کابل سے بھاگنے والے اور دیگر پناہ گزین


نو دسمبر 2001 ء کی خنک صبح ہے سعودی ایرلائن کی پرواز کراچی ائرپورٹ سے ریاض روانگی کے لئے تیار ہے۔ بوئنگ 777 کے کشادہ طیارہ پر 380 مسافر سوار ہیں۔ نصف سے زیادہ ڈاکٹر، دیگر طبی عملہ اور ان کے خاندان ہیں۔ یہ سب پاکستان سے نکلنے کی منہ مانگی قیمت ادا کرتے آئے ہیں۔ فلائٹ کا ماحول بہت خوشگوار ہے۔ اکثر افراد نے تھری پیس سوٹ زیب تن کیے ہوئے ہیں۔ سعودی وزارت صحت کے فراہم کردہ ٹکٹ پر سامان کی حد بیس کلو ہے لیکن ہر فرد کم از کم ایک سو کلو اسباب ساتھ لے آیا ہے۔ نئی جگہ ہے۔ کیا پتہ من پسند کھانے، کپڑے، برتن وغیرہ ملیں یا نہیں۔

16 اگست 2021 ء

کابل ائرپورٹ پر قیامت کا سماں ہے۔ ہزاروں افراد جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں دھول اور مٹی میں آٹے ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگے پھر رہے ہیں۔ نہ کسی کے پاس پاسپورٹ یا ویزہ ہے نہ ساتھ کوئی سامان۔ امریکی فضائیہ کے سی سترہ کا دروازہ کھلتا ہے تو اچانک چھ سات سو افراد گھس جاتے ہیں۔ باہر موجود ہزاروں افراد میں سے کوئی دروازے سے لٹکتا ہے تو کوئی پروں پر، کسی کو پنکھے میں جگہ ملی ہے تو کوئی پہیوں کو دبوچ لیتا ہے۔ فلائٹ روانہ ہوتی ہے اور کچھ ہی دیر میں فضاء سے گرتے انسانوں کی وڈیوز دنیا بھر میں وائرل ہوجاتی ہیں۔ منزل پر پہنچنے کے بعد جب طیارہ کی صفائی کی جاتی ہے تو ٹکڑے ٹکڑے ہوئے انسانی جسموں کی باقیات انجن میں ملتی ہیں۔

لوگ اپنے وطن کو چھوڑ کر کیوں چلے جاتے ہیں؟

ہجرت کی موٹی موٹی وجوہات یہ ہیں :

  • جنگ، علاقائی تنازعات، بدامنی
    نسلی، مذہبی، فرقہ ورانہ، لسانی بنیاد پر جبر و تشدد اور امتیازی برتاؤ
    قدرتی آفات جیسے سیلاب، زلزلہ، آگ، آتش فشاں وغیرہ
    ناقابل برداشت موسمی تبدیلی، خشک سالی، قحط
    بیروزگاری، پست معیار زندگی، صحت، تعلیم، خدمات وغیرہ کا میسر نہ ہونا
    عزیز رشتہ داروں کے ساتھ رہنے کی خواہش

آپ کون ہیں مہاجر، تارک وطن، پناہ گزین یا اجنبی؟

مائیگریشن: جتنا پرانا انسان کا اپنا وجود ہے اتنی ہی قدیم ہجرت کی رسم ہے۔ تہذیب، ثقافت، سیاست، معیشت، زبانوں، شاعری، موسیقی حتی کہ انسانی جسم اور اس کی جینز تک ہر پہلو پر ہمارے اجداد کی ہجرت نے انمٹ نقوش ثبت کیے ہیں۔ ہجرت اندرون ملک اور بیرون ملک دونوں قسم کی ہو سکتی ہے۔

امیگریشن: ایک نسبتاً نیا تصور ہے اور اس کا تعلق صنعتی دور سے ہے۔ جدید تعریف کے مطابق اپنے ملک کو چھوڑ کر دوسرے ملک میں مستقلا ”رہائش پذیر ہونے کی غرض سے جانے کو امیگریشن کہتے ہیں۔ یہ مجبوری نہیں بلکہ اختیاری فعل ہے۔

پناہ گزین۔ یہ بھی ایک جدید تصور ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی تعریف کے مطابق پناہ گزین وہ شخص ہے جسے اپنے پیدائش کے وطن میں نسل، مذہب، قومیت، مخصوص سماجی طبقہ کی رکنیت یا سیاسی نظریہ کی بنیاد پر زیادتی کا حقیقی خطرہ درپیش ہو جو اسے اپنے مقام پیدائش پر واپس چلے جانے سے باز رکھتا ہے۔

اس ادارے کا قیام 1951 ء میں اس وقت عمل میں آیا جب دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں ایک سے دو کروڑ افراد در بدر ہوچکے تھے۔

سنہ 1967 ء میں اس تعریف میں ترمیم کی گئی اور صرف یورپی مہاجرین کے بجائے دنیا کے ہر خطے کے بے گھر افراد پر اس کو لاگو کیا گیا۔

اجنبی (ایلین)۔ سعودی عرب میں پیدائشی شہری کو متواطن جبکہ مہاجر کے لئے اجنبی یا خارجی کی ہتک آمیز اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ درحقیقت امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا اور بھارت سمیت کئی ملکوں کے قوانین میں غیر شہریت یافتہ باشندے کے لئے ایلین کا لفظ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

سب سے زیادہ پناہ گزین کن ممالک میں رہتے ہیں؟

آبادی کے تناسب کے اعتبار سے سب سے زیادہ پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے کا شرف لبنان، اردن، ترکی، یوگنڈا، سوڈان اور جرمنی کو حاصل ہے جبکہ صرف تعداد کی طرف دیکھا جائے تو ترکی، یورپی یونین، جرمنی، پاکستان اور بنگلہ دیش اس ضمن میں بہت زیادہ بوجھ اٹھا رہے ہیں۔

پناہ کے متلاشی کہاں سے آرہے ہیں؟

یورپین یونین کے اعداد و شمار کے مطابق وہ ممالک جہاں کے باشندوں نے 2019۔ 2020 میں سب سے زیادہ پناہ کی درخواستیں دائر کیں ان کی ترتیب یہ ہے : شام، افغانستان، وینزویلا، کولمبیا، عراق، پاکستان اور ترکی۔

برطانیہ کی مائیگریٹری آبزرویٹری کے مطابق 2020 میں زیر غور کیسز میں ایران، عراق، البانیہ، اریٹیریا، سوڈان، شام، افغانستان اور پاکستان سے نکلنے والے سب سے پیش پیش تھے جبکہ پاکستان اور افغانستان سے موصول شدہ درخواستوں کی تعداد میں زیادہ فرق نہیں تھا۔

امریکہ کے اعداد و شمار دیکھیں تو وہاں 2016 ء سے 2018 کے دوران سب سے زیادہ پناہ گزین بھیجنے والے ممالک کی ترتیب یوں ہے : کانگو، میانمار، یوکرین، بھوٹان، اریٹیریا، افغانستان، السلواڈور اور پاکستان۔ اس عرصے میں پناہ حاصل کرنے والے افراد میں افغانستان اور پاکستان کے تناسب میں بہت تھوڑا فرق تھا۔

امان کی تلاش کرنے والوں کے کیا حقوق ہیں؟

جب تک پناہ کی درخواست منظور نہ ہو جائے اور پناہ گزین کی حیثیت نہ تسلیم کرلی جائے یہ افراد خصوصی پناہ گاہوں میں رکھے جاتے ہیں۔ پناہ کی درخواست منظور ہونے تک انہیں نوکری کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور ضروریات زندگی کے نام پر انہیں ایک انتہائی قلیل اور ناکافی رقم دی جاتی ہے۔ برطانیہ میں یہ الاؤنس صرف 39 پاونڈ ہفتہ ہے۔ یاد رہے کہ اس مہنگے ملک میں کم از کم معاوضہ اوسطاً 7 پاونڈ فی گھنٹہ ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جب تک پناہ کی درخواست پر فیصلہ نہیں ہوجاتا ان افراد کو نوکری کرنے کا حق حاصل نہیں نہ انگریزی سکھانے کی مفت کلاسز کی سہولت دی جاتی ہے۔

درخواست منظور ہونے کا عرصہ چھ ماہ سے لے کر کئی سال پر محیط ہوتا ہے۔ درخواست رد ہونے کی صورت میں قانونی معاونت بھی میسر نہیں ہوتی برطانوی چیرٹی ریفیوجی ایکشن کے مطابق پناہ کا انتظار کرتے کرتے یہ افراد شدید غربت، نسلی نفرت، تشدد، تنہائی اور پست ترین معیار زندگی سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ آئرلینڈ میں بھارتی گجرات سے آنے والے ہمارے ایک واقف اپنی درخواست کی منظوری کا دس سال سے انتظار کر رہے تھے اور اس دوران کام کی اجازت نہ ہونے کے باعث شدید جسمانی اور ذہنی عوارض کا شکار ہوچکے تھے۔ اس کے برعکس وہیں ایک پاکستانی جاگیردار سیاسی گھرانے کے سپوت سے بھی ملاقات رہی جنہوں نے جعلی دعوے پر پناہ کی درخواست دے رکھی تھی۔

یورپ کے دیگر ممالک اور پناہ گزینوں کی مقبول ترین منزلوں یعنی امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا میں بھی حالات زیست مختلف نہیں۔

پناہ گزینوں کے بڑے بحران

آج کل افغانستان تمام ٹی وی اسکرینوں اور اخباری شہ سرخیوں پر چھایا ہوا ہے لیکن یہ المناک بحران پہلی مرتبہ پیدا نہیں ہوا۔ ہر انقلاب، جنگ اور معاشی بدحالی کا نیا زلزلہ انسانوں کو ان کی جڑوں سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ بہت ہی حالیہ مثال 2015 ء میں بحیرہ روم کے خطرناک راستے سے اپنے خاندانوں سمیت یورپ میں داخل ہونے والوں کی ہے جن کی تعداد دس لاکھ سے متجاوز ہو گئی تھی۔ آپ کو تین سالہ شامی بچے ایلان کردی کی تصویر یاد ہوگی جو خاندان کے ساتھ ایک چھوٹی سی کشتی پر سمندر کی بے رحم موجوں سے لڑتے ہوئے جاں بحق ہو گیا تھا۔

اس تصویر نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑا ضرور لیکن وقتی طور پر۔ یہ سوال اٹھا کہ شام کے قریب واقع دولت مند سعودیہ، امارات، قطر اور کویت ان پناہ گزینوں کے لئے کیا کر رہے ہیں لیکن اس وقتی ابال کے بعد سے ہر سال مزید دو ہزار انسانی جانیں اس پر خطر سفر کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ اس راستے سے یورپ داخل ہونے والوں میں قومیت کے اعتبار سے شامی افغانی، عراقی کے ساتھ ساتھ پاکستانی بھی شامل ہیں جو چھٹے نمبر پر آتے ہیں۔

میانمار سے جان بچا کر بنگلہ دیش جانے والے روہنگیا مسلمان، 1971 کی جنگ میں مشرقی پاکستانیوں کی بھارتی بنگال ہجرت اور تقسیم ہند پر بھارت اور پاکستان سے لاکھوں مہاجرین کی سرحد پار روانگی بھی تاریخ انسانی کی بڑی اور المناک ہجرتوں میں شمار ہوتی ہیں۔

مہاجرین کے میزبان ممالک پر اثرات

خواہ امیگریشن حاصل کریں یا پناہ، مہاجرین دوسرے ممالک پر بڑے گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہ نسلی توازن تبدیل کرتے ہیں۔ اپنے ساتھ مختلف اقدار، مہارت اور ثقافت لاتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سستی لیبر کا ذریعہ ہیں اور خدمات کے شعبے کی لاگت میں کمی لاتے ہیں۔ 2015 میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمروں نے جرمنی کو پناہ گزینوں کے لئے دروازے کھولنے پر باقاعدہ سخت تنبیہ دی کیونکہ سستی لیبر سے تیز رفتار جرمن معیشت کو بہت فائدہ ہو رہا تھا۔

جس طرح کچھ لوگ پاکستان میں افغان مہاجرین کو بری نظر سے دیکھتے ہیں، ان کے خلاف بیانات دیتے ہیں اور لطائف بنائے ہیں بالکل اسی طرح کی صورتحال ترقی یافتہ ممالک کی بھی ہے جہاں اس ایشو کی آڑ میں دائیں بازو کی انتہا پسند سیاسی جماعتیں پھل پھول رہی ہیں۔ دوسری طرف خود مہاجرین میں جرائم پیشہ اور دہشت گرد افراد کو کھل کھیلنے کے لئے موافق فضاء دستیاب ہے۔

امریکی امیگریشن پالیسی اور گرین کارڈ لاٹری

امریکہ مہاجرین کو خوش آمدید کہنے والا ملک سمجھا جاتا ہے لیکن امریکہ کے امیگریشن کے قوانین کا تاریخی مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بات درست نہیں۔ اٹھارہویں صدی سے ہی امریکہ میں باہر سے داخل ہونے والوں کے تناسب کو بہت احتیاط سے برقرار رکھا جاتا رہا ہے۔ مثلاً انیسویں صدی اور پھر دوسری جنگ عظیم کے دوران چینیوں کو امریکہ سے بے دخل کیا گیا، ایک قانون سے مرگی کے مریضوں کا داخلہ روکا گیا، نازی جرمنی سے جان بچا کر آنے والے یہودیوں کے ایک بحری جہاز کو لنگر انداز نہ ہونے دیا گیا جس سے سینکڑوں جانوں کا اتلاف ہوا۔ متعدد بار بچوں سمیت مہاجرین کو پکڑ پکڑ کر واپس بھیجا گیا۔ 1987 میں اقتدار سے رخصت ہوتے ہوتے صدر رونلڈ ریگن نے تیس لاکھ غیر قانونی تارکین کو امریکی شہریت عطا کردی۔

1990 میں نسلی تنوع کی غرض سے گرین کارڈ لاٹری ویزا کا آغاز کیا گیا پاکستان 2001 میں اس اسکیم سے خارج کر دیا گیا کیونکہ ہر ایک ویزا کے لئے وطن سے کئی کئی ہزار درخواستوں کے باعث پاکستانی نژاد افراد کی مجوزہ تعداد بہت جلد مکمل ہو گئی۔ کچھ ایسے ممالک بھی ہیں جن کی کل آبادی کے 15 فیصد نے اس لاٹری میں قسمت آزمائی کی۔

وطن چھوڑنے والوں کی مدد کرنے والے ادارے

پاکستان کے طول و عرض میں انگریزی کا ٹیسٹ آئیلٹس IELTS پاس کرانے کے ہزاروں ٹیوشن سینٹر، طلباء کو بیرون ملک یونیورسٹیوں میں داخلے کی رہنمائی فراہم کرنے والے سینکڑوں ورکشاپس، ہر گلی میں قائم ویزا ایجنسیز، اوورسیز پاکستانی ایمپلائمنٹ کارپوریشن اور فوجی فاونڈیشن سمندر پار مقیم سیاستدان، بیوروکریٹ، فوجی افسر، ججز علاوہ ازیں ڈاکٹروں سمیت متعدد پروفیشنل المنائی اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستانیوں کا ایک بہت طاقتور ڈایا سپورا تیار ہو رہا ہے درحقیقت بھارتی، میکسیکن اور چینیوں کی طرح پاکستانی ڈایاسپورا دنیا میں تارکین وطن کی سب سے بڑی نسلی آبادیوں میں سے ایک ہے۔

پاکستانی ڈایا سپورا اور انتہا پسند نظریات

ایک طرف میزبان کلچر میں موجود نسلی تفاخر اور منافرت کے جذبات ہیں دوسری جانب مہاجرین میں انتہا پسندانہ بالخصوص جہادی نظریات پائے جاتے ہیں۔ اکثر مغربی ممالک میں ایسی قانون سازی کے لئے بہانے تلاش کیے جا رہے ہیں جن سے تارکین وطن کو ان کے شہری حقوق سے محروم کر کے واپس بھیجنے کی راہ ہموار کی جاسکے۔ برطانیہ کی یورپ سے علیحدگی (بریکسٹ) کے عوامی ریفرنڈم میں سب سے اہم کردار ہجرت مخالف سیاست کا تھا۔

افغان پناہ گزینوں کا مستقبل

ابھی افغان المیہ کا دیباچہ پوری طرح نہیں لکھا گیا کہ پاکستان اور ترکی سمیت کتنے ہی ممالک نے پناہ گزینوں پر اپنے دروازے بند کر دیے ہیں۔ یورپ میں پناہ گزینوں کی یلغار سے نمٹنے کی تیاریاں شروع ہو گئی ہیں۔ ہر چند بہت ہمدردی کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن قرائن اچھے نہیں۔ لگتا ہے کہ وطن کے اندر اور باہر افغانوں کی قسمت میں درد و الم لکھ دیا گیا ہے۔

Published on: Aug 23, 2021 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments