معزز طوائف از ژاں پال سارتر


لزی: آہ! (کرسی سے اٹھتی ہے ) مجھے پتہ تھا کہ تم لوٹ کر آؤ گے۔ تم اندر کیسے آئے؟
نیگرو: کھڑکی سے۔
لزی: تم کیا چاہتے ہو؟
نیگرو: مجھے پناہ دو۔
لزی: میں نے تمہیں بتایا تھا کہ میں پناہ نہیں دے سکتی۔
نیگرو: محترمہ کیا تم ان کی آوازیں سن رہی ہو؟
لزی: ہاں

نیگرو: یہ بلوے کا آغاز ہے۔
لزی: کیسا بلوا؟
نیگرو: نیگروؤں کے خلاف
لزی: اوہ (طویل وقفہ) کیا تمہیں یقین ہے کہ تمہیں کسی نے اندر آتے نہیں دیکھا؟
نیگرو: ہاں مجھے یقین ہے۔
لزی: اگر انہوں نے تمہیں پکڑ لیا تو کیا کریں گے؟
نیگرو: مجھ پر تیل چھڑکیں گے۔
لزی: کیا؟
نیگرو: تیل۔ وہ مجھے آگ لگا دیں گے۔

لزی: اچھا۔ (کھڑکی پر پردے پھینک دیتی ہے ) بیٹھ جاؤ۔ (نیگرو کرسی میں دھنس جاتا ہے ) تم نے یہاں ہی آنا تھا۔ میں اس چکر سے نجانے کب نکلوں گی۔ (وہ سیدھی اس کی طرف جاتی ہے ) مجھے ایسے مسائل سے نفرت ہے۔ تم سمجھتے نہیں۔ (پاؤں زمین پر پٹختی ہے ) نفرت ہے نفرت ہے نفرت ہے۔

نیگرو: ان کا خیال ہے کہ میں نے تمہیں اذیت پہنچائی ہے۔
لزی: تو پھر کیا؟
نیگرو: تو وہ مجھے تلاش کرنے یہاں نہیں آئیں گے۔
لزی: کیا تمہیں پتہ ہے کہ وہ تمہارا پیچھا کیوں کر رہے ہیں؟
نیگرو: ان کا خیال ہے کہ میں نے تمہارے ساتھ زیادتی کی ہے۔
لزی: کیا تمہیں پتہ ہے کہ انہیں یہ کس نے بتایا ہے؟
نیگرو: نہیں

لزی: میں نے (لمبا وقفہ) تمہارا اس بارے میں کیا خیال ہے؟
نیگرو: محترمہ تم نے ایسا کیوں کیا؟
لزی: یہی تو میں اپنے آپ سے پوچھتی ہوں۔

نیگرو: وہ مجھ پر رحم نہیں کھائیں گے۔ وہ میرے منہ پر چابک ماریں گے۔ مجھ پر تیل چھڑکیں گے۔ تم نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے تمہارا کچھ نہیں بگاڑا۔

لزی: کیا تم میرا گلا نہیں گھونٹنا چاہتے؟
نیگرو: بہت دفعہ انہوں نے لوگوں کو وہ باتیں کہنے پر مجبور کیا جو وہ نہیں کہنا چاہتے تھے۔

لزی: بہت دفعہ اور جب وہ انہیں مجبور نہیں کر سکے تو میٹھی میٹھی باتوں سے حیران کر دیتے تھے۔ (وقفہ) اچھا نہیں تم مجھے نہیں مارنا چاہتے۔ تم ایک شریف انسان ہو۔ (وقفہ) میں تمہیں کل رات تک چھپا کر رکھوں گی۔ (وہ اس کی طرف بڑھتا ہے ) مجھے مت چھوؤ۔ مجھے نیگرو پسند نہیں۔ (باہر گولیوں کی آواز) وہ قریب آ رہے ہیں (کھڑکی کے پردے ہٹا کر باہر دیکھتی ہے ) ہم مارے گئے۔

نیگرو: وہ کیا کر رہے ہیں؟

لزی:وہ سڑک کے دونوں طرف محافظ کھڑے کر رہے ہیں اور گھروں کی تلاشی لے رہے ہیں۔ تمہیں ضرور کسی نے سڑک پار کرتے ہوئے دیکھا ہو گا۔ (وہ دوبارہ باہر دیکھتی ہے ) غضب ہو گیا۔ بس اب ہماری باری ہے۔ وہ ادھر ہی آ رہے ہیں۔

نیگرو: کتنے ہیں؟

لزی: پانچ یا چھ۔ باقی باہر انتظار کر رہے ہیں۔ (اس کی طرف دیکھتی ہے ) مت کانپو۔ خدا کے لیے مت کانپو۔ (وقفہ۔ ہار سے ) یہ سب تمہارا قصور ہے۔ تم بہت خبیث سانپ ہو۔ (اسے زمین پر پٹختی ہے اور اسے پاؤں کے نیچے کچلتی ہے ) (نیگرو سے ) تمہیں بھی یہیں آنا تھا۔ (نیگرو اٹھتا ہے اور باہر جانے لگتا ہے ) یہیں رہو باہر گئے تو مار دیے جاؤ گے۔

نیگرو: کیا چھت پر چڑھ سکتا ہوں؟

لزی: باہر چاند کی روشنی ہے۔ اگر ان کی بندوقوں کا نشانہ بننا ہے تو اوپر چلے جاؤ۔ (وقفہ) ایک لمحہ ٹھہرو۔ ہم تک پہنچنے سے پہلے انہوں نے دو منزلوں کی تلاشی لینی ہے۔ (کمرے میں آگے پیچھے پھرتی ہے۔ نیگرو کرسی میں دھنسا ہوا ہے ) کیا تمہارے پاس بندوق ہے؟

نیگرو: نہیں
لزی: بہت اچھا (دراز کھول کر پستول نکالتی ہے )
نیگرو: محترمہ یہ کس لیے؟

لزی: میں دروازہ کھولوں گی اور انہیں اندر بلاؤں گی۔ میں پچیس سال تک ان کی جائز و ناجائز سنتی آئی ہوں۔ بوڑھی ماؤں کے ، سفید بالوں کے، جنگی ہیروؤں کے اور انکل سام کے قصے۔ بہت ہو چکا۔ اب میری باری ہے میں انہیں بتاؤں گی۔ وہ یہاں ہے لیکن بے گناہ ہے۔ مجھے ایک غلط بیان پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ مجھے یسوع مسیح کی قسم یہ معصوم ہے۔

نیگرو: وہ تم پر یقین نہیں کریں گے۔

لزی: شاید نہ کریں۔ اگر وہ تمہاری طرف بڑھیں تو تم پستول سے اپنی حفاظت کرنا اور اگر وہ حملہ کریں تو تم گولی چلا دینا۔

نیگرو: باقی لوگ آ جائیں گے۔

لزی: انہیں بھی قتل کر دینا۔ اور اگر تمہیں سینیٹر کا بیٹا نظر آئے تو اسے ضرور قتل کر دینا۔ یہ سب گند اسی کا پھیلایا ہوا ہے۔ ہم پھنس گئے ہیں۔ یہ ہمارا آخری موقع ہے۔ (پستول دیتے ہوئے ) یہ لو۔ میں کہتی ہوں لے لو۔

نیگرو: میں نہیں لے سکتا محترمہ
لزی: کیوں نہیں؟
نیگرو: میں گوروں کو قتل نہیں کر سکتا
لزی: سچی اس سے انہیں تکلیف ہوگی۔

نیگرو: وہ گورے ہیں محترمہ
لزی: پھر کیا ہوا؟ کیا انہیں تمہارا سوؤروں جیسا حشر کرنے کی اس لیے اجازت ہے کہ ان کی چمڑی سفید ہے۔
نیگرو: وہ پھر بھی گورے ہیں
لزی: کیا مذاق ہے۔ تم بھی اتنے ہی چغد ہو جتنی کہ میں ہوں۔ بہرحال جب وہ یہاں جمع ہوں تو۔
نیگرو: تم گولی کیوں نہیں چلاتی محترمہ؟

لزی: میں نے کہا تو ہے کہ میں چغد ہوں۔ (سیڑھیوں پر قدموں کی آواز) وہ آ گئے۔ غسل خانے میں گھس جاؤ اور دم سادھ لو۔ (نیگرو چھپ جاتا ہے ) گھنٹی بجتی ہے۔ وہ ہار اٹھاتی ہے اور دروازہ کھولتی ہے۔ دو مرد بندوقیں لیے کھڑے ہیں )

پہلا مرد: ہم ایک نیگرو کی تلاش میں ہیں
لزی: کون سا نیگرو؟
پہلا آدمی: وہ نیگرو جس نے گاڑی میں ایک عورت کے ساتھ زنا کیا اور سینیٹر کے بھتیجے کو چاقو مارا
لزی: خدا کے لیے وہ یہاں نہیں ملے گا (وقفہ) تم نے مجھے نہیں پہچانا
دوسرا آدمی: ہاں میں نے تمہیں پرسوں گاڑی سے اترتے دیکھا تھا

لزی: دوست میں ہی تو وہ عورت ہوں جس کے ساتھ زنا کیا گیا تھا کچھ سمجھے؟ (وہ اس کی طرف خوف و حیرت کے ساتھ دیکھتے ہیں ) اگر وہ اس طرف آیا تو اس کا حشر یہ ہو گا (وہ انہیں پستول دکھاتی ہے۔ وہ ہنستے ہیں )

پہلا آدمی: کیا تم اسے سزا پاتے نہیں دیکھنا چاہتی؟
لزی: جب تم اسے پکڑ لو تو مجھے بتانا
پہلا آدمی: اس میں دیر نہیں لگے گی۔ ہمیں معلوم ہے وہ یہیں کہیں ہے۔

لزی: جاؤ قسمت آزماؤ ( وہ چلے جاتے ہیں، وہ دروازہ بند کرتی ہے۔ پستول میز کے دراز میں رکھ دیتی ہے ) تم اب باہر آ سکتے ہو۔ (وہ گھٹنوں کے بل نکلتا ہے اور اس کی اسکرٹ کو چومتا ہے ) میں نے تمہیں کہا تھا کہ مجھے مت چھوؤ۔ تم عجب کردار ہو۔ سارا شہر تمہارے پیچھے لگا ہے۔

نیگرو: میں نے کچھ نہیں کیا تم جانتی ہو میں نے کچھ نہیں کیا۔

لزی: (اہنے ہاتھ سے پیشانی پونچھتے ہوئے ) میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ سچ کیا ہے؟ سارے شہر کا شہر تو غلط نہیں ہو سکتا۔

نیگرو۔ یہی ہوتا ہے سفید لوگ حالات کو یونہی بگاڑ دیتے ہیں۔
لزی: کیا تمہارا بھی یہی حال ہے؟ کیا تمہیں بھی احساس جرم ہو رہا ہے؟
نیگرو: ہاں محترمہ
لزی: لیکن تم نے کوئی جرم نہیں کیا
نیگرو: نہیں محترمہ
لزی: یہ کیا بات ہے کہ سب ان کی طرفداری کر رہے ہیں؟
نیگرو: وہ گورے جو ہوئے

لزی: میں بھی تو گوری ہوں (وقفہ۔ قدموں کی آہٹ) وہ پھر آ رہے ہیں۔ (وہ لاشعوری طور پر اس کے قریب آتی ہے۔ وہ کانپتا ہے اپنے بازو اس کی گردن میں ڈال دیتا ہے۔ خاموشی۔ وہ اس کی گرفت سے آزاد ہوتی ہے ) اب ہماری طرف دیکھو۔ کیا ہم دونوں اس دنیا میں تنہا نہیں ہیں؟ دو یتیموں کی طرح۔ (گھنٹی بجتی ہے ) وہ جواب نہیں دیتی (دوبارہ بجتی ہے ) غسل خانے میں گھس جاؤ۔ (نیگرو چھپ جاتا ہے لزی دروازہ کھولتی ہے فریڈ داخل ہوتا ہے )

لزی: کیا تم پاگل ہو۔ میرے گھر کیوں آئے؟ تم اندر نہیں آ سکتے۔ تم میرے لیے پہلے ہی بہت سی مصیبتیں لا چکے ہو۔ نکل جاؤ حرامی باہر نکل جاؤ۔ (فریڈ اسے دھکیل کر اندر گھس آتا ہے۔ اور اسے شانے سے پکڑ لیتا ہے ) کیا بات ہے؟

فریڈ: تم شیطان ہو

لزی: اور تم یہ کہنے کے لیے میرا دروازہ توڑنے پر تلے ہوئے تھے۔ کیا مصیبت ہے تم کہاں تھے (وقفہ) بتاؤ نا۔

فریڈ: انہوں نے ایک نیگرو پکڑ لیا۔ وہ غلط آدمی تھا لیکن انہوں نے اس کے ساتھ بھی ویسا ہی حشر کیا۔
لزی: تو پھر؟
فریڈ: میں ان کے ساتھ تھا

لزی: (سیٹی بجاتی ہے ) یہ بات ہے (وقفہ) ایسا لگتا ہے کہ نیگرو کو تکلیف پہنچے تو تم پر کچھ اثر ہوتا ہے۔

فریڈ: میں تمہیں چاہتا ہوں
لزی: کیا؟

فریڈ: تم شیطان ہو تم نے مجھ پر آسیب کر دیا ہے۔ میں ان لوگوں کے ساتھ تھا میرے ہاتھ میں پستول تھا۔ نیگرو درخت کی شاخ سے لٹک رہا تھا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور سوچا ، میں اس عورت کو چاہتا ہوں، یہ پاگل پن ہے سراسر پاگل پن۔

لزی: مجھے چھوڑ دو مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔

فریڈ: تم نے مجھ پر کیا جادو کر دیا ہے؟ تم جادو گرنی ہو۔ میں نے نیگرو کو دیکھا اور تم نظر آئیں۔ میں نے تمہیں شعلوں پر جھولتے دیکھا اور گولی چلا دی۔

لزی: تم کمینے ذلیل! مجھ سے دور ہٹ جاؤ۔ مجھے چھوڑ دو، تم قاتل ہو۔

فریڈ: تم مجھ پر حاوی ہو چکی ہو۔ تم میری ذات میں ایسی دھنس گئی ہو جیسے دانت مسوڑھوں میں دھنسے ہوتے ہیں۔ مجھے تمہارا غلیظ پیٹ نظر آ رہا ہے۔ میرے ہاتھوں میں تمہاری گرمی ہے۔ میری ناک میں تمہاری بو ہے۔ میں بھاگ بھاگا یہاں آیا ہوں۔ نہ جانے کیوں۔ قتل کرنے یا زنا کرنے۔ اب میں جاتا ہوں میں ایک طوائف کی خاطر اپنی عاقبت خراب نہیں کرنا چاہتا۔ کیا وہ حقیقت تھی جو صبح تم نے مجھے بتائی تھی؟

لزی: کیا؟
فریڈ: کہ تم نے مجھ سے جنسی لذت پائی تھی۔
لزی: چھوڑو ان باتوں کو مجھے معاف کر دو۔

فریڈ: تم قسم کھاؤ کہ وہ سچ تھا۔ قسم کھاؤ۔ (وہ اس کی کلائی مروڑتا ہے۔ غسل خانے میں کچھ ہلنے کی آواز آتی ہے ) وہ کیا ہے؟ (سنتا ہے ) اندر کوئی شخص ہے۔

لزی: تم دیوانے ہو رہے ہو۔ اندر کوئی نہیں۔
فریڈ: نہیں کوئی تو ہے (وہ غسل خانے کی طرف بڑھتا ہے )
لزی: تم اندر نہیں جا سکتے
فریڈ: میں نے کہا نہ کوئی تو ہے۔
لزی: یہ آج کا گاہک ہے۔ ایسا گاہک جو قیمت ادا کرتا ہے۔ اب تسلی ہو گئی تمہیں۔

فریڈ: گاہک۔ یہاں اور گاہک نہیں آئیں گے۔ آج کے بعد مزید گاہکوں کے لیے دروازہ بند۔ اب تم میری ہو۔ (وقفہ) میں اس کی شکل دیکھنا چاہتا ہوں۔ (پکارتا ہے ) باہر نکل آؤ۔

لزی: (چیختی ہے ) باہر مت نکلنا۔ یہ ایک دھوکہ ہے۔

فریڈ: تم ذلیل طوائف! (وہ اسے دھکا دیتا ہے۔ دروازہ کھولتا ہے نیگرو باہر نکلتا ہے ) تو یہ ہے تمہارا گاہک

لزی: میں نے اسے چھپا لیا تھا۔ (فریڈ پستول نکالتا ہے ) اسے قتل مت کرو۔ تم بخوبی جانتے ہو کہ یہ معصوم ہے۔ نیگرو فریڈ کو دھکا دیتا ہے اور باہر بھاگ جاتا ہے ) فریڈ اس کے پیچھے بھاگتا ہے۔ لزی ان دونوں کے پیچھے لپکتی ہے۔

لزی: (چیختی ہے ) وہ بے گناہ ہے۔ وہ بے گناہ ہے۔ (پستول چلنے کی آواز آتی ہے۔ اس کے چہرے پر سختی کے آثار۔ وہ میز کے پاس جاتی ہے پستول اٹھاتی ہے اور اپنی کمر کے پیچھے چھپا لیتی ہے۔ (فریڈ اپنی پستول میز پر رکھتا ہے۔ تم تم نے اسے قتل کر دیا۔ (فریڈ جواب نہیں دیتا) اب تمہاری باری ہے (وہ پستول کا رخ فریڈ کی طرف کرتی ہے )

فریڈ: لزی میری ایک ماں ہے
لزی: بکواس بند کرو۔ میں اس جال میں اس دفعہ نہیں پھنسوں گی۔

فریڈ: (اس کی طرف آہستہ سے بڑھتے ہوئے ) جو پہلا کلارک تھا اس نے پورے جنگل کو صاف کیا تھا اس نے سترہ انڈینز کو قتل کیا تھا اور پھر اسی معرکے میں مارا گیا تھا۔ اس کے بیٹے نے شہر کی بنیاد رکھی۔ وہ جارج واشنگٹن کا دوست تھا اور امریکی خود مختاری کے لیے لڑتا مارا گیا تھا۔ میرا پڑدادا سان فرانسسکو کا سردار ہوا کرتا تھا۔ اس نے ایک آگ میں بائیس لوگوں کی جانیں بچائی تھیں۔ میرا دادا اس علاقے میں آ کر مقیم ہوا تھا اور مسی سیپی نہر کے کھودنے میں مدد کرتا رہا تھا۔

بعد میں اسے شہر کا گورنر منتخب کیا گیا تھا۔ میرا باپ سینیٹر ہے۔ اس کے بعد میں سینیٹر بنوں گا۔ میں اس کا واحد بیٹا ہوں اور خاندان کا نام اگلی نسلوں تک پہنچاؤں گا۔ ہم نے اس ملک کو اور اس کی تاریخ کو بنایا ہے۔ کلارک خاندان کے لوگ صرف یہاں ہی نہیں الاسکا اور نیو میکسیکو میں بھی ہیں۔ کیا تم سارے امریکہ کو قتل کر دو گی؟

لزی: اگر تم اور قریب آئے تو گولی تمہارے بدن کے پار ہو جائے گی۔

فریڈ: چلو گولی چلا دو۔ دیکھوں کیسے چلاتی ہو۔ دیکھا نہ پیچھے ہٹ گئیں۔ تم جیسی عورت مجھ جیسے مرد پر گولی نہیں چلا سکتی۔ تم کون ہو؟ اس دنیا میں کیا کرتی ہو؟ کیا تم اتنا ہی جاتی ہو کہ تمہارا دادا کون تھا؟ مجھے زندہ رہنے کا حق ہے۔ میں نے ابھی بہت سے کام کرنے ہیں۔ مجھے پستول دے دو۔ (وہ دے دیتی ہے وہ ایک طرف رکھ دیتا ہے ) جہاں تک نیگرو کا تعلق ہے وہ تیز بھاگ رہا تھا میرا نشانہ خطا ہو گیا (وقفہ پھر وہ اپنے بازو اس کی گردن میں ڈالتا ہے ) میں تمہیں ایک خوبصورت گھر میں رکھوں گا۔

جس کے چاروں طرف باغ ہو گا۔ وہ گھر پہاڑی پر بنا ہو گا جہاں سے دریا کا منظر نظر آئے گا۔ تم باغ میں چہل قدمی کرو گی۔ لیکن تم باہر نہیں جا سکو گی کیونکہ میں بہت حاسد ہوں۔ میں شام ڈھلتے ہی تمہیں ملنے آیا کروں گا، ہفتے میں تین دفعہ۔ منگل جمعرات اور ویکنڈ۔ بہت سے نیگرو تمہارے ملازم ہوں گے اور تمہارے پاس تمہارے خوابوں سے زیادہ دولت ہوگی لیکن تمہیں میرے نخرے سہنے ہوں گے۔ بہت سے نخرے۔ (وہ اس سے گلے لگنے کے لیے آگے بڑھتی ہے ) سچ سچ بتاؤ تمہیں واقعی لذت ملی تھی؟

لزی: (بے چینی سے ) ہاں ملی تھی۔
فریڈ: (اس کے رخسار تھپتھپاتے ہوئے ) پھر سب حالات معمول پر آ گئے ہیں۔
(وقفہ) میرا نام فریڈ ہے۔
۔
تحریر۔ ژاں پال سارتر (فرانسیسی) انگریزی ترجمہ۔ لایونل ایبل
اردومیں ترجمہ۔ خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 697 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail