بھٹو کی مقبولیت کے اسباب – ڈاکٹر مہدی حسن کی یادداشتیں


65ء کی جنگ کے دوران قوم کی قوت مزاحمت سے ڈاکٹر مبشر حسن بہت متاثر ہوئے۔ 66ء میں اپنے ہاں انہوں نے ماہانہ میٹنگ شروع کی، جس میں وکلاء، صحافی اور سیاستدان شریک ہوتے۔ میں بھی وہاں باقاعدگی سے جاتا۔ میں ان سے کہتا، آپ جس قسم کی باتیں کرتے ہیں یہ سب میں اسکول کالج کے زمانے میں ٹک شاپ میں کرتا تھا، اس سے مسائل حل نہیں ہوں گے، موجودہ پارٹیوں میں مسائل حل کرنے کی اہلیت نہیں، نئی پارٹی بنانے کا سوچیں۔ ایک دن میٹنگ میں گیا تو ڈاکٹر مبشر نے کہا کہ لو بھئی! خوش ہو جاؤ، ہم نئی پارٹی بنانے جا رہے ہیں۔ کراچی میں انہوں نے ہم خیال دوستوں سے رابطہ کیا۔ بھٹو کابینہ سے استعفا دینے کے بعد بذریعہ ٹرین لاہور آئے تو ڈاکٹر مبشر نے ریسیو کیا، نوجوانوں نے ان کو بھرپور انداز میں خوش آمدید کہا۔ بھٹو کی یہ مقبولیت تاشقند معاہدے کی مخالفت کے باعث تھی۔ یہ کہنا تو درست نہیں کہ ہم نے اس جنگ میں فتح حاصل کی لیکن یہ ہماری کامیابی تھی کہ اپنے سے پانچ گنا بڑی طاقت کو روکے رکھا۔ جنگ کے بعد ہندوستان نے پاکستان سے کشمیر سے فوج کی واپسی اور ان علاقوں کی واپسی کا مطالبہ کیا، جو پاکستان نے فتح کئے تھے۔ بھٹو ان علاقوں کو واپس کرنے کے حق میں نہیں تھے، ان کا موقف تھا کہ سیز فائر لائن وہاں ہونی چاہیے، جہاں جنگ بند ہوئی، یعنی وہ نئی سیز فائر لائن کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن ایوب خان نے بھٹو کی بات نہ مانی اور علاقے ہندوستان کو واپس کر دیے۔ اس بر بھٹو ناراض ہو گئے۔ جنگ میں سارا نقصان پنجاب کا ہوا۔ دوسرے یہ تاثر تھا کہ ہم جنگ جیت رہے تھے اس لیے نوجوانوں کو جنگ بندی بھی پسند نہیں آئی۔ بھٹو نے پہلے اعلان کیا کہ میں البانیہ جا رہا ہوں۔ اس کے بعد نیشنل عوامی پارٹی بنانے کی تجویز دی، جس پر وہ مان گئے۔

1967ء میں ڈاکٹر مبشر کے گھر کنونشن ہوا، جس میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ فاؤنڈیشن پیپرز پہلے سے تیار تھے۔ پارٹی کے قیام کے بعد اعلان تاشقند نامنظور تحریک جو پہلے سے چل رہی تھی، اس میں اس وقت اور بھی تیزی آ گئی، جب راولپنڈی میں دو طالب علم شہید ہو گئے اور اب یہ تحریک پنجاب سے نکل کر پورے پاکستان میں عوامی تحریک بن گئی اور بعد اس نے ایوب مخالفت تحریک کا روپ دھارا۔ اس تحریک میں سول سوسائٹی کی اٹھائیس تنظیمیں شامل تھیں۔ سیاسی جماعتیں بعد میں شامل ہوئیں۔ اس تحریک کے باعث ایوب کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور ان کی جگہ یحییٰ خان آ گئے۔ انہوں نے اپوزیشن کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے۔ ون پرسن ون ووٹ کا مطالبہ مانا گیا۔ پارلیمانی نظام کی بات مان لی گئی۔ اسٹوڈنٹس یونین بحال ہو گئیں۔ بلوچستان کو الگ صوبے کا درجہ مل گیا۔ غلط یہ ہوا کہ الیکشن کا اعلان بہت پہلے ہو گیا، جس سے انتخابی مہم نے بہت طوالت پکڑ لی، ڈیڑھ برس یہ چلتی رہی، اس وجہ سے الیکشن ہوئے تو عوام کے جذبات بہت بھڑکے ہوئے تھے۔

جماعت اسلامی، مسلم لیگ اور پی ڈی پی کو اسٹیبلشمنٹ سپورٹ کر رہی تھی۔ نتائج آئے تو ملک کے ایک حصے میں عوامی لیگ تو دوسرے حصے میں پیپلز پارٹی اکثریتی پارٹی بن کر ابھری۔ بھٹو نے مجیب سے کہا کہ پاکستان کے حالات دنیا سے مختلف ہیں، اس لیے آئین کسی ایک پارٹی کے پروگرام کے مطابق نہیں ہونا چاہیے، اس لیے اسمبلی کے اجلاس سے پہلے آئین کو آؤٹ لائن پر بات ہونی چاہیے، مجیب اس پر نہیں مانے اور کہا کہ ساری بات اسمبلی میں ہو گی۔ جس صدارتی حکم کے تحت الیکشن ہوئے، اس میں یہ تھا کہ ایک سو بیس دن میں آئین بنانے میں اسمبلی اگر ناکام رہی تو وہ ٹوٹ جائے گی اور پھر مارشل لاء حکام نیا آئین دیں گے۔ بھٹو نے یحییٰ خان سے 120 دن کی شرط ہٹانے کو کہا، انکار پر اسمبلی اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ اور وہ مشہور بات کہی کہ جو اجلاس میں شرکت کے لیے جائے گا، اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ عوامی لیگ کا اصرار تھا، تین مارچ کو اسمبلی اجلاس بلایا جائے، پر یحییٰ خان نے اسے ملتوی کر دیا۔ عوامی لیگ نے 7 مارچ کو عدم تعاون تحریک کا اعلان کر دیا۔ یحییٰ خان نے معاملات چلانے کے لیے مغربی پاکستان سے بندے بھجوائے لیکن بات بنی نہیں کیونکہ وہ ماحول ان کے لیے سراسر اجنبی تھا۔ نہ وہ وہاں کی زبان جانتے تھے اور نہ ہی رستوں سے واقف۔ ملٹری ایکشن کا فیصلہ ہوا۔ جماعت اسلامی نے البدر اور الشمس کے ذریعے فوج کا ساتھ دیا۔ اسمبلی کا اجلاس نہ ہونے میں بھٹو کا قصور زیادہ ہے کہ ان کی پارٹی بڑی تھی لیکن مغربی پاکستان کی مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ساٹھ اراکین بھی اتنے ہی قصور وار ہیں کیونکہ وہ اگر مجیب کا ساتھ دیتے تو اسمبلی کا اجلاس ہو جاتا اور بھٹو تنہا ہو جاتے۔ لیکن ان میں سے کسی نے مجیب کو اقتدار دینے کی بات نہیں کی۔ وجہ یہ ہے کہ مغربی پاکستان کے کسی بھی علاقے کی پارٹی اور لوگ بنگالیوں سے ہمدردی نہیں رکھتے تھے۔ زبان کی تحریک میں کسی نے انہیں سپورٹ نہیں کیا۔ ان کی اکثریت کو پیرٹی کے نام پر ختم کر دیا گیا، تب بھی کوئی نہیں بولا۔

بھٹو کی مقبولیت کا سبب ان کے یہ تین نعرے بنے۔ اول: طاقت کا سرچشمہ عوام۔ دوم: جمہوریت ہماری سیاست۔ سوم: سوشلزم ہماری معیشت۔ پیپلز پارٹی نے سیاست میں کارکنوں کا تصور دیا۔ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد جب بھٹو کو حکومت ملی تو پاکستان ناکام ریاست کے طور پر تھا لیکن وہ اسے سنبھالنے میں کامیاب ہو گئے کیونکہ مقبول بہت تھے اور عوام دوست پالیسیاں انہوں نے دیں۔ اس کڑے وقت میں لیبیا نے بھی ہماری بہت مدد کی۔ رفتہ رفتہ پارٹی میں مفاد پرست گھسنے لگے اور پارٹی سے مخلص افراد دور ہوتے گئے۔ 77ء کے الیکشن میں سرکاری ملازمین نے دھاندلی کروائی۔ بھٹو خود بلامقابلہ منتخب ہوئے تو وزرائے اعلیٰ کو بھی بلامقابلہ منتخب ہونے کی سوجھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بھٹو کی پارٹی پر گرفت نہیں رہی تھی۔ بلوچستان میں ملٹری ایکشن بھٹو نے شاہ ایران کے دباؤ میں آکر کیا۔ احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کا فیصلہ سعودی عرب کے اصرار پر ہوا۔ امریکا بھٹو سے تین وجوہات کی بنا پر ناراض تھا۔ ایک تو پاک چین دوستی اسے کھٹکتی تھی۔ دوسرے نیوکلیر پروگرام سے نا خوش تھا۔ تیسرے پیپلز پارٹی کا سوشلزم کے نعرے پر الیکشن میں کامیاب ہونا، اسے ہضم نہیں ہوا۔

ضیاء الحق کو پہچاننے میں بھٹو سے غلطی ہوئی۔بھٹو نے لکھا ہے کہ وہ ملتان میں رات کو صادق حسین قریشی کی لائبریری میں بیٹھے تھے کہ ملازم نے اطلاع دی کہ کور کمانڈر میجر جنرل ضیاء الحق ملنے آئے ہیں۔ بھٹو نے کہا کہ میری ان سے صبح ملاقات ہوئی تو ہے۔ خیر،ضیا ملنے آئے۔ بھٹو سے کہہ کر قرآن پاک منگایا۔ اسے چوما اور ہاتھ میں اٹھا کر کہا کہ میں اس پر حلف دیتا ہوں کہ ہمیشہ آپ کا وفادار رہوں گا۔ ضیاء کے اس عمل کی کوئی وجہ نہیں تھی، کسی نے ان سے ایسا کرنا کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ وہ خوشامد کررہے تھے ، جس کا بھٹو جیسا ذہین آدمی اندازہ کرنے میں ناکام رہا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).