شکر ہے پاکستان سری لنکا نہیں بنا


اگست 2018ء میں عمران حکومت نمودار ہونے کے چند ہی ہفتوں بعد وطن عزیز کے ٹی وی چینلوں نے اچانک دریافت کرلیا کہ میری صورت اور انداز بیان سکرین کے قابل نہیں رہے۔ جس ادارے سے وابستہ تھا اس نے مجھے خود پر مالی بوجھ ٹھہراتے ہوئے نوکری سے فارغ کر دیا۔ میں ”باجوکی گلی“ سے پرنٹ میڈیا میں لوٹ آیا۔ اپریل 2022ء میں ہوئے چند واقعات کی وجہ سے لیکن ٹی وی سکرینوں کو ”سینئر صحافی /تجزیہ کار-نصرت جاوید“ کی یاوہ گوئی کی طلب محسوس ہوناشروع ہو گئی۔ چند معروف اینکر چھوٹے بھائیوں کی مانند ہیں۔ انہیں انکار کی ہمت سے محروم ہوں۔

صحافتی کیرئیر کے ابتدائی دنوں ہی سے میں جن اداروں سے وابستہ رہا ان کے ”سینئر“ لوگوں کی بے جاخوشامد سے اجتناب کا رویہ اختیار کررکھا ہے۔ ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ وہاں کے نچلے درجے کے سٹاف سے بے تکلفانہ گپ شپ لگاﺅں۔ ان دنوں بھی کسی پروگرام میں شرکت کے لئے جاتا ہوں تو مجھے گھرسے اٹھانے اور بعدازاں ڈراپ کرنے والے ڈرائیوروں سے گفتگو میں مصروف رہتا ہوں۔ سگریٹ نوشی کی علت پروگرام شروع ہونے سے قبل ٹی وی اداروں کی عمارت سے باہر کھڑا رہنے کو اکساتی ہے۔

جو عادت برسوں سے اپنا رکھی ہے اس کی وجہ سے یہ سوچنے کو مجبور ہو رہا ہوں کہ گزشتہ چند دنوں سے ہمارے ٹی وی چینلوں کی سکرینوں پر جو موضوعات ”سپیشل ٹرانس میشن“ کے عنوان سے گھنٹوں زیر بحث رہتے ہیں ہمارے نچلے متوسط طبقے کی بے پناہ اکثریت کی روزمرہّ زندگی سے قطعاً غیر متعلق ہیں۔ہر وہ پاکستانی جس کی ماہانہ آمدنی 20 سے 40 ہزار والی بریکٹ کے درمیان اٹکی ہوئی ہے ان دنوں فقط ایک ہی سوال اٹھاتا ہے اور وہ یہ کہ اس کی بجلی کا بل ”اچانک“ 7 سے 11 ہزار روپے کیوں ہوگیا ہے۔ یہ بل ادا کرنے کے بعد وہ اپنے گھر کا باقی خرچہ کیسے چلائے؟۔جو سوال وہ اٹھا رہے ہیں وہ ٹی وی سکرینوں پر شدومد سے زیر بحث نہیں آ رہا۔

عام پاکستانیوں کی بے پناہ اکثریت اس حقیقت کی بابت قطعاً لاعلم ہے کہ آئی ایم ایف کس بلا کا نام ہے۔پاکستان جیسی ریاست کا ”دیوالیہ“ ہو جانا اس کی منشا کا محتاج کیوں ہے۔ وہ جی این پی اور جی ڈی پی جیسی بنیادی اصطلاحات کو سرسری طورپر بھی نہیں جانتا۔اس کی دانست میں رواں برس کے اپریل تک روزمرہّ زندگی جیسے تیسے گزرہی رہی تھی۔عمران حکومت کے خاتمے کے بعد مگر مہنگائی کا ایسا طوفان اٹھ کھڑا ہوا جس سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ مایوسی کے اس عالم میں وہ اپنی مشکلات کا واحد سبب موجودہ حکومت کو ٹھہرا رہا ہے۔ ماضی میں عمران خان صاحب کا ووٹر نہ ہوتے ہوئے بھی ان کی اقتدار میں واپسی کی امید باندھے ہوئے ہے۔

پنجاب میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی وجہ سے حمزہ حکومت کی جگہ تحریک انصاف کے نامزد کردہ چودھری پرویزالٰہی برسراقتدار آئے تو ایک ڈرائیور نے نہایت معصومیت سے میرے ساتھ اس امید کا اظہار کیا کہ اب پیٹرول اور بجلی کی قیمتیں اپریل کی سطح پر واپس لوٹ آئیں گی۔ میں اسے ناامید نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ دل پر بھاری پتھرر کھتے ہوئے سمجھانے کو مگر مجبور ہوا کہ وفاقی حکومت ہی مذکورہ بالا ضرورتوں کے نرخ متعین کرتی ہے۔صوبائی حکومتیں اس ضمن میں کسی اختیار کی حامل نہیں۔ میرا ”لیکچر“ سن کر اس نے بے ساختہ ایسا جواب دیا جو غالب کے ”پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟“ میں بیان کردہ حیرانی کا اظہار تھا۔

ٹی وی سکرینیں ہی نہیں بلکہ اخبارات بھی ہمارے عوام کی اکثریت کے دلوں پر حاوی جذبات کو کماحقہ انداز میں بیان نہیں کررہے۔ہمیں گماں تھا کہ یوٹیوب وغیرہ کی بدولت جو ”سٹیزن جرنلزم“ متعارف ہوا ہے وہ عوامی جذبات کا برملا اظہار ہو گا۔ وہاں معروف چینل بھی لیکن سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کی جانب سے آئے فیصلوں کو مناظروں کے عادی ہوئے شعلہ بیاں افراد کی طرح زیر بحث لارہے ہیں۔قصہ مختصر روایتی ہو یا سوشل میڈیا باہم مل کر فقط حکمران اشرافیہ اور اداروں کے مابین چھڑی اقتدار واختیار کی جنگ پر توجہ دے رہے ہیں۔ہمارا معاشی بحران اس توجہ اور لگن کے ساتھ لوگوں کے روبرو نہیں لایاجارہا جس کا وہ مستحق ہے۔

چند دن قبل ہمارے ہاں سری لنکا کے بہت چرچے رہے۔ وہاں کے مناظر کو سوشل میڈیا پر والہانہ انداز میں پوسٹ کرتے ہوئے انٹرنیٹ پر چھائے انقلابیوں نے امید بھڑکانا شروع کردی کہ صدیوں سے ذلتوں کے مارے پاکستانی عوام بھی سری لنکا کی طرح اپنے حکمرانوں کے محلات پر قبضہ کرلیں۔وہاں موجود سوئمنگ پولوں میں نہائیں۔”عیاشی کا مرکز“ دکھتے گھروں کو نذر آتش کردیں۔سری لنکا کا صدر اور وزیر اعظم اس ملک سے جان بچاکر فرار ہوچکے ہیں۔پیٹرول کی قیمت مگر اس کے بعد بھی مزید مہنگی ہو رہی ہے۔ مہنگے نرخوں کے باوجود عوام کو اپنی موٹرسائیکل یا موٹر میں پیٹرول ڈلوانے کے لئے لمبی قطاروں میں گھنٹوں انتظار کرنا ہوتا ہے۔لاکھوں گھر اس قابل نہیں رہے کہ اپنے ہاں کا چولہا جلاسکیں۔سری لنکا کے شہروں میں مختلف باغات میں ”فوڈ کیمپ“لگے ہوئے ہیں۔ بال بچوں سمیت کنبے وہاں سے کھانا لیتے ہیں۔ سری لنکا کے بے تحاشا شہری جو دیگر ممالک میں موجود ہیں انٹرنیٹ کی بدولت بنائے گروپس کے ذریعے خوراک فراہم کرنے کے لئے خیرات بھیج رہے ہیں۔ان کی وجہ سے بدترین حالات کے باوجود مرکزی ہسپتال میں جان بچانے والی ادویات کی کمی کا بحران بھی پیدا نہیں ہوا ہے۔ ہسپتالوں میں جن ادویات کی قلت نمودار ہونا شروع ہوتی ہے ان کی فہرست انٹرنیٹ پر ڈال دی جاتی ہے۔ غیر ممالک میں سری لنکن ان ادویات کو خرید کر ان ہسپتالوں کو بھجوارہے ہیں۔سری لنکا کی ریاست اور حکمران اشرافیہ بدترین آفت کے اس سمے میں کہیں نظر ہی نہیں آرہے۔ ربّ کا سو بار شکر ادا کرنے کو مجبورہوں کہ اپنے ”انقلابیوں“ کی بے تاب خواہش کے باوجود ہم ”سری لنکا“ نہیں ہوئے۔ہماری حکمران اشرافیہ کو مگر فقط اس کی بدو لت مطمئن محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ ایسا بندوبست ہر صورت ڈھونڈنا ہوگا جو ہمارے عوام کی اکثریت کی روزمرہّ زندگی کو مزید دشواریوں سے محفوظ رکھنا ضروری بنائے۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments