فلمی نقاد اعجاز گُل کی منتخب کردہ دس بہترین پاکستانی فلمیں


فلم

اعجاز گل پاکستان کے مشہور فلم نقاد ہیں۔ انھوں نے فلم میں بی اے اور ایم اے امریکہ کی یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا سے کیا۔ وہ سٹیٹ فلم اتھارٹی نیفڈک (نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن) اور لوک ورثہ سے منسلک رہے اور آج کل پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے فلم ڈویژن میں کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے فلم پر پانچ کتابیں تحریر کی ہیں جن میں پاکستان کی فلمی تاریخ پر ’جرنی تھرو لینس پاکستانی فلمز’ اور ’میلوڈی کوئین نور جہاں’ شامل ہیں۔

پاکستان کی 10 بہترین فلموں کا انتخاب انھوں نے اپنی ذاتی حیثیت اور پسند کے طور پر کیا۔ اعجاز گل کے نزدیک یہ سبھی 10 فلمیں بہترین ہیں اور انھیں نمبر ایک یا دو تین کی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔ اعجاز گل کے مطابق یہ تمام فلمیں فلم کے ہر انداز اور طریقے سے ہماری فلمی تاریخ کا بہترین اور نہ بھلانے والا سرمایہ ہیں۔


گمنام (1954)

مصنف، ہدایتکار: انور کمال پاشا

فلمساز: آغا جی اے گل

موسیقی: ماسٹر عنایت حسین

ستارے: صبیحہ، سدھیر، راگنی، سیما، ہمالیہ والا، ایم اسماعیل، آصف جاہ

سنہ 1954 میں نمائش کے لیے پیش کی جانے والی فلم گمنام پاکستان کی اولین کامیاب فلموں میں شمار ہوتی ہے۔ کہانی، موسیقی، ہدایت کاری اور اداکاری کے لحاظ سے یہ ایک نہ بھلائی جانے والی فلم ہے۔

سدھیر ایک مجرم ہے جو ایک گاؤں میں پناہ لیتا ہے۔ صبیحہ ایک غریب اور معصوم عورت ہے۔ جس کا منگیتر دور محاذ پر جنگ پر گیا ہے لیکن صبیحہ کو خیریت کے خط ضرور لکھتا ہے۔ صبیحہ نے کالج تو کیا کبھی سکول کا منہ بھی نہیں دیکھا اور وہ منگیتر کے خط سدھیر سے پڑھوا کر مطمئن ہو جاتی ہے۔ ہاں وہ ہنستی ہے بے تحاشا اور منگیتر کی غیرموجودگی میں اپنا ذہنی توازن ایک حد تک کھو بیٹھی ہے۔

پھر ایک وقت آتا ہے کہ ہیرو سدھیر قانون کے قبضے میں آ جاتا ہے۔ پولیس کی وین میں چڑھنے سے پہلے صبیحہ منگیتر کا خط پڑھوانے وہاں پہنچ جاتی ہے۔ لفافہ کھول کر خط پڑھتے ہوئے سدھیر صبیحہ کو بتاتا ہے کہ اس کا منگیتر اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔ وہ محاذ پر مارا جا چکا ہے۔

اپنی مضبوط کہانی اور ہدایتکاری کی وجہ سے گمنام ایک نہ بھلانے والی فلم بن گئی۔ جہاں راگنی، کمالیہ والا، آصف جاہ اور ایم اسماعیل نے اپنے کردار عمدگی سے نبھائے ہیں، وہیں مرکزی کردار میں سدھیر بہت اچھے رہے۔

صبیحہ ایک حد تک ذہنی توازن کھو جانے والی عورت کے کردار میں بہترین کردار میں پیش ہوئیں۔ ایک مدت کے بعد انھوں نے اس سے ملتا جلتا کردار اپنی ذاتی پنجابی فلم ’ناجی‘ میں کیا۔ صبیحہ کا حال ہی میں امریکہ میں انتقال ہوا وہ اپنے پیچھے گمنام جیسی فلم چھوڑ گئی جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔

ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں اقبال بانو کا نہ بھلا دینے والا گیت بھی صبیحہ اور سیما پر فلمایا گیا ’پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے۔‘ یہ گیت ایک یادگار گیت بن کر رہ گیا۔ قتیل شفائی کا تحریر کردہ یہ خوبصورت گیت 60 سال کے بعد بھی آج اتنا ہی مقبول ہے جتنا 1954 میں فلم کی نمائش کے وقت تھا۔ اقبال بانو یہ گیت کئی بار میوزک کانسرٹ میں گا چکی تھیں۔

’دو آنسو‘ اور ’غلام‘ کے بعد ہدایت کار انور کمال پاشا کی فلم ’گمنام‘ تیسری کامیاب فلم تھی جس کی بدولت وہ پاکستان کے کامیاب ترین ہدایت کاروں میں شمار ہونے لگے۔ ’گمنام‘ کے بعد پاشا صاحب کی اور فلموں میں ’سرفروش‘، ’قاتل‘ اور ’انارکلی‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

یاد رہے کہ انور کمال پاشا کا ایک اور بڑا کریڈٹ نئے لوگوں کو فلموں میں چانس دینا تھا۔ گلوکارہ مالا، اداکارہ بہار، نیر سلطانہ، اسلم پرویز، ہدایت کار خلیل قیصر، ایس سلیمان، ایم اکرم سبھی ان کی دریافت ہیں۔

پاشا صاحب فلمسازوں کی انجمن پاکستان فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین بھی رہے۔ ان کی دریافت سیما ’گمنام‘ کی دوسری ہیروئین تھیں۔ یہ ان کی پہلی اور آخری فلم تھی۔ اس کے بعد وہ کبھی سکرین پر نظر نہیں آئیں۔ شادی اور شادی کے بعد گھریلو مصروفیات نے انھیں اس قدر مصروف کردیا کہ وہ ہمیشہ کے لیے فلموں سے دور ہوگئیں۔


سات لاکھ (1957)

ہدایت کار: جعفر ملک

فلمساز، مصنف: سیف الدین سیف

موسیقی: رشید عطرے

ستارے: صبیحہ، سنتوش کمار، طالش، ہمالیہ والا، نیر سلطانہ، نیلو

1957 میں نمائش کے لیے پیش کی جانے والی فلم ’سات لاکھ‘ اپنی مضبوط کہانی، موسیقی اور اداکاری کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ فلم کی کہانی ایک امیر لڑکی اور غریب لڑکے کے گرد گھومتی ہے۔ لڑکی کے والد کی وصیت کے مطابق ان کی بیٹی صرف شادی کرکے ہی سات لاکھ حاصل کر سکتی ہے چنانچہ بیٹی سات لاکھ حاصل کرنے کے لیے شادی کا ڈرامہ رچاتی ہے۔

اس دوران اسے ہیرو سے محبت بھی ہو جاتی ہے لیکن جب ہیرو کو اس ڈرامہ کا معلوم ہوتا ہے تو اس کی محبت نفرت میں بدل جاتی ہے۔ ’سات لاکھ‘ کا اداکاری اور ہدایتکاری کے علاوہ سب سے مضبوط پہلو رشید عطرے کی موسیقی تھی۔ ’آئے موسم رنگیلے سہانے‘، ’ستم گر مجھے‘ اور ’ہر چیز یہاں بک جاتی ہے‘ کے علاوہ فلم کا بہترین نغمہ سلیم رضا کا گایا اور طالش پر فلمایا ’یارو مجھے معاف کرو میں نشے میں ہوں‘ تھا، جسے سال کے بہترین ںغمے کا نگار ایوارڈ ملا۔ یہ خوبصورت گیت سیف الدین سیف کا لکھا ہوا تھا۔

نیر سلطانہ نے خوبصورتی سے ایک طوائف کا کردار کیا اور اس کے بعد وہ ایک مقبول اداکارہ کے طور پر سامنے ابھر کر آئیں۔ نیلو مہمان اداکارہ کے طور پر نظر آئیں اور مشہور نغمہ ’آئے موسم رنگیلے سہانے‘ انھی پر فلمایا گیا۔


وعدہ (1958)

مصنف، ہدایتکار: ڈبلیو زیڈ احمد

فلمساز: میاں احسان

موسیقار: رشید عطرے

ستارے: صبیحہ، سنتوش کمار، انجم، الیاس کاشمیری، علاؤالدین، لیلیٰ

ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد نے ہندوستان سے ہجرت کے بعد پاکستان میں دو فلمیں ’روحی‘ اور ’وعدہ‘ بنائیں۔ ’وعدہ‘ میری نظر میں پاکستان کی چند بہترین فلموں میں شامل ہو گی۔

صبیحہ اور سنتوش کمار کی اداکاری کے ساتھ ساتھ احمد صاحب کی مضبوط کہانی اور ہدایتکاری اور ساتھ میں رشید عطرے کی مقبول موسیقی ’وعدہ‘ کی نمایاں خصوصیات تھیں۔

صبیحہ ایک پولیس افسر کی بیٹی موسیقی کے استاد سنتوش کمار سے گانا سیکھتی ہے اور اسے استاد سے محبت ہو جاتی ہے۔ سنتوش اس کی زندگی سے نکل جاتا ہے اور صبیحہ کی شادی بہن کی موت کے بعد بہنوئی سے ہو جاتی ہے۔

فلم کے آخر میں جب سنتوش گھر والوں کو ملنے آتا ہے تو صبیحہ زہر کھا کر خود کو ختم کر دیتی ہے۔ نغمہ ’جب تیرے شہر سے گزرتا ہوں‘ فلم کی جان تھا جو فلم میں کئی بار سننے اور دیکھنے کو ملتا ہے۔

فلم کا کلائمیکس بھی اسی نغمے پر ہوتا ہے۔ دوسرے نغموں میں ’باربار ترسے مورے نین‘ اور ’نظر نظر سے ملائیں اگر اجازت ہو‘ شامل تھے۔


نیند (1959)

ہدایت کار: حسن طارق

فلمساز: ذکا اللہ کچلو

موسیقی: رشید عطرے

ستارے: نور جہاں، اسلم پرویز، طالش، علاؤالدین، نیلو، نگہت سلطانہ

فلم ’نیند ’ ہدایتکار حسن طارق کی پہلی فلم تھی اور کیا ہی فلم تھی۔ ریاض شاہد کی مضبوط کہانی اور چبھنے والے مکالمے فلم کی جان تھے۔ نور جہاں کی اداکاری اور رشید عطرے کی موسیقی میں نورجہاں ہی کے گیت فلم کی جان تھے، خاص طور پر ’تیرے در پر‘ اور ’چھن چھن چھن چھن باجے پائل۔‘

فلم کی کہانی ایک سکول سے شروع ہوتی ہے جہاں ایک بچے کو داخلے کے لیے لے جایا جاتا ہے۔ یہاں سے فلیش بیک شروع ہوتا ہے اور ہم ماضی میں جھانکتے ہیں۔ جہاں ریل کی پٹڑی پر ایک کوئلہ چننے والی لڑکی ایک عیاش سیٹھ کی ہوس کا نشانہ بننے کے بعد ایک بچے کی ماں بن جاتی ہے۔

سیٹھ بچہ لینے سے انکار کردیتا ہے اور بچے کی ماں سیٹھ کو گولی مار کر جیل چلی جاتی ہے۔ یہاں فلیش بیک ختم ہو جاتا ہے اور یہی وہ بچہ ہے جو سکول میں داخلے کے لیے آیا ہے۔ سکول کی پرنسپل یہ کہانی سن کر بچے کو سکول میں داخل کر لیتی ہے۔

نور جہاں کی اداکاری اور رشید عطرے کی مدھر موسیقی نے ’نیند‘ کو ہماری فلمی تاریخ کا نہ بھولنے والا باب بنا دیا۔ ریاض شاہد کا مضبوط سکرپٹ اور ایسے چونکا دینے والے مکالمے ہماری فلموں میں بہت کم سننے کو ملے۔


شہید (1962)

فلمساز، ہدایتکار: خلیل قیصر

مصنف: ریاض شاہد

موسیقی: رشید عطرے

ستارے: مسرت نذیر، اعجاز، طالش، علاؤالدین، حسینہ

فلم ’شہید‘ ہماری فلمی تاریخ کا ایک نہ بھولنے والا باب ہے۔ ریاض شاہد اور خلیل قیصر بطور مصنف اور ہدایتکار عروج پر تھے۔ مسرت نذیر نے اپنی زندگی کا بہترین کردار بازار میں ناچنے والی عورت کا کیا جو فلم کے آخر میں خود کو آگ لگا کر تیل کے کنویں میں چھلانگ لگا کر دشمن کے عزائم شعلوں میں جھونک کر خود کو امر کر دیتی ہے۔

مسرت نذیر، طالش اور علاؤالدین کی جاندار اداکاری کے ساتھ ’شہید‘ کی کامیابی میں فلم کی موسیقی کو بھی بڑا دخل حاصل تھا۔ رشید عطرے نے فیض احمد فیض ’نثار میں تیری گلیوں کہ‘ اور منیر نیازی ’اس بیوفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘ جیسے نہ بھلانے والے نغمے تخلیق کیے۔

’شہید‘ نے باکس آفس پر کامیابی کے ساتھ ڈھیروں نگار ایوارڈز حاصل کیے۔ ’شہید‘ کی کامیابی کے ساتھ خلیل قیصر، ریاض شاہد اور رشید عطرے فلم انڈسٹری کے نامور نام بن گئے۔


سہیلی (1960)

ہدایت کار: ایس ایم یوسف

فلمساز: ایس ایم یوسف، ایف ایم سردار

مصنف: حسرت لکھنوی

ستارے: شمیم آرا، نیر سلطانہ، درپن، بہار، اسلم پرویز، سلمیٰ ممتاز

ہدایت کار ایس ایم یوسف انڈیا میں گھریلو فلمیں بنانے میں ماہر تھے اور گماشتہ اور مہندی جیسی فلمیں بنا کر باکس آفس پر اپنا لوہا منوا چکے تھے۔ وہ پاکستان آئے تو ہدایتکاری کا آغاز ’سہیلی‘ سے کیا جو سال کی سب سے کامیاب فلم بن گئی۔ ’سہیلی‘ کے بعد بھی ’اولاد‘، ’آشیانہ‘ اور ’سہاگن‘ جیسی کامیاب فلمیں بنائیں۔

سہیلی جیسے نام سے ظاہر ہے دو سہیلیوں کی کہانی ہے جہاں ایک سہیلی دوسری کے لیے زندگی کی قربانی دے دیتی ہے لیکن اس سے پہلے دوسری سہیلی اپنی ازدواجی زندگی پہلی کے لیے داؤ پر لگا دیتی ہے۔

نیر سلطانہ اور شمیم آرا دونوں کی اداکاری یوسف صاحب کی ہدایت کاری اور حسرت لکھنوی کا جاندار سکرپٹ فلم کی جان تھے۔ ساتھ میں موسیقار اے حمید کی بے حد میٹھی موسیقی جن میں ’ہم بھول گئے ہر بات‘، ’کہیں دو دل جو مل جاتے‘ اور ’ہم نے جو پھول چنے دل میں چھبے جاتے ہیں‘ شامل تھے۔

ایوارڈز کا موقع آیا تو شمیم آرا نے بہترین معاون اداکارہ کا ایوارڈ یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ فلم کی ہیروئین نیر سلطانہ نہیں بلکہ وہ تھیں۔

ہمارے لیے یہ بتانا مشکل ہے کہ فلم کی ہیروئین نیر سلطانہ تھی یا شمیم آرا، فلم کی وہ دونوں ہیروئین تھیں۔


آخری سٹیشن (1965)

ہدایت کار: سرور بارہ بنکوی

فلمساز: ایس ایم حسن

مصنف: سرور بارہ بنکوی، حاجرہ مسرور

موسیقی: خان عطا الرحمن

ستارے: شبنم، ہارون، رانی

حاجرہ مسرور کی لکھی ہوئی مضبوط کہانی پر ’آخری سٹیشن‘ ایک آرٹ فلم تھی جو بارہ مصالحے نہ ہونے کی وجہ سے باکس آفس پر کامیاب نہیں ہوئی لیکن ہماری بہترین فلموں میں ضرور شامل ہوگی۔

فلم کی کہانی ریلوے سٹیش پر ایک پاگل لڑکی کے گرد گھومتی ہے جس کے ساتھ مردوں نے زیادتی کی ہے اور پوری فلم میں اس کا ایک ڈائیلاگ تھا ’بابو بیٹری۔‘ شبنم کو بہترین اداکارہ کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔


لاکھوں میں ایک (1967)

ہدایت کار: رضا میر

فلمساز: رضا میر، افضل حسین

مصنف: ضیا سرحدی

موسیقار: نثار بزمی

ستارے: شمیم آرا، اعجاز، مصطفی قریشی، طالش

’لاکھوں میں ایک‘ اپنی کہانی، مقبول موسیقی، دلکش فوٹو گرافی، ہدایت کاری، اداکاری اور آرٹ ڈائریکشن کے حوالے سے ایک یادگار فلم ہے۔ جسے ڈھیروں نگار ایوارڈز سے نوازا گیا۔

ضیا سرحدی ہندوستان میں فلم ’ہم لوگ‘ کے حوالے سے ایک مشہور شخصیت تھے۔ پاکستان آ کر انھوں نے ’لاکھوں میں ایک‘ کی کہانی پر بڑی محنت کی۔ بعد میں راج کپور نے ہندوستان میں اسی کہانی پر فلم ’حنا‘ بنائی جو راج کپور کے انتقال کے بعد ریلیز ہوئی۔

ضیا سرحدی کی کہانی ایک ہندو لڑکی کے گرد گھومتی ہے جس کی پرورش پاکستان میں ہوتی ہے۔ اسے زبردستی ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے، وہ واپس آنا چاہتی ہے لیکن سرحد پر اسے گولی مار دی جاتی ہے۔

شمیم آرا کی اداکاری عروج پر تھی اور ساتھ میں نثار بزمی کی موسیقی اور نور جہاں کی آواز ’بڑی مشکل سے ہوا‘، ’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘ اور ’حالات بدل نہیں سکتے‘ مندر میں فلمایا نور جہاں کی آواز میں ’من مندر کے دیوتا‘ ریڈیو پاکستان پر بین کر دیا گیا۔ ’لاکھوں میں ایک‘ ہماری ایک یادگار فلم ہے۔


مٹھی بھر چاول (1978)

ہدایت کار: سنگیتا

فلمساز: طیب رضوی

مصنف: راجندر سنگھ بیدی

ستارے: سنگیتا، ندیم، غلام محی الدین، کویتا، راحت کاظمی

موسیقی: کمال احمد

راجندر سنگھ بیدی کے ناولٹ ’اک چادر میلی سی‘ پر فلمائی ’مٹھی بھر چاول‘ ایک آرٹ فلم تھی جس میں تھوڑے بہت مصالحے بھی شامل تھے۔ ہدایت کارہ، اداکارہ سنگیتا نے ایک جوان بیوہ کا مشکل کردار ادا کیا جس کی شادی اس کے بچوں کے ہم عمر بہنوئی سے کر دی جاتی ہے۔

مشرقی پنجاب کا ماحول بڑی حقیقت سے فلمایا گیا۔ سنگیتا کے کرئیر کی یہ بہترین فلم تھی جسے بہت سے نگار ایوارڈ ملے۔


بندش (1980)

ہدایت کار: ندرالاسلام

فلمساز: احمد شمسی

مصنف: بشیر نیاز

موسیقی: روبن گھوش

ستارے: شبنم، ندیم، طلعت حسین، طالش، علاؤالدین، ڈیانا کرسٹینا

’بندش‘ ایک بڑے بجٹ کی فلم تھی جو انڈونیشیا میں بے حد مہارت سے فلمائی گئی۔ مضبوط کہانی، عمدہ مکالمے، ندرالاسلام کی نہ بھلائی جا سکنے والی ہدایت کاری، شبنم، ندیم اور ڈیانا کی اداکاری اور روبن گھوش کی سریلی موسیقی فلم ’بندش‘ کے عمدہ پہلو تھے۔

ندیم اور شبنم ایک پیارے بچے کے والدین ہیں۔ ندیم انڈونیشیا جا کر ایک حادثے میں اپنی یاداشت کھو دیتا ہے اور وہاں ایک اور شادی کر لیتا ہے۔ شبنم بچے کو لے کر انڈونیشیا جاتی ہے۔ ندیم کی دوسری بیوی ڈیانا حالات کو دیکھتے ہوئے اپنی جان دے دیتی ہے۔

’بندش‘ کی ہدایت کاری، موسیقی، اداکاری، آرٹ ڈائریکشن، سنیما سکوپ فوٹوگرافی عروج پر تھی۔ اور یہ تمام لوازمات لیے ’بندش‘ ایک نہ بھولنے والی فلم تھی۔ مہدی حسن اور مہناز کا دو گانا ’دو پیاسے دل ایک ہوئے ہیں ایسے‘ سال کا بہترین نغمہ تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32667 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp