرائے جاتے ہیں کہ پولیو کے قطرے پلانا حرام ہے۔ یہ دوا آنے والے وقتوں میں بچوں کو نامرد بنا دے گی۔ اگر ایسا ہے تو بھارت اور چین جیسے ممالک کی آبادی کم کیوں نہیں ہو رہی جو کہ اس بیماری کا خاتمہ کر چکے ہیں۔ میڈیکل سائنس میں کوئی بھی دوا صرف مرض کا علاج کرتی ہے۔ وہ حضرات جو پولیو کی دوا کے خلاف ہیں اور جا بجا اس کے خلاف مہم چلاتے رہتے ہیں۔ وہ بھی سر درد کی دوا لیتے ہیں، ان کی آنکھ میں جب موتیا اتر آئے تو وہ بھی آپریشن کروا کے اپنی بینائی کو بہتر کرتے ہیں۔ اگر پولیو کی دوا کسی وجود کو تاحیات معذوری سے بچا سکتی ہے تو اس کا مطلب یہ کہ وہ نسل جس تک یہ دوا پہنچ رہی ہے وہ کسی پر بوجھ نہیں بنے گا۔ وہ کسی بھی ایسی معذوری کا شکار نہیں ہوگا جو اسے معاشرے میں احساس محرومی کا شکار کرے۔

مگر میں سوچتا ہوں کہ اس میں ان رضاکاروں کا کیا قصور ہے، جنہیں اس مہم میں اتنا معاوضہ بھی نہیں ملتا، کہ وہ اپنے بچوں کو بہتر انداز میں پال سکیں۔ انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ اپنی جان خطرے میں ڈال کر مرنے کے لیے نکل پڑتی ہیں۔ کیا کبھی ان حملے آوروں نے یہ بات سوچی ہے کہ یہ رضاکار ہمارے ہی نسل کو سنوارنا چاہتے ہیں۔ انہیں ایک ایسے مرض سے بچا رہے ہیں، جس نے کئی زندگیوں کو چلنے پھرنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ سندھ میں اس قسم کے عوامل سندھ کے صوفی مزاج کو مذہبی جنونیت کے جانب دھکیل رہے ہیں۔ حالیہ حملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ میں انتہاپسندی کے رجحانات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ ہم ان پولیو رضاکاروں کو بھی بچوں کا قاتل سمجھتے ہیں۔ مگر ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں صرف ایک ایسی دوا ہے جو ننھے وجودوں کو ایک بھرپور زندگی دے سکتی ہے۔

اس حوالے سے ہمارے ارباب اختیار کی خاموشی پر بھی سوال اٹھائے جاتے ہیں اور ہر قتل اور حملے کے بعد صرف افسوس کیا جاتا ہے، مگر نہ تو ان رضاکاروں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے، اور نہ ان کے قتل میں ملوث لوگوں کو سزا دی جاتی ہے۔ پولیو مہم کے خلاف زہر اگلنا اور رضا کاروں کی تذلیل کرنا محض ایک نفسیاتی رویہ ہے، جو ان ذہنوں کی پیداوار ہے جو ہماری نسل کے محسن نہیں ہیں۔

کاش جوناس سالک اپنی لیب میں ان لوگوں کے لیے بھی کوئی دوا ایجاد کرجاتے جو ذہنی طور پہ معذور ہیں اور جو آج بھی انتہاپسندی کو ہر مسئلے کا حل سمجھتے ہیں، کیوں کہ ذہنی معذوری جسمانی معذوری سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہے۔

اختر حفیظ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اختر حفیظ

اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر رہے ہیں۔

akhter-hafeez has 20 posts and counting.See all posts by akhter-hafeez

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments