ہم دنیا کی دم کیوں ہیں؟


کچھ دن پہلے میں گھر پر ویک اینڈ کی چھٹی پر تھا، میرا فون میرے چھوٹے چار سال کے بچے کے پاس تھا اور وہ یوٹیوب پر اپنے پسندیدہ کارٹون دیکھ رہا تھا، جب ایک ویڈیو ختم ہوتی تو دوسرے اپنے پسند کے کارٹون لگانے کے لیے اس کو لکھنا نہیں آتا تھا تو اس نے یوٹیوب کے سپیک آپشن میں مائیک والے بٹن کو دبایا اور اپنے پسند کے کارٹون کا نام لیا تو ویڈیو چلنے لگی۔

میں بچے کے سیکھنے عمل اور اس تیزی سے بہت متاثر ہوا کیونکہ ہمیں اس عمر میں ٹی وی کا ریموٹ بھی چلانا نہیں آتا تھا۔

اب بچے کے اس عمل کا آپ دو تین طرح سے جائزہ لے سکتے ہیں، ایک تو اس نے فون سے اس چھوٹی عمر میں سیکھا کہ پرابلم سولونگ مشکل کو حل کرنا کیا ہے، اگر اس کو انگلش لکھنا نہیں آتی تو وہ بول کر بھی اس مسئلے کو حل کر سکتا ہے۔

دوسرا یہ کہ اس بچے کی ذہنی تیزی اس سمارٹ فون کی وجہ سے ہوئی، اب وہ ٹیکنالوجی کا یہ ورژن یہ دور سیکھ چکا ہے، جب اسے اگلے ورژن پر جانا ہو گا تو اس کے لئے کچھ مشکل نہیں ہو گا اور ہمیشہ وقت کے ساتھ اور زمانے کے ساتھ چلے گا ٹیکنالوجی کے اس دور میں آسانی سے آگے بڑھے گا۔

میں آج بھی کتنے پڑھے لکھے رٹائرڈ انکل اور مڈل ایج لوگوں کو دیکھتا ہوں جو مجھے اپنا فون پکڑاتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ بیٹا ہمیں ذرا واٹس ایپ تو سکھا دو، یا مجھے میرے بیٹے نے سمارٹ فون لے دیا ہے اس کا استعمال سکھا دو۔

اب ہم اگر تھوڑا غور کریں دنیا اس اینڈرائیڈ کے دور سے بھی نکل کر میٹا ورس میں قدم رکھ چکی ہے کیونکہ ہر ٹیکنالوجی ایک وقت تک ہی کارآمد ہوتی ہے اس کے بعد ماضی کا قصہ، جیسا کہ دم توڑتا ہوا ٹیلی ویژن اور ماضی کا حصہ ریڈیو، گراموفون، سی ڈی وغیرہ، لیکن ہمارے ہاں ابھی بھی موبائل کے نقصانات پر بحثیں چل رہی ہیں ایک قدامت پسند طبقہ اس کو دور حاضر میں تمام برائیوں کی جڑ قرار دے رہا ہے، جبکہ اگر دیکھا جائے تو ان برائیوں کا تعلق دور حاضر کے موبائل سے تو نہیں ہے، بلکہ برائی اور بھلائی کی ابتداء تو نسل انسانی کی ابتداء سے ہے، جب موبائل نہیں تھے تو کیا فراڈ نہیں ہوتا تھا؟ چوری ڈکیتی نہیں ہوتی تھی؟

مرد و زن کا اختلاط نہیں ہوتا تھا؟
بد اخلاقی بد مزاجی نہیں تھی؟

ماضی کے رشتے، گزرا ہوا وقت، چھوٹی موٹی مستیاں انسان کو ویسے ہی اچھی لگتی ہیں وگرنہ یہ سب برائیاں تو تب بھی تھیں اور بڑے پیمانے پر تھیں۔

تیسرے درجے کے اور غریب ممالک ہمیشہ ترقی اور جدیدیت کے خلاف رہے ہیں جیسے غریب لوگ ہمیشہ اپنی ناکامیوں کے ذمے دار امیروں کو اور زمانے کو ٹھہراتے ہیں اور خود کو غریب بھی تصور نہیں کرتے، بلکہ کچھ فرضی سی باتیں اپنے ذہن میں اختراع کر لیتے ہیں کہ امیروں کو تو سکون کی نیند نہیں آتی، اور ان کو بہت بیماریاں لاحق ہوتی ہیں وہ اللہ کی نعمتیں نہیں کھا سکتے وغیرہ،

بعینہ ہم پاکستان کے لوگ دوسرے ممالک کے بارے میں بھی سوچتے ہیں اور اپنے ملک کو جنت نظیر، چار موسم، اور اللہ کی خوبصورت تعمیرات میں سے ایک تعمیر سمجھتے ہیں۔

یہ گلوبل ویلج دنیا آپ سمجھ لیں ایک ڈائنوسار ہے جس کا ایک منہ ہے پیٹ ہے اور دم ہے اگر یہ ڈائنوسار ایک دروازے سے گزرتا ہے تو سب سے پہلے اس کا منہ گزرے گا پھر پیٹ اور آخر میں دم۔

تو صف اول کے ممالک اس ڈائنوسار کا چہرہ ہیں جو بھی ٹیکنالوجی سہولت دریافت ہوگی اس سے سب سے پہلے یہ ممالک مستفید ہوں گے پھر دوسری صف کے ممالک اور آخر میں بچا کھچا ہم تیسری صف کے ممالک کو پہنچے گا، کیونکہ ہم اس گلوبل ویلج کے ڈائنوسار کی دم ہیں۔

یہ ممالک بھی کوئی شروع سے صف اول میں پیدا نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے یہ مرتبہ کمایا، ان ممالک کا حال بھی چھ صدیاں پہلے ہم سے مختلف نہیں تھا وہاں بھی پوپ پادری توہین مذہب پر لوگوں کی گردنیں اتارتے، ترقی کے ہر راستے کو مذہب سے بغاوت سمجھتے، غلامی کو خدا کا حکم کہہ کر نافذ کرتے، لیکن اس سب سے ان ممالک کے با شعور لوگوں نے نبرد آزمائی کی اور قوم کو شعور کی راہ پر چلایا۔

امریکہ کو ایجوکیٹ کر کے جدید امریکہ کی بنیاد ابراہم لنکن نے رکھی تو جدید یورپ کو مارٹن لوتھر نے اس راہ پر چلایا۔ اور آج یہ ممالک اپنے ان مسیحاؤں کے شکر گزار ہیں وہ اپنے اس پہلے والے وقت کو اپنی تاریک رات کہتے ہیں جو گزر گئی۔

آج یہ ممالک اس مقام پر ہیں کہ ہم جیسے ممالک کے باشندے وہاں بسنے کے خواب دیکھتے ہیں کیونکہ ہم ابھی اپنی اس تاریک رات سے گزر رہے ہیں جہاں سے وہ کئی صدیاں پہلے گزر کر پاؤں کے نشانات چھوڑ گئے۔

اگر آج ہم اپنی اس تاریک رات کے خاتمے کے لیے تگ و دو نہیں کرتے اور قدامت پسندی اور ترقی کے ہر راہ کو مذہب سے متصادم سمجھیں گے تو دنیا میں جتنی بھی ترقی ہوئی اس کے اثرات ہم تک بھی پہنچیں گے لیکن آخر میں، ہمارا معیار زندگی بھی بلند ہو گا لیکن تب تک صف اول کے ممالک کسی اور دنیا میں ہوں گے اور ہمارے ہاں تب بھی کسی ڈیوائس کے بارے میں اچھائی اور برائی کی بحثیں چل رہی ہوں گی ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments