عہد ساز مزاحیہ اداکار افتخار ٹھاکر سے گفتگو


13 نومبر 2022 وہ دن تھا جب کئی سال بعد بالآخر افتخار ٹھاکر نے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکالا اور 13 فصیح روڈ اسلامیہ پارک مجھ سے ملنے اور گفتگو کرنے آئے۔ اس گفتگو میں میرے دوست فہد مجید جو بحریہ ٹاؤن لاہور میں مکان بنوا رہے ہیں، بہنوئی رضوان وحید، بھتیجے ڈاکٹر عبداللہ اور ڈاکٹر احمد عمران بھی موجود تھے۔ بے شک افتخار ایک اچھے اداکار اور کامیڈین ہیں لیکن اس سے بھی بڑھ کر تھیلیسیمیا اور ہیموفیلیا سے متاثرہ بچوں کی فلاح اور بہبود کے لئے تن من دھن لگا دینا بھی افتخار ٹھاکر کی پہچان ہے جس سے اداکاری اور کامیڈی سب پیچھے رہ جاتا ہے۔ یہ فلم نگر اور اسٹیج کی دنیا میں کیسے آئے ایک نہایت دل چسپ داستان ہے :

اولین اسٹیج اداکاری:

 میں اسلام آباد میں ایک جگہ ملازمت کرتا تھا۔ میرے ساتھ فیصل آباد کے اسلم رانا صاحب بھی کام کرتے تھے۔ میں اکثر انہیں کینٹین کی طرف جاتے اکیلے خود ہی سے بولتے ہوئے دیکھتا اور سنتا۔ یوں لگتا جیسے وہ ہلکے سے کھسکے ہوئے ہیں۔ ایک دن میں نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ کیا آپ کی طبیعت ٹھیک رہتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ اکثر آپ کو کھڑکی سے گزرتا ہوا دیکھتا ہوں۔ آپ اکیلے ہی باتیں کرتے ہوئے چلتے ہیں! وہ بڑے زور سے ہنسے۔ کہنے لگے کہ آب پارہ کمیونٹی سینٹر، اسلام آباد میں عنقریب میرا ایک اسٹیج ڈرامہ ہونے والا ہے۔ میں اسٹیج آرٹسٹ ہوں اور اٹھتے بیٹھتے آج کل اسی ڈرامے کا اسکرپٹ یاد کرتا ہوں۔ انہوں نے مجھے بھی دعوت دی کہ کل ان کے ڈرامے کی ’سینسر‘ پر چلوں۔ وہاں دیکھ لینا کہ ڈرامہ کیسا ہوتا ہے!

” اس ڈرامے ’پینڈو ان ٹربل‘ کو زیڈ اے زلفی صاحب نے لکھا اور وہی اس کے ہدایت کار بھی تھے۔ وہ ’اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان ریونیو‘ میں کام کرتے اور پڑھے لکھے نفیس آدمی تھے۔ بہت شفقت سے ملے اور مجھے سامنے کی نشستوں پر سنسر کرنے والے افراد کے بیچ میں بٹھایا۔ ڈرامے کی سنسر شروع ہو گئی اور میں نے اپنے سامنے پورا ڈرامہ دیکھا۔ یہ بہت خوبصورت ڈرامہ تھا۔ کہانی کا مرکزی خیال یہ تھا کہ جو لوگ پڑھ لکھ جاتے ہیں وہ کام کیسے تلاش کریں؟ اور اگر انہیں بروقت کام نہیں ملتا تو وہ کیا کریں؟ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ڈرامہ کیسا لگا؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں رسالے بہت پڑھتا ہوں جیسے ’سلام عرض‘ ، ’جواب عرض‘ ، ’سچی کہانیاں‘ وغیرہ اکثر ان کہانیوں میں ایک بہت دلچسپ کردار ہوتا ہے جس کی وجہ سے باقی ساری کہانی پڑھنا پڑتی ہے۔ بے شک ڈرامہ بہت جاندار ہے لیکن اس سوا دو گھنٹے کے ڈرامے میں وہ کردار نہیں ہے جس کے لئے پبلک بیٹھی رہے! اس پر انہوں نے کہا کہ اب تو یہ ڈرامہ چلنے کے لئے بالکل تیار ہے پھر بھی اگر آپ کے ذہن میں ایسی کوئی بات ہے تو اس کو کر کے دکھا دیں۔ ہم سامنے ایک اداکار بٹھا دیں گے جو وہ دیکھ کر کل سے وہ کردار کر لے گا“ ۔

” مجھے اس کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اداکاری مشکل کام ہے۔ کہانی کچھ یوں تھی کہ ڈرامے کے چار کردار بے روزگاری سے تنگ آ کر جرائم پیشہ لوگوں سے مل جاتے ہیں۔ جو اپنے بہتر مستقبل کے لئے ایک نشہ آور چیز ایجاد کر لیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ لوگ جو نشہ آور چیز ایجاد کرتے ہیں وہ اپنے نوکر پر لیبارٹری سمجھ کر آزماتے ہیں اور اس کی حرکات و سکنات پبلک کو بٹھائے رکھتی ہیں۔ زلفی صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے یہ کردار تم کرو!

اور نوکر کے اس مجوزہ کردار کے لئے پہننے کے مخصوص کپڑے بھی منتخب کر کے دیے۔ اگلے دن ڈرامے کو چلتے ہوئے 18 منٹ ہو گئے اور ہال میں بالکل خاموشی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے آواز دی ’ڈسکو‘ ! یہ دراصل مجھے ہی آواز دی گئی تھی۔ جیسے ہی میں اسٹیج پر آیا عوام نے تالیاں بجائیں۔ ڈرامے کی یہ اولین اینٹری کلیپ تھیں کیوں کہ میں نے لباس جو عجیب و غریب پہن رکھا تھا! مجھ سے ان چار کرداروں نے پوچھا کہ ڈسکو ناشتہ بنا لیا ہے؟

میں نے جواب دیا کہ آپ نے انڈا تو دیا ہی نہیں! اس پر ہال سے قہقہے اٹھے۔ مجھے پہلی مرتبہ محسوس ہوا کہ عوام کی جانب سے قہقہے اور پذیرائی اسٹیج آرٹسٹ کے لئے کتنی اہم خوراک ہوتی ہے۔ میرا تو حوصلہ یک دم بڑھ گیا۔ اس کے بعد دماغ میں موقع محل سے متعلق شرارتی باتیں چلنا شروع ہو گئیں۔ جب ڈرامہ ختم ہوا تو شہباز مغل صاحب جنہوں نے ڈسکو کا کردار کرنا تھا مجھ سے ملنے آئے اور کہنے لگے کہ بھائی جان یہ کردار تو میں ساری زندگی نہیں کر سکتا! اس کے ٹائمنگ بہت خطرناک ہیں پھر یہ سب لکھا ہوا بھی نہیں ہے اس لئے میں تو یہ کردار ادا نہیں کر سکتا“ ۔

فیسٹیول میں بہترین اداکار کا ایوارڈ ملنا:

” پورے ایک ہفتے میں نے اسٹیج پر ڈسکو کا کردار ادا کیا۔ کراچی اور لاہور سے کسی فیسٹیول میں شرکت کے لئے لوگ بھی آئے ہوئے تھے، انہوں نے بھی یہ ڈرامہ دیکھا۔ ان میں ثروت عتیق صاحبہ بھی تھیں۔ انہوں نے میری اداکاری دیکھ کر انٹرول میں اندر آ کر کہا کہ اگلا ڈرامہ میرا ہے اس میں ایک ہی اینٹری کا پولیس والے کا کردار ہے وہ آپ نے کرنا ہے۔ مجھے بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ اس فیسٹیول میں 11 ڈرامے اسٹیج ہوئے تھے۔ ان میں میری تو بس ایک ہی اینٹری تھی۔ اس فیسٹیول میں بہترین اداکار کا ایوارڈ مجھے ملا“ ۔

عمر شریف کا ڈرامہ ’ان سے ملئے‘ :

” عمر شریف نے میرا سیکنڈ لاسٹ شو دیکھا تھا۔ فیسٹیول کے بعد عمر شریف صاحب کا ڈرامہ ’ان سے ملئے‘ آیا۔ وہ وسیم عباس کے ساتھ میرے پاس آئے اور کمرشل ڈرامہ میں عمر شریف کے دوست کے کردار کی پیشکش کی۔ وہ لیاقت میموریل ہال راولپنڈی میں مسلسل چلا۔ پھر بے نظیر کا دور آ گیا اور لیاقت ہال کو بند کر دیا گیا۔ اسلام آباد میں نیف ڈیک سنیما میں ہم سب نے منت سماجت کر کے وہاں ’ان سے ملئے‘ شروع کر دیا۔ اسی ڈرامے کے دوران لاہور سے آنے والے فنکار میرے دوست ہو گئے۔

جب 1996 میں وسیم عباس کی والدہ کا انتقال ہوا تو میں دعا کرنے لاہور آیا۔ وہاں سے نکلا تو سہیل احمد صاحب نے پوچھا کہ کہاں جانا ہے میں نے کہا لکشمی چوک۔ وہ مجھے اپنی گاڑی میں بٹھا کر محفل تھیٹر میں لے گئے۔ یہاں خالد عباس ڈار صاحب، مستانہ صاحب، عارفہ صدیقی اور دیگر فنکار بیٹھے تھے۔ اتنے بڑے بڑے لوگ دیکھ کر میرے تو طوطے اڑ گئے! مجھے اب بھی یاد ہے کہ خالد عباس ڈار صاحب نے سہیل احمد سے پوچھا کہ کس کو پکڑ کر لائے ہو؟

سہیل احمد نے کہا کہ جو نواب صاحب کا اردو والا کردار ہے وہ اس سے کرواتے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ شکل سے تو یہ کنڈکٹر لگتا ہے! اردو بول لے گا؟ اس پر مستانہ صاحب نے کہا اگر ٹھیک نہ بولا تو غلیل میں رکھ کر پنڈی کی طرف چھوڑ دیں گے! میں وہاں گھبرایا ہوا کھڑا تھا۔ اتنے میں امان اللہ خان صاحب آئے اور کہنے لگے کہ ٹھاکر صاحب بڑے اچھے فنکار ہیں۔ میں نے ان کا ڈرامہ دیکھا ہے۔ بہرحال ’ریل سجن‘ ڈرامہ لاہور میں شروع ہو گیا۔ ڈرامہ کامیاب رہا اور ایک سال بعد 1997 میں ہم سب یہ ڈرامہ لے کر ریاست ہائے متحدہ امریکہ آ گئے“ ۔

” میرے ذہن میں ایک خیال عرصے سے پنپ رہا تھا کہ بھارت کے فنکار اپنے انٹرویو میں ضرور بتاتے ہیں کہ میں فلاں اکیڈمی سے پڑھا ہوں لیکن پاکستان میں ایسا کوئی نہیں بتاتا۔ جلد ہی مجھے پتا چل گیا کہ یہاں تو کوئی اکیڈمی ہے ہی نہیں! اب جب میں ڈرامہ ٹیم کے ساتھ نیو یارک آیا تو میرے دماغ میں NYFA نیو یارک فلم اکیڈمی پھنسی ہوئی تھی۔ میں نے یہاں سے تین سال دو مہینے کا کورس مکمل کیا۔ میرا مقصد تھا کہ جو کام کرنے لگا ہوں اس کا کچھ پتا تو ہو!

میں نے کیمرہ پلیسنگ، سیٹ ڈیزائننگ، روشنی وغیرہ کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کیں۔ پھر 2001 میں واپس آ کر سہیل احمد کے پاس گیا اور کہا کہ بتائیں اب کیا کرنا ہے کیوں کہ پہلے تو مجھے کچھ پتا ہی نہیں تھا۔ تو جناب پھر اداکاری کا نیا سلسلہ شروع ہوا! اس وقت میں نے سید نور صاحب کی فلم کی پھر اس کے بعد پانچ سے چھ فلمیں کیں۔ جب مجھے علم ہوا کہ اصل کام تو فلم کا ہوتا ہے تو پاکستان میں فلمیں بننا ہی بند ہو گئیں! میں روزانہ ہی انتظار کرتا کہ کوئی آ کر فلم کی آفر کرے لیکن ایسا نہ ہوا“ ۔

فلم ”چل میرا پت“ کا بنانا:

” پھر میں نے مشرقی پنجاب ( بھارت) کی پنجابی فلمیں بنانے والوں سے ذاتی طور پر رابطے کی کوشش کی۔ تو انگلینڈ میں ہم آٹھ دن کے لئے اکٹھے ہوئے اور ایک فلم ’چل میرا پت‘ بنائی۔ پھر اس کے تین پارٹ مزید بنائے۔ اب تک میں ان کے ساتھ 11 فلمیں کر چکا ہوں۔ اور پاکستان میں کوئی فلم شروع ہی نہیں کرتا! پاکستانی فلم ساز ڈرے ہوئے ہیں کیوں کہ اب فلمی رجحان تبدیل ہو چکا ہے۔ ٹیکنالوجی بدل چکی ہے۔ فلم ’لیجنڈ آف مولا جٹ‘ نے بتایا کہ ٹشوں ٹشوں والی فلم نہیں چلتی نہ ہی بے ہودہ فلم کبھی چل سکتی ہے! فلم وہ ہی چلے گی جس میں معاشرے کے اندر کی کہانی موجود ہو اور وہ آپ اپنی دادی اماں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکیں! اور پھر بھارتی پنجاب نے بھی یہ بات اپنی کامیاب فلمیں بنا کے ثابت کی“ ۔

فلم ”سپر پنجابی“ :

” ’لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کے بعد کسی نے فلم شروع کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ پھر میں نے اپنی فلم ’سپر پنجابی‘ کے نام سے شروع کی۔ پرسوں 16 نومبر 2022 کو اس کا کیمرہ اوپن ہو رہا ہے۔ میں اس میں ایک چھوٹی سی معاشرتی کہانی پیش کروں گا۔ یہ مکمل فیملی فلم ہے جس کو میں انشاء اللہ 20 دنوں میں مکمل کر کے پوری دنیا میں نمائش کے لئے پیش کروں گا۔ اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ میں پروڈیوسر بن جاؤں نہ ہی میں نے اس سے کوئی پیسے کمانے ہیں مجھے تو صرف یہ کرنا ہے کہ لاہور میں فلم بنانے والے ٹیکنیکل لوگ کئی برسوں سے بے روزگار ہیں ان کے لئے ایک راستہ بنایا جائے۔

ان کو اور کوئی کام نہیں آتا۔ وہ بے چارے مزدوریاں نہیں کر سکتے۔ وہ لوگوں کی منتیں نہیں کر سکتے نہ لوگوں سے راشن مانگ سکتے ہیں۔ بڑے انا پرست لوگ ہیں جنہوں نے ساری زندگی محنت کی ہے۔ میرا مقصد ان لوگوں کو جمع کر کے ان کے ساتھ کام شروع کرنا ہے۔ اس سے دوسرے لوگوں کو ہمت آئے گی اور وہ کام شروع کریں اور ہمارے پنجاب سے کوئی اچھی فلم دنیا میں جائے۔ میری فلم ’سپر پنجابی‘ 3 مارچ 2023 کو نمائش کے لئے پیش کی جا رہی ہے“ ۔

فلم بناؤ ملک کا قرضہ اتارو:

” فلم ایک بہت بڑا ٹریڈ ہے۔ چوں کہ پاکستان میں کوئی حکومت مستحکم نہیں ہے اس لئے اس کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اگر ایسا ہو جائے اور حکومت پشت پناہی کرے، کوئی پالیسی بن جائے، سرمایہ کار اور اچھے لوگ آ کر پاکستان فلم انڈسٹری کو آگے بڑھائیں تو میں پوری ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ میں پورے ملک کا قرضہ اتار سکتا ہوں! اگر ٹریڈ چل جائے تو پوری دنیا سے اتنا پیسہ، یورو، پونڈ، ڈالر آئے گا جس سے پاکستان کا قرضہ اتار کر معاشی طور پر مضبوط کیا جا سکے گا۔ جب خوش حالی ہو گی تو ذہانت بھی کام آئے گی۔ بے شک بڑے بڑے ذہین لوگ ہمارے ملک میں موجود ہیں لیکن وہ معاشی طور پر پریشان ہیں۔ ایسے میں صحیح معنوں میں تخلیق بھی نہیں ہو سکتی۔ پھر بیرونی ممالک سے بھی انڈسٹری میں سرمایہ کاری ہو گی جس سے ہماری فلم انڈسٹری اپنے پیروں پر کھڑی ہو گی“ ۔

” ہمیں ہر زبان کی فلم بنانا چاہیے۔ پنجاب میں 36 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ان میں ہر ایک زبان پر فلم ہونا چاہیے۔ میں نے سوچا ہے کہ اس فلم کے بعد پوٹھوہاری زبان میں فلم بناؤں گا۔ میں نے پہلے بھی ایک پوٹھوہاری فلم ’می کی کھڑو انگلینڈ‘ بنائی تھی۔ پوری دنیا میں یہ پسند کی گئی۔ اس میں تمام مقامی آرٹسٹ تھے۔ سرائیکی زبان میں فلم ’سوہنا سانول‘ بنائی تھی۔ بس حکومت ایک اچھی فلم پالیسی بنائے اور انڈسٹری کی سرپرستی کرے تو ہم انقلاب لا سکتے ہیں“ ۔

” تمہیں مشکلات بھی تو پیش آئی ہوں گی کچھ ان کا بھی ذکر ہو جائے! “ ۔ میں نے سوال کیا۔

” میں نے لاہور میں ایک ڈرامہ ’منڈے گلی دے غنڈے‘ کیا۔ اس کے پروڈیوسر نے مجھ سے کہا کہ میرے ساتھ ایک جگہ، پانی والے تالاب تک چلو وہاں میں نے ایک بندے سے پیسے لینے ہیں، ان میں سے تمہارے پیسے دے دوں گا۔ وہ بندہ پیسے لینے جو گیا تو پھر واپس کبھی نہیں آیا! اور میری جیب میں اس وقت صرف پانچ روپے تھے۔ میں وہاں سے پیدل چل کر لکشمی چوک تک آیا۔ یہاں میرا ایک دوست جھرلی سائیں تھا جن سے میں لاہور میں تو کبھی نہیں ملا تھا لیکن وہ جب پنڈی آتا تو کہتا کہ جب لاہور آؤ گے تو لکشمی چوک پر کسی سے بھی جھرلی سائیں کا پوچھ لینا۔

سو میں نے ایک بندے سے لکشمی چوک میں کھڑے ہو کر جھرلی سائیں کا پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ جو سامنے ایک قطار میں 8 ہوٹل دکھائی دے رہے ہیں سب اسی کے ہیں! جاوید ہوٹل پہلا ہوٹل تھا جہاں جاوید صاحب ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے جھرلی سائیں کا پوچھا تو مجھے کہا کہ وہ میرے بھائی ہیں۔ میں نے کہا کہ انہیں کہو کہ پنڈی سے افتخار ٹھاکر آیا ہے۔ وہ آ گئے اور پوچھا کہ واپس تو نہیں جانا، میں نے کہا کہ نہیں یہیں رہوں گا تو کہا کہ کوئی بات نہیں آٹھوں ہوٹل تمہارے ہیں“ ۔

لکشمی چوک میں شدید سردیوں میں تین ماہ تندوروں پر سونا:

” سالوں پہلے اسی لکشمی چوک میں شدید سردیوں میں تین مہینے میں تندوروں پر سویا ہوں! میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ پریشانیوں کا دور تھا۔ میرے لئے وہاں سو جانا اور اٹھ کر روٹی کھا لینا مشکل نہیں تھا کیوں کہ کوئی خرچہ نہیں کوئی کچھ نہیں۔ تو جب میں نے الحمرا ہال میں ارشد چوہدری صاحب کا ڈرامہ کیا تو مجھے 2500 / روپے معاوضہ ملا وہ سو سو کے نوٹ تھے جو میں نے نیفے میں ڈال لئے۔ اب ان نوٹوں نے مجھے رات بھر سونے نہیں دیا۔

گھبراہٹ اور رہ رہ کر یہ خیال کہ کوئی نکال نہ لے! میں نے اس تکلیف میں دو دن کاٹے۔ جب پیسے نہیں تھے تو مزے میں سو رہا تھا زندگی کا مزہ لے ر ہا تھا۔ میں پھر الحمرا کی کینٹین پر گیا۔ وہاں جس نے کھانا کھایا، چائے پی اس کا میں نے فٹا فٹ اٹھ کر بل ادا کیا اور یوں اس 2500 / روپے سے جان چھڑائی۔ اس سے مجھے یہ پتہ چلا کہ لوگوں کے کام آنے یا انہیں کھانا کھلا کر کتنی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ صدقے جاؤں اللہ پاک کے کہ میں نے لوگوں پر جو پچیس سو روپے خرچ کیے، اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے 25000 / عطا کیے۔ میں نے وہ پچیس ہزار خرچ کیے تو مجھے 25 لاکھ ملے۔ یوں میں حیران ہی ہوتا گیا کہ میری زندگی کے ساتھ یہ کیا معاملہ ہے! یہ 1996 سے لے کر آج تک کا سفر ہے اور اس دوران اسرائیل کے سوا شاید ہی کوئی اور ملک ہو جہاں میں نہیں گیا! “ ۔

آمنہ اسپتال اور تھیلیسیمیا اور ہیموفیلیا میں مبتلا بچے :

” میں جب آمنہ اسپتال ملتان میں گیا اور پہلی دفعہ تھیلیسیمیا اور ہیموفیلیا میں مبتلا بچے دیکھے تو مجھے احساس ہوا کہ اللہ ہم پر اتنا مہربان ہے؟ اگر یہ بیماریاں مجھے ہوتیں تو میری ماں رل گئی ہوتی! میرے بچے کو ہوتا تو میری بیوی رل جاتی! کیوں کہ ماں اپنے بچے کو سینے سے لگائے رکھتی ہے۔ میں نے سوچا کہ یا اللہ تو میری ماں پر، مجھ پر اور میری بیوی پر اتنا مہربان تھا تو اس کا صدقہ کیا ہونا چاہیے؟ تو پھر اس کا صدقہ یہ ہی ہو سکتا ہے کہ ان بچوں کی خدمت کی جائے!

میں نے سندس فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کے کام شروع کیا۔ یہ منو بھائی جان نے بنائی تھی۔ وہ خود تو اب اس دنیا موجود نہیں رہے۔ جب ہم نے یہ کام شروع کیا تھا تو تھیلیسیمیا اور ہیموفیلیا سے متاثرہ بچوں کی عمر سات سے گیارہ سال رہتی۔ ہم نے اس مسئلہ پر بھرپور تحقیق کی تو علم ہوا کہ جس بچے کو بھی خون چڑھتا ہے اس میں ’آئرن‘ کی زیادتی ہو جاتی ہے جس سے دل بند ہو جاتا ہے۔ ہم نے نیوزی لینڈ سے مل کر وہ انجیکشن منگوایا جس سے آئرن کی زیادتی ختم ہو جاتی ہے۔

ایک انجیکشن 80 ہزار روپے کا آتا ہے جو تین افراد کو لگتا۔ ہم نے اس پر مزید تحقیق کی۔ اب ماشاء اللہ پاکستان میں کراچی سے لے کر خیبر تک ہماری 11 شاخیں کام کر رہی ہیں۔ اب الحمدللہ ہمارے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہے کہ ان بچوں کی عمر 25 سے 40 سال ہوتی ہے۔ اب وہ بچے کالجوں، یونیورسٹیوں میں جا کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جاب کرتے ہیں اور بھر پور طریقے سے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ ہمارے پاس ان بیماریوں کے مقابلہ کے لئے اس وقت دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی موجود ہے۔

ہمارے ساتھ پوری دنیا سے لوگ رابطے میں ہیں۔ پاکستان کی جتنی بھی فورس کام کر رہی ہیں جیسے اے ایس ایف، موٹر وے پولیس، پنجاب پولیس وغیرہ، پھر پاکستان کے بڑے بڑے پلازے، شاپنگ مال، تجارتی مراکز جیسے حفیظ سینٹر، ہال روڈ وغیرہ کی یونین کے صدور ہمارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ تھیلیسیمیا اور ہیموفیلیا کے ان 25166 بچوں کے لئے 40 ہزار بلڈ بیگ ہر مہینے درکار ہوتے ہیں۔ یہ ضرورت یہ لوگ پوری کرتے ہیں۔ پھر ہمیں اتنا زیادہ خون بھی مہیا کرتے ہیں کہ یہ ہم سے بچ جاتا ہے جسے ہم سروسز اسپتال، ملتان اسپتال اور مختلف اسپتالوں کے شعبہ حادثات کو دیتے ہیں۔

ہمارے پاس موبائل اسپتال اور ڈسپنسریاں موجود ہیں۔ جو بچے مظفر گڑھ، لیہ، راجن پور، چوک اعظم، وہاڑی اور بہاول نگر میں سڑک سے چار گھنٹے کے فاصلے پر ہیں ان کو اسپتال نہیں آنا پڑتا۔ ہم نے ان کی معلومات کمپیوٹرائز کر لی ہیں۔ ٹرانسپورٹ کے روٹ بنا لئے گئے ہیں۔ ہمارے اسپتال کا عملہ ان کے دروازے پر جا کر بچے کو لیتے ہیں پھر علاج کر کے واپس اس کے گھر چھوڑتے ہیں! ان ماؤں کا جو آنے جانے کا آٹھ گھنٹوں کا سفر تھا الحمدللہ اب نہیں ہے! “ ۔

” اس سلسلے میں اتنا کام ہو رہا ہے کہ وہ مائیں اور بچے کبھی کسی سے اسپتال آنے جانے کا کرایہ مانگتے ہیں نہ کسی کی منت کرتے ہیں کہ ہم کو خون درکار ہے۔ ہر چیز آٹو پر لگی ہوئی ہے۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب اللہ آپ پر بہت مہربان ہو! سب خزانے اللہ کے ہیں جو قیامت اور قیامت کے بعد تک رہیں گے“ ۔

” یہ خیال کب اور کیسے آیا؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” جب میں آمنہ اسپتال گیا۔ وہ 8 جون کی شدید گرمی کا دن تھا۔ وہاں سات آٹھ مائیں گرم دیوار کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں۔ اسپتال میں اندر کل 9 بیڈ تھے۔ ایک ایک بیڈ پر تین سے چار بچے تھے۔ اندر تو بیٹھنے کی جگہ ہی نہیں تھی۔ نرسیں بے چاری بڑی مشکل سے پھر رہی تھیں۔ یہ اسپتال کسی گھر میں عارضی طور پر بنا ہوا تھا۔ میں نے ان ماؤں کو دیکھا تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ( یہ گفتگو افتخار ٹھاکر نے آنسووں سے روتے ہوئے کہی جس سے وہاں موجود ہر ایک آنکھ اشک بار ہو گئی) اگر میری ماں یہاں اتنی شدید گرمی میں یا شدید سردی کے موسم میں اس دیوار کے ساتھ بیٹھی ہوتی، اگر میرے مالک نے مجھ پر اتنی مہربانی کی یا میری ماں کو یہ تکلیف نہیں دی۔ مجھے یا میرے بچوں کو ہوتی تو میری بیوی بیٹھی ہوتی۔ میرے دل میں جو سب سے پہلے خیال پیدا ہوا وہ یہ تھا کہ میں ان ماؤں کا سفر اور ان کی تکلیف ختم کروں! چار گھنٹے آنے میں، چار جانے میں، چار ہی اندر لگتے ہیں۔ 18 سے 22 دن بعد یہ ماں اپنے بچے کو سینے سے لگائے پھر آتی ہے۔

کم از کم ان کی سفر کی مشقت تو ختم ہونا چاہیے! اس کے آٹھ دس دن بعد مجھے لائیو شو کرنے انگلینڈ جانا تھا۔ میں نے وہاں لوگوں سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں 38 لاکھ روپے کا ایک موبائل اسپتال ملتا ہے۔ ہم آپ کو پاکستان پہنچا دیتے ہیں۔ میں نے پاکستان میں کسٹم والوں سے بات کی جنہوں نے بتایا کہ ٹھاکر صاحب اس پر ایک ٹیڈی پیسہ بھی ٹیکس نہیں ہے! آپ کراچی منگوائیں وہاں سے آپ جہاں کہیں گے، پہنچا دیں گے! ماشاء اللہ یہ موبائل اسپتال اور ڈسپنسریاں ملتان، رحیم یار خان، سیالکوٹ، گجرات کسٹم والوں نے خود مل ملا کر اپنے خرچے پر پہنچائیں۔

پھر خاص طور پر گجرات اور سیالکوٹ کے وہ لوگ جو بیرونی ممالک میں ہیں یا پھر ان شہروں کے فیکٹریوں والے بے حد مدد کرتے ہیں۔ مثلاً خالی بلڈ بیگ کوریا سے آتا ہے۔ 185000 روپے میں صرف 500 بیگ کا ایک ڈبہ آتا ہے۔ وہ بلڈ بیگ ہمارے پاس ہوں گے تو ہی ہم بلڈ کیمپ لگائیں گے! لوگ جس طرح دیگیں یا راشن اٹھا کر لاتے ہیں اس طرح لوگ وہ ڈبے ہمارے لئے اٹھا اٹھا کر لاتے ہیں۔ وہ فون کرتے ہیں کہ جناب ٹھاکر صاحب آپ کہاں ہیں؟ میرے پاس چار ڈبے موجود ہیں۔ زندگی کے بڑے بڑے واقعات ہیں جناب! “ ۔

ایک ہزار بلڈ بیگ:

” ایک دفعہ مجھے ملتان سے کال آئی کہ صبح 9 بجے بلڈ کیمپ لگنا ہے جب کہ ہمارے پاس بلڈ بیگ نہیں ہیں مہربانی کر کے ان کا انتظام فرما دیں! داتا صاحب کی طرف آگے میڈیکل اسٹورز کے لئے ہول سیل ادویات والوں کی دکانیں ہیں۔ میں وہاں چلا گیا۔ میں جوں ہی اندر گیا۔ وہاں پر موجود ایک صاحب نے کہا کہ اندر آ جاؤ ٹھاکر صاحب ہمیں سب پتا ہے کہ آپ کو کیا درکار ہے! انہوں نے مختلف قسم کے بیگ دکھائے اور یہاں تک بتا دیا کہ آپ جو بیگ استعمال کرتے ہیں وہ یہ ہے!

میں نے کہا کہ پانچ سو بیگ ملتان پہنچانے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹھاکر صاحب رات 2 بجے یہ ملتان میں وصول ہو جائیں گے! آپ صرف ایڈریس یا اس بندے کا فون نمبر دے دیں پہنچانا ہمارا کام! میں نے ان کو پانچ سو بیگوں کے پیسے دیے اور رسید لے کر گھر چلا گیا۔ اگلے دن میں نے ملتان اپنے بلڈ کیمپ میں معلومات کے لئے فون کیا تو مجھے بتایا گیا کہ ٹھاکر صاحب ہزار بیگوں کے بھجوانے کا شکریہ! ہم نے پانچ سو بیگ خود رکھ کر دوسرے پانچ سو آگے رحیم یار خان بھجوا دیے! جب میں نے ہول سیل والوں کو فون کیا کہ میں نے تو پانچ سو بیگوں کے پیسے دیے تھے تو مجھے بتایا گیا کہ نیک کام میں ہم نے بھی اپنا حصہ ڈال دیا۔ اب اللہ لوگوں کے دلوں میں یہ ڈالتا ہے تو بات آگے بڑھتی ہے! “ ۔

” ایک مرتبہ میں مولانا جمشید صاحب ( جو مولانا طارق جمیل وغیرہ کے اساتذہ میں سے ہیں ) کے پاس گیا۔ ان سے پوچھا کہ فرشتے روزانہ دو وقت حضور ﷺ کے پاس سلام پیش کرنے آتے ہیں اور پھر وہ قیامت تک دوبارہ نہیں آئیں گے۔ تو وہ فرشتے پھر کیا کرتے ہیں؟ مولانا صاحب کہنے لگے کہ جب اللہ تعالیٰ کو کسی سے پیار ہو تا ہے تو اللہ ان فرشتوں سے کہتا ہے دنیا میں جاؤ اور لوگوں کے

دلوں میں اس کے لئے پیار پیدا کر دو۔ لہٰذا اللہ ان فرشتوں کے ذریعے اس نیک کام میں لوگوں کے دلوں کو اس سے جوڑ دیتا ہے۔ یہ بھی سب اللہ کے حکم سے ہو رہا ہے نام میرا لگتا ہے! ”۔

” ایک سوال کے جواب میں افتخار ٹھاکر نے بتایا: مختلف تھیٹروں میں کام کرنے والے ہنر مند اور تکنیک کار بہت عظیم لوگ ہوتے ہیں اور ان کا ہم پر بڑا حق ہوتا ہے۔ ان کے معاوضے بہت کم ہوتے ہیں جن سے گزارا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ پھر ان کے بچوں کی تعلیم وغیرہ۔ ایک ہمارے میک اپ آرٹسٹ تھے میں ایک دفعہ ان کے گھر گیا تو ان کی دو بچیاں سامنے بیٹھی تھیں۔ مجھے بتایا گیا کہ انہوں نے پنجاب میں میٹرک میں بچیوں میں ٹاپ کیا ہے!

سہیل احمد کے بھائی ایک کالج میں سپریٹنڈنٹ تھے۔ میں ان دونوں بچیوں کو ان کے پاس لے گیا کہ یہ میری بیٹیاں ہیں میٹرک کر لیا ہے اب کالج میں پڑھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک روپیہ بھی ان کی فیس نہیں ہو گی! کیوں کہ یہ تو بڑی ذہین بچیاں ہیں! اب ڈھائی سال بعد میں اسی کالج میں کسی تقریب میں مہمان خصوصی بلوایا گیا۔ پروگرام ’مذاق رات‘ میں میرا ایک پولیس والے کا کردار ہوتا ہے۔ وہاں اسٹیج ڈرامے میں دو بچیوں نے ہو بہو میری نقل اتاری۔

میں اتنا حیران ہوا کہ ٹون، ٹیمپو، باڈی مینر ازم، زبان غرض 100 فی صد میری ہی اداکاری کی! میں اسٹیج پر بچیوں سے ملنے گیا تو کہنے لگیں کہ انکل آپ نے ہمیں پہچانا؟ میں نے کہا کہ نہیں بیٹے! تو ہنس کر کہنے لگیں کہ آپ نے تو اس کالج میں ہمارا داخلہ کرایا تھا! مجھے بتایا گیا کہ یہ اس کالج کی ذہین ترین بچیاں ہیں۔ ان میں سے ایک اس وقت ایک بہت بڑے بینک میں منیجر ہے۔ وہ میک اپ آرٹسٹ خود تو انتقال کر گئے لیکن وہ بچیاں جب میرے سامنے آتی ہیں مجھے بہت فخر ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے پورے خاندان کو سنبھالا ہوا ہے! “ ۔

” کبھی تمہارے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میں ہدایت کاری کے شعبہ میں جاؤں؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” میں نے دو ڈرامے ڈائریکٹ کیے ۔ ایک ’روٹی کھول دو‘ اور دوسرا ڈائریکٹ کرنے کے ساتھ اسے لکھا بھی تھا۔ مجھے سہیل احمد صاحب نے کہا کہ یار دیکھو یہ ایک بہت اچھا شعبہ ہے لیکن اس میں تمہارا بہت وقت ضائع ہو گا۔ تمہاری زندگی کا مقصد کچھ اور ہے لہٰذا ادھر اپنا وقت اور توانائی ضائع نہ کرنا۔ جس کام میں لگے ہو وہیں لگے رہو۔ بہت زیادہ سوچنا پڑے گا۔ اگر تم ٹینس ہو گئے تو جن کی ٹینشنیں تم نے لینی ہیں وہ کیا کریں گے؟ مجھے اس شعبے میں قسمت آزمائی کرنے سے منع کر دیا۔ اور میں پھر کبھی اس میدان میں گیا بھی نہیں“ ۔

” کیا تم اپنے کام سے مطمئن ہو؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” سب سے پہلی بات یہ کہ مجھے کسی بھی قسم کی اداکاری کرنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ حالات یہاں لے آئے۔ میں نے فلم، ٹی وی، تھیٹر، ریڈیو پر ایف ایم 95 پنجاب میں کام کیا۔ ریڈیو کا سرور کچھ علیحدہ سے ہے۔ جناب ایک بات تو یہ ہے کہ مجھے آج تک کبھی لکھا ہوا اسکرپٹ نہیں ملا! اس لئے میں مطمئن نہیں ہو سکتا کہ میں نے کیسا کام کیا ہے۔ پروگرام ’مذاق رات‘ پچھلے 9 سال سے چل رہا ہے۔ یہ 38 منٹ کا پروگرام ہے جو ہم ایک گھنٹہ دس منٹ میں کرتے ہیں۔ تو جو کچھ آ رہا ہوتا ہے اور ہم کہہ رہے ہوتے ہیں وہ تو ہم نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔ اول تا آخر سارا پروگرام فی البدیہہ ہوتا ہے! تو میں مطمئن کیسے ہو جاؤں؟ ہاں میں اللہ کی ذات پر مطمئن ہوں جو اس وقت مجھ سے کروا رہی ہوتی ہے۔ وہ کیا نظام ہے؟ یہ میری سمجھ سے باہر ہے! “ ۔

” اگر کوئی پوچھے کہ افتخار ٹھاکر نے خود کتنے نئے افتخار ٹھاکر تیار کیے تو تم کیا کہو گے؟“ ۔ میں نے سوال کیا۔

” میں کہیں بھی کسی آؤٹ اسٹیشن پر جاؤں تو مجھے لگتا ہے وہاں دس فی صد لوگ مجھے 100 فی صد کاپی کر رہے ہوتے ہیں۔ اور جتنے بھی لوگ مجھ سے ملتے ہیں وہ اکثر پاس بیٹھے باتیں سنتے سنتے آخر میں مجھے کہتے ہیں آپ نے جتنے ڈرامے کیے ہیں ان میں سے جس کا مرضی نام پوچھ لیں! اسی طرح اب تک جتنے بھی کردار ادا کیے ان کے بارے میں پوچھ لیں۔ وہ پورا کیریکٹر مجھے زبانی یاد ہے اور میں کر کے دکھا سکتا ہوں! میں پوچھتا ہوں کہ اتنے غور سے کیوں دیکھتے ہو؟ جواب دیا آپ کی نقل کر کے اداکاری سیکھ رہا ہوں۔ ویسے میں خود تو کوئی شاگرد بنا نہیں سکتا وہ مجھے کہاں ڈھونڈے اور میں اسے کہاں تلاش کروں گا؟ میرا کچھ ٹھیک نہیں کہ ابھی پاکستان میں ہوں صبح یو کے پرسوں امریکہ اگلے دن واپس آ چکا ہوں! خود میرے گھر والے مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کل کہاں ہوں گے؟“ ۔

” کیا تمہارے بچے بھی ایسے ہی پلے بڑھے کہ صبح اسکول گئے باپ سو رہا ہے یا ہے ہی نہیں رات کو سو گئے لیکن باپ ابھی گھر نہیں آیا! ۔ گھر پر توازن کیسے رکھا؟“

” ہاں ایسا ہی ہے! ایک مرتبہ جب میٹرک کا نتیجہ آیا تو مجھے پتا چلا کہ میرے اس بچے نے میٹرک کر لیا ہے۔ میری بیگم میری پھوپھو کی بیٹی ہیں۔ شادی کے فوراً بعد ان کے ساتھ میرا معاہدہ ہو گیا تھا کہ چار دیواری میں جو بھی مسائل ہیں ان سے میرا کوئی تعلق نہیں اور گھر کی چار دیواری کے باہر کے مسائل کا آپ سے کوئی تعلق نہیں۔ میں بالکل صدق دل سے کہہ رہا ہوں کہ ہو سکتا ہے شاید اس معاہدے میں مجھ سے کوئی خطا ہو گئی ہو لیکن میری بیوی سے کبھی کوئی کوتاہی نہیں ہوئی۔

اس نے اپنی ذمہ داری 200 فی صد پورے خلوص سے نبھائی۔ بچوں کو اس نے پڑھایا۔ بچوں کی ساری تربیت اس کی ہے۔ اب ایسا بھی ہر گز نہیں کہ میں نے بچوں کو وقت نہیں دیا۔ میں نے انہیں پورا وقت دیا کیوں کہ میں فالتو کبھی کہیں بیٹھا ہی نہیں۔ اپنا کام مکمل کیا اور بچوں کے پاس چلا گیا۔ بچے مجھ سے بہت مانوس ہیں۔ ماشاء اللہ میرے چار بچے ہیں۔ دو بچے 18 سال سے اوپر ہیں۔ اللہ کے بعد میں کسی کا مشکور ہوں تو اپنی پھوپھو کا!

کیوں کہ انہوں نے میری بیوی کی تربیت اچھی کی تھی تو آج میرا گھر محفوظ ہے! اسی لئے مجھے کبھی ٹینشن نہیں ہوئی۔ سہیل احمد جو مجھ سے آٹھ سال چھوٹے ہیں ان کا صرف منہ بڑا ہے، محمد قوی خان صاحب، عرفان کھوسٹ صاحب، خالد عباس ڈار صاحب اکثر کہتے ہیں کہ تمہاری صحت مندی کا راز صرف اور صرف تمہاری اچھی بیوی ہے کہ ادھر سے تمہیں کوئی پریشانی نہیں ہے“ ۔

” کبھی گھر والوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہوا؟“ ۔

” میرے گھر والے میاں چنوں اور میں اسلام آباد میں رہتا تھا۔ ان کو تو پتا ہی نہیں تھا کہ میں کیا کام کرتا ہوں! بس یہ ہی پتا تھا کہ یہ نوکری کرتا ہے اور ہمیں تین چار ہزار روپے خرچا بھیجتا ہے۔ ایک کردار ڈرامہ ’گیسٹ ہاؤس‘ میں آیا جو مستنصر حسین تارڑ نے لکھا۔ وہ تھا ’ٹونٹی پہلوان‘ جسے پروڈیوسر اقبال انصاری صاحب ڈائریکٹ کر رہے تھے۔ ان کے پاس آصف سیماب صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ جب اس کردار کی بات ہوئی تو انہوں نے اقبال انصاری صاحب سے کہا کہ افتخار ٹھاکر نام کا ایک تھیٹر اداکار ہے کیا آپ اسے جانتے ہیں؟

اقبال انصاری صاحب نے کہا نہیں جانتا۔ تب آصف صاحب نے کہا کہ اس کا تو منہ ہی ٹونٹی جیسا ہے۔ مجھے بلوایا گیا۔ جب میں ان کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ مجھے دیکھ کر ہی ہنس پڑے! اور کہا کہ یار صحیح کردار مل گیا! اس دور میں ڈرامہ گیسٹ ہاؤس بہت مشہور تھا۔ اسے شاکر عزیر صاحب پیش کرتے تھے۔ میرے گھر والوں کو میری اداکاری کے بارے میں تب پتا چلا جب یہ ڈرامہ نشر ہوا! میرے والد صاحب کو کسی نے گزرتے ہوئے پوچھا کہ کیا آپ ٹونٹی پہلوان کے ابا ہیں؟

( قہقہے ) پہلے تو وہ حیران ہوئے لیکن جب تین چار افراد نے یہ ہی سوال پوچھا تو انہوں نے اپنے دوستوں سے پوچھا کہ معلوم تو کرو کہ ٹونٹی پہلوان کے ابا کے بارے میں مجھ سے کیوں پوچھا جاتا ہے؟ میرا بھائی آفتاب احمد جو آرمی میڈیکل کور میں ہے، اس کو پتا تھا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے بتایا کہ افتخار نے ایک ڈرامہ گیسٹ ہاؤس کیا ہے جس میں اس نے ٹونٹی پہلوان کا کردار ادا کیا ہے اسی لئے لوگ آپ سے کہتے ہیں۔ پھر میں جب گھر گیا تو والد صاحب غصہ کرنے کے بجائے حیران تھے کہ میں ٹی وی میں گیا کیسے؟

پھر اس کے بعد تو میں مشہور ہوتا گیا تو جو رشتہ دار مجھے نہیں بھی جانتے تھے وہ بھی جاننے لگ گئے! میرے خاندان والے تو بڑے کاروباری قسم کے لوگ ہیں اب ان کو پتا چلا کہ یہ ہمارا رشتہ دار ہے۔ لیکن جناب! مجھے بڑا پیار کرتے ہیں۔ میری فیملی کے لوگ میرا بڑا احترام کرتے ہیں۔ میں جہاں بھی جاتا ہوں وہاں سب کو خوشیاں چڑھ جاتی ہیں۔ پھر وہ بچے جو اسکولوں کالجوں میں پڑھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ انکل کبھی ہمارے کالج آئیں نا تا کہ میرے ساتھیوں کو پتا چلے کہ آپ ہمارے ماموں ہیں! ان بچوں کے ساتھ جا کر مجھے بھی بڑی خوشی ہوتی ہے۔ پھر ان کے تعلیمی اداروں کی تقریبات میں بھی جاتا ہوں“ ۔

مکان بنانا ایک مشکل کام:

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا: ”ایک اچھا خاصا انسان جب اپنا مکان بنانے لگ جائے تو اس کی شکل ٹھیک ڈیڑھ ماہ کے بعد بیلچے جیسی ہو جاتی ہے! اس کو اپنے بچے اینٹوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ وہ جب چمچ سے کھیر کھا رہا ہو تو اسے لگتا ہے میں کھرپے سے کھا رہا ہوں! جناب یہ مکان بنانا بڑا ہی مشکل کام ہے لیکن مجھے جو بزرگوں نے آج تک بتایا ہے کہ بچے کی شادی اور گھر بنانے میں اللہ کی مدد شامل ہوتی ہے۔ میں ابھی اس مرحلے سے گزرا ہوں۔

اس سے مجھے یہ بھی علم ہوا کہ آپ جب گھر بناتے ہیں تو جو مستری مزدور کام کر رہے ہوتے ہیں اگر تین مہینے انہوں نے کام کیا تو اس دوران ان کا آدھا خاندان تو مر جاتا ہے! ان کا 70 فی صد خاندان اسپتالوں میں داخل ہو جاتا ہے کیوں کہ ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی بہانہ نہیں ہوتا کہ میرا فلاں بیمار ہے میں نہیں آ سکتا۔ فلاں مر گیا ہے میں چھٹی کروں گا! تو چار مکانوں میں ان کا سارا خاندان ختم ہو جاتا ہے! اب یہ آپ کے دوست۔

ان کا قد ماشاء اللہ اتنا لمبا ہے کہ ان کے کاندھے سے بچہ گرے تو مر ہی جائے! جب کھڑے ہوتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے مکان کا کوئی نیا پلر بنا ہے۔ مکان کی تعمیر کے دوران گھر کے اندر چائے والا ٹی بیگ سیمنٹ کا گٹو نظر آنے لگے گا۔ جب تک مستری مزدور کام مکمل کر کے گھر سے نہیں نکلیں گے آپ سمجھیں کہ آپ کے گھر پر سایہ ہو گیا ہے! انہیں دھوئیں کی دھونی دے کر نکالنا پڑتا ہے“ ۔

” پہلا غیر ملکی دورہ کیسا لگا؟“ ۔

” بڑا اچھا دورہ تھا! پہلے یو ایس اے گیا۔ سہیل احمد صاحب، عارفہ صدیقی صاحبہ، محمد قوی خان صاحب، نواز انجم اور انور علی صاحب میرے ساتھ تھے۔ مجھے بہت مزہ آیا۔ میں جے ایف کے ائر پورٹ پر اتر کر باہر نکلا تو اپنے ہوٹل پہنچنے تک میں 40 سال بڑا ہو چکا تھا۔ وہ دنیا ہی اور تھی! میں تین سال وہاں رہا اور اس طرح کی گاڑیاں میں نے وہاں چلائی ہیں وہ شاید اب دس سال بعد یہاں آئیں گی! وہ پتا نہیں کون لوگ ہیں! صرف اور صرف ہمیں مات دینے کے لئے ساری ٹیکنالوجی بنا رہے ہیں۔

” کس ملک میں سب سے زیادہ مزہ آیا؟“ ۔

” اسپین میں مجھے بہت مزہ آیا۔ بارسلونا میرا پسندیدہ شہر ہے۔ وہاں فٹ پاتھ پر تماشے لگے ہوتے ہیں! ہر بندہ ہنستا پھر رہا ہے۔ ناچ رہے ہیں! انہیں کوئی پروا نہیں! نہ گھر کی کوئی فکر نہ بجلی اور گیس کی بندش کا کوئی غم نہ بجلی اور گیس میٹر کٹنے کا افسوس! نہ یہ کہ بچوں کی فیس کیسے دیں گے؟ ان کے ایسے مسائل ہیں ہی نہیں! وہ صرف کھا کما کر مزے اڑاتے ہیں“ ۔

سب سے زیادہ پر سکون جگہ:

” ساری دنیا میں گھوما ہوں لیکن پوری ہی دنیا میں بے سکونی ہے سوائے مدینہ منورہ کے۔ وہاں کوئی بے سکون نہیں ہے۔ وہاں نہ لوگ تیز بولتے ہیں نہ تیز چلتے ہیں نہ وہ تیز گفتگو کرتے ہیں۔ وہ آرام آرام سے دبے پاؤں چلتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں۔ ان کے گھروں کے اندر رزق کی فراوانی ہے۔ بیماریاں بہت کم ہیں اسپتال ویران پڑے ہیں۔ لوگ سکون سے رہتے ہیں۔ حالاں کہ مکہ مکرمہ اللہ کا گھر ہے مجھے پتا نہیں کیوں وہاں سے ڈر لگتا ہے!

ایسے لگتا ہے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں اللہ صرف مجھے ہی دیکھ رہا ہے! اس سے خوف اور ہیبت پیدا ہوتی ہے۔ آپ حدود حرم مدینہ منورہ میں داخل ہو جائیں آپ کو ایسا لگے گا جیسے آپ اپنی اماں کی گود میں سوئے ہوئے ہیں۔ کوئی مشکل کوئی پریشانی نہیں! یعنی وہاں بچے بھی یاد نہیں آتے! آپ وہاں دس دن رہیں بیس دن رہیں اور مدینہ منورہ سے اپنے گھر میں فون کریں تو وہاں سے کہا جائے گا کہ ابھی تو ماشاء اللہ گھر کے خرچ کو بہت پیسے ہیں!

بچے بالکل ٹھیک ہیں۔ سب کچھ بہترین! آپ کو کبھی گھر کی طرف سے کوئی پریشانی کی خبر نہیں آئے گی۔ آپ لاہور ائر پورٹ پر اتر کر گھر فون کرتے ہیں تو سننے کو ملتا ہے کہ ابھی ابھی بجلی والے میٹر اتار کے لے گئے ہیں۔ یا بچہ سیڑھیوں سے گر پڑا! مجھے لگتا ہے کہ آپ وہاں ہیں تو جنت میں ہیں وہاں سے نکلے تو آپ دنیا میں ہیں! دنیا تو پریشانیوں کا گڑھ ہے! “ ۔

” پاکستان کی فلمی صنعت میں اتار چڑھاؤ آیا۔ کیا تمہیں بہتری نظر آتی ہے؟“ ۔

” حالات بہتر ہو جائیں گے! اب کچھ امید ہو گئی ہے۔ لیکن اس کے لئے حکومت کا مستحکم ہونا ضروری ہے! ہمارے ہاں تو کئی سالوں سے ایسا نہیں ہے! یہاں آزاد خارجہ پالیسی والی ایک حکومت بن جائے، ایک مضبوط نظام یہاں پر آ جائے۔ لوگ تو وہ ہی رہیں البتہ نظام بدل جائے۔ خاص طور پر پاکستان میں عدالتی نظام کو مضبوط ہونا چاہیے۔ اگر یہ انصاف دینے لگ جائیں۔ انگلینڈ دوسری جنگ عظیم میں تباہ ہو گیا۔ چرچل کے پاس ایک جنرل آیا اور کہا انگلینڈ برباد ہو گیا۔ چرچل نے اس سے پوچھا عدالتیں انصاف دے رہی ہیں؟ جواب دیا ہاں! تو چرچل نے کہا کہ ہم بڑی جلدی مسائل پر قابو پا لیں گے! جو واقعی ہو گیا۔ کسی ملک کے مضبوط ہونے میں عدالتوں کا مضبوط ہونا شرط ہے۔ جب تک غریب کو انصاف نہیں ملے گا تب تک معاشی، ذہنی اور اخلاقی طور پر بھی ہم کمزور رہیں گے“ ۔

” 50 سے 90 کی دہائی تک دیکھا گیا کہ فلم بنانے میں فلمساز، تقسیم کار اور سنیما اونر مل کر پیسہ لگاتے تھے۔ اب تو 100 فی صد پیسے فلمساز ہی لگاتا ہے۔ سنیما والے اس کو قسطوں میں پیسے ادا کرتے ہیں۔ تو اب یہ معاملات کس طرح سے ٹھیک ہوں گے؟“ ۔

” یہ کوئی ناقابل حل مسئلہ نہیں ہے۔ پروڈیوسر ایسوسی ایشن اور سنیما اونر ایسوسی ایشن والے جب ایک ساتھ بیٹھیں اور ایک دوسرے کا احترام کریں اور حکومت کی فلم پالیسی بھی بن کر نافذ ہو جائے تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ کوئی قانون بن جائے تو سارے ہی ایک دوسرے کے لئے کام کرنے لگ جائیں گے“ ۔

” فلمساز اور ہدایتکار نوید رضا صاحب نے مجھے بتایا کہ پہلے ایک مرکزی فلم سنسر بورڈ ہوتا تھا اب تو کئی ایک ہیں۔ کیا فلمساز اب سب جگہ اپنی فلمیں سنسر کراتا ہے اور ہر ایک مرتبہ سنسر فیس بھی دیتا ہے۔ یہ کیا قصہ ہے؟“ ۔

” یہ بہت بری بات ہے کہ آپ ہر صوبے کے لئے الگ سنسر سرٹیفیکیٹ لیں۔ یہ اٹھارہویں ترمیم کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ کہ ہر صوبہ اپنا الگ قانون بنائے گا۔ ہر ایک سرٹیفیکیٹ لینے کی فیس 30 ہزار ادا کرتے رہیں! “ ۔

نگار ایوارڈ:

نگار ویکلی کے پڑھنے والوں کے لئے افتخار ٹھاکر نے پیغام دیا: ”نگار ایوارڈ جس دور میں ہوتے تھے اس وقت لوگ بڑی محنت سے اس لئے بھی کام کرتے تھے کہ جب ان کے ڈرائینگ روم میں کوئی مہمان آتا تو سامنے نگار ایوارڈ پڑا ہوتا تھا جس سے میزبان کی عزت میں اضافہ ہوتا تھا۔ لوگ اس لئے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا کر با مقصد کام کرتے تھے۔ اب نگار ایوارڈ نہیں ہو رہا تو اس طرح کام بھی تو نہیں ہو رہا! اللہ اسلم الیاس رشیدی صاحب کی حفاظت کرے!

نگار ایوارڈ صحیح معنوں میں ایک حقیقی ایوارڈ تھا۔ یہ ایک فلمی بندے کے لئے بہت بڑی عزت ہوتی تھی کہ اس کی بیٹھک میں جو سب سے باعزت چیز پڑی ہے وہ اس کا نگار ایوارڈ ہے! میں ہفت روزہ نگار اور نگار ایوارڈ کے منتظمین سے درخواست کروں گا کہ اس کا دوبارہ اجرا ہونا چاہیے۔ اور کئی ماہ پہلے مشتہر کرنا چاہیے کہ اس سال اس کا اجرا ہونے جا رہا ہے۔ تمام فلمساز اپنی خوبصورت فلمیں لائیں۔ پھر ہمیشہ کی طرح سے اپنے اپنے شعبوں میں بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے پر ایوارڈ دیے جائیں گے۔ میں اسلم الیاس رشیدی صاحب سے کہوں گا کہ وہ اس کا اجرا کریں۔ اس میں جہاں ہماری ضرورت پڑے گی ہم آپ کے ساتھ ہوں گے“ ۔

فلم ’چل میرے پت 2‘ کی مقدمہ بازی:
” فلم ’چل میرے پت 2‘ کی پاکستان میں نمائش کے سلسلے میں جو امیدیں تھیں کیا وہ پوری ہوئیں؟“ ۔

” الحمدللہ وہ سب پوری ہوئیں! ’چل میرے پت 1‘ مجھے ریلیز نہیں کرنے دی گئی میرے لئے بڑی مشکلات پیدا کر دی گئیں۔ پھر فلم ’چل میرے پت 2‘ کے لئے میں نے دو سال مقدمہ لڑا۔ پھر جب وہ ریلیز ہوئی تو پچھلے 75 سال میں بڑی بڑی فلمیں ریلیز ہوئیں جس میں ’مولا جٹ‘ جیسی فلم آئی جس نے ایک تاریخ رقم کی۔ میری فلم نے بھی تاریخ رقم کی! اس دور میں 27 ہفتے سنیما میں چلی اور انہوں نے بڑا پیسہ کمایا لیکن ’لیجنڈ آف مولا جٹ‘ نے آ کر سب کا پتہ صاف کر دیا! “ ۔

دنیا کی تین فلمی صنعتیں :

” اس وقت دنیا میں تین فلمی صنعتیں کام کر رہی ہیں : نمبر ایک پر تو ٹیکنالوجی کے حساب سے ہالی ووڈ ہی رہے گا۔ دوسرے نمبر پر جنوب کی تامل فلم انڈسٹری۔ اب تیسرے نمبر پر پنجاب کی فلم انڈسٹری ہے۔ 13 کروڑ 80 لاکھ ہمارے پنجاب میں اور 3 کروڑ 30 لاکھ بھارتی پنجاب میں رہتے ہیں۔ پھر پوری دنیا میں 18 کروڑ پنجابی بولنے والے ہیں۔ ایک پنجابی فلم کو کامیاب کرنے کے لئے 3 کروڑ بندہ چاہیے۔ ہمارے پاس 18 کروڑ ہیں۔ ’لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کیوں ایسی فلم تھی کہ 6 کروڑ لوگوں نے دیکھی اور اب بھی دیکھنا چاہ رہے ہیں۔

کیوں کہ یہ اس رجحان پر بنائی گئی ہے جو ٹیکنالوجی ہالی ووڈ استعمال کرتا ہے۔ جو ٹیکنالوجی جنوبی ہندوستان کی تامل فلمیں استعمال کرتی ہیں وہی اس مولاجٹ میں استعمال کر کے بین الاقوامی فلم بنائی گئی۔ کتنے بڑے سیٹ لگے ہوئے ہیں بلکہ وہ سیٹ ہی نہیں۔ گویا پاکستان میں وہ تمام چیزیں دیگر ممالک سے کہیں بہتر موجود ہیں۔ ایری الیگزا ریڈ ایپیکس کی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔ ساؤنڈ بھی عالمی معیار کی استعمال کی گئی۔ ہر ایک چیز بین الاقوامی معیار کی استعمال ہوئی۔ لہٰذا جو بھی معیاری کام کرے گا وہ کامیاب ہو گا! میں فلم ’سپر پنجابی‘ بنا رہا ہوں۔ تا کہ مجھے پتا چلے کہ یہاں فلم بنانے میں کیا رکاوٹیں آتی ہیں! اس کے بعد انشاء اللہ مارچ اپریل میں بین الاقوامی معیار کی فلم بناؤں گا“ ۔

باتیں تو ابھی اور بھی ہوتیں لیکن افتخار ٹھاکر کو کہیں جانا تھا اور یوں یہ ملاقات اختتام کو پہنچی۔ چلتے چلتے افتخار ٹھاکر کہنے لگا: ”آپ سے ملنے کا جتنا شوق تھا وہ دو سال میں پورا ہوا“ ۔ (قہقہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).