مغل شہنشاہ اور کرسمس: جب جہانگیر کا بیش قیمت کرسمس تحفہ گدھ لے اڑا


مغل فرمانروا نورالدین محمد جہانگیر عرف سلیم اپنے عہد سلطنت میں جب سنہ 1625-26 میں دلی آئے تو وہ کرسمس کا موسم تھا اور یہ سفر ان کا دلی کا آخری دورہ ثابت ہوا۔

ایک پرانی لیکن قابل اعتماد روایت کے مطابق ایک آرمینیائی سوداگر خواجہ مورٹی نیفس نے اس موقعے پر جشن منانے کے لیے انھیں تحفتاً اپورٹو شراب کی پانچ بوتلیں پیش کی۔

شہنشاہ کو تحفہ بہت پسند آیا اور انھوں نے سوداگر سے دریافت کیا کہ وہ اس کے بدلے میں کیا تحفہ لینا پسند کریں گے۔

سوداگر نے کہا کہ خدا کے فضل سے ان کے پاس وہ سب کچھ ہے جو انھیں چاہیے اور شہنشاہ نے پہلے ہی انھیں اپنی سلطنت میں کاروبار کی اجازت دے رکھی ہے۔

جہانگیر نے ان کی احسان مندی کا شکریہ ادا کیا تاہم انھوں نے تحفے کی پیشکش کی۔

جہانگیر نے انھیں ریٹرن گفٹ کے طور پر دکن کے علاقے گولکنڈہ کی کانوں سے حاصل شدہ ایک بیش قیمتی ہیرا تحفے میں پیش کیا۔

سوداگر نے وہ ہیرا اپنے سرپرست مرزا ذوالقرنین کو تحفے میں دے دیا جنھیں اکبر اپنا سوتیلا بھائی مانتے تھے اور جنھیں سمبر (راجپوتانہ) کا گورنر مقرر کیا گیا تھا۔ وہاں مغلوں کا نمک بنانے کا کارخانہ تھا۔

آرمینیا کے مسیحی نے اس ہیرے کو ایک انگوٹی میں جڑوا دیا جسے وہ تاحیات پہنتے رہے۔

جہانگیر کشتیوں کے گھر میں رہتے تھے

اتفاق سے جہانگیر شیر شاہ سوری کے بیٹے سلیم شاہ کے تعمیر کردہ سلیم گڑھ میں مقیم تھے کیونکہ اس وقت لال قلعہ تعمیر نہیں ہوا تھا اور دلی مغلوں کا دارالحکومت بھی نہیں ہوتا تھا۔ بہر حال دلی میں اس سلیم گڑھ قلعے کے باقیات اب بھی موجود ہیں۔

موسم گرما میں وہ جمنا ندی میں کشتیوں کے بنے عارضی مکان میں رہنا پسند کرتے تھے۔

دلی میں آرمینیا کے مسیحیوں کے دو گرجا گھر ہوا کرتے تھے (دونوں سنہ 1739 میں نادر شاہ کے حملے میں تباہ ہو گئے)۔

انگریز

ہندوستان آنے والے یورپی تاجر سیاح مغلوں کے ساتھ کرسمس کا تہوار مناتے تھے

آرمینیائی مسیحی برادری کرسمس کے دوران سٹیج ڈرامہ کیا کرتی تھی جس میں عام طور پر مغل امرا اور راجپوت سرداروں کو مدعو کیا جاتا تھا۔

انھوں نے سنہ 1625-26 کے اپنے ڈرامے میں شہنشاہ جہانگیر کو مدعو کیا اور انھوں نے ان کی دعوت قبول کی۔

اس سے قبل وہ آگرے میں اپنے والد شہنشاہ اکبر کے عہد میں اس قسم کے پروگراموں میں شرکت کیا کرتے تھے۔

فرانسسکن اینلز کے ریکارڈز کے مطابق کرسمس کی اس رات منعقدہ ڈرامے میں پریوں کے لباس میں چھوٹے بچے اور بچیوں نے شرکت کی تھی اور ناظرین میں شامل بادشاہ پر گلاب کی پنکھڑیوں کی بارش کی گئی۔

اس سے پہلے کرسمس کی صبح وہ اپنے درباریوں کے ساتھ اس غار کا نمونہ دیکھنے آئے تھے جس میں عیسی مسیح کی ولادت کو پیش کیا گیا تھا۔ بعد میں ان کے حرم کی خواتین نے بھی اس نمائش کا دورہ کیا۔

ایک بار جہانگیر نے لاہور کے چرچ میں موم بتیوں کا تحفہ پیش کیا تھا جنھیں گھنٹیوں کی طرح سجایا گیا اور گھنٹیوں کی جھنکار کے درمیان کیرول گیت گائے گئے۔

چرچ

گھنٹیوں کی بات کریں تو آگرہ میں اکبر کے چرچ میں ایک گھنٹہ تھا جو اس وقت گر گیا جب جہانگیر کے بھتیجوں کی سالگرہ کے موقعے پر خوشی سے پاگل ہو کر ہوکر سیکرستن نے اپنے دوستوں کے ساتھ گھنٹے کی رسی کھینچ دی۔ گھنٹہ اتنا بڑا اور وزنی تھا کہ ایک ہاتھی بھی اسے کھینچ کر مرمت کے لیے کوتوالی تک لے جانے سے قاصر تھا۔

پھر انگوٹھی کا کیا بنا

جہانگیر کے کرسمس کے اس تحفے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مرزا ذوالقرنین نے بستر مرگ سے اپنی ہیرے سے جڑی انگوٹھی آگرہ۔ہندوستان۔تبت اپوسٹولک مشن کے پادری کو دے دی تھی۔ دلی بھی اس کا ایک حصہ تھا۔

اس کے بعد سے یہ انگوٹھی ان کے جانشین پادریوں کی دی جاتی رہی اور پھر وہ اٹلی کے آرچ بشپ فیزیلینو کے ڈاکٹر رافیل اینجلو برنچيونی کے پاس پہنچی۔ سنہ 1937 میں ان کی ہندوستانی شہر دہرہ دون کے سفر کے دوران موت ہو گئی۔ لیکن اس سے پہلے آرک بشپ اس بیش قیمتی انگوٹی سے تقریبا ہاتھ دھو چکے تھے۔

نتالیا بوا جو کا، جو خود آرمینیائی نسل سے تھیں، کہنا تھا کہ ‘ایک دن لنچ کے بعد جب آرک بشپ اپنے باورچی خانے کے باہر ہاتھ دھو رہے تھے تو انھوں نے وہ انگوٹھی اتار کر واش بیسن پر رکھ دی تھی۔

‘ہیرے کی چمک سے متوجہ ہو کر ایک چیل یا گدھ اسے اٹھا کر لے گيا اور مائیکل ارک اینجل کے مجسمے کے نیچے اپنے گھونسلے کے پاس ایک آدھے جلے سگار کے ساتھ چھوڑ گیا۔

‘ڈاکٹر رافیل نے گھونسلے کو دیکھتے ہی دعا کی اور آپ یقین کریں یا نہ کریں گھونسلے میں اچانک آگ لگ گئی اور وہ چمکدار انگوٹھی آگرہ کے کیتھیڈرل کے زینوں پر 100 گز دور جا گری۔’

آگرہ

اس انگوٹھی کی تلاش کے لیے روانہ کیے گئے ملازموں کو کامیابی ملی اور انھوں انگوٹھی کو آرک بشپ کے حوالے کیا۔

یہ معلوم نہیں کہ ان کی موت کے بعد انگوٹھی کا کیا ہوا۔ لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسے ان کے ساتھ ہی قبرستان میں دفن کر دیا گيا۔

عین ممکن ہے کہ قرون وسطی کی وہ انگوٹھی جو ایک سوداگر کو شہنشاہ جہانگیر کا بیش قیمتی کرسمس تحفہ تھی پرانے لشکرپور میں واقع پادرے سینتس چیپل کے نام سے مشہور قبرستان میں اب بھی ہو۔

یہ جگہ اکبر نے ایک آرمینیائی راہبہ خاتون کو تحفے میں دی تھی۔

کیا آج سليم گڑھ کا دورہ کرنے والے کبھی یہ سوچ سکتے ہیں کہ جہانگیر نے ایک بار وہاں سانتا کلاز کا کردار ادا کیا تھا؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک گدھ آج بھی آرک ہیل کی سنہ 1840 کی دہائی کی بیلجیئم میں بنے مجسمے کے پروں کے نیچے اپنا گھونسلا بناتا ہے اور یہ آگرہ کیتھیڈرل کے سامنے والے حصے میں اونچائی پر واقع ہے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32734 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp