مذہبی شدت پسندی اور علمائے کرام کی خاموشی


رمضان کے مہینے میں نیک کام کا ثواب ستر گنا بڑھ جاتا ہے۔ یہی سوچ کر ختمِ نبوت کے محافظوں نے تئیس اور چوبیس مئی کی درمیانی شب سیالکوٹ کے کشمیری محلے میں موجود جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ اور اس سے متصل تاریخی اہمیت کا مکان مسمار کر دیا۔ اس “نیک کام” کے دوران شہر کی پولیس اور تحصیل میونسپل کمیونٹی کے اراکین چپ چاپ کھڑے رہے۔ آخر جنت کی حوروں کے قصے انہوں نے بھی سن رکھے تھے۔

جب خوب نیکیاں کما لی گئیں تو حافظ احمد رضا نامی شخص نے وہاں کھڑے ہو کر ایک جذباتی تقریر کر کے تمام شراکین کا لہو اور گرما دیا۔ الحمداللہ اور لبیک لبیک۔۔۔ لبیک یا رسول اللہﷺ کے نعروں کے درمیان قانونی اداروں کو دھمکی دی گئی کہ اگر ان کے کسی ایک کارکن کے خلاف بھی پرچہ ہوا تو وہ پورا شہر بلاک کر دیں گے۔ یہ دھمکی کتنا اثر رکھتی ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے مولوی خادم حسین رضوی کے خلاف ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے باوجود انہیں گرفتار نہ کیا جا سکا جس کی توجیح رانا ثناءاللہ نے یہ دی کہ فیض آباد معاہدے کی ایک شق کی بناء پر ان کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکتی۔ جس معاہدے کی کسی شق کو حکومت نے اہم نہ سمجھا، اسی معاہدے کی ایک شق کو حکومت نے حرفِ آخر سمجھا ہوا ہے۔

کچھ ہی ہفتے پہلے ملک کے وزیرِ داخلہ احسن اقبال کو بھی تحریکِ لبیک کے ایک جانثار نے اپنی گولی کا نشانہ بنایا تھا۔ اس سے پہلے نواز شریف اور خواجہ آصف بھی بالترتیب جوتے اور سیاہی کا نشانہ بن چکے ہیں۔

مولوی خادم حسین رضوی کی پھیلائے جانے والی شر انگیزی کو عمائے کرام کس نظر سے دیکھتے ہیں اور اس حوالے سے وہ کیا کام کر رہے ہیں، یہ جاننے کے لیے میں نے دارالعلوم کراچی کے مہتمم مفتی تقی عثمانی سے رابطہ کیا۔ اس وقت مولانا ملک سے باہر تھے۔ ان کے سیکرٹری نے مجھے اپنا سوال ای میل کرنے کا کہا۔

مولانا نے اس ای میل کا جواب چند دن پہلے ہی بھیجا ہے۔ اپنے اس جواب میں مولانا کہتے ہیں کہ وہ خادم حسین رضوی کے اس قسم کے بیانات سے ناواقف ہیں۔ مولانا ہم ان کے “اس قسم” کے علاوہ باقی اقسام کے بیانات سے ناواقف ہیں۔ جب بھی رضوی صاحب کا کوئی بیان سنا ہمیشہ اسے نفرت، گلیوں اور دھمکیوں کا مجموعہ پایا۔ جانے آپ ان کے کون سے بیانات سنتے ہیں جنہیں سننے سے پورا ملک محروم ہے؟ ہم نے تو جب بھی ان کا بیان سنا الحمداللہ دو چار نئی گالیاں ہی سیکھیں۔

کاش کبھی آپ ان کے بیانات سن سکیں اور ان ہی کی طرح دھڑلے سے کہہ سکیں کہ اسلام پرامن دین ہے جو اپنے پیروکاروں کو کسی بھی حالت میں قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ کاش کہ آپ کبھی منبر پر بیٹھ کر اعلان کریں کہ مولوی خادم حسین رضوی غلط ہیں اور وہ عشقِ رسول کے پردے کے پیچھے معاشرے میں انتشار اور نفرت پھیلا رہے ہیں۔ کاش آپ کبھی لوگوں کو بالکل اسی طرح اقلیتوں سے محبت کا درس دیں جس طرح رضوی صاحب ان کے قتل کا سبق دیتے ہیں۔

جس ملک میں ایک باپ منبر پر بیٹھے مولوی کے خطبے سے متاثر ہو کر اپنے بچے کو پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار کر دے اور اپنے بچے کو زندگی بھر کے لیے دوسروں کا محتاج بنا دے، اس ملک میں مذہبی شدت پسندی کے خاتمے کے لیے علماء کو ہی سامنے آنا ہوگا۔ حکومت، قانونی ادارے اور میڈیا اس حوالے سے اپنا کردار پہلے ہی ادا کر رہے ہیں۔ گو وہاں بھی مزید بہتری کی ضرورت ہے مگر علمائے کرام کی اپنائی ہوئی خاموشی اس آگ کو مزید بھڑکا رہی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ آگ اتنا بھڑکے کہ ان کے گریبان تک آ پہنچے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).