بھارتی سرکار آرٹیکل 370 اور 35۔ A کیوں ختم کرنا چاہتی ہے؟


انڈین ایکسپریس اخبار کے مطابق حالیہ دنوں انڈین زیرِ کنٹرول جموں و کشمیر اور لداخ ڈویژن میں لوک سبھا کی تین نشستیں جیتنے کے تین دنوں بعد ہی جموں وکشمیر بھارتی جنتا پارٹی کے صدر راویندر راینا نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ انڈین آئین کے آرٹیکل 370 اور 35۔ A کو ختم کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 35۔ A ایک فاش آئینی غلطی ہے اور آرٹیکل 370 نفرت کی ایک دیوار ہے۔ دوسری طرف مشہور فلمی اداکار اور کشمیری پنڈت انوپم کھیر نے بھی کہا ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے کشمیر کے اندر سارے مسئلے حل ہوں گے۔ حالیہ دنوں لوک سبھا کی چناؤ میں انڈین قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے اکثریتی ووٹ سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد جموں وکشمیر سے متعلق آئین کے آرٹیکل A۔ 35 اور 370 کو ختم کرنے کی بابت اپنے موقف کو ایک بار پھر دھرایا ہے۔ لوک سبھا کی انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی اور وزیر مالیات آرون جھٹلے نے بھی ارٹیکل 35 اے کو ریاست جموں کشمیر کی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا ہے۔

گزشتہ سال یو این ایچ سی آر نے چودہ جون 2018 کو جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر اپنی جاری کردہ رپورٹ کے پیراگراف نمبر 32 میں لکھا ہے کہ تاج برٹش انڈیا کے دور حکومت میں ریاست جموں وکشمیر برصغیر پاک و ہند کی بڑی شاہی ریاستوں میں سے ایک تھی اور Indian independence Act 1947 کے تحت شاہی ریاستوں کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ چاہے تو نئی وجود میں آنے والی دو ریاستوں پاکستان یا انڈیا کے ساتھ الحاق کریں یا خودمختار رہے البتہ جموں وکشمیر مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل ایک شاہی ریاست تھی مگر اس وقت کے ہندو حکمران گلاب ہری سنگھ نے ابتدا میں علحیدہ رہنے کا فیصلہ کیا ”۔

مہاراجہ جموں وکشمیر نے دونوں ممالک کے ساتھ Stand still agreement کیا اس طرح جموں وکشمیر اگست 1947 سے لے کر اکتوبر 1947 تک ایک آزاد ریاست کے طور پر قائم رہی مگر 22 اکتوبر 1947 کو جب قبائلی لشکر نے کشمیر پر حملہ کیا تو مہاراجہ گلاب ہری سنگھ نے مخصوص شرائط کی بنا پر انڈیا کے ساتھ الحاق کیا، پنڈت جواہر لعل نہرو جو اس وقت انڈیا کے وزیراعظم تھے انہوں نے مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ کچھ وعدے کیے اور ان وعدوں کے تحت ریاست جموں وکشمیر کو خصوصی حیثیت دینے کا فیصلہ کیا اور ان وعدوں کی تعمیل کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کے تحت انڈین یونین میں ریاست جموں وکشمیر کو ایک خصوصی حیثیت دیں دی، آرٹیکل 370 کو شیخ عبداللہ نے مرتب کیا اور اس سے انڈین دستور کے حصہ XXl میں شامل کیا گیا جو کہ عارضی، عبوری اور خصوصی قوانین سے متعلق ہے۔

اس آرٹیکل کے تحت ریاست جموں وکشمیر کو ایک خود مختار اور خصوصی حثیت حاصل ہے اس لیے جموں وکشمیر آنڈین آئین کے  1st شیڈول میں بطور 15th ریاست کے انڈین یونین میں شامل ہونے کے باوجود بھی انڈین آئین کے وہ تمام شق جو انڈین یونین کے دیگر تمام ریاستوں پر قابل اطلاق ہیں وہ ریاست جموں وکشمیر میں قابل اطلاق نہیں ہوتے۔

نیز ریاست جموں وکشمیر انڈین یونین میں شامل واحد خود مختار ریاست ہے جس کا اپنا ایک علیحدہ آئین ہے جس سے جموں وکشمیر آئین ساز اسمبلی نے منظور کیا تھا جو کہ 26 جنوری 1957 سے نافذ العمل ہے جبکہ سنہ 1965 تک جموں وکشمیر کا اپنا ایک صدر اور وزیراعظم بھی تھے مگر بعد میں مرکزی حکومت نے  6th ایئنی ایکٹ کے تحت انہیں تبدیل کیا نتیجتاً وزیر اعظم کی جگہ وزیر اعلیٰ نے لی اور ریاست جموں وکشمیر کے پہلے اور آخری صدر ڈاکٹر کرن سنگھ کی جگہ گورنر نے لے لی۔

آرٹیکل 35 اے مئی 1954 میں ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے انڈین آئین میں شامل کیا گیا ایک خصوصی قانون ہے جو جموں وکشمیر کے پشتینی باشندوں کی حیثیت بیان کرتا ہے اور ان کو حاصل خصوصی حقوق اور مراعات کو آئینی تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔

اسی خصوصی قانون کے تحت انڈین پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین بشمول انڈین آئین میں کیے گئے تمام ترامیم پورے انڈیا پر تو قابل اطلاق ہوتے ہیں مگر یہ قوانین جموں وکشمیر پر لاگو نہیں ہوتے ہیں جبت کہ ان قوانین کو ریاست جموں وکشمیر کی اسمبلی سے منظوری نہ ملے۔

البتہ کمیونیکیشن، دفاع اور فارن پالیسی کے محکموں کو انڈیا کی سنٹرل حکومت نے اپنے کنٹرول میں رکھا ہے لیکن دیگر تمام معاملات پر قانون سازی کرنے کے اختیارات جموں وکشمیر اسمبلی کو حاصل ہے۔

انڈیا کے زیر کنٹرول جموں وکشمیر میں سٹیٹ سبجیکٹ رول یعنی باشندہ ریاست کے قانون کا نافذ العمل ہونے کی بنیادی وجہ وہ اھم قانونی شرائط ہیں جو مہاراجہ کشمیر نے انڈیا کے ساتھ دستاویزالحاق نامے میں دستخط کرنے سے پہلے طے کیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ انڈیا کے آئین لکھنے والے ڈاکٹر امبیدکر آرٹیکل 370 کے حق میں نہیں تھے لیکن پنڈت جواہر لعل نہرو نے یہ سوچ کر اس آرٹیکل کے تحت کشمیری باشندوں کو خصوصی سٹیٹس اور مراعات دینے کا فیصلہ کیا تاکہ متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کے باشندے مستقبل قریب میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام ہونے والے استصواب رائے کی صورت میں انڈیا کے ساتھ الحاق کریں گے۔ اس طرح آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں وکشمیر کو خصوصی سٹیٹس حاصل ہے اور ریاست کے شہریوں کو مندرجہ ذیل خصوصی مراعات اس قانون کے تحت حاصل ہیں۔

1۔ انڈیا کے زیر کنٹرول ریاست جموں وکشمیر کا اپنا ایک علحیدہ قومی تشخص کے ساتھ اپنا ایک علیحدہ جھنڈا بھی ہے جس کا سٹیٹس انڈین جھنڈے کے برابر ہے۔

2۔ انڈین آئین کے آرٹیکل 352 کے تحت صدر انڈیا ریاست جموں وکشمیر میں ایمرجنسی نافذ نہیں کر سکتا البتہ جنگ کی صورت میں آرٹیکل 360 کے تحت ایمرجنسی ڈیکلیئر کر سکتے ہیں۔

3۔ ریاست جموں و کشمیر کے باشندوں کے پاس دوھری شہریت ہے یعنی وہ قانونی طور پر جموں وکشمیر اور انڈیا دونوں کے شہری ہیں۔

4۔ پارلیمنٹ آف انڈیا کا بنایا ہوا کوئی بھی قانوں جموں وکشمیر کے باشندوں پر قابل اطلاق نہیں ہوتا جب تک اسے ریاست جموں کشمیر آئین ساز اسمبلی سے منظوری نہ ملے۔

اس طرح آرٹیکل 35 A کے تحت 4 اھم ترین معاملات پر غیر ریاستی باشندوں یعنی انڈین شہریوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

1۔ انڈیا کا کوئی بھی شہری ریاست جموں وکشمیر میں زمین و جائیداد نہیں خرید سکتا ہے جبکہ قانونی طور پر صرف جموں وکشمیر کے مستقل باشندوں کو یہ حق حاصل ہے۔

2۔ ریاست جموں وکشمیر میں سرکاری ملازمتوں پر صرف باشندہ ریاست کا حق ہے جبکہ انڈین شہری جموں وکشمیر میں سرکاری ملازمت حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔

۔ 3۔ کوئی بھی غیر مستقل باشندہ یعنی غیر ریاستی باشندے جموں کشمیر میں آبادکاری نہیں کرسکتے ہیں۔

4۔ ریاست جموں وکشمیر کے تمام سرکاری سکالرشپ اور کوٹے پر صرف جموں وکشمیر کے مستقل باشندوں کا حق ہے جبکہ غیر ریاستی باشندوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔

اس کے علاؤہ تمام غیر ریاستی باشندوں کو ریاست جموں وکشمیر کے انتخابات میں حصہّ لینے اور ووٹ دینے پر قانونی طور پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر کوئی بھی کشمیری خاتون/لڑکی اگر کسی غیر ملکی یا کسی غیر ریاستی باشندے یعنی کسی انڈین نیشنل کے ساتھ شادی رچاتی ہے تو اس صورت میں ایسی خاتون کو جموں وکشمیر کے ریاستی حقوق سے محروم کردیا جاتا ہے یہاں تک کہ ایسی خواتین کے بچوں کو وراثت کے حقوق بھی نہیں ملتے ہیں۔

اس لئے مودی سرکار ان دونوں ریاست جموں کشمیر کے حوالے سے جس خصوصی قانون کو ختم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اسے انڈین آئین کا آرٹیکل 370 اور A 35 کہا جاتا ہے۔

بقول جموں وکشمیر بی جے پی کے صدر راویندر راینا کے ارٹیکل 35۔ Aایک آئینی فاش غلطی ہے جبکہ آرٹیکل 370 نفرت کی ایک دیوار ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ان دونوں قوانین کو فوراً ختم کیا جائے، بھارتی جنتا پارٹی ان قوانین کے خاتمے کے لئے راجا پرشاد اور جان سنگھ کے دور سے ہی جدوجہد کر رہی ہے۔ انہوں نے بتلایا کہ آرٹیکل 370 آئین کا مستقل دفعہ نہیں ہے بلکہ اس کو توسیع دیتے ہوئے آج تک چلایا گیا ہے آج بھی آئین میں یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ ایک عارضی اور عبوری قانون کے طور پر آئین میں شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 35 اے چور دروازے سے آئین میں شامل کیا گیا ہے، چونکہ کوئی بھی قانون صرف اس وقت آئین کا حصہ بنتا ہے جب اسے دو تہائی اکثریتی ورٹ سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس کیا گیا ہو اس کے بعد صدر مملکت کے دستخط ثبت ہوں مگر آرٹیکل 35۔ A کو انڈین پارلیمنٹ کے کسی بھی ایوان نے پاس نہیں کیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ اس قانون کی وجہ سے محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ جیسے لوگ محفوظ ہیں ورنہ وہ کرپشن کے الزامات میں اب تک جیل میں بند ہوتے۔

ایک عام آدمی کی نقط نظر سے دیکھا جائے تو یہ دلیل قابل قبول اور خاصی مضبوط ہے مگر الاقوامی قانون کے نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو یہ دلیل درست نہیں ہے اور درحقیقت انٹرنیشنل لا سے نابلد لوگوں کی ذہنی اختراع کا نتیجہ ہے جو عام طور پر مسئلہ کشمیر کو دو ملکوں انڈیا اور پاکستان کے درمیان محض ایک علاقائی تنازعہ سمجھتے ہیں مگر درحقیقت مسئلہ کشمیر صرف ایک علاقائی تنازعہ نہیں ہے بلکہ اس متنازعہ ریاست جموں وکشمیر میں تقریباً ڈھائی کروڑ انسان بھی بستے ہیں۔

84 ہزار سات سو اکہتر مربع میل پر مشتمل سابقہ شاہی ریاست جموں وکشمیر کو اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں میں ایک متنازع ریاست قرار دیا ہے جو کہ تین حصّوں میں منقسم ہے جو انڈیا کے زیر کنٹرول جموں کشمیر، اور پاکستان کے زیر کنٹرول ”آزاد کشمیر٬ اور“ گلگت بلتستان٬پر مشتمل ہے۔

متنازعہ ومنقسم ریاست جموں وکشمیر پر انڈیا اور پاکستان دونوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ان کا حصہ ہے اور اسی تنازعہ کشمیر پر انڈیا اور پاکستان نے چار خونی جنگیں لڑی ہیں اور دونوں نیوکلیئر ملکوں کے درمیان مستقل کشیدگی کی وجہ سے پورے خطے میں جنگ کا خطرہ بدستور موجود ہے۔

گزشتہ دنوں پلوامہ واقعے کے بعد یہ تنازعہ ساوتھ ایشیاء کا فلیش پوائنٹ بن گیا ہے اور لائین آف کنٹرول پر افوج کی مسلسل گولہ باری اور سرچ آپریشن کے نام پر سرینگر اور وادی میں روزانہ کئی معصوم کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کی کمیشن برائے انسانی حقوق کے آفس کی طرف سے چودہ جون 2018 کو جاری کی گئی رپورٹ کے پیراگراف نمبر 89 میں لکھا گیا ہے کہ جموں وکشمیر کے چیف منسٹر نے 20 جنوری 2018 کو ریاست کی اسمبلی کے سامنے کہا کہ ستائیس فرووری 2016 سے آٹھ جنوری 2018 کے درمیان انڈین فورسز نے 6,221 کشمیریوں کو پیلٹ گنوں سے نشانہ بنایا جن میں سے 728 کشمیری نوجوانوں کی بینائی متاثر ہو چکی ہے جو کہ باعث تشویش ہے۔

دوسری طرف جدوجھد آزادی کشمیر کے لیے گزشتہ ستر سالوں میں ایک لاکھ کشمیریوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں اور دنیا بھر میں موجود کشمیری تقسیم ہند کے اس نامکمل ایجنڈا کا حل چاہتے ہیں جبکہ انڈیا کی مودی سرکار جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے

انڈیا کے بعض ماھرین قانون کے مطابق آرٹیکل 35 اے کو ختم کرنے کی ضرورت نہ صرف اس لیے بھی ہے چونکہ یہ آرٹیکل انڈین آیئن کے تحت انڈین شہریوں کے حقوق سے متعلق پانچ بنیادی آرٹیکلز جیسے کہ آرٹیکل نمبر 14، 15، 16، 17 اور آرٹیکل نمبر 21 سے متصادم ہے جو انڈین شہریوں کے پانچ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے بلکہ یہ آرٹیکل آئین کے مطابق درست بھی نہیں ہے چونکہ انڈین آئین کے آرٹیکل 368 کے تحت کسی بھی قانون کو آئین میں شامل، اضافہ یا ختم کرنے کے لیے لازمی ہے اس کو پارلیمنٹ سے گزارا جائے مگر آرٹیکل 35 اے کوانڈین پارلیمنٹ کے کسی بھی ایوان میں پیش نہیں کیا گیا ہے اس لیے یہ آرٹیکل خلاف آئین اور قابل منسوخ ہے، چنانچہ اس اہم قانونی نقطے کو جواز بنا کر ارٹیکل 35 اے کے خاتمے کے لیے ان دنوں انڈیا کے سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ بھی زیر سماعت ہے، گزشتہ سالوں میں انڈیا کی مرکزی حکومت نے اس مقدمے میں سات مرتبہ تاریخ لی ہے اور عرصہ 3 سال گزرنے کے باوجود بھی اس مقدمے کے بابت اپنا موقف پیش نہیں کیا ہے بقول اٹارنی جنرل آف انڈیا کے۔ کے ونوگوپال ”یہ سپریم کورٹ آف انڈیا پر منحصر ہے کہ وہ اس مقدمے کا کیا فیصلہ کرتا ہے؟

البتہ یہ بات طے ہے کہ مودی سرکار ریاست جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت اور وہاں رائج سٹیٹ سبجیکٹ رول کو ختم کرنے کے لیے قانونی اور سیاسی دونوں محاذوں پر سرگرم عمل ہے اور اگر مودی سرکار اپنی اس پالیسی میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ریاست جموں وکشمیر پر اس کے بھیانک اثرات مرتب ہوں گے، نتیجتاً نہ صرف ریاست جموں وکشمیر کے شہریوں کو حاصل خصوصی حقوق و مراعات کے ساتھ ساتھ ریاست کی خصوصی حیثیت بھی ختم ہو جائے گی اور غیر ریاستی باشندوں کی آبادکاری کی صورت میں مقامی آبادی بھی اقلیت میں بدل سکتی ہے اورمسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اقوام متحدہ کے زیر نگرانی مستقبل قریب میں کسی بھی وقت ہونے والی استصواب رائے کے امکانات پر بھی کاری ضرب پڑ سکتی ہے نتیجتاً آزادی کشمیر ”یا کشمیر بنے گا پاکستان“ کے خواب دیکھنے والوں کی دیرینہ خواہش اور امیدوں پر بھی پانی پھیر جانے کا قوی امکان موجود ہے، لہذا مودی سرکار کی اس کشمیر دشمن پالیسی کے خلاف آواز اٹھانا وقت کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).