سیاسی جماعتوں کے درمیان مفاہمت ہی ملکی معاملات بہتر کر سکتی ہے


موجودہ حکومت کی حالیہ کارکردگی کو جہاں اپوزیشن ماننے کو تیار نہیں وہاں خود بھی ایسے بیانات اور عمل کرتی دکھائی دیتی ہے جس سے اُن پر کی گئی تنقید دُرست ہی لگتی ہے ۔ مثال کے طور پر یوٹرن پر حکومت کا بیان جس میں وزیر اعظم صاحب یوٹرن کو دُرست قرار دے رہے تھے کے بعد عوام اور اپوزیشن کو تنقید کا موقع دے دیا۔ حکومت دوسری سیاسی پارٹیوں میں موروثی سیاست کو تنقید کا نشانہ بناتی تھی لیکن آج اُن کی حکومت میں موروثی سیاست برملا نظر آتی ہے ۔ حکومت کی اتحادی جماعتوں کے بارے میں ماضی میں جو ان کی رائے ہوا کرتی تھی اُس سے تو ایسا لگتا تھا کہ مستقبل میں اُن جماعتوں کا کبھی پی ٹی آئی سے الحاق نہیں ہو سکتا لیکن حکومت بننے کے بعد وہی جماعتیں حکومت میں نظر آئیں یہ الگ بات ہے کہ اب یہ جماعتیں حکومت سے خائف نظر آتی ہیں اور لگتا ہے کہ وہ اپوزیشن سے الحاق کرنے کے لئے پر تول رہی ہیں۔ جس کا عندیہ کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن میں پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کی بیان بیازی سے لگایا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح اختر مینگل کی آصف علی زرداری سے حالیہ ملاقات بھی حکومت کی تشویش کو بڑھا رہی ہے ۔
موجودہ حکومت نے تجاوزات کے آپریشن سے بڑی تعداد میں حکومتی زمین واگزار تو کرا لی ہے لیکن کہا جا رہے کہ دوکانیں گرا کر وہاں دوبارہ دوکانیں ہی بنائی جائیں گی تو اس میں حکومت کی کیا حکمت عملی ہے یہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ تجاوزات گرانے کی لپیٹ میں کچھ آبادیاں بھی آئی ہیں جس پر سپریم کورٹ نے جب ایکشن لیا تو اب حکومت نے رہائشی گھروں کو گرانے سے متعلق حکم کو روک دیا ہے۔ اس ضمن میں پی ٹی آئی اور متحدہ قومی موومنٹ میں سرد جنگ دکھائی دیتی ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے راہنماؤں کا ماننا ہے کہ میئر کراچی جن کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے وہ اُن علاقوں میں گھروں کو گرا رہے ہیں جہاں پی ٹی آئی کے ووٹر رہائش پذیر ہیں۔
اپوزیشن قومی اسمبلی اور سینٹ میں تواتر کے ساتھ کہہ رہی ہے کہ احتساب کے نام پر صرف اپوزیشن جماعتوں کے راہنماؤں کو ہی نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ شاید ایسا لگ رہا ہے کہ یہ انتقامی کاروائی کی جا رہی ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ایک دو سیاسی جماعتوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے ۔ اس ضمن میں اپوزیشن جماعتیں برملا اسمبلی کے ایوانوں اور پریس کانفرنسوں میں کہہ چکی ہے کہ حکومتی جماعت میں ایسے سیاستدان موجود ہیں جن کے کیس نیب میں موجود ہیں لیکن نیب نے اُن کے لئے نرمی برتی ہوئی ہے ۔ حالانکہ نیب کی کارکردگی پر سپریم کورٹ بھی سوال اُٹھا رہا ہے ۔ حیرت انگیز بات یہ کہ ایک طرف تو حکومت کہہ رہی ہے کہ ادارے خود مختار ہیں جبکہ حکومتی وزراء جب نیب کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ شاید نیب اُن ہی کے ایماء پر یہ سای کاروائیاں کر رہی ہے ۔
جب موجودہ حکومت ، اپوزیشن میں تھی تو چیخ چیخ کر کہتی تھی کہ ہم جب اقتدار میں آئیں گے تو کبھی دوسرے ملکوں سے قرض کی بھیک نہیں مانگیں گے ۔ ٹی وی ٹا ک شوز میں ان کے لیڈر سمیت وزراء کے بیانات موجود ہیں لیکن حکومت سنبھالتے ہی دوسرے ممالک کی طرف قرض لینے کے لئے چلے گئے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اب اس عمل کو بغیر کسی ندامت کے دُرست قراد دے رہے ہیں اوراب انہیں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے فیصلے بھی درست دکھائی دیتے ہیں۔ موجودہ حکومت کا بھی ہر آنے والی حکومت کی طرح وہی رونا تھا کہ سابقہ حکومت خزانہ خالی کر گئی ہے ۔اس ضمن میں کالم نگار، مزمل سہر وردی ، 29اکتوبر 2018ء کو روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ “پاکستان تحریک انصاف نے جب حکومت سنبھالی تو ملک میں 16ارب ڈالر کا زرمبادلہ موجود تھا جبکہ 2013ء میں جب ن لیگ نے حکومت سنبھالی تو ملک میں 6ارب ڈالر کا زرمبادلہ تھا ۔ ” اب سوال یہ ہے کہ اتنا زر مبادلہ ہونے کے باوجود بھی حکومت آج تک یہی رونا رو رہی ہے کہ ہمیں خزانہ خالی ملا ہے ۔حالانکہ ن لیگ نے اپنے ابتدائی دور میں اس سے بھی کم زرمبادلہ کے ساتھ حکومت کو کامیاب بنایا اور عوام کو ریلیف بھی دی۔ اس طرح یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ سابقہ حکومت کے پاس ٹیم اچھی تھی جس کی وجہ سے اُنہوں نے اُس وقت کی تگڑی اپوزیشن کے باوجود پانچ سال پورے کئے۔ مگر موجودہ حالات میں تو ایسا لگتا ہے حکومت کو اپوزیشن کی بالکل ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ اُن کی گفتگو میں کبھی کوئی ایسی لچک دکھائی نہیں دکھائی دیتی جس سے اندازہ لگایا جا سکے اپوزیشن اور حکومت کبھی متحد ہو سکے گی۔ جس کی واضح مثال حکومت کا پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اپوزیشن لیڈر کو چیئر مین بنانے کا تھا جس پر حکومت بضد تھی کہ چیئر مین حکومتی جماعت سے ہو گا حالانکہ اُن کا یہ عمل پارلیمانی عمل کو توڑنے کے مترادف تھا بالآخر اپوزیشن کے اتحاد نے حکومت کو جھکنے پر مجبور کیا اور تاحال حکومت اپوزیشن لیڈر کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے پر رضا مند ہو گئی ہے ۔
کمال حیرت اُس وقت ہوئی جب حکومت کی سو روزہ کارکردگی پرحکومتی وزراء کو وزیر اعظم صاحب کی طرف سے خراج تحسین پیش کیا گیا ۔ حالانکہ اگر عوام سے جب ٹی وی چینلز نے پوچھا تو اُن کی بڑی تعداد موجودہ حکومت سے نالاں ہی نظر آئی ۔ عوام کو ریلیف دینے کے لئے وزیر اعظم صاحب جو لائیو سٹاک کے مشورے دے رہے ہیں کہ “مرغیاں” اور” کٹے” پال کر عوام کو خوشحال بنائیں گے تو اُن کے اس بیان سے وہ خود عوام میں مذاق بن گئے ہیں حالانکہ ان منصوبوں کو دُنیا میں عملی طور پر ناکام سمجھا گیا ہے لیکن حکومت بضد ہے کہ اُنہوں نے ترقی کے لئے عوام کو یہی پیکج دینا ہے۔
حکومت کے سو روز گزر جانے کے بعد بھی جب قومی و صوبائی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس ہوتے ہیں تو اُس میں حکومت اور اپوزیشن میں برداشت اور قبولیت کا فقدان ہی نظر آتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جب تک حکومت رہے گی تو دونوں اطراف سے یہ رویہ موجود رہے گا ۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے ملک بھر میں میٹنگوں اور جلسوں کا سلسلہ شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے جس میں یقینا حکومت کی کارکردگی کو زیر بحث لایا جائے گا اور عوام میں ان کی کارکردگی کو بتایا جائے گا ۔ مڈٹرم الیکشن کے اشارے بھی مل رہے ہیں۔ نئے بلدیاتی نظام کے خلاف مزاحمت کا اعلان بھی ہو چکا ہے ۔
حکومت کی کارکردگی پر اپوزیشن کے جو تحفظات ہیں اُن میں سب سے اہم یہ کہ ایک تو حکومت کسی بھی حوالے سے نئی قانون سازی نہیں کر سکی اور دوسرے وہ قائمہ کمیٹیوں کو فعال نہیں کر سکی جن کی وجہ سے حکومت کو کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ اس حوالے سے بھی حکومت سوچ رہی ہے کہ اُن کو فعال کیا جائے اور جس میں اپوزیشن کے چند راہنماؤں نے شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے ۔اب اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ حکومت اپنے علاوہ کسی دوسرے سیاستدان کو سچا سمجھتی ہی نہیں تو اب اپوزیشن کا خیال ہے کہ پھر حکومت خود ہی اس نظام کوچلا کر دکھائے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت کی طرف سے اس حوالے سے سخت بیانات سامنے آرہے ہیں جس سے ملکی سیاست میں شدت آچکی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کون ہے جو ان دونوں گروپوں میں مفاہمت کروائے گا جس سے اُن کی سرد مہری ختم ہو گی اور دونوں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں گے۔ خواہش ہے کہ حکومت اس حوالے سے لچک دکھائے تاکہ متحد ہونے سے ملک کو بحرانوں سے نکالا جا سکے۔ اس حوالے سے سیاست کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).