تبدیلی کے خواب مہنگے پڑ گئے


تبدیلی کے دیوانوں کے ساتھ بھی وہی ہوا جو ایک نسل پہلے روٹی کپڑا اور مکان والوں کے ساتھ ہوا تھا۔ نہ روٹی ملی نہ کپڑا نہ مکان، بس نسلوں کی غلامی مل گئی۔ ایسے ہی ہماری نسل نے دیکھا تھا ایک نئے پاکستان کا خواب، نئی رتوں، نئے لوگوں کا خواب۔ مگر کیا کیجیے کہ پاکستان میں جو چیز سب سے مہنگی بکتی ہے وہ خواب ہی ہیں، بھوکے کو راٹی کے خواب، ترسے کو محبت کے خواب، پردیسی کو پردیس کی سہولیات اپنے دیس میں ملنے کے خواب، بے انصافی سے مار کھاتے لوگوں کو انصاف کا خواب! اس قوم کے لوگوں کو جون سا خواب چاہے جتنا چاہے مہنگا بیچ دو!

حکومت سلیکٹڈ تھی کہ الیکٹڈ، اس بات سے قطع نظر اس بات کی حقیقت اپنی جگہ کہ بے شمار لوگوں نے دیکھے کھلی آنکھوں سے ہر طرح کے خوبصورت خواب، رفاہی ریاست کے خواب، مدینہ کے خواب، نئے پاکستان کے خواب! ایک ریاست جو سر اٹھا کر کھڑی ہو گی اقوام عالم میں، ایک ریاست جہاں غریب کے والی حکمران ہوں گے، ایک ریاست جہاں سچ کا بول بالا ہو گا، ایک ریاست جہاں انصاف کا دور دورہ ہو گا۔

آہ مگر جو ان خوابوں کا حشر ہوا کہ الامان الحفیظ! تعبیر میں سے تھپڑ مارتے فواد چوھدری نکلے، پارلیمنٹ میں پھرتی حریم شاہیں نکلیں، پسٹل باندھے واڈوا نکلے اور بے تکی دلیلیں دیتی فردوس عاشق اعوان نکلیں۔ ایسی خوابوں کی تذلیل تو شاید بلاول کے ہاتھوں روٹی، کپڑے اور مکان کی نہ ہوئی ہو گی کہ جس قدر ذلت پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہونے والی خواب، دیکھتی آنکھوں کے ساتھ ہوا۔ ہم جو تاریک راہوں میں روشنی کی خواہش میں مارے گئے! اور یہ سحر جو ہوئی بلاشبہ وہ سحر نہ تھی کہ جس کی تلاش تھی۔

لنگر چلانا اچھا کام صحیح مگر یہ خواب لنگر چلانے کے نہ تھے، انٹرنیشنل فورمز پر چند تقاریر اچھی صحیح مگر یہ خواب محض ان تقریروں کے بھی نہ تھے نہ خطے کی انقلابی شخصیات سے ذاتی دوستی کے لئے یا عرب ریاستوں سے امداد کے لئے! ان سارے کاموں کے لئے تو پرانے لیڈر ہی بہتر تھے۔ کیا پناہ گزین پروگرام موٹر وے کا مقابلہ کر سکے گا یہ تو شاید بینظیر انکم سپورٹ کے برابر کا بھی نہیں۔

مشکل اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے خواب اس بار پڑھے لکھے اپر کلاس طبقے میں زیادہ زور و شور سے بکے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان گیسی غباروں میں سے ہوا بھی بہت جلدی رخصت ہوئی ہے کہ اہل شعور تعلیم یافتہ لوگ محض ”کھانے اور لگانے“ کے نعرے پر اکتفا کر سکتے تو پھر پرانے پاکستان میں برا کیا تھا۔ اگر نئے پاکستان کے نعرے میں بھی ایسی حواس باختہ ہستیاں ہی ہمارے مقدر میں تھیں تو یقینا ہم پرانے لوگوں پر اکتفا کرتے کہ بلا مبالغہ پرانے چہروں میں برا کیا تھا کہ کہ کم سے کم ان سے خواب و خواہش کا کوئی بھی رشتہ تو نہ تھا۔

اب یقینا کپتان صاحب کو بھی سمجھ آ چکی ہو گی کہ ایک ٹیم میں کھلاڑیوں کے ذاتی کردار و اخلاق کی کس قدر اہمیت ہوتی ہے۔ اور یہ کہ نو کھلاڑی لے کر ایک کپتان کتنی کامیابی سے کھیل سکتا ہے۔ اگرچہ بات یہ بھی سمجھنے کی ہے کہ نو کھلاڑی بھی کرکٹ کے ہوں اور اور کھلاڑی بھی ہوں۔ نو فٹ بالر یا نو ریسلر لے کر بھی ایک کپتان کے لئے محض کرکٹ کا میچ جیتنا ہی مشکل ہے یہ تو پورا پاکستان ہے۔

خوابوں کا خون ہوا اپنی جگہ مگر کپتان صاحب کیا ان خوابوں کی لاشوں کی بے حرمتی بھی واجب تھی؟ کہ اب ان خوابوں کی لاشوں پر تھرکنے کے لئے کتنی حریم شاہیں اور کتنے فواد چوہدری جنگ و جدل کا میدان سجائیں گے۔ خدارا ان دیوانوں کے خوابوں کا کچھ تو خیال کیجیے کہ جو ساری دنیا سے لڑ کر تبدیلی کے قافلے کے سنگ نکلے تھے۔ خدا کے لئے ان کے خوابوں کی لاشوں کو اب ان کے ماتھے کی کالک نہ بنایا جائے کم سے کم عزت سے دفنا ہی دیا جائے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments