مغرب انتہا پسند کیوں ہورہا ہے؟


بچپن سے سنتا آرہا ہوں کہ مغرب ہمارے اصولوں پر عمل کر کے ترقی کر رہا ہے اور ہم ہیں کہ اسلام کے زریں اصولوں کو پس پشت ڈال کر مسلسل تنرلی کی طرف گامزن ہیں اور آج اگر یورپ اور امریکہ عروج کی بلندیوں پر ہیں تو اس کی وجہ وہ مسلمان سائنسدانوں کی تحقیق پر مبنی کتب ہیں جو آج بھی مغرب کی لائبریریوں کی زینت ہیں اگر وہ نہ ہوتیں تو مغرب ہم سے سماجی و سائنسی ترقی میں آگے بڑھ ہی نہیں سکتا تھا۔ ہماری تو دوڑ پیچھے کی جانب ہے۔ بالکل اس لمحہ ایک دوسرا موقف بھی اختیار کیا جاتا ہے کہ جو غالباً گفتگوکا آخری حصہ بھی ہوتا ہے کہ مغرب میں بے حیائی بے شمار ہے اور اس کا خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ اور تباہی کا شکار ہے اور اب اس جدید نام نہاد گلوبلائزیشن کا رخ ہمارے معاشرے کی طرف ہے بلکہ یہاں تک کہ اس نے ہمارے کلچر کے خلاف بھی ایسی سازشوں کے پل باندھے ہوئے ہیں جس کے وجہ سے ہماری نئی نسل بے راہ راوی کا شکار ہیں اور دلیل کے طور پر موبائل، انٹرنیٹ اور فیشن انڈسٹری کے طور بیان کیا جاتا ہے۔ آخر میں پس اگر ہم اپنی تعلیمات پر عمل کریں تو ہم دنیا کی بہترین قوم بن کر اُبھر سکتے ہیں۔

یہ وہ سوالات اور خیالات ہیں جو ہمارے معاشرے کا ایک عام آدمی اور پڑھا لکھا طبقہ سمجھتا ہے اس میں ایک انتہائی قلیل تعداد ہے جو ان باتوں کو نہ تو تسلیم کرتی ہے نہ ہی ایسے باتوں پر عمل کرنے کے لیے تیار ہے اور ایسے لوگ بیچارے ڈرتے ڈرتے ہی اگرکسی کی ہاں میں ہاں ملا دیں تو کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے۔ ان خیالات کی روشنی میں مغرب اور مشرق میں پیدا ہونے والی خلیج میں اضافہ بالخصوص مسلم ممالک ہونے والی جنگیں جو اسرائیل کی وجہ سے ہوئیں اور بالعموم ستمبر گیارہ دوہزار ایک کو امریکہ میں ہونے والے واقعہ نے کر دیا ہے۔

آج سے تین سے چار دہائیاں پہلے مغر ب میں سلسلہ روز گار جانے والے لوگوں میں اس واقعہ سے بہت گراں گزرا اور مسلمان جن میں بیشمار تبلیغی مشن پر یورپ، امریکہ، نیوزی لینڈ وغیرہ میں گئے اور اپنے عقیدہ کے مطابق آبادی میں تیزی سے اضافہ کی وجہ سے جلد اپنی ایک کمیونٹی تشکیل دے کر رہنے لگ گئے اب یہ لوگ چونکہ وہاں اپنے پورے پورے خاندان لے جا چکے تھے اور اس کے علاوہ وہاں کی رہائشی بہت سی خواتین سے شادیاں بھی رچا چکے تھے جس کے نتیجہ میں زیادہ خاندان بن جانے کی صورت میں علاقائی طور پر اپنی کمیونٹیا ں بنا کر رہنے لگے آبادی کے کالونی بن جانے کی وجہ سے اپنے بنیادی حقوق کی ڈیمانڈ بھی کرنی شروع کر دی بلکہ حق جتانا شروع کردیا اس سے بڑھ کر وہاں کے کلچر جو کہ ہر ملک کی اپنی روایتں ہوتی ہیں کو تبدیل کرنے کے خواہاں بھی ہونے لگ گئے اور ہر دن شریعت کے نفاذ اور دیگر معاشرے تبدلیوں کے مطالبات کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔

دوسرے طرف مسلمانوں کے حوالہ سے اتنہا پسندی کا ایک تاثر بھی جڑ پکڑتا جا رہا تھا وہ لوگ جنہوں نے مسلم ممالک سے آنے والے ان لوگوں کو دل سے خوش آمدید کہا تھا اُن لو گوں کو ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے کہ مسلمان ان کو کسی قسم کے فتح کرنے کے ارادہ سے اپنی آبادی کو بڑھا رہے ہیں۔ اس بات کے خدشات پر آپ کو بہت سی وڈیو بھی مل بھی سکتی ہیں۔ اب یکے بعد دیگرے جرمنی، فرانس، امریکہ، سپین اور انگلینڈ میں دہشت گردی کے واقعات بھی رونما ہوگئے اب جو لوگ امن پسند اور مسلمانوں سے کسی طرح مہربان تھے اور اپنے ملک میں سکونت اور ہر طرح کی حقوق کی علمبردار تھے اُن میں اور وہاں کے عام آدمی کے درمیان بحث چھڑ گئی اور پر وہی بحث ذاتی نفسیاتی جارحیت کا سبب بنی، پہلے پہل تو وہاں کی باشندوں نے باہر سے آنے والوں کے علاقوں میں جانے سے یا کسی اور طرح سے نظر انداز کرنا شروع کر دیا پھر آہئستہ آہستہ خلیج نفرت اور تشدد میں تبدیل ہوگئی۔ اس نفرت اور نفسیاتی اگریشن سے وہ طبقہ جو پوری دنیا میں خلافت قائم کرنے میں کوشاں ہے اس کو تو شاید کوئی فرق نہیں پڑا لیکن ُاس عام آدمی پر اس بات کا بہت برا اثر پڑا جو اپنے بچوں کے رزق روٹی کی خاطر یا پھر اچھے مستقبل کی خاطر مغرب میں جا کر آباد ہو گیا یا ہونے کی کوشش کررہا تھا تھا۔

15 مارچ کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ہونے والے اندوھناک واقعہ کی جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اس میں مبینہ طور پر پچاس نمازی شہید ہوگئے 60 سے زیادہ شدید زخمی ہوئے ایک انسانیت کی افسوس ناک بلکہ شرم ناک خبر ہے جس نے مغرب بالخصوص نیوزی لینڈ جیسے پُرامن ملک کے معاشرے پر ایک سوالیہ نشان چھوڑ دنیا ہے۔ بلاشبہ نیوزی لینڈ کی گورنمنٹ نے فی الفور اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے وہاں پر ہونے والے تمام ایونٹس ملتوی کردئے ہیں اور سرچ آپریشن شروع کردیا ہے۔

پکڑے جانے والے ملزمان جن میں ایک آسٹریلیا کا باشندہ ہے کہا جارہا ہے اور اس نے بڑی سفاکی سے نمازیوں پر اپنی بندوق سے حملہ کیا ہے بلکہ حملہ کے دوران فیس بک لائیو بھی کیا ہے اور دوران حملہ جو اصلحہ استعمال ہوا ہے اس پر مختلف قسم کی عبارتیں بھی درج تھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس نے یہ حملہ پورے پلان اور سوچی سمجھی منصوبہ بندی سے کیا ہے۔ پوری دنیا اپنے مسلمان بھائیوں کے غم میں شریک ہے اور ایسے مذموم واقعہ کی پُر زور مذمت کرتی ہے یہ غالباً اس نفسیاتی خلفشار کا شاخسانہ لگ رہا ہے لیکن اگر یہ سلسلہ شروع ہو جاتا ہے تو یہ قوموں کے درمیان کسی تصادم کا اندیشہ بھی ہوسکتا ہے اس میں مسلم علماء اور غیرمسلم سماجی و مذہبی شخصیات کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر آگے بڑھنا چاہیے اور نیشنل اور انٹر نیشنل میڈیا کو امن کی فضا پیدا کرنے کے لیے ا پنی رول ادا کرنا چاہییے تاکہ ہماری یہ دنیا امن کا گہورا نی رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).