ہم پاکستانی، قربانی اور کھال


ہماری جتنی عمر ہے اور آپ کی جتنی بھی عمر ہے ہم سب اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ہمیشہ سے قربانی کی کھالیں نام نہاد رفاہی اداروں والے یا ان جیسے ہی مانگتے آ رہے ہیں اور وصول بھی کرتے آ رہے ہیں۔ آج بھی کچھ ایسا ہی ہے مگر آج سے چند سال قبل قربانی کی کھالیں اکٹھی کرنا ایک بہت بڑا کاروبار تھا بلکہ ہماری چند سیاسی اور دوغلی میرا مطلب مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی اور سیاست کے نام پر مذہب کارڈ کھیلنے والی پارٹیوں سے ہے، قتل کر اور کروا دیتی تھیں کھالیں اتارنے کے چکر میں۔

کیونکہ یہی ان کے ریوینیو کا سب سے بڑا ذریعہ ہوا کرتی تھی۔ قربانی کی کھالیں اکٹھی کرنے پر کراچی اور چند دوسرے شہروں میں مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی باقاعدہ جنگ ہوا کرتی تھی کیونکہ اس وقت ایک ایک کھال ہزاروں روپے کی ہوا کرتی تھی۔ پتہ نہیں کیا ہوا کہ پاکستانی عوام کی طرح جانوروں کی کھال بھی بہت کم قیمت ہو گئی۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ گزشتہ کچھ سالوں سے قربانی کی کھالیں مانگنے والے کم اور دینے والے زیادہ ہو چکے ہیں۔ ویسے کھال اتارنے والوں کی کمی ہرگز نہیں آئی ہے۔ غریب کی کھال ویسے ہی اتاری جا رہی ہے جیسا کہ روز اول سے اتاری جاتی تھی تھی۔

کھال کی قیمت عوامی ہونے کی وجہ سے اب موقع پرستوں نے ایک نئی مہم چلانا شروع کر رکھی ہے اور وہ ہے اجتماعی قربانی کا دھوکا۔ شوکت خانم سمیت چھوٹے بڑے سب ادارے اس سال تو بہت ہی مزے میں ہیں کہ ان کا اجتماعی قربانی کا شوشہ کورونا کی وجہ سے خوب چل رہا ہے۔ اس سال اجتماعی قربانی کے فضائل ایسے بیان کیے جا رہے تھے کہ جیسے یہ ہر طرح کی قربانی سے افضل طریقہ ہے۔

کچھ عرصہ سے پاکستان میں مانگنے والوں کی تعداد میں برسات کے موسم میں اگنے والی کھمبیوں سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ وجوہات کیا ہیں؟ یہ آپ معلوم کریں۔ مانگنے والوں کے مافیا کا حکومتی حلقوں میں ابھی تک ذکر نہیں آیا اس کے لئے شاید ہمیں اس وقت کا انتظار کرنا پڑے جب سابقہ حکومت کی کوئی کلپ سامنے آئے جس میں کسی کام کے لئے چندہ مانگا جا رہا ہو مگر ممکن ہے کہ اس شعبہ کو نہ ہی برا بھلا اور نہ ہی مافیا کہا جائے کیونکہ بہت سے لوگ فلاحی کاموں کے لئے مانگ رہے ہیں۔ اور اجتماعی قربانی کی بھرپور مہم بھی چلا رہے ہیں۔

آپ نے اور میں نے اور ہم سب نے جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے ہمیں یعنی عوام کو ایک ہی درخواست کی جاتی ہے کہ عوام قربانی دے اور عوام قربانی دیتی ہے۔ ستر سالوں سے عوام قربانی دے رہی ہے مگر یہ قربانی کہاں جاتی ہے اس کے ثمرات کہاں جاتے ہیں کسی کو نظر نہیں آئے۔ عوام نے بس قربانی دی اور قربانی دی۔ عوام کو قربانی کے بعد جو آزادی حاصل ہوتی تھی وہ تھی کھال کو اپنی مرضی سے کسی کو دینا۔ جب میڈیا آیا اور کھال اکٹھی کرنے کی مہم اور جنگیں شروع ہوئیں تو عوام سے یہ آزادی بھی چھن گئی۔

اب کام ڈبل ہو گیا عوام قربانی بھی دے اور کھال بھی دے۔ عوام قربانی کے بعد بیٹھی محو انتظار رہتی کہ کھال اتارنے والے آئیں جلدی جلدی کھال اتار کے لے جائیں اور وہ اپنی ہی دی ہوئی قربانی کا گوشت کھائیں۔ مگر لگتا ہے اس سال عوام نے کھال نہ حکومت کو دینی ہے اور نہ ہی کسی رفاہی ادارے کو۔ اس دفعہ قربانی کے جانور کی کھال جو ویسے بھی بہت سستی ہو چکی ہے عوام نے اپنے پاس رکھنی ہے۔ اس دفعہ عوام نے اس کھال کو اپنی کھال کے طور پر لگانا ہے اپنے جسم کے اوپر کیونکہ اس کی اپنی کھال تو حکمرانوں نے باتوں کی مار دے کر اتار لی ہے۔

مگر شاید یہ بھی ہماری خام خیالی ہو کیونکہ ہم نے عہد کر رکھا ہے کہ ہم کبھی بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ اب عوام قربانی کے جانور کی کھال سے ہی اپنا تن ڈھانپیں گے مگر قربانی ضرور دیں گے۔ افسوس کہ اتنی قربانی دینے والے اس ہجوم کو قربانی کے جانور کی طرح کبھی کسی نے نہیں پالا۔ بس ہماری کھال ہی کے انتظار میں حکومتوں نے ستر سال گزار لئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments