خالد منصور حقانی کون تھے؟


سنہ 2007 میں اسلام آباد کی لال مسجد پر کیا گیا فوجی آپریشن جہاں پورے ملک میں اگلے چند سال دہشت گردی کی کارروائیوں کے ذریعے ردعمل دیتا رہا، وہیں اس واقعے نے کچھ ایسے افراد کے لیے بھی عسکریت پسندی کے دروازے کھولے جو بعد میں عسکری تنظیموں میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ ایسے ہی افراد میں سے ایک شیخ خالد منصور حقانی بھی تھے۔

کابل میں قتل کیے گئے شیخ خالد حقانی کے بارے میں پاکستان میں کوئی خاص نوٹس نہیں لیا گیا کیونکہ ان کی زندگی اور کردار کے بارے میں معلومات انتہائی محدود تھیں۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ نوجوان شیخ خالد حقانی کالعدم تحریک طالبان کے بانی سربراہ بیت اللہ محسود سمیت اس جماعت کے تین سربراہوں کے معتمد خاص رہے ہیں۔

شیخ خالد حقانی کی کالعدم جماعت تحریک طالبان میں شمولیت کی داستان بھی دلچسپ ہے۔ سنہ 2007 میں جب پاکستانی فوج کی طرف سے لال مسجد آپریشن عمل میں لایا گیا تو ان دنوں شیخ خالد حقانی صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقے صوابی میں مدرسہ کے طالبعلم تھے اور عمر صرف انیس، بیس سال تھی۔

لال مسجد آپریشن کے خلاف جہاں مدارس کے طلبہ و طالبات میں ردعمل تھا وہیں مدرسہ سے تعلیم یافتہ شیخ خالد حقانی جیسے لوگوں کے لیے قبائلی علاقہ جات میں اس وقت حکومت پاکستان کے خلاف تیار ہونے والا انتہاپسندوں کا اتحاد ایک منزل بھی تھی۔

شیخ خالد حقانی کے قریبی ساتھیوں کا بتانا ہے کہ لال مسجد کے واقعات کے ردعمل کے طور پر نوعمر شیخ خالد حقانی قبائلی علاقے میں آئے اور بیت اللہ محسود کی قیادت میں اس قبائلی اتحاد کے رکن بن گئے جس نے بعد میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی شکل اختیار کی۔

نوعمر شیخ خالد منصور حقانی نے کالعدم تحریک طالبان کے بانی سربراہ بیت اللہ محسود اور ان کے ساتھی حکیم اللہ محسود کی توجہ حاصل کی۔ شیخ خالد حقانی کو جاننے والوں کا دعویٰ ہے کہ وہ نوعمری کے باوجود بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود کو الگ الگ فقہ کی تعلیم دیتے رہے ہیں۔

شیخ خالد حقانی کو ابتدائی طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کی جراحی شوریٰ کا سربراہ بھی مقرر کیا گیا۔ جراحی شوریٰ دراصل کالعدم جماعت کی مرکزی شوریٰ کی طرف سے کیے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کی نگران تھی۔ یہ مرکزی شوریٰ کو جماعت کی طرف سے کیے گئے فیصلوں پر عملدرآمد میں نقائص، کمزوریوں اور خامیوں کی رپورٹ فراہم کیا کرتی تھی۔

بیت اللہ محسود کی پانچ اگست 2009 کو جنوبی وزیرستان میں ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد نوجوان شیخ خالد منصورکو مزید اہمیت ملی۔ کالعدم جماعت میں انھیں اس وقت کے امیر حکیم اللہ محسود کے استاد کی حیثیت سے تکریم دی جاتی تھی۔

یکم نومبر 2013 کو حکیم اللہ محسود کی شمالی وزیرستان کے علاقے ڈانڈے درپہ خیل میں ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد کالعدم جماعت میں باہمی اختلاف رائے عروج پر تھا۔ اسی تناظر میں کالعدم تحریک طالبان کی شوریٰ میں طویل بحث کے بعد سوات کے ملا فضل اللہ کو جماعت کا سربراہ تعینات کرنے کا معاملہ آیا تو پچیس برس کے نوجوان شیخ خالد حقانی کو تعینات کیا گیا۔

سال 2013 میں پاکستان میں نوازشریف حکومت نے اقتدار سنبھالا تو کالعدم جماعت ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی بات بھی آگے بڑھائی گئی۔ اس حوالے سے حکومت نے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی تھی۔ اس دور میں ملا فضل اللہ کے برعکس ٹی ٹی پی کے نائب امیر کے طور پر شیخ خالد حقانی نے مذاکرات کی حمایت کی جس پر بعد میں کالعدم جماعت نے ایک حد تک عمل بھی کیا۔

یہ الگ بات ہے کہ مذاکرات کے دوران کراچی ائیرپورٹ پر حملے کے باعث مذاکرات مزید آگے نہ بڑھ سکے تاہم یہ واضح ہو گیا کہ شیخ خالد منصور حقانی مذاکرات کے حامی تھے۔

شیخ خالد منصورحقانی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے امیر ملا فضل اللہ کی طرح ریاست پاکستان سے لڑائی کے تو حامی تھے مگر ملا فضل اللہ کے برعکس سکولوں، ہسپتالوں اور عوامی مقامات پر حملوں کے ناقد بھی تھے۔

شیخ خالد منصور کی نائب امارت محدود عرصہ ہی چلی۔

جوں ہی ملا فضل اللہ اور محسود عسکریت پسندوں کے درمیان امور طے پاِئے شیخ خالد نے نائب کا عہدہ چھوڑ دیا۔ انھیں کالعدم جماعت کی مرکزی شوریٰ کا رکن بنا دیا گیا تھا اور وہ افغانستان میں اپنی ہلاکت تک اسی عہدے پر فائز رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32732 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp