ہوئے تُم دوست جِس کے، دُشمن اُس کا آسماں کیوں ہو!


مُشرف صاحب کے خلاف سُنائے گئے سنگین غداری کیس کے فیصلے کو ایک ہفتہ ہونے ہونے کو آیا لیکن اپیل یا صدارتی معافی کا سیدھا اور قانونی راستہ اپنانے کے بجائے اب جو اسلام آباد میں نامعلوم افراد کے ذریعے عدلیہ کے خلاف ایک پوسٹر مہم شروع کی گئی ہے کیا اُس سے فیصلہ ختم ہو جائے گا؟ جواب ہے نہیں!

ہماری یہ قومی عادت ہے کہ ہم شور صرف اُس وقت مچاتے ہیں جب چھت سر پہ آن گرے، اُس سے پہلے بڑی ہوتی ہوئی خوفناک دراڑیں کسی کو نظر نہیں آتیں۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی ہم اپنا مذاق بنانے پر تُلے ہوئے ہیں کہ مُدعی بضد ہے کہ فیصلہ غلط تھا۔ وزراء نے جسٹس سیٹھ کی دماغی حالت تک کو چیلنج کرنے کی دھمکی دیا دی لیکن بعد میں شاید ”کسی“ کے عقل دلانے پر ٹھنڈے ہوکے بیٹھ گئے کہ آگے پتہ تھا کہ کیا ہوتا۔ حالانکہ یہ کیس حکومتِ پاکستان بمقابلہ پرویز مشرف تھا۔

یہ کیس 2013 میں شروع ہوا، مُشرف صاحب پہ 2014 میں فرد جرم لگی، فیصلہ دسمبر 2019 میں آیا۔ تو تب تک کسی کو نظر کیوں نہیں آرہا تھا کہ سنگین غداری کیس کی جج منٹ کیا ہوسکتی ہے؟ مُشرف صاحب نے خُود کچھ سال پہلے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ اُن کو ملک سے باہر بھیجنے کے لئے عدلیہ اور نواز حکومت پر اُس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا دباؤ تھا، لیکن اب جب چئیرمین نیب کے بقول ہواؤں کا رُخ بدل رہا تھا یا بدل چُکا تھا کہ ہم نے ایک آرمی چیف کو اپنی ایکسٹینشن کے معاملے پر خود وزیراعظم اور اُس کی کابینہ کو ایک صحیح ڈرا فٹ تیار کرنے کی جدوجہد کرتے دیکھا تو وہ دوست کہاں تھے جو یہ بھانپ سکتے کہ ہواؤں کا رُخ بدل چُکا ہے۔

ویسے بات انٹرویوز پر آئی ہے تو میں نے بھی آج تک جتنے بھی انٹرویوز کیے، اُن میں مُشرف صاحب سے کیے گئے انٹرویوز کو ایک بہت بڑی اہمیت اس لئے حاصل ہے کہ بڑے بڑے جمہوری سیاستدانوں کے برعکس وہ نہ صرف انتہائی سخت سوالوں کے جواب ماتھے نپر شکن لائے بغیر دیتے تھے بلکہ ہم سے بھی سوال پوچھتے کہ ”what would you do if at my place۔ “۔ اور پھر میرے جواب پر ہم ایک بحث میں الجھ جاتے، جس پر کئی بار ہمیں ان کے جوابات قائل کر دیتے۔

آپ مُشرف صاحب کے برطانوی تھنک ٹینکس کو دیے گئے انٹرویوز یا مباحثوں کی ویڈیوز اُٹھا کے دیکھ لیں، آپ کو ہر جگہ وہ نقادوں کو ”چُپ“ کراتے نظر آئیں گے۔ لیکن یہ بات ہمیں اس چھ سال پہ مشتمل 125 پیشیوں کے باوجود مُشرف صاحب کا کوئی بیان نظر نہیں آیا۔ مُشرف صاحب اس وقت شدید بیمار ہیں اور اُن سے کوشش کے باوجود رابطہ نہیں ہورہا ورنہ شاید میں اُن سے ایک آخری سوال ضرور کرتی کہ آپ کو عدالت میں بیان دینے سے منع کرنے والے کون تھے اور وہ اب کہاں ہیں؟

دُوسری طرف مجھے اُن سب جنرل حضرات کے بیان نہیں بھولتے جو کہتے تھے کہ فوج کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں، اور تین نومبر 2007 کو ایمرجنسی لگانے کا فیصلہ مُشرف صاحب کا انفرادی اور ذاتی فیصلہ تھا۔ خُود مشرف صاحب نے مجھے 2018 میں ایک انٹرویو کے دوران یہ کہا کہ ”میں اکیلا ہوں، میرے ساتھ کوئی نہیں کھڑا“، تو اب فوج میں اتنا غم و غصہ کیوں ہے؟ اور روزانہ جلوس نکالنے سے، کراچی میں جاں بلب ایم کیا ایم کو دوبارہ ایکٹو کرکے ہڑتالیں کروانے سے، یا اسلام آباد میں ججوں کے خلاف پوسٹر لگانے سے مشرف صاحب کے کیس کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ مُشرف صاحب کی پھانسی کا فیصلہ تو وہیں رہے گا تو پھر کیا ہم آنٹی عاصمہ جہانگیر کے اُس تاریخی کمنٹ کو درست مانیں جو ”اُن“ کو ڈفر کہتی تھیں؟

قانون کیا کہتا ہے؟

یا ملزم خود آکے اپیل کرے یا اُسے صدارتی معافی مل جائے۔

بات اگر اپیل میں جانے کی ہے تو میرے خیال میں ویڈیو لنک کے ذریعے ہی سہی، لیکن مُشرف صاحب خود اپیل میں جا سکتے ہیں۔ جہاں ہم نے اتنے نئے پریسیڈینٹس سیٹ کیے ہیں وہاں ایک نیا بھی سیٹ ہو جائے تو آگے اُن سب کا بھلا ہی ہو جانا ہے جو اپنی جان کے خوف سے پاکستان نہیں آسکتے۔ اسی طرح مُشرف صاحب کی بیٹی یا بیٹا عدالت میں اپیل دائر کرنے کے لئے سپریم کورٹ سے کوئی ایگزیمپشن لے سکتے ہیں۔

بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ ساری آسانیاں تب ہی پیدا ہوتی ہیں اگر آپ سیدھا اور قانونی راستہ اپنائیں لیکن شاید کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ ہوئے تُم دوست جس کے، دُشمن اُس کا آسماں کیوں ہو۔ لہٖذا وہ راستہ اپنانے کے لئے آپ کے اپنے مائینڈ سیٹ کا بھی قانون کی پاسداری کرنا ضروری ہے جو ہمیں پچھلے بہتر سال سے نظر نہیں آیا۔

اور اب جاتے جاتے سوشل میڈیا سے اُٹھایا گیا ایک لطیفہ جس پر تبصرہ اگلے کسی کالم ہی میں ہوگا اور فی الحال صرف لطیفہ انجوائے کیجئے کہ کپتان ایران اور سعودیہ کی چلے تھے صلح کرانے لیکن ترکی اور سعودیہ کو آپس میں لڑوا بیٹھے ہیں۔

شمع جونیجو

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمع جونیجو

شمع جونیجو علم سیاسیات میں دلچسپی رکھنے والی ماہر قانون ہیں۔ یونیورسٹی آف لندن سے ایل ایل بی (آنرز) کے علاوہ بین الاقوامی تعلقات میں میں ایم اے کیا۔ ایس او اے ایس سے انٹر نیشنل سیکورٹی اسٹڈیز اور ڈپلومیسی میں ایم اے کیا۔ آج کل پاکستان مین سول ملٹری تعلاقات کے موضوع پر برطانیہ میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ تعلیم کے لئے بیرون ملک جانے سے پہلے شمع جونیجو ٹیلی ویژن اور صحافت میں اپنی پہچان پیدا کر چکی تھیں۔

shama-junejo has 15 posts and counting.See all posts by shama-junejo

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments