اسرائیل امارات معاہدہ دوستی کی حقیقت


آخر کارعرب قوم پرستی (Nationalism) کا فریب بھی تمام ہوا۔

‎مسلمانوں کی متحدہ قوت کو لارنس آف عریبیہ تتربتر کرکے بیت المقدس قبلہ اول چھین لیا اب مسلمانوں نے اپنے علاقے بھی پلیٹ میں رکھ کر صیہونیوں کو پیش کردیے گئے۔ اللہ تعالی، کے جلیل القدر پیغمبر حضرت موسیؑ سمیت دیگر رسولوں اور انبیاءکرام سے وفا نہ کرنے والے عربوں سے کیا عہد نبھائیں گے؟

متحدہ امارات کچھ بھی نہیں اس مکروہ کھیل کا مرکزی کردار آل سعود ہیں جن میں بیشتر بوڑھے شہزادوں کی مائیں آرمینین یہودی ہیں

یہ جماعت اسلامی اور یہ پاکستانی نجدی وہابی مال پانی کے لئے ان کے ”در دولت“ پر بیٹھے رہتے تھے

مسلمانوں کے ابھرتے ہوئے ”خلیفہ ارتغل“ اردگان کے اپنے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں 2 لاکھ اسرائیلی سیاح ہر سال ترکی کا دورہ کرتے ہیں 2 ارب ڈالر کی تجارت کرتا ہے اور امارات کو ڈانٹ رہا ہے یہ بھی عجب دیدہ دلیری ہے۔

اور پاکستان ایڑھیاں اٹھائے ترکی کی طرف دیکھ رہا ہے جس کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی طویل تاریخ ہے اردگان خود تل ابیب کا دورہ کرچکے ہیں ترک اور اسرائیلی افواج مشترکہ فوجی مشقیں کرتی ہیں

30 ‎ برس بعد جنت آشیانی ڈاکٹر اسرار احمد کی پیش گوئی سچ ثابت ہوگئی۔ متحدہ عرب امارات (یو۔ اے۔ ای) نے اسرائیل سے معاہدہ کرکے فلسطینیوں اور امت مسلمہ کے جذبات کا لہو کر دیا۔

‎ ”ویل للعرب“ یعنی ”عربوں کی تباہی سرپر آپہنچی ہے“ کی حدیث مبارکہ سناتے ہوئے ڈاکٹر اسرار مرحوم ومغفور کی آنکھیں گویا آنے والے زمانے کی وہ گھڑی دیکھ رہی تھیں۔ ان کا فرمایا حرف حرف سچائی بن کر ہماری آنکھوں کے سامنے طلوع ہورہا ہے۔

‎اہل پاکستان چودہ اگست کی آزادی کی سالگرہ منارہے تھے جبکہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں یوم شکر منایا جا رہا تھا کہ عالمی میڈیا سے خبر نشر ہوئی کہ ”اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات کی بحالی کا معاہدہ طے پاگیا اور مشترکہ بیان جاری کر دیا گیا ہے۔“ مغرب کی چاکری پر مامور میڈیا کی شہ سرخی تھی کہ ”جمعرات کو ہونے والے معاہدے کو مختلف حلقوں کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے لیے ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔“ یہ خبر گویا ایک بجلی بن کر امت مسلمہ بالخصوص پاکستانیوں کے ذہن وقلب پر گری۔

‎صدر ٹرمپ، نے نیتن یاہو اور ابو ظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زاید کو مشترکہ مبارک باد دی اس امید کا اظہار کیا کہ ”یہ تاریخی پیش رفت مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام میں مدد دے گی۔“

‎اپنے اقتدار بچانے کے لئے کیے جانے والے معاہدے کو بھی مظلوم فلسطینیوں پر احسان بتایا جا رہا ہے۔ دلیل دی جارہی ہے کہ اس شکست فاتحانہ کے نتیجے میں ”اسرائیل مقبوضہ غرب اردن کے مزید علاقے اسرائیل میں ضم کرنے کے منصوبے کو معطل کر دے گا۔“ اس معاہدے کی ”اوقات“ اور ”ساکھ“ یہ ہے کہ ابھی اس معاہدے سے شاید پوری دنیا آگاہ بھی نہیں ہوئی ہوگی کہ نیتن یاہو نے اپنے ملک میں یہ وضاحت کی کہ اسرائیلی وسعت کا عمل جاری رہے گا۔

‎اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے وفود آپس میں ملاقات کر کے سرمایہ کاری، سیاحت، براہ راست پروازوں، سلامتی، مواصلات، ٹیکنالوجی، توانائی، صحت، ثقافت، ماحولیات، سفارت خانوں کے قیا، اور باہمی مفاد کے دیگر معاملات پر دو طرفہ معاہدوں پر دستخط کریں گے۔ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ”مشرق وسطیٰ کے دو سب سے متحرک معاشروں اور جدید معیشتوں کے درمیان براہ راست تعلقات قائم ہونے سے معاشی ترقی ہو گی، ٹیکنالوجی میں نت نئی ایجادات ہوں گی اور عوام کے آپس میں تعلقات بہتر ہوں گے جس سے خطہ بدل جائے گا۔“ دعوی کیا گیا کہ معاہدے کے تحت اسرائیل صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مجوزہ امن منصوبے ”ویژن فار پیس“ یعنی ”امن کے لئے سوچ“ میں طے کردہ علاقوں پر اپنی خود مختاری کا دعویٰ کرنا بھی روک دے گا۔ ”

‎صدر ٹرمپ اس منصوبے کے تحت تمام عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو سمندر برد کرکے غرب اردن میں یہودی بستیوں اور حربی وعسکری لحاظ سے اہم ’وادی اردن‘ کے اسرائیل میں انضمام کے اسرائیلی منصوبے کی حمایت کر چکے ہیں۔

‎وزیر خارجہ امارات انور قرقاش کے مطابق اسرائیل کو تسلیم کرنا ایک بہت ”جراتمندانہ اقدام“ تھا۔ انہوں نے دلیل دی کہ اس سے ”غرب اردن کے انضمام کے ’ٹائم بم‘ کو روکنا ہے۔“ فلسطینیوں کے تنقید کرنے کے سوال پر اعتراف کرتے ہوئے انہوں نے بات ہی ’ختم‘ کردی کہ ”ہمیں اس پر غصہ آتا تھا لیکن پھر ہم نے سوچا کہ چلو کر ہی ڈالتے ہیں۔“

‎یہ معاہدہ دراصل ایک آغاز ہے۔ پس پردہ سعودی عرب کے ہونے کی باتیں کھل کر کی جارہی ہیں۔ یہ معاہدہ ایک دن میں نہیں ہوا بلکہ طویل عرصے سے اس پر کام ہورہا تھا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان ابھی ولی عہد بھی نہیں بنے تھے، جب سے ٹرمپ کا یہودی داماد جارڈ کوشنر رابطے میں تھا۔ اس ڈیل میں وہ انتہائی اہم پس پردہ کھلاڑی ہے۔

‎فلسطینی صدر محمود عباس کے ایک ترجمان نے کا بیان ان کے صدمے کا مظہر ہے۔ بیان کے مطابق ”یہ معاہدہ ’غداری‘ ہے۔“ اس معاہدے کے بعد یو۔ اے۔ ای کے فلسطین سے اپنا سفیر واپس بلوانے کی بھی اطلاعات گردش میں ہیں۔

‎خاتون سینیئر فلسطینی عہدیدار اور سابق مذاکرات کار حنان اشراوی نے معاہدے کی مذمت کرتے ہوئے ایسا سچ بولا جس میں بے بسی، خلش اور بددعا سب ہی شامل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”متحدہ عرب امارات اسرائیل کے ساتھ خفیہ معاہدوں اور تعلقات کی بحالی کے بارے میں اب کھل کر سامنے آ گیا ہے۔“ انھوں نے شہزادہ محمد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”کاش آپ کے دوست کبھی آپ کا سودا نہ کریں۔“

‎ایران کے صدر حسن روحانی نے اپنے ردعمل میں کہاکہ ”یو۔ اے۔ ای نے اسرائیل کے ساتھ سمجھوتہ کر کے ایک بہت بڑی غلطی کی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے دھوکہ دیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے پاؤں مضبوط کرنے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔“ صدر روحانی نے سوال کیا کہ ”اب یہ معاہدہ کیوں ہوا ہے؟ اگر یہ معاہدہ غلط نہیں ہے تو پھر کسی تیسرے ملک میں اس کا اعلان کیوں کیا گیا ہے؟ وہ بھی امریکہ میں؟ تاکہ واشنگٹن میں بیٹھا شخص ووٹ جمع کرسکے۔ آپ نے اپنے ملک، اپنے لوگوں، مسلمانوں اور عرب دنیا کے ساتھ غداری کی؟“

‎ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے مطابق ”اسرائیل کے ساتھ معاہدے سے فلسطینی عوام کے حقوق کو دھچکا لگا ہے۔“ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ”ترکی متحدہ عرب امارات سے اپنے سفیر کو واپس بلا سکتا ہے۔“ یو۔ اے۔ ای کے وزیر خارجہ انور قرقش نے ترکی کے اس رویے پر سوال اٹھایا کہ ”ترکی کے تو اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں۔“

‎پاکستان نے بھی اس پر ایک نیم دروں نیم بروں بیان جاری ہے جو مجسم ”ہاں رے ناں ففٹی ففٹی“ ہے۔ بیان کچھ یوں ہے کہ ”ہم نے متحدہ عرب امارات (یو۔ اے۔ ای) اور اسرائیل میں تعلقات کی مکمل بحالی کے معاہدے کا مشترکہ بیان دیکھا ہے۔ یہ دور رس مضمرات کی حامل پیش رفت ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے پختہ عہد پر کاربند رہا ہے کہ فلسطین کے عوام کے تمام جائز حقوق انہیں دیے جائیں جس میں استصواب رائے کا حق بھی شامل ہے۔ مشرق وسطی میں امن و استحکام بھی پاکستان کی کلیدی ترجیح ہے۔“

‎دفتر خارجہ کے جاری کردہ اس بیان میں مزید کہاگیا کہ ”منصفانہ، جامع و پائیدارا من کے لئے پاکستان نے اقوام متحدہ اور ’اؤ۔ آئی۔ سی‘ کی متعلقہ قراردادوں اور عالمی قانون کے مطابق ہمیشہ دو ریاستی حل کی حمایت کی ہے۔“ اصل حصہ میں بات کچھ یوں بیان ہوئی کہ ”پاکستان اس تجزیہ سے رہنمائی حاصل کرے گا کہ کیسے فلسطینیوں کے حقوق اور امنگوں کو مقدم رکھا جاتا ہے اور کس طرح سے علاقائی امن، سلامتی اور استحکام کی پاسداری کی جاتی ہے۔“

‎ 27 جنوری 2020 کو اسرائیل کے وزیر داخلہ کا یہ بیان شائع ہوچکا ہے کہ ”اسرائیلی شہریوں کو سعودی عرب سفر کرنے کی اجازت ہو گی۔“ تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیلی شہری پہلے سے ہی سعودی عرب جا رہے ہیں۔ ان میں سے جو مسلمان ہیں انھیں اسرائیل میں قائم وقف بورڈ سے خصوصی دستاویزات درکار ہوتی تھی۔ اب اسرائیلی شہری سعودی عرب پہنچے گا تو اس پر سعودی حکومت کی مہر لگے گی۔ اسرائیل نے اس ضمن میں قانون پہلے ہی منظور کر لیا ہے۔

‎امت اسلامیہ کے بڑے بھائی اور امام کا کردار لئے سعودی عرب نے خاموشی اختیار کررکھی ہے لیکن عملاً سب کام ہورہا ہے۔ اس سانحے کے بعد اب خادم الحرمین الشریفین بھی امت کے لئے سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ ارطغرل ڈرامے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ حقیقت میں پوری اسلامی دنیا کی قیادت بے نقاب ہوگئی ہے۔ اسلامی ممالک کے ایک دوسرے کے خلاف طعنے جاری ہیں۔ بڑھکوں کا طوفان ہے۔ ترکی نے یواے ای کو منافقت کا طعنہ دیا تو جواب میں یواے ای نے ترکی کو ترکی بہ ترکی سنائی کہ ”ہر سال پانچ لاکھ اسرائیلی سیاح ترکی آتے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین دو ارب ڈالر کا کاروبار ہے اور اسرائیل میں ترکی کا اپنا سفارت خانہ بھی ہے۔ کیا ان کا رویہ درست ہے؟“

‎بابا مجید نظامیؒ، ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے کشمیر اور فلسطین سمیت عرب دنیا اورآنے والے حالات کے بارے میں جو باتیں فرمائی تھیں، آج ذہن کی دیوار پر بار بار ابھرتی اور کسی فلم کی طرح چل رہی ہیں۔ نائن الیون سے شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر کس طرح چن چن کر اسلامی دنیا کی تباہی کا سامنا کیا گیا۔ اب اگلا مرحلہ شروع ہوگیا ہے۔ تیسری عالمی جنگ عملاً شروع ہوچکی ہے۔ مسجد اقصی کی شہادت اب کسی دن کی بات ہے۔

‎دن آیا چاہتا ہے جب وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ٹرمپ، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور یو۔ اے۔ ای کی ”قیادت“ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر مشرق وسطی میں ”امن“ کی تصویرکھنچوائیں گے۔ ایسی کئی تصویریں یاسر عرفات مرحوم، شاہ حسین، محمود عباس سمیت کئی اور لیڈروں کی کھینچی گئیں جو وقت کی دھند میں غائب ہوگئیں۔ فلسطینی لٹتے، قتل اور بے گھر ہوتے رہے۔

‎اصل امتحان پاکستان اور اس کی قیادت کا ہے۔ پاکستان میں اب تک پاکستان میں حکومت کی سطح پر بھی خاموشی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو بھی سانپ سونگھا ہوا ہے۔ صرف جماعت اسلامی نے فی الفور ایک ریلی نکال کر ”بیت المقدس“ کو بچالیا ہے اور فلسطینیوں کی حمایت کا روایتی مظاہرہ کردکھایا ہے۔ حضرت مولانا عوامی نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل کے ہمراہ پریس کانفرنس میں پہلو بدلتے رہے لیکن ”صیہونی سازش“ پر اظہار خیال نہیں فرمایا۔

‎ ”اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کیاحرج ہے؟“ کی گردان پاکستان میں شروع ہوا چاہتی ہے۔ چند نمائشی قلم کاروں نے سیاہ کاری شروع کردی ہے۔ سیاہی کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے فلسطین پر قائداعظمؒ کو بن گوریان کے ٹیلی گرام کے حوالے لکھے جا رہے ہیں کہ کس طرح اسرائیلی وزیراعظم نے بابائے قوم کو اسرائیل سے تعلقات کے لئے پیغام بھجوایا لیکن جواب نہ دیا گیا۔

‎ضیاءالحق سے لے کر مشرف حکومت میں خورشید قصوری کی ترکی میں اسرائیلی وزیرخارجہ سے ملاقات کی کہانیاں کرید کرید کر نکالی جارہی ہیں۔ ساری تان اس ایک بات پر ٹوٹ رہی ہے کہ ’جب عرب ہی اس مسئلے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں تو تیسرے محلے ہمارے پیٹ میں کیوں درد ہورہا ہے؟‘ بعض تو سفاکی کے اس درجے تک جا پہنچے ہیں جس میں فلسطینیوں کو طعنے دیے جا رہے ہیں کہ انہوں نے ایک لاکھ کی اپنی زمین خود اسرائیلیوں کو تیس تیس لاکھ میں فروخت کی۔ اس کی سزا ہم کیوں بھگتیں؟

‎دنیا واضح طور پر دو حصوں میں بٹ چکی ہے۔ مسلمان دنیا بھی دو حصوں میں بٹتی جارہی ہے۔ اللہ رب العزت اور اس کے متوالے ایک طرف ہیں اور شیطان اور اس کے پجاری دوسری طرف۔ حزب اللہ اور حزب الشیطان کی صفیں سج گئیں، گھمسان کا رن بس پڑنے کو ہے۔ کون ارطغرل ہے؟ یہ فیصلہ بھی ہونے کو ہے۔ اللہ کے رسول فرماگئے ہیں کہ اس میدان سے جو بھاگے گا، اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی اور اس میں جو کامیاب ہوگیا، اس کے درجے سن کو صحابہ کرام بھی تمنا کرتے ہوئے کہتے تھے کہ مجھے وہ زمانہ ملا تو کہنیوں پر گھسٹ کر بھی جانا پڑا تو جاؤں گا۔ مسلمانوں کی فتح اور عروج کا وقت آ رہا ہے۔ حضرت امام مہدی کی قیادت کے منتظرین کو خوشخبری ہو۔

اسلم خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم خان

محمد اسلم خاں گذشتہ تین دہائیوں سے عملی صحافت کے مختلف شعبوں سے منسلک رہے ہیں اب مدتوں سے کالم نگار ی کر رہے ہیں تحقیقاتی ربورٹنگ اور نیوز روم میں جناب عباس اطہر (شاہ جی) سے تلمیذ کیا

aslam-khan has 57 posts and counting.See all posts by aslam-khan