’زرداری صاحب نے بلایا تو انکار نہیں کر سکا اور سیاست میں آ گیا‘: پیپلز پارٹی کے پہلے میئر کراچی کون ہیں؟

ریاض سہیل - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


سنہ 2005 میں صوبائی دارالحکومت کراچی میں جس منصب کے لیے فوزیہ وہاب امیدوار تھیں لگ بھگ 18 سال کے بعد اُسی منصب پر ان کے بیٹے مرتضی وہاب کو کامیاب قرار دیا گیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ فوزیہ وہاب جماعت اسلامی کے امیدوار نعمت اللہ خان کے حق میں دستبردار ہو گئیں تھیں جبکہ ان کے بیٹے اسی جماعت کے امیدوار انجینیئر نعیم الرحمان کو شکست دے کر کراچی کے میئر بنے ہیں۔

میئر کراچی کے الیکشن کے لیے ریٹرنگ افسر ظفر عباس نے اب سے کچھ دیر قبل اس منصب کے لیے ہونے والے الیکشن میں حصہ لینے والی تمام جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مرتضی وہاب نے 173 جبکہ حافظ نعیم الرحمن نے 160ووٹ حاصل کیے ہیں جبکہ اس موقع پر تحریک انصاف کے 31 ممبران نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا کیونکہ وہ غیرحاضر تھے۔

نمائندہ ریاض سہیل کے مطابق ریٹرنگ افسر کی جانب سے نتائج کے اعلان کے بعد الیکشن کمیشن ایک، دو روز میں ان کی کامیابی کا نوٹیفیکشن جاری کرے گا۔

جماعت اسلامی نے ان نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے اور نتائج کے اعلان کے بعد پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے کارکنوں میں جھڑپوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد کراچی میں مرتضیٰ وہاب پارٹی کے پہلے میئر منتخب ہوئے ہیں۔

یاد رہے کہ مرتضیٰ وہاب کے لیے قانون میں ایک اہم تبدیلی کی گئی۔ وہ یونین کونسل چیئرمین بنے بغیر ہی کراچی کے میئر بنے ہیں۔ اب وہ آئندہ چھ ماہ میں کسی یو سی سے چیئرمین کا انتخاب لڑیں گے۔

ان کا انتخاب ایک متنازع عمل رہا اور حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی پر مخالف جماعت اسلامی نے تحریک انصاف کے اراکین کو ہراساں کرنے اور اغوا کرنے جیسے الزامات عائد کیے گئے۔ مرتضیٰ وہاب اور پیپلز پارٹی الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

لیکن ایک وقت تھا جب پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی ایک ساتھ تھے۔

سنہ 2005 میں کراچی میں اس وقت کے بلدیاتی نظام کے تحت انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں نے مشترکہ امیدوار لانے کا فیصلہ کیا تھا۔

جماعت اسلامی کے امیدوار نعمت اللہ خان تھے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے فوزیہ وہاب کاغذات نامزدگی جمع کروا چکی تھیں۔ بعد میں دونوں جماعتوں میں مذاکرات ہوئے اور فوزیہ وہاب جماعت اسلامی کے امیدوار کے حق میں دستبردار ہو گئیں۔

اس وقت جماعت اسلامی سے مذاکرات میں شریک پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما تاج حیدر کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی میں ایک حلقہ جماعت اسلامی سے اتحاد کا حمایتی تھا۔ ’ہم دہشت گردی کا نشانہ بن رہے تھے سوچا کہ اس کے خلاف اتحاد کرتے ہیں۔‘

یاد رہے کہ ان انتخابات میں ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال کامیاب ہوئے تھے۔ اس سے قبل ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور جماعت اسلامی نے اکثریتی نشستیں حاصل کی تھیں جس کے نتیجے میں نعمت اللہ خان ناظم بنے تھے تاہم اگلی بار وہ شکست کھا گئے۔

حالیہ بلدیاتی انتخابات کے بعد گذشتہ سیاسی ہم آہنگی کے تحت پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی میں ابتدائی طور پر مشترکہ امیدوار لانے پر بات چیت ہوئی تاہم دونوں جماعتیں میئر کے امیدوار سے دستبردار نہیں ہوئیں اور مخالفت میں انتخاب لڑا۔

صحافتی اور سیاسی گھرانہ

مرتضیٰ وہاب کی والدہ فوزیہ وہاب اور ان کے والد وہاب صدیقی زمانہ طالب علمی سے ترقی پسند سیاست سے منسلک رہے۔

وہاب صدیقی نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریش سے وابستہ تھے جبکہ فوزیہ کراچی یونیورسٹی کی طلبہ یونین میں بھی رہیں۔

وہاب صدیقی پی ٹی وی پر اینکر پرسن اور بعد میں ایک انگریزی میگزین کے ایڈیٹر کے منصب پر فائز رہے۔

صحافتی تحریک کے دوران وہ جنرل ضیا الحق کے دور میں پابند سلاسل بھی ہوئے جبکہ فوزیہ وہاب نے سیاست سے دور نجی زندگی کے ساتھ ایک پرائیوٹ کمپنی میں ملازمت اختیار کی۔

ان کے شوہر وہاب صدیقی 1993 میں ہارٹ اٹیک کی وجہ سے انتقال کر گئے۔

سنہ 1994 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جب بینظیر بھٹو وزیر اعظم اور مراد علی شاہ کے والد عبداللہ شاہ وزیر اعلیٰ تھے، فوزیہ وہاب کو پارٹی کے شعبے خواتین کی انفارمیشن سیکریٹری مقرر کیا گیا۔ تب ایک طویل عرصے کے بعد ان کی سیاست میں واپسی ہوئی۔

سنہ 2002 میں وہ خواتین کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے 2007 میں جب ایمرجنسی کا نفاذ کیا تو فوزیہ وہاب کو بھی ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا۔

سنہ 2008 کے انتخابات میں بھی وہ مخصوص نشست پر قومی اسمبلی پہنچیں۔ انھیں پارٹی کی مرکزی سیکریٹری اطلاعات کی ذمہ داری دی گئی۔

فوزیہ صدیقی کو زندگی نے زیادہ مہلت نہیں دی اور سنہ 2012 میں گال بلیڈر کے آپریشن کے دوران ان کی وفات ہو گئی۔

’آصف زرداری صاحب کو انکار نہیں کیا‘

مرتضیٰ وہاب نے سنہ 2018 کے انتخابات سے قبل صرف سکول میں ڈپٹی پریفیکٹس اور کیپٹن آف ہاؤس کے انتخابات میں ہی حصہ لیا تھا۔ ان کی کسی طلبا تنظیم یا وکلا ایسوسی ایشن سے وابستگی نہیں رہی۔

دسمبر 1983 میں کراچی میں پیدا ہونے والے مرتضی وہاب نے ابتدائی تعلیم بی وی ایس پارسی سکول سے حاصل کی جس کے بعد گورنمنٹ کامرس کالیج سے انٹر اور بعد میں لا کالج سے ایل ایل بی کیا۔

سنہ 2007 میں گریجوئیشن کے بعد انھوں نے سٹی یونیورسٹی لندن سے وکالت کی تعلیم حاصل کی اور بیرسٹر بن جانے کے بعد اگلے ہی سال کراچی میں وکالت کے پیشے سے منسلک ہو گئے۔

مرتصیٰ وہاب کہتے ہیں کہ ’والدین سیاست میں سرگرم تھے اس سے معاشی طور پر بڑا نقصان ہوتا ہے، اس لیے ان کے تمام بہن بھائیوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنے اپنے اپنے شعبوں میں خود کو منوائیں گے۔‘

’ایک دن مجھے آصف علی زرداری نے بلایا۔ غالباً یہ اپریل 2015 کی بات ہے اور کہا کہ ہم آپ کو اپنا وزیر قانون بنانا چاہتے ہیں۔‘

’سچی بات ہے میں نے ایک منٹ بھی نہیں سوچا اور کہہ دیا کہ یہ میرے لیے باعث عزت ہو گا کہ پارٹی کے لیے کام کروں، اس طرح میں سیاست میں آ گیا۔ سیاسی گھرانے سے تعلق تھا، سیاست ہوتے ہوئے دیکھی تو اس کا شوق ضرور تھا، یہ نہیں سوچا تھا کہ سیاست میں اتنی جلدی سرگرم ہو جاؤں گا۔‘

اپوزیشن مرتضیٰ وہاب کو ’سن کوٹہ‘ قرار دیتی ہے۔ اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ ’والدہ نے پارٹی کے لیے کام کیا اور عزت کمائی‘ تو انھیں فخر ہے وہ فوزیہ وہاب کے بیٹے ہیں۔

’پارٹی بھی دیکھتی ہے کہ یہ خاندان اعتماد اور اعتبار سے ہمارے ساتھ رہا ہے، سیاست میں وفاداری اہم جزو ہوتی ہے۔‘

بار اور بینچ سے ٹکراؤ

مرتضیٰ وہاب کو اپنے ہی شعبے یعنی بار اور بینچ نے اس وقت کڑا وقت دیا جب نومبر 2016 کو سندھ ہائی کورٹ نے ان کی بطور مشیر وزیراعلیٰ سندھ تعیناتی کو غیر قانونی قرار دیا۔

ان کو کراچی لا کالجز کے بورڈ آف گورنرز کی چیئرمین شپ سے بھی ہٹا دیا گیا۔ بعد میں پارٹی نے انھیں سینیٹر منتخب کروایا۔

سنہ 2018 کے عام انتخابات میں انھوں نے کراچی میں ڈیفنس سے الیکشن لڑا لیکن انھیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ بقول ان کے اس سے اچھا تجربہ ہوا اور پہلی بار وہ الیکشن میں لوگوں سے رابطے میں آئے۔

سندھ میں 2018 میں تشکیل پانے والی کابینہ کا وہ حصہ بنے۔ اس عرصے میں وہ انسداد بدعنوانی، ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی، ساحلی ترقی اور اطلاعات کے علاوہ مشیر قانون اور حکومت سندھ کے ترجمان رہے۔

بلدیاتی اداروں کی مدت پوری ہونے کے بعد انھیں کراچی کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔ یہ وہ دن تھے جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد تھے جن کا تعلق کراچی سے تھا اور وہ مہینے میں ایک بار کراچی میں غیر قانونی تجاویزات سمیت دیگر مقدمات کی سماعت کرتے تھے۔

جسٹس گلزار احمد نے بطور ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب کی کئی بار سرزنش کی اور ایک بار ان کے ایک جواب پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے عہدے سے ہٹانے کے احکامات جاری کیے لیکن بعد میں غیر مشروط معافی پر انھیں بحال کر دیا گیا۔

کراچی میں میئر کے اختیارات کیا ہیں؟

کراچی میٹرو پولیٹن اسمبلی 367 اراکین پر مشتمل ہو گی، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کو 155، جماعت اسلامی کے 130، تحریک انصاف 63، مسلم لیگ ن 14، جے یو آئی 4، تحریک لبیک کے پاس ایک نشست ہے۔

لیکن کراچی کے سابق میئرز اختیارات نہ ہونے کا شکوہ کرتے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ میئر کے اختیارات کیا ہیں؟

ایم اے جناح روڈ اور شاہراہ فیصل سمیت شہر کی 106 سے زائد سڑکوں کی دیکھ بھال، تعمیر و مرمت کی ذمہ داری میئر کے پاس ہے۔ اسی طرح ان سڑکوں پر تعمیر پل، فلائی اوور اور انڈر پاس کی مرمت اور نئی تعمیرات کا ذمہ بھی میئر کا ہی ہے۔

صحت کے شعبے میں عباسی شہید یعنی تیسرے بڑے ہسپتال سمیت شہر میں دانتوں کے علاج و امراض قلب سمیت سات کے قریب ہسپتال کے ایم سی کے ماتحت ہیں۔

پاکستان کے سب سے بڑے چڑیا گھر یعنی کراچی زو سمیت سفاری پارک 100 سے زائد چھوٹے بڑے پارکس اور ساحل سمندر پر واقع ایک سو سے زائد ہٹس کے نگرانی بھی میئر کراچی کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔

کراچی میں بلدیہ کی حدود میں اگر کہیں کوئی آتشزدگی کا واقعہ پیش آجائے تو اس کے لیے فائر برگیڈ محکمہ موجود ہے۔ یہ محکمہ بھی میئر کے زیر نگرانی کام کرتا ہے۔

کے ایم سی کی حدود میں آپ بائیک کھڑی کریں یا کار،پارکنگ فیس کا تعین بھی میئر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ غیر قانونی تجاوزات کو ہٹانے کی ذمہ داری بھی اُن کے پاس ہے۔

آپ کے گھر کے سیوریج کے پانی کی نکاسی اور بارش کے پانی کی نکاسی، دونوں کی ذمہ داری میئر کے پاس ہے۔ یعنی برساتی نالوں کی دیکھ بھال و مرمت اُن کا ذمہ ہے۔

تو پھر میئر کے پاس کون سے اختیارات نہیں؟ اگر گھر کے باہر کچرا پڑا ہے تو یہ ذمہ داری سندھ سالڈ ویسٹ بورڈ کی ہے۔ اسی طرح اگر آپ کے گھر کے نلکے میں پانی نہیں آتا تو یہ محکمہ کراچی واٹر بورڈ بھی حکومت سندھ کے ماتحت ہے۔ حال میں قانون سازی کرکے اس کو میئر کے ماتحت لایا جا رہا ہے۔

ہاؤسنگ، پولیس اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں کا بھی میئر سے کوئی لینا دینا نہیں ہے یہ بھی حکومت سندھ کے ماتحت ہیں۔

کراچی میں چھ کنٹونمنٹ بورڈز ہیں۔ شہر کا سب سے مہنگا علاقہ ڈیفنس بھی ان کے ماتحت ہے۔ ان بورڈز کے انتظامی امور سے بھی میئر کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ہے۔ یہ اپنا شہری نظام خود چلاتے ہیں۔

سخت اپوزیشن کا سامنا

پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد کراچی میں مرتضیٰ وہاب پارٹی کے پہلے منتخب میئر ہیں۔ اس سے قبل جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے تین تین بار میئر اور ناظم رہے ہیں۔

اس وقت ان دونوں جماعتوں کے ساتھ تحریک انصاف بھی اپوزیشن میں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مرتضیٰ وہاب کو کئی سمت سے اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’انھیں شدید اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف ٹف ٹائم دیں گے، حالانکہ ایم کیو ایم کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے رہے ہیں لیکن وہ بھی اپوزیشن موڈ میں آئے گی۔‘

مظہر عباس کے مطابق مرتضیٰ وہاب کو سندھ حکومت اور پارٹی کی حمایت حاصل ہے، اس لیے فنانس کے لیے لڑنا نہیں پڑے گا۔

’تاہم شہر میں پانی سے لے کر سیوریج لائن سمیت کئی مسائل ہیں جو انھیں حل کرنے ہیں۔ ان کے پاس موقع موجود ہے۔ اس کے ساتھ کرپشن اور بدانتظامی بھی چیلنج ہیں۔‘

کالم نویس اور تجزیہ کار ڈاکٹر توصیف احمد کہتے ہیں کہ اگر وہ بہتری کے لیے کام کرتے ہیں تو اپوزیشن ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی۔ ’اس کی مثال شہر میں ریڈ بسیں ہیں جن میں لوگ سفر کر رہے ہیں اپوزیشن جماعتیں اس پر خاموش ہو گئیں۔‘

’بنیادی بات یہ ہے کہ کراچی کا انفرا سٹرکچر جدید شہروں کے مقابلے میں پسماندہ ہے، جدید ماس ٹرانزٹ، پینے کے پانی کی فراہمی، سیوریج لائن کی بحالی، کے ایم سی کے زیر انتظام ہسپتال اور سکولوں کی کارکردگی کی بہتری ان کے سامنے چیلنج ہیں۔‘

مرتضیٰ وہاب کہتے ہیں کہ ’اگر نادان دوست روڑے نہ اٹکائیں تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔‘ ان کی اولیت ترجیحات میں پانی، سیوریج، روڈ انفرا سٹرکچر، ٹرانسپورٹ، تفریحی مقامات اور پارکس شامل ہیں۔

’کے ایم سی آج بھی برج بنا سکتی ہے، سڑکیں بنا سکتی ہیں لیکن اس کا جو اپنا ٹیکس نیٹ ورک ہے، اس پر کام نہیں کیا گیا۔ نعمت اللہ خان نے سڑکوں کو کمشرلائز کیا، مصطفی کمال کو مشرف نے پیسے دے دیے، کبھی اس ادارے کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔‘

اُن کے مطابق میونسپل ٹیکس جو اُس وقت پورے کراچی سے صرف 16 کروڑ روپے وصول ہوتا ہے، اس کی چوری ہوتی ہے۔ ’اس ٹیکس سے چار سے پانچ ارب رپے مل سالانہ مل سکتے ہیں، اس میں فی گھر سے پچاس روپے لیتے ہیں لیکن اس معاملے پر منفی سیاست کی گئی۔‘

مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ انھیں صوبائی حکومت کی مدد کی ضرورت ہوگی لیکن اس کے لیے سب سے اہم صوبائی مالیاتی ایوارڈ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32769 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments