کیا پرچم کے سبز رنگ کی مذہبی بنیاد ہے؟ (1)


شکور بھائی نے ایک مضمون ”ہمارے پرچم کی سفیدی“ کے عنوان سے تحریر کیا جس میں انہوں نے کراچی مرحوم کی بعض نامور غیر مسلم شخصیات کا تعارف کرایا تھا۔ پرچم کی سفیدی سے مراد غیر مسلم اقلیتیں یعنی اس کی سبزی مسلم اکثریت کی علامت ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ والے بھی وقتاً فوقتاً بیان دیتے رہے ہیں کہ انہیں اپنے پرچم کی سفیدی پر فخر ہے اور یہ کہ وہ پاکستانی ہندوؤں کی کاوشوں کی قدر کرتے ہیں۔ اب یہ غلط فہمی اتنی عام ہو چکی ہے کہ برصغیر ہی نہیں بلکہ دنیا جہان میں اچھے خاصے پڑھے گڑھے لوگ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ سبز اسلامی رنگ ہے، سبز پرچم مسلمانوں کا پرچم ہے، اور چاند تارا مسلمانوں کی یا اسلامی علامت ہے۔ شکور بھائی کا مضمون دیکھ کر خیال گزرا کہ آخر اس کا جائزہ لینا چاہیے کہ کس طرح سبز رنگ اور نشان ہلال دھیرے دھیرے اسلامیاتے گئے۔

ریاستیں اپنی تاریخ و ثقافت اور قومی مزاج کی مناسبت سے قومی علامتوں کا انتخاب کرتی ہیں لیکن علامت سازی کے کوئی آفاقی قواعد نہیں ہیں کہ جن کی روشنی میں کسی کو غلط یا صحیح کہا جائے۔ قومیں اپنی مرضی سے کسی بھی چیز کو کسی بات کی علامت بنا سکتی ہیں، اور کوئی اعتراض نہیں کر سکتا۔ ہرے رنگ کو کھیتی باڑی کی علامت بنائیں، امن و خوشحالی کی یا مذہبی گروہ کی، یہ شاد باد لوگوں کا ہی اختیار ہے۔ اگر سبز پرچم سے مسلمانوں کی نمائندگی ہوتی ہے تو اس میں کچھ غلط نہیں، لیکن حقیقت ہے کیا؟ کیا واقعی سبز رنگ کو مسلمانوں کی علامت کے طور پر اپنایا گیا ہے اور اگر نہیں تو ایسا کیوں سمجھا جانے لگا؟

پاکستانی آئین ساز ایوان میں قومی پرچم کی منظوری کی قرارداد لیاقت علی خان نے پیش کی تھی۔ صدارت مسٹر جناح کر رہے تھے۔ قرارداد میں کہیں بھی سبز اور سفید حصوں کو کسی مذہبی آبادی سے منسوب نہیں کیا گیا تھا۔ لیاقت علی خاں نے فرمایا کہ یہ پرچم کسی جماعت یا طبقے کا پرچم نہیں۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے کانگریسی رہنما بھیم سین سچر نے اس بات کا خیر مقدم کیا کہ یہ پرچم کسی مذہبی شناخت کا مظہر نہیں۔ وزارت اطلاعات کی مطبوعات میں بھی یہی تھا کہ پرچم کا سبز رنگ خوشحالی اور سفید رنگ امن کی علامت ہے اور چاند ستارہ ترقی کا نشان ہے، پرچم ستارہ و ہلال رہبر ترقی و کمال۔

معلوم ہوا کہ پرچم کی سبزی و سفیدی سے بالترتیب مسلم اکثریت اور غیر مسلم اقلیت کی نمائندگی نہیں ہوتی اور ستارہ و ہلال بطور اسلامی علامت نہیں ٹانکے گئے ہیں۔ ان کی ویب سائٹ پر میں نے خود بھی دیکھا تھا کہ یہ علامتیں سیکولر معنوں میں ہی تھیں۔ پھر نہ جانے کب چپکے سے معنی بدل دیے گئے۔ اب وہاں رنگوں کو اقلیت و اکثریت سے منسوب کر دیا گیا ہے لیکن ہلال اب بھی ترقی کی اور ستارہ علم و روشنی کی علامت ہے۔ گو کہ بہت سے لوگ چاند کو اسلام اور ستارے کے پانچ کونوں کو اسلام کے پانچ ارکان کی علامت کہنے لگے ہیں۔ ان تبدیلیوں کے لئے ایوان اقتدار و اختیار نے کوئی ترمیمی قرارداد منظور کی ہو تو اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

مختلف شکلوں میں علامتوں کا استعمال تو ہزارہا برس سے ہو رہا ہے لیکن ان کو پرچم کی شکل سب سے پہلے چینیوں نے دی۔ درماندگان یورپ نے صدیوں بعد صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کی دیکھا دیکھی اپنی علامات کو جھنڈے کی شکل دینا شروع کیا۔ عربوں میں علم و پرچم کا رواج تھا۔ قبیلۂ قریش جنگوں میں سیاہ علم لے کر جاتا تھا۔ حضور علیہ الصلوات و التسلیم نے ہجرت کے سفر میں مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے پہلے اپنے سفید عمامہ کو نیزے سے باندھ کر ایک پرچم بنایا اور حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کو تھمایا تھا۔

آپ صلوات اللہ علیہ کے پاس سیاہ پرچم بھی تھا جو ابھی حال تک عہد عثمانی میں استنبول کے توپ کاپی سرائے میں باب السعادۃ پر بطور سنجاق شریف نصب ہوا کرتا تھا۔ عثمانیوں نے یہ پرچم فتح مصر کے وقت مملوکوں سے حاصل کیا تھا۔ مجاز لکھنوی صاحب اگر غور فرماتے کہ یہ سیاہ پرچم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونی دوپٹے سے بنا تھا تو اور بہتر شعر کہہ سکتے تھے۔ فتح مکہ کے دن بھی رسالت مآب علیہ السلام نے حضرت زبیر کو اپنا پرچم العقاب دے کر حکم دیا کہ وہ حجون کے مقام پر جھنڈا گاڑ دیں اور انتظار کریں۔ بعد میں اس مقام پر ایک مسجد تعمیر ہوئی جسے مسجد الرایۃ کہا جاتا ہے یعنی جھنڈے والی مسجد۔ بہت سے حجاج و معتمرین نے یہ مسجد دیکھی ہوگی۔

کیا تاریخ میں کبھی مسلمانوں نے بحیثیت قوم علامت کے طور پر سبز رنگ کا انتخاب کیا؟ ظاہر ہے جواب نفی میں ہو گا کیونکہ ایسا ممکن ہی نہیں۔ مختلف ریاستیں وجود پذیر ہوئیں تو ان کے پرچم و دیگر علامات بھی مختلف ہونے تھے۔ بنو امیہ کا علم سفید تھا۔ ان کی مخالفت میں عباسیوں نے سیاہ پرچم اپنایا۔ عباسیوں کے خلاف بنو فاطمہ کی تحریک اٹھی تو ان کا پرچم پہلے سفید تھا جو بعد میں سبز ہو گیا۔ یہ عالم اسلام میں سبز پرچم کی پہلی مثال ہے۔

جب مامون نے اثنا عشریوں کے آٹھویں امام علی رضا رحمہ اللہ کو اپنا جانشین تسلیم کیا تو پرچم بھی سیاہ سے سبز کر لیا لیکن دو ہی سال میں حضرت امام کو شہید کر دیا گیا اور پرچم پھر سے سیاہ ہو گیا۔ خوارج کا جھنڈا سرخ تھا۔ ایوبیوں اور مملوکوں کا پیلا۔ قرطبہ اور غرناطہ کے جھنڈے بھی سفید و سرخ رہے۔ تیونس و مصر میں فاطمیوں کو عروج حاصل ہوا تو ایک بار پھر ہرا پرچم نظر آیا۔ یہ دوسری مثال ہے۔ سلجوقیوں نے سفید اور عثمانیوں نے مختلف ادوار میں سفید، سبز اور سرخ پرچم اپنائے۔

معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے دور حکومت میں عام طور پر سبز رنگ کوئی ایسی علامت نہیں بنا کہ اسے مسلمانوں کا رنگ یا اسلامی پرچم کہا جائے۔ مصر کے فاطمیوں کے بعد ایران میں صفوی دور حکومت میں پرچم ایک بار پھر سبز رو ہوتا ہے۔ ہندوستان میں مفرس مغلوں نے جو سبز پرچم اپنایا وہ ایران کا اثر معلوم ہوتا ہے۔ یہ اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ مغلوں کے پرچم پر بھی صفوی ایران کی طرح شیر و خورشید کی تصویر تھی۔ یہ نشان رضا شاہ پہلوی تک ایرانی جھنڈے پر ہوا کرتا تھا۔

مغلوں سے پہلے سلاطین دہلی کے علم سیاہی مائل ہوتے تھے اور مغلوں کے زوال پر میسور، حیدرآباد، اودھ وغیرہ کے جھنڈے الگ الگ رنگوں کے تھے۔ اس طرح دیکھئے تو سبز پرچم اہل تشیع کی تحریکوں کا فیض ہے جو اب بر صغیر ہی نہیں بلکہ کسی حد تک دنیا میں مسلمانوں کی شناخت کا ایک مستقل جزو بن گیا ہے۔ اس کی تین وجوہات نظر آتی ہیں : پاک پرچم، گنبد خضرا، اور سعودی پرچم۔

پاکستانی پرچم کی ہریالی مسلم لیگ کے پرچم سے مستعار ہے۔ لیگ کے پہلے ہی اجلاس میں اس پر فیصلہ ہوا تھا۔ اجلاس کی روداد محمد علی جوہر نے نیلی کتاب کے عنوان سے شائع کی تھی لیکن میری رسائی نہیں ہو سکی جس سے معلوم ہوتا کہ پرچم کے انتخاب میں کون سے عوامل لیگ رہنماؤں کے پیش نظر تھے۔ بہرحال یہ تو ظاہر ہے کہ لیگ کا پرچم دو عظیم مسلم سلطنتوں، مغل اور عثمانی، سے متاثر تھا۔ بر صغیر کے مسلمان مغلیہ حکومت کو عظمت رفتہ کے طور پر دیکھتے تھے۔

سبز پرچم ماضی قریب میں مسلمانوں کے دور عروج کا نشان تھا اس لئے مسلم لیگ نے اپنا پرچم ہرا بنایا جو تھوڑی تبدیلی کے ساتھ آج کے پاکستان کا جھنڈا ہے۔ جغرافیائی قومیتوں کے دور میں دنیا میں پاکستان اور اسرائیل دو ہی ایسے ملک ہیں جن کا قیام مذہبی بنیادوں پر ہوا۔ اب جس ملک کا قیام ہی بطور مسلم ریاست کے ہوا ہو اس کی علامتوں کی اہمیت محض ریاستی ہونے کے بجائے اسلامی ہوتے جانا باعث حیرت نہیں۔

جہاں تک گنبد خضرا کا تعلق ہے، سبز رنگ کو شناخت بنانے میں اس کا بھی کردار ضرور ہے۔ انیسویں صدی میں برصغیر کے لوگ حج کرنے جانے لگے۔ پہلے دس بیس سال میں کوئی قافلہ روانہ ہو تو ہو ورنہ حج کرنے کا عام رواج نہ تھا۔ راستے کی بے امنی اور خطرات کے مد نظر حج کو من استطاع الیہ سبیلا کے منافی اور ولا تلقوا بایدیکم الى التھلکة کے خلاف سمجھ کر علماء نے اس کی فرضیت کو ساقط کر رکھا تھا، بلکہ بعض نے حرام ہونے کا بھی فتوی دیا تھا۔

ویسے بھی سفر کرنا ہندوستانیوں کے مزاج میں نہ تھا جس کی تفصیل پھر کبھی۔ خواص بھی یعنی امراء و رؤساء حتی کہ علماء و مشائخ تک حج نہ کرتے، سوائے دربار کے وہ لوگ جنہیں مجبور کیا جاتا۔ جنہیں قتل کرنے میں ضمیر آڑے آتا تو کہتے آپ مکہ مکرمہ چلے جائیں، حج کریں، اللہ اللہ کریں، ورنہ۔ یعنی عربستان یا قبرستان۔ آج بھی بعض نابالغ اور غیر مہذب سیاسی معاشروں میں یہی ہوتا ہے۔ سکون سے جینا چاہتے ہو تو ملک چھوڑ کر چلے جاؤ ورنہ زندان یا جلاد کے حوالے کیے جاؤ گے۔

بطور استثناء بعض مشائخ مثلاً شیخ عبد الحق محدث دہلوی اور ان کے بعد شیخ ولی اللہ دہلوی رحمہما اللہ نے حج کیا۔ لیکن حج پر جانے کی باقاعدہ تحریک سید احمد شہید بریلوی رحمہ اللہ نے چلائی اور 753 لوگوں کا ایک بڑا قافلہ کئی جہازوں پر سوار کر کے لے گئے۔ قزاقوں کا خطرہ تھا تو ساتھ میں توپیں اور بندوقیں بھی تھیں۔ اس کے بعد حرمین جانے کا سلسلہ شروع ہوا اور ہندوستانیوں نے سبز گنبد دیکھا۔ نعتیہ کلام میں گنبد خضرا کا ذکر ہونے لگا اور حجاج کے ساتھ ہرے گنبد کے طغرے بھی آنے لگے۔

کیمرا اور ملون طباعت کا رواج ہوا تو تصویریں، پوسٹر اور کیلنڈر اس طرح چھا گئے کہ گنبد خضرا کی شبیہ مسلمانوں کی محبت و عقیدت کے مرکز کی نمائندہ تصویر ہو گئی۔ مدینہ منورہ کا ذکر ہو تو یہی ایک شبیہ ہے جو ذہن کے پردے پر ابھرتی ہے۔ سبز رنگ راسخ ہوتا گیا۔ ورنہ پہلے گنبد سفید اور پھر نیلا تھا لیکن آپ کو گنبد بیضا یا گنبد زرقا پر اردو میں ایک بھی شعر نہ ملے گا کیوں کہ ہندوستانی جاتے ہی نہ تھے کہ دیکھتے۔ اردو میں لکھے اولین حج نامے، عطا حسین گیاوی کی ہدایت المسافرین (غیر مطبوعہ، 1848) اور منصب علی خاں کی ماہ مغرب (1871) ، گنبد کے ہرے ہونے کے بعد کی تصنیفات ہیں۔

گنبد خضرا سے رنگ پکا ہوا لیکن اصل فاطمی و صفوی حکومتوں کا ہی فیض ہے۔ گنبد بن گیا تو کسی نہ کسی رنگ کا تو ہونا ہی تھا۔ روضۂ اقدس ﷺ پر جو گنبد قائم ہے یہ عثمانی سلطان عبدالحمید نے انیسویں صدی کی دوسرے عشرے میں تعمیر کرایا۔ اور اس پر سبز رنگ مزید 22 سال بعد سنہ 1839 میں چڑھایا گیا۔ سنہ 678 ہجری تک کوئی گنبد نہ تھا۔ مسجد کی چھت پر کمر تک اونچی دیوار سے حجرۂ اقدس کے حدود اربعہ کی نشاندہی کر دی گئی تھی۔

678 ہجری میں پہلی مرتبہ مصر کے مملوک سلطان قلاؤون الصالحی نے لکڑی کا گنبد تعمیر کرایا، جس میں سیسے کی پلیٹیں بھی استعمال ہوئیں۔ یہ گنبد نیچے سے مربع اور اوپر سے مثمن تھا۔ کئی بار اس کی مرمت بھی ہوئی۔ لیکن جب 886 ہجری میں مسجد نبوی میں لگی آگ سے گنبد کو بھی نقصان پہنچا تو ملک اشرف قتبائی نے لکڑی والے گنبد کے اوپر ہی کالے اور سفید رنگ کے پتھر سے ایک نیا گنبد بنوایا۔ اس کو قبۃ البیضاء کہا گیا۔ 892 ہجری میں اسی بادشاہ نے سفید گنبد کے اوپر نیلے رنگ کا ایسا گنبد بنوایا جس کے پتھروں پر آگ کا اثر نہ ہو۔ یہ پتھر مصر سے لائے گئے۔ اس کو قبۃ الزرقاء کہا گیا۔ اس کے 341 سال بعد سلطان عبدالحمید ثانی نے جیسا پہلے عرض کیا نیلے گنبد کے اوپر ہی تعمیر نو کیا اور 1255 ہجری میں سبز رنگ چڑھا دیا۔ جو آج تک موجود ہے۔ (فصول من تاریخ المدینة المنورة)

ہرے رنگ کی پرت دبیز تر کرنے میں سعودی پرچم کا بھی کردار ہے۔ عثمانیوں کا زوال ہونے لگا تو عرب میں کئی ریاستوں کا طلوع ہوا۔ درعیہ میں سعودیوں کی ایک چھوٹی سی ریاست وجود میں آئی۔ ان کا پرچم سبز تھا۔ اسی طرح جیسے حائل کے رشیدیوں کا سرخ، عسیر کے مشائخ کا سفید اور مکہ مکرمہ کے شریفوں کا چار رنگوں کا پرچم تھا۔ جب آل سعود کو پورے نجد و حجاز پر اختیار حاصل ہوا تو ان کا ہرا پرچم پورے ملک کا پرچم ہو گیا۔ اب جدید ذرائع ابلاغ کے زمانے میں جن کے پاس حرمین شریفین کے انتظامات ہوں اور جن کا دعوی اسلامی شرعی حکومت کا ہو ان کا بھی پرچم ہرا ہے تو رنگ پکا ہوتا گیا۔

حالانکہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ پرچم تو ریاست اور حکومت کا ہوتا ہے، جب مرکزیت ٹوٹی اور الگ الگ ریاستیں وجود میں آئیں تو سب کو ایک دوسرے سے الگ علامتوں کی ضرورت بھی پیش آئی۔ اس میں مذہبی شناخت جیسی کوئی بات نہ تھی۔ گو کہ رفتہ رفتہ ایک حد تک ایسا ہوتا گیا۔ آج بھی سعودی عرب، پاکستان اور بنگلہ دیش کے علاوہ زیادہ تر ممالک میں پرچم کئی رنگوں کا ہے۔ سبز صرف ایک جزو ہے۔

مصنف محمد سلیم، رابغ شریف، سعودی عرب میں کلیۃ العلوم و الاآداب سے تعلق رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments