امی کی یادیں


ڈائری کا نام ڈائری نہیں ہونا چائیے بلکہ اس کا نام یادیں ہو نا چائیے ہم ان صفحات پر جو کچھ لکھتے ہیں وہ ایک یاد ہی تو بن جاتی ہے ماضی کی یا د۔ یادیں بھی کتنی ا چھی ہوتی ہیں، گزرے وقتوں کی یاد، بچپن کی بھول بھلیوں کی یاد، کھلونوں سے کھیلتے، دوستوں سے لڑنے کی یاد، امی سے ضد کرنے کی یاد، امتحان میں فیل پاس ہونے کی یاد، گڑیا گڈے کی شادی منانے کی یاد، قربانی کی یاد، بارش کی یاد، طوفان کی یاد، سردی کی یاد، گرمی کی یاد، بارش کی یاد، طوفان کی یاد، بہار کی یاد، خزاں کی یاد زندگی اتنی آگے بڑھ گئی ہے لگتا پیچھے بس یاد ہی یاد ہے مگر مجھے ان یادوں سے پیار ہے ان تمام گزرے وقتوں کی مٹھاس میرے ذہن کو جلا بخشتی ہے۔

آنکھ میں اکثر نمی بھی اتر آتی ہے۔ مگر کیا کروں ان کیفیات میں بڑا لطف اور مزا ہے بڑی چاشنی ہے ان یادوں کو سینے سے لگا کر باتیں کرنے کا دل کرتا ہے وقت کا پہیہ الٹا چل جائے خواہش جاگنے لگتی ہے، وجہ ہے ان یادیوں میں ”امی“ کی یاد ہے ہر گزرتے پل میں امی کا ساتھ تھا، چاند، سورج، ستارے روشنی، ہوا، خوشبو، بادل، برسات زندگی کا کون سا موسم ہے جو امی کے ساتھ نہیں گزارا جواب آتا ہے تو یادیں نہیں لاتا امی مجھے کہاں کہاں نہیں یاد آتیں میں بڑی خوش نصیب ہوں کہ میں نے اپنی امی کے ساتھ اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ گزارا یہ تشنگی نہیں ہے کہ ماں نہیں ملی۔

میری امی میری یادوں میں باتوں میں، میرے ہر ہر کام میں، میری ہنسی میں، میری خوشی میں، میرے غم میں میری کامیابی میں میری ناکامی میں، میرے سلیقے میں میرے طریقے میں، میرے بولنے میں، میرے چلنے میں، میرے رونے میں، میرے گانے میں، غرض ہر ہر جگہ وہ میرے ساتھ ہیں۔

میرا اور ان کا رشتہ ماں بیٹی کے علاوہ دوستی کا تھا۔ آج میں جب اپنی بیٹی کے ساتھ لڈو، کیرم وغیرہ کھیلتی ہوں تو امی یاد آجاتی ہیں جب وہ میرے ساتھ آدھی آدھی رات کو کیرم کھیلا کرتی تھیں۔

ہمارے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی کے ڈرامے دیکھنا ان پر تبصرے کرنا 23 مارچ کو صبح ہی صبح جگا دینا قومی ترانہ آنے پر کھڑا کر دینا۔

مجھے اپنے ان رشتے داروں سے ملنے کا بار بار دل کرتا ہے جو امی سے وابستہ کوئی بات یاد دلاتے ہیں ان کی خصوصیت بتاتے ہیں یا ان کا کہا ہوا کوئی جملہ دہراتے ہیں۔ یہ باتیں اور یہ جملے بڑے زندہ لگتے ہیں۔ بڑی آسودگی ملتی ہے۔

امی کا غصہ، امی کی ناراضگی، امی کی مسکراہٹ، امی کا چلنا، اٹھنا، بیٹھنا، لوگوں سے ملنا اخلاق، بردباری، سمجھ داری ایک ایک چیز لگتا ہے کہ حفظ ہے آج امی کو ہم سے جدا ہوئے آٹھ سال ہوگئے ہیں لیکن مجھے آج بھی لگتا ہے کہ وہ میرے آس پاس ہی ہیں ان کی دی ہوئی تربیت زندگی کے اونچ نیچ میں میرے ہمقدم ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنی ماں کے ساتھ ایک لمبا عرصہ گزارا اور بہت زیادہ خوش نصیب وہ لوگ ہیں جو اپنی ماں کے ساتھ ہیں۔

اب ماؤں کے عالمی دن پہ خیال آتا ہے کہ ہم نے کبھی اپنی امی کو کار ڈ نہیں دیا جس پر بہت خوش خط لکھا ہو ”میری پیاری امی جان مجھے آپ سے بہت محبت ہے“۔

ثمینہ صابر
Latest posts by ثمینہ صابر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).