شفیق الرحمان صاحب۔ اوگی کا ایک مثالی معلم


بغرض اچانک معائنہ پہلی بار جیسے ہی میں نے سکول کے اندر پہلا قدم رکھا، سکول کے نظم و ضبط کو دیکھ کر مجھے یہ جاننے میں ذرا دیر نہیں لگی کہ یہ کوئی عام تعلیمی ادارہ نہیں ہے۔ گیٹ کے بالکل سامنے برآمدے میں ایک سفید ریش اور عمر رسیدہ مدرس محو تدریس تھے۔ مجھے دیکھتے ہی وہ کلاس چھوڑ کر آئے اور بڑی گرم جوشی اور خندہ پیشانی سے مجھے خوش آمدید کہا۔ میں ان کے ساتھ دفتر چلا گیا۔ دفتر میں تمام متعلقہ معلومات آویزاں تھیں اس لیے مجھے کوئی بات پوچھنے کی نوبت نہیں آئی۔

دفتر میں سجائی ہوئی ٹرافیوں کی چمک سے یہ بات عیاں ہو رہی تھی کہ یہ ادارہ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی اوج کمال رکھتا ہے۔ سٹاف کی حاضری چیک کرنے کے بعد میں نے بزرگ ٹیچر جو کہ اول مدرس تھے، سے ایک کلاس چیک کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ موصوف کے ساتھ جیسے ہی میں باہر نکلا، سب سے پہلے برآمدے میں بیٹھی وہی کلاس تھی جس کو اول مدرس پڑھا رہے تھے۔ لہٰذا میں نے اسی کلاس کو چیک کرنے کا ارادہ کر لیا۔ یہ اول اعلیٰ تھی۔

میں نے ہر مضمون سے بچوں سے زبانی اور بورڈ پر سوالات پوچھے اور یہ جان کر انگشت بدنداں رہ گیا کہ ایک بچہ بھی ایسا نہیں تھا جسے کمزور قرار دیا جائے۔ کاپیاں مکمل اور چیک شدہ تھیں۔ میں اپنی زندگی میں اتنے قلیل وقت میں کسی مدرس سے متاثر نہیں ہوا۔ میں نے بزرگ معلم سے احترام سے پوچھا۔ سر! آخر آپ کے پاس ایسی کون سی جادو کی چھڑی ہے کہ ہر بچہ بے مثال ہے۔ وہ دو انگلیوں کا اشارہ کرتے ہوئے دھیمے لہجے میں بولے۔

”میں نے اپنی تمام تدریسی زندگی میں دو اصولوں پر سختی سے عمل کیا ہے ایک وقت کی پابندی اور دوسرا نیت میں اخلاص۔ انھی دو اصولوں پر کاربند رہنے سے میں کبھی ناکام نہیں ہوا۔“ میں نے چند لمحے اپنے لاشعور میں اپنے گردوپیش کے کامیاب اساتذہ میں یہی دو اصول تلاش کیے تو یہ واقعی ان کے گلے کا ہار اور ان کی شخصیت کا خاصہ تھے۔ میٹرک پاس یہ عظیم مدرس شفیق الرحمان صاحب اول مدرس گورنمنٹ پرائمری سکول شدوڑ پائیں (اوگی ) تھے جو آج اس دنیا میں موجود نہیں۔ خالق ارض و سما ان پر اپنی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔

ہر سال سالانہ ٹورنمنٹ کی تقریب تقسیم انعامات میں کسی سیاسی شخصیت یا محکمہ کے کسی افسر کو بحیثیت مہمان خصوصی مدعو کیا جاتا ہے لیکن راقم نے سابقہ روایات کو پس پشت ڈال کر اس عظیم مدرس کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے اور یوں تاریخ میں پہلی بار ایک پرائمری ٹیچر کو کسی بڑی تقریب کے مہمان خصوصی ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ راقم الحروف نے موصوف کو ۔ ”بیسٹ ٹیچر ایوارڈ“ سے بھی نوازا جس کے وہ برسوں پہلے حق دار تھے۔

اس کے بعد راقم السطور کو اسی مادر علمی کا بار ہا معائنے کا شرف حاصل ہوا اور ہر کلاس کو چیک کرنے کا موقع ملا۔ ہر کلاس قابل تعریف تھی۔ یہ شفیق الرحمان صاحب کی تربیت کا ہی فیضان تھا کہ ہر مدرس وقت کی پابندی اور اخلاص نیت کا عملی نمونہ تھا۔ راقم نے مارچ 2013 کے سالانہ معائنہ میں بہترین کارکردگی کے اعتراف میں تمام معلمین کو تعریفی سرٹیفیکیٹ جاری کیے۔ ان اساتذہ میں محمد سلیم، محمد سجاد، محمد زبیر اور عمر حیات شامل ہیں۔

جب کردار میں صداقت ہو، قول اور فعل میں یکسانیت ہو، تدریس میں عبادت جیسا جذبہ ہو اور نیت میں اخلاص ہو تو گورنمنٹ شدوڑ پائیں جیسی عظیم درس گاہیں وجود میں آتی ہیں۔ ایسے ہی مدرسین کے بارے میں کسی شاعر نے لفظوں کی کیا خوب مالا پروئی ہے۔

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments