انڈیا میں اردو مخالف ماحول: ’ان کا کسی زبان سے کوئی لینا دینا نہیں، یہ صرف مسلمانوں کو ڈرانا چاہتے ہیں‘


انڈیا کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے معروف شہر اجین کے ایک ریلوے سٹیشن کے بورڈ پر اردو میں لکھا ہوا نام مٹا دیا گیا ہے۔

نامہ نگار شورہ نیازی نے بی بی سی کو بتایا کہ اجین میں تعمیر ہونے والے ایک نئے سٹیشن چنتامنی گنیش سے راتوں رات اردو میں لکھے اس کے نام پر زرد رنگ پھیر دیا گیا۔

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ متنازع بیانات دینے کے لیے معروف ہندو مذہبی رہنما سنت مہامنڈلیشور آچاریہ شیکھر کی جانب سے احتجاج کے بعد ریلوے حکام نے یہ اقدام اٹھایا ہے۔

آچاریہ شیکھر ایک مقامی مندر کے ناظم ہیں اور انھوں نے ہندو دیوتا کے نام اردو میں لکھے جانے کے خلاف دھمکی دی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ اردو زبان ’جہادی ذہنیت والے لوگ استعمال کرتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

’اردو کے نام پر یہ داغ کون لگا رہا ہے؟‘

اردو، ہندی چولی پہن لے، بھلے پنجابی آنچل اوڑھ لے

بی جے پی رہنما کی ٹویٹ کے بعد انڈیا میں اردو زبان پر بحث

انھوں نے یہاں تک کہا کہ ’اردو مغلوں کی زبان ہے۔ اسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔ غیر فطری زبان کا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔‘

اجین کے ریلوے حکام نے بتایا کہ اردو میں نام غلطی سے لکھ دیا گیا تھا اور اسے ہٹا دیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ ریلوے سٹیشن کے نام کس زبان میں ہوں گے، اس کا فیصلہ ریاستی حکومت اور وزارت داخلہ کرتی ہے اور اس کے لیے ایک گائیڈ لائن بھی ہے جس کے تحت انڈیا کے تقریباً 718 اضلاع میں سے 100 اضلاع میں سٹیشنوں کا نام ہندی اور انگریزی کے علاوہ اردو میں بھی لکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔

سٹیشن سے اردو میں نام مٹائے جانے پر لوگ اس کے خلاف سوشل میڈیا پر بات کر رہے ہیں۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’یہی لوگ اس وقت شور مچاتے ہیں جب تمل اور کنڑ والے ہندی زبان پر پینٹ کر دیتے ہیں۔ وہ سرکاری زبان کے جواز کو نہیں سمجھتے۔ وہ غیر ہندی ہندو لوگوں کو اپنی تہذیب پر نازاں نہیں ہونے دینا چاہتے۔‘

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اردو کے پروفیسر کوثر مظہری نے بی بی سی کو بتایا کہ ملک میں اردو مخالف رجحان آزادی کے بعد سے ہی پروان چڑھ رہا ہے لیکن گذشتہ چند برسوں میں اس میں شدت دیکھی جا رہی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اس سے قبل اتراکھنڈ میں بھی اردو میں سٹیشن کا نام مٹا کر سنسکرت میں لکھنے کی بات سامنے آئی تھی جس کی شدید مخالفت ہوئی اور اس فیصلے کو واپس لیا گیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ اسی طرح بہار میں بھی کوشش کی گئی تھی لیکن سماج کے مختلف گوشوں سے اس کے خلاف آواز اٹھانے پر اس پر روک لگی۔

انھوں نے موجودہ مرکزی حکومت اور بطور خاص اترپردیش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں ریاستی سطح کے سول سروسز امتحانات سے اردو اور فارسی کو آپشنل مضمون کے طور پر ہٹا دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل سنہ 2018 میں 65 ہزار سے زیادہ اسسٹنٹ ٹیچرز کی بحالی کے لیے ہونے والے امتحانات سے اردو زبان کو ہٹا دیے جانے پر الہ آباد ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت سے جواب طلب کیا تھا۔

اس حوالے سے اردو زبان و ادب کے معروف ناقد گوپی چند نارنگ کا کہنا تھا کہ انھیں اس بات پر افسوس ہے اور ’یہ سب سیاسی کھیل ہے۔‘

سیاسی کھیل

برصغیر ہندو پاک میں سب سے زیادہ سیاست جس زبان پر ہوئی ہے وہ اردو ہے اور وہ آج تک اس کا شکار ہے۔ انڈیا کے معروف قانون دان اے جی نورانی نے سنہ 2005 میں اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’شمالی ہندوستان اور بطور خاص اترپردیش میں اردو کی نسل کشی کے لیے جتنی جی بی پنت، پروشوتم داس ٹنڈن اور سمپورانند جیسے کانگریس لیڈروں کی بدخواہی ذمہ دار ہے اتنا ہی سنگھ پریوار ذمہ دار ہے جس نے اردو کو ایک غیر ملکی زبان تصور کیا اور اسے اپنی غلامی کی علامت سے تعبیر کیا۔‘

کریگ بیکسٹر نے اپنی کتاب ’جن سنگھ‘ میں لکھا ہے کہ سنگھ پریوار جس کا حصہ بی جے پی آر ایس ایس اور ديگر ہندوتوا تنظیمیں ہیں، اس نے سنہ 1933 میں اردو کو غیر ملکی زبان کہا تھا جو کہ ان کے بقول: ’ہماری غلامی کی زندہ علامت ہے۔ اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جانا چاہیے۔ اردو ملیچھوں (غیر ہندوں کے لیے ایک ہتک آمیز اصطلاح) کی زبان ہے جس نے ہمارے قومی مفادات کو انڈیا میں حاصل کرنے میں بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔‘ (جن سنگھ، کریگ بیکسٹر، صفحہ 20-19)۔

دہلی میں قائم ڈاکٹر بی آر امبیڈکر یونیورسٹی میں ہندی زبان کے پروفیسر گوپال پردھان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ حکومت کسی بھی زبان کی حامی نہیں ہے، یہ کسی کی نہیں ہے۔ یہ ان تمام اقدامات سے صرف یہ مسلمانوں کو ڈرانا چاہتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہندوستان کے بابائے قوم مہاتما گاندھی کی کتاب ’ہند سوراج‘ میں یہ بات درج ہے کہ اردو اور ہندی ایک ہی زبان ہیں اس کے دو رسم خط ہیں اور اسے دونوں میں لکھے جانے کی ضرورت ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ جو اسے ایک مذہب سے جوڑ کر دیکھتے ہیں وہ اسے جانتے ہی نہیں ہیں کہ پنڈت رتن ناتھ سرشار سے لے کر پریم چند تک بڑے بڑے نثر نگار ہندو تھے۔

اردو

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ کسی سٹیشن کا نام آپ سنسکرت میں کیسے لکھیں گے جو ہندی سے الگ ہو۔ انھوں نے کہا ’مثال کے طور پر ہمارے سٹیشن کا نام سلطان پور ہے تو اسے آپ ہندی میں جو لکھیں گے ویسا ہی سنسکرت میں لکھیں گے کیونکہ دونوں رسم خط ایک ہی یعنی دیو ناگری ہے۔ یہ لوگوں کو صرف گمراہ کرنے کی بات ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا: ’ان کا کسی زبان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ سنسکرت کے بھی نہیں ہیں۔ کیونکہ سنسکرت میں خدا کے منکر ہونے کی ایک مضبوط روایت رہی ہے۔ کیا وہ اسے قبول کر سکتے ہیں؟‘

انھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں سیاست میں کلچر کا شامل ہو جانا خطرناک ہے۔

دوسری جانب ایکٹوسٹ اور صحافی ابھے کمار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’اخباروں سے پتہ چلا ہے کہ کچھ دنوں سے ہندو شر پسند اور فرقہ پرست کچھ دنوں سے مطالبہ کر رہے تھے کہ مغلوں کی زبان اردو میں سٹیشن کا نام نہیں لکھا جانا چاہیے۔ یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ اردو زبان کو مغلوں سے جوڑا جا رہا ہے، اسے مسلمانوں سے جوڑا جا رہا ہے لیکن دراصل اردو زبان ہندی زبان کی طرح خالص ہندوستانی زبان ہے، اس کی پیدائش اور ترویج و اشاعت سب ہندوستان میں ہوئی ہے اور جہاں تک زبان کی بناوٹ کا سوال ہے تو یہ ہندی سے صد فیصد میل کھاتی ہے۔‘

پروفیسر گوپال پردھان نے کہا کہ اب یہ لوگوں کو کون بتائے کہ ہندی اردو کا ہی ایک نام ہے۔ انھوں نے اردو کے معروف ادیب اور ناقد شمس الرحمان فاروقی کے حوالے سے بتایا کہ اردو زبان کا ایک نام ہندی یا ہندوی بھی تھا۔

ڈاکٹر ابھے کمار تاریخ داں ہیں۔ انھوں نے اردو کے حوالے سے ایک دلچسپ بات بتائی۔ انھوں نے کہا: ’آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی کو جب قتل کردیا گیا تو اس وقت بھی دہلی میں جب ایف آئی آر درج کی گئی تھی وہ اردو زبان میں ہی درج کی گئی تھی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اردو زبان نے جنگ آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا اور ’انقلاب زندہ باد‘ جیسے نعرے دیے لیکن شرپسند فرقہ پرست عناصر اس زبان کو ملک کی مخصوص اقلیت سے جوڑ کر ملک کا بہت بڑا نقصان کر رہے ہیں اور ملک کی سالمیت اور یکجہتی کو چوٹ پہنچا رہے ہیں۔‘

واضح رہے کہ بی جے پی حکومت کے مرکز میں اقتدار میں آنے کے بعد سے بڑے پیمانے پر ناموں کے تبدیل کیے جانے کا سلسلہ نظر آیا ہے۔ چنانچہ دہلی کے قلب میں واقع اورنگزیب روڈ کا نام بدل دیا گیا۔

اسی طرح اترپردیش میں معروف سٹیشن مغل سرائے کا نام بدل کر پنڈت دین دیال اپادھیائے رکھ دیا گیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت اکثریتی طبقے کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ وہ ایک خاص طبقے کے خلاف ہے۔

گذشتہ چند ماہ کے اندر لکھنؤ میں قائم خواجہ معین الدین چشتی اردو فارسی عربی یونیورسٹی کا نام بدل کر خواجہ معین الدین چشتی بھاشا وشوودیالیہ کر دیا گیا۔

پروفیسر کوثر مظہری نے کہا کہ اترپردیش کے سول سروسز میں ویسے ہی گنے چنے مسلم طلبہ کامیاب ہوتے تھے اور ان میں سے چند ایک اردو اور فارسی زبان کو اختیاری مضمون کے طور پر منتخب کرتے تھے لیکن حکومت کے فیصلے کے بعد اب ایسا ممکن نہیں ہو سکے گا۔ یہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو مزید حاشیے کی طرف لے جانا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32667 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp