ہندوستان میں تاریخی کسان مورچہ: ڈاکٹر اشوک دھاولے سے مکالمہ


نوآبادیاتی دور میں برصغیر متحدہ ہندوستان پر انگریز سامراج نے قبضہ کیا تو وہ اسے سونے کی چڑیا کہتے تھے۔ یہاں کے مہکتے کھیت اور کھلیان سونے کے ذخیروں سے کم نہ تھے۔ ایک طرف ہمارے وطن کی انتہائی زرخیز مٹی اور جفاکش کسانوں کی محنت سے اگنے والے اناج کی بے پناہ پیداوار کی دنیا بھر میں زبردست مانگ تھی، تو دوسری طرف یہاں پیدا ہونے والی اعلیٰ معیار کی کپاس سے برطانیہ کی کپڑے کی صنعت کو خام مال میسر ہوتا تھا۔ اس لیے فرنگیوں نے لڑاؤ اور راج کرو کا اصول اپناتے ہوئے یہاں کی عوام کو مذہب، رنگ، نسل، فرقوں اور علاقوں کی بنیاد پر تقسیم کر دیا اور اپنے تسلط کو دوام بخشنے کے لیے ان پر وطن کی مٹی کے غدار جاگیرداروں اور بیوروکریسی کو مسلط کر دیا۔ نوآبادیاتی دور کے ظلم، جبر اور استحصال کے خلاف ابھرنے والی کسانوں کی ان گنت بغاوتوں اور انہیں کچلنے کے لیے ریاستی جبر و تشدد اور وحشیانہ قتل و غارت سے تاریخ بھری پڑی ہے۔

کسانوں کی وہ تحریکیں ایک طرف سامراجی تسلط سے آزادی کے لیے منظم ہوتی تھیں تو دوسری طرف کسانوں پر ہونے والے ظلم، جبر اور استحصال کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے۔ مختلف ادوار میں مختلف علاقوں میں ابھرنے والی ان تحریکوں کو کچلنے کے لیے وحشیانہ تشدد، اغوا، گولیوں اور توپوں تک کا سہارا لیا جاتا تھا۔ بعد ازاں 1929 ء میں بہار میں صوبائی سطح پر سہجانند سرسوتی کی قیادت میں صوبائی کسان سبھا تشکیل دی گئی، جس کا بنیادی مقصد جاگیرداروں کی جانب سے چھوٹے اور کمزور کسانوں کی زمینوں پر قبضوں کے خلاف کسانوں کو منظم کرنا اور اس تحریک کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے کے لیے اسے ملکی سطح پر پھیلانا شامل تھا۔ جب 1947 ء میں ہندوستان کا بٹوارہ ہوا اور ملک دو دو لخت ہو گیا تو دونوں ممالک میں کسان تحریک بھرپور طریقے سے ابھر کر سامنے آئی۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں بننے والی تحریک کا نام پاکستان کسان کمیٹی رکھا گیا، جو کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ منسلک تھی اور اس نے ملک بھر میں جاگیرداری کے خاتمے اور زرعی اصلاحات کے نفاظ کے لیے بھرپور تحریک کا آغاز کر دیا۔ 1954 ء میں راولپنڈی سازش کیس کی آڑ میں کمیونسٹ پارٹی، پاکستان کسان کمیٹی اور دیگر عوامی تنظیموں کو خلاف قانون قرار دے کر ان پر پابندی لگا دی گئی۔ بعد ازاں کسان کمیٹی کو ساٹھ کی دہائی کے آغاز میں دوبارہ منظم کر لیا گیا، اور کسان کانفرنسوں کے ذریعے ایک ایسی فضا پیدا ہوئی، جس نے ملک میں تین زرعی اصلاحات کو جنم دیا۔

ہندوستان میں تو آزادی کے بعد لینڈ ریفارمز کے ذریعے جاگیرداری نظام کافی حد تک توڑ دیا گیا تھا، البتہ چھوٹے کسانوں کا استحصال جاری رہا اور کسانوں کی تحریک وسیع بنیادوں پر کام کرتی رہی۔ ان کسانوں کے معاشی، سیاسی اور سماجی استحصال کو ہر دور میں جاری رکھا گیا، اور اس کے خلاف تحریکیں بھی چلتی رہیں۔ پھر مئی 2014 ء میں ہندوستان ایک سیکولر ریاست سے بنیاد پرستی کی جانب اس وقت گامزن ہو گیا جب ہندوستانی بنیاد پرست مذہبی گروپ آر ایس ایس کی گود میں پرورش پانے والے نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے اقتدار سنبھالا۔ مودی سرکار نے اقتدار سنبھالتے ہی ملکی اشرافیہ کو نوازا اور غریب کسانوں کا جینا دو بھر کر دیا گیا۔ ان کی اجناس کی قیمتوں کا تعین اس انداز سے کیا جانے لگا اور مڈل مین تاجروں کو اس قدر نوازا گیا کہ غریب کسان قرضوں میں ڈوبتے گئے، اور اپنی جدی پشتی زمینوں کو بیچ کر قرضے اترنے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ باقی نہ رہا۔ اس صورت حال میں ہندوستان بھر میں کسانوں کی خودکشیوں کا ایک درد ناک سلسلہ شروع ہو گیا۔ بعد ازاں مودی سرکار نے کسانوں پر بڑا وار کرتے ہوئے ملکی قانون میں تین متنازعہ ترامیم متعارف کروائیں اور انہیں دھونس اور طاقت سے پاس کروا لیا، تو اس کے خلاف 21۔ 2020 ء میں بھارت میں کسانوں کی تاریخ ساز تحریک نے جنم لیا، جسے متحدہ کسان مورچہ کا نام دیا گیا۔ اسی کسان مورچے کے بہت ہی اہم راہنما اور آل انڈیا کسان سبھا کے صدر ڈاکٹر اشوک دھاولے جی گذشہ دنوں انڈین ورکرز ایسوسی ایشن برطانیہ اور ایسوسی ایشن آف انڈین کمیونسٹس کی دعوت پر برطانیہ تشریف لائے تو ان کے اعزاز میں برطانیہ کے مختلف شہروں میں استقبالیہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ ان تقریبات میں راقم کو بھی اپنی انقلابی یکجہتی کے اظہار کے لیے مدعو کیا گیا۔ ہندوستانی کسانوں کی اس تاریخ ساز تحریک کا شمار دنیا کی سب سے بڑی انقلابی تحریکوں میں ہوتا ہے۔ اس لیے راقم نے سوچا کہ کامریڈ اشوک دھاولے جی سے ہونے والی گفتگو کو تحریری شکل دے کر برصغیر کے ترقی پسند انقلابی کارکنوں تک پہنچایا جائے، تاکہ وہ اس کے سبق آموز پہلوؤں سے راہنمائی حاصل کر سکیں۔

متحدہ کسان مورچہ بارے بات کرتے ہوئے کامریڈ اشوک دھاولے جی نے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہندوستانی کسانوں کی یہ تحریک کوئی آسمان سے نہیں اتری تھی، بلکہ 2014 ء میں نریندر مودی نے اپنی سرکار بننے سے لے کر کسانوں کو نشانہ بنایا ہوا ہے، مزدوروں کو نشانہ بنایا ہوا ہے، اور نوجوانوں، خواتین اور مذہبی اقلیتوں کو ٹارگٹ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے جو اشرافیہ نواز سرمایہ دارانہ پالیسیاں بنائیں، ان کی وجہ سے محنت کشوں کے اوپر متواتر حملے ہو رہے ہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹ کو بھی جھوٹ بولا، اور کوویڈ کی دہشت کے دوران سارے قانون بھی توڑے۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں جو کچھ ہوا، اس کی وجہ سے بالخصوص کسانوں کی میں بات کرتا ہوں کہ 9 سال کی مودی سرکار کے دور میں ایک لاکھ سے زیادہ کسانوں کو خود کشیاں کرنا پڑیں، کیوں کہ وہ قرضوں میں ڈوب گئے تھے، اور ان کے پاس قرضوں کی واپسی کے لیے نہ وسائل بچے تھے اور نہ ہی اتنی آمدن تھی۔ اس کے خلاف ملک بھر میں لگا تار مظاہرے ہوئے، 2018 ء میں ہم نے مہاراشٹر سے بڑا کسان مارچ کیا، جس میں 50 ہزار کسان مہاراشٹر کے کھیت کھلیانوں سے چل پڑے، جو سات روز تک چلتے رہے اور 200 میل تک کا سفر طے کیا، جن میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین بھی تھیں اور ان کے بچے بھی، جو سات روز تک پیدل سفر کرنے کے بعد بمبئی پہنچے تھے۔ یہ پورا کسان لانگ مارچ جو ہوا، وہ پوری دنیا میں میڈیا کا مرکز بن گیا، اس پر بنے ویڈیوز سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پھیل گئے اور اس کے چرچے بھی ہوئے۔ اس طرح کے بہت سے مظاہرے ملک بھر میں ہوئے۔ اس کے بعد ستمبر 2020 ء میں مودی سرکار تین کسان دشمن بل قانون کا حصہ بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں لائی اور دھونس و ہٹ دھرمی کے ساتھ پاس کروا لیے، اور پارلیمنٹ سے پاس بھی ایسے کروائے کہ ان تک میڈیا کو رسائی نہ دی گئی۔ جن عوام دوست ممبران پارلیمنٹ نے ان کسان دشمن بلز کی مخالفت کی ان کی پارلیمنٹ کی رکنیت کو ہی دو ہفتوں کے لیے معطل کر دیا گیا۔

مودی سرکار نے پارلیمانی اقدار اور مروجہ اصولوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے زرعی بلز کی مخالفت کرنے والے ممبران سے کہا کہ انہیں اس قابل ہی نہیں چھوڑیں گے کہ وہ مخالفت کر سکیں۔ سرکار کی مکاری کا اندازہ کریں کہ وہ یہ قانون ایک ایسے وقت لائے جب کرونا کے وبائی مرض نے ہر طرف دہشت پھیلا رکھی تھی۔ مارچ 2020 ء میں ہندوستان میں کرونا کی تباہ کاریوں کا آغاز ہوا تھا اور یہ قانون ستمبر 2020 ء میں پارلیمنٹ میں لائے جب ہر طرف لوگ کرونا سے جان کی بازی ہار رہے تھے۔ سرکار کا خیال تھا کہ کوویڈ کی دہشت کے وقت جب یہ قانون لائیں گے تو لوگ ڈریں گے اور اپنی آواز اٹھانے کے لیے گھر سے باہر نہیں نکل پائیں گے۔ اس طرح یہ کسان دشمن بلز پاس ہو کر قانون کا حصہ بن جائیں گے، اور سرکار کو اس پر عمل درآمد کروانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔

ان قوانین کا بنیادی مقصد پورے بھارت کی زرعی زمینیں کسانوں سے چھین کر، یا پھر ان سے اونے پونے خرید کر بڑے بڑے کارپوریٹ اداروں کے حوالے کرنا تھا۔ مکیش امبانی، گوتم اڈانی، رادھا کشن دامانی، لکشمی متل، یہ نام تو آپ نے سنے ہوں گے، جو سرکار کی مدد سے غریب کسانوں کی زمینیں ہڑپ کر کے بڑے بڑے فارم بنانا چاہتے تھے۔ مودی جب وزیر اعظم بنے تو گوتم اڈانی پوری دنیا میں 609 ویں نمبر پر تھے۔ پھر 2022 ء میں کمال معجزہ ہوا کہ وہ 8 برس کی قلیل مدت میں 609 ویں نمبر سے اٹھ کر دوسرے بڑے امیر ترین آدمی بن گئے۔ یہ سب نریندر مودی اور امیت شاہ کے دھونس اور اشیرباد سے ہی ممکن ہوا۔ یہ سب کیسے ہوا، جب تحقیقات ہوئیں تو حقیقت سامنے آئی اور ایک پن مارنے سے ہی اتنے بڑے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ ایسے ہی ارب پتی لوگوں کی مدد کرنے کے لیے یہ قانون لایا گیا تھا۔

کسانوں کی زمینیں جاتی تھیں، انہیں اپنی اجناس کا مناسب معاوضہ نہیں ملتا تھا۔ سب سے بڑھ کے جو دیش کے اندر عوامی تقسیم کا نظام ہے، جسے پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کہتے ہیں، اسے وہ ختم کرنا چاہتے تھے۔ یعنی یہ قوانین پورے دیش کے عوام کے خلاف تھے، اور عوام کو ان ارب پتیوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا پورا پورا بندوبست کیا گیا تھا۔ انہیں لگا کہ اب کوویڈ کی تباہ کاریوں نے دہشت پھلا رکھی ہے، اور کوئی نہیں اٹھے گا اور آرام سے ہمارا کام بن جائے گا۔ بات یہیں کسانوں کے استحصال کو دوام بخشنے پر ختم نہیں ہوئی، بلکہ اس بل کے پاس کروانے کے 15 روز بعد ، ستمبر ہی کے مہینے میں اسی پارلیمان میں مزدوروں کو نشانہ بناتے ہوئے چار مزدور دشمن قوانین بنا ڈالے۔ ہندوستانی مزدوروں نے ایک سو سال تک برطانوی سامراج کے خلاف لڑ کے، اور بعد ازاں آزادی کے بعد کانگریس حکومت کے ساتھ لڑ کے مزدور طبقے کے تحفظ کے لیے 29 لیبر لاز حاصل کیے تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کے وزیراعظم نے ایک قانون پارلیمنٹ میں لا کر پورے 29 قوانین رد کروائے اور اس کے متبادل کے طور پر 4 لیبر قوانین لائے جو مکمل طور پر پرائیویٹ کارپوریشنوں کے مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ جو کام برطانیہ میں چند دہائیاں قبل مارگریٹ تھیچر نے کیا تھا اور ملک میں مزدوروں کی آواز کو کچل دیا تھا، وہی کام اب ہندوستان میں مودی سرکار نے کر دکھایا۔

یہی وہ حالات تھے جن میں بھارت کے کسانوں نے یہ طے کیا کہ ہم یہ بالکل برداشت نہیں کریں گے۔ ہم اس کے خلاف لڑیں گے، اور جب تک ہم نہیں جیتتے، اور یہ تینوں کسان دشمن قوانین رد نہیں کروا لیتے، تب تک ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔ اس طرح ہندوستان کے کسانوں نے 26 نومبر 2020 ء کو ہزاروں کی تعداد میں اپنے احتجاج کا آغاز صوبہ پنجاب سے کیا۔ اس لیے پنجاب کے کسانوں نے جس تاریخی تحریک کا آغاز کیا اس پر ہم سب انہیں سلام پیش کرتے ہیں۔ پنجاب سے آغاز کرنے والے اس کسان مورچے میں جلد ہی ہریانہ، اترپردیش، راجستھان، مدھیہ پردیش، اور دیش بھر کے کسان شامل ہوتے گئے اور اس طرح یہ تاریخ ساز کارواں بنتا گیا۔ پھر دہلی کے ارد گرد کے علاقوں کے کسانوں نے دہلی آنے والے سب بڑے نیشنل ہائی ویز، جنہیں بعض ممالک میں موٹرویز بولتے ہیں، بلاک کر دیے۔ آپ نے سنا ہو گا چند سال قبل امریکہ میں چلنے والی آکوپائی وال سٹریٹ، یعنی وال اسٹریٹ پر قبضہ کر لیں، کے تحت ہزاروں عوام نے نیو یارک کے تجارتی مرکز وال سٹریٹ کو بلاک کر دیا تھا۔ لیکن یہ جو بھارت میں متحدہ کسان مورچہ ہوا یہ آکوپائی وال سٹریٹ کا ایک بہت بڑا ایڈیشن تھا، جس نے دنیا کی تحریکوں میں ایک منفرد مقام حاصل کیا، کیونکہ وہ تو کچھ روز ہی چلا اور ہزاروں لوگ شامل ہوئے تھے، لیکن ہندوستانی کسان مورچے میں تو لاکھوں کسان آئے اور انہوں نے یہاں 380 دن، یعنی ایک سال اور پندرہ دن پورے طریقے سے جام کر دیا۔

کسانوں کی اس تحریک کے بہت سے اہم اور سبق آموز پہلو ہیں، ان میں سے ایک یہ کہ لاکھوں کسان ایک ساتھ آئے اور اپنا مورچہ بنایا۔ کسانوں کی سب تنظیموں کے لوگ ایک ساتھ آئے، وہ بھی اس عزم کے ساتھ آئے کہ ہم جیتیں گے۔ انہیں یقین تھا کہ الگ الگ لڑیں گے تو ایک ایک کر کے مارے جائیں گے۔ ایک ساتھ مل کر لڑیں گے تو ہم ضرور جیتیں گے۔ پھر ہم اکٹھے ہو کر بھارت کی ٹریڈ یونینوں کے پاس گئے، اور ہماری درخواست پر انہوں نے کمال یکجہتی دکھائی اور بھارت کی تمام ٹریڈ یونینیں متحد ہو کر کسان مورچہ کی حمایت میں نکل آئیں۔ انہوں نے ہم سے سبق سیکھتے ہوئے ایک متحدہ پلیٹ فارم بنایا، کیوں کہ یہی موقع تھا کہ مزدور یونینیں بھی متحد ہو کر ہماری بھرپور حمایت کے لیے باہر نکلیں۔ جب پورے بھارت کی مزدور تحریک نے یکجا ہو کر کسانوں کا ساتھ دیا تو قابل دید مزدور کسان یکجہتی اور اتحاد ابھر کر سامنے آیا۔

تیسری اہم بات یہ کہ ہمیں بہت بڑے ریاستی تشدد اور غنڈہ گردی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمارے اوپر واٹر کینن استعمال کیے گئے، آنسو گیس کے شیل وسیع پیمانے پر استعمال ہوئے، لاٹھی چارج ہوئے اور بے شمار کارکنوں کو گرفتار کیا گیا، اور آپ نے یہ بھی دیکھا کہ مودی سرکار کے وزیر مسٹر اجے مشرا ٹینی نے اپنے علاقے کھیری، اترپردیش سے اپنے کارندوں کی گاڑیاں بھیجیں جن کے نیچے احتجاجی کسانوں کو کچل کر مار ڈالا۔ اس دہشت ناک واقعے سے چار کسان اور ایک صحافی موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ باقی جو کسان مورچے کے دوران 715 کسان دھلی میں شہید ہوئے تھے، وہ ان کے علاوہ ہیں۔ لیکن آپ یہ دیکھیں کہ جو ریاستی سرکار کا وزیر عوام کو حق مانگنے پر سرعام کچل کر شہید کرتا ہے، اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، بلکہ یہ حیرت انگیز ہے کہ وہ آج بھی سرکار میں وزیر کے عہدے پر قائم ہے اور دندناتا پھر رہا ہے۔ اس کے برعکس آپ کے ہاں برطانیہ میں بورس جانسن نے کرونا کے خطرناک دور میں 10 ڈاؤننگ سٹریٹ میں دارو کی پارٹیاں رکھیں، اور اس مواقع پر پارلیمنٹ کو بھی جھوٹ بولا، پورے کوویڈ کے قانون توڑے، اور انہیں بالآخر پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ آنے سے پہلے ہی وزیر اعظم کے عہدے سے استعفی دینا پڑا۔ یہ برطانیہ میں ہوتا ہے، اور یہ واضح کرتا ہے کہ یہاں کچھ حد تک تو جمہوریت کی عملی شکل پائی جاتی ہے۔ لیکن وہاں ہندوستان میں ایک وزیر 4 پر امن احتجاج کرنے والے کسانوں اور ایک صحافی کو اپنی گاڑی کے نیچے روند کر مار ڈالنے کے باوجود بھی نریندر مودی اسے اپنی کابینہ کا وزیر قائم رکھتے ہیں۔

جب کسانوں کی تحریک کا آغاز پنجاب سے ہوا تو بی جے پی اور آر ایس ایس نے پراپیگنڈہ شروع کر دیا کہ یہ خالصتانی علیحدگی پسند سکھوں کی ملک توڑنے کی تحریک ہے۔ عقل کے ان اندھوں کو کون سمجھائے کہ جب پنجابی میدان میں آئیں گے تو ان کے سر پر پگڑیاں تو ہوں گی نہ۔ ہمیں اس تحریک کا آغاز کرنے والی پنجاب کی سکھ کمیونٹی پر ناز ہے۔ پہلے تو آر ایس ایس اور بی جے پی والوں نے کہا کی یہ خالصتان وادیوں کی تحریک والے ہیں سب۔ جب لوگوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا تو وہ کہنے لگے کہ یہ ماؤ نواز تحریک کے گوریلے ہیں، پھر بولنے لگے کہ یہ نکسل واڑی تحریک والے ہیں، پھر بولنے لگے کہ یہ علیحدگی پسند قوم پرست ہیں، اور پھر بولنے لگے کہ ان کسانوں کو پاکستان اور چائنہ کا سپورٹ حاصل ہے۔ لیکن ان سب جھوٹے پراپیگنڈوں پر لوگوں نے کان نہ دھرے اور انہیں یکسر مسترد کر دیا۔ اس طرح ہمارا کسان مورچہ بہت ہی پرعزم بھی رہا اور پر امن بھی رہا۔

ہندوستانی متحدہ کسان مورچہ ذات پات، رنگ، نسل، مذہب اور علاقائی تفریق سے پاک تھا اور اس میں ہر مذہب، رنگ، نسل اور ذات پات کے بچے، بوڑھے، مرد و خواتین بہت بڑی تعداد میں شامل تھے۔ اس میں سکھ کسان تھے، ہندو کسان تھے، مسلمان کسان تھے، کرسچن تھے، بدھ مت تھے، اور سبھی مذاہب کو ماننے والے تھے، لیکن سب برابر انسان تھے، جو ملک بھر سے ایک ساتھ دھلی میں آئے اور انہوں نے وہاں آ کر ایک سال پندرہ دن تک تاریخ ساز دھرنا دیا۔ ان میں ہزاروں کی تعداد میں عورتیں شامل تھیں اور مجھے فخر ہے کہ ان میں شہید بھگت سنگھ کی بھتیجی گرجیت کور بھی شامل تھیں، جو کسانوں کے اس عظیم اجتماع میں ایک سال تک مسلسل رہیں۔ بھگت سنگھ کے بھتیجے پروفیسر جگ موہن سنگھ، جنہیں سارا پنجاب جانتا ہے، بھی اس تحریک میں بھرپور شامل رہے۔ مزید برآں، اس تحریک کے دیرپا بنیادوں پر قائم رہنے میں سکھ گوردواروں کا بھی اہم کردار تھا، جن میں خاص طور پر دھلی کے، پنجاب کے، ہریانہ کے، اور یو پی کے گوردواروں نے مفت لنگر لگائے اور پورا ایک سال اور پندرہ دن تمام بارڈرز پر مفت لنگر چالو رہا، جس میں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں کسانوں کو مفت کھانا مہیا کیا جاتا رہا۔ اگر یہ گوردوارے خوراک مہیا کرنے کا اہم فریضہ سر انجام نہ دیتے تو ہماری یہ تحریک اتنے طویل عرصہ تک زندہ نہ رہ پاتی اور شاید کسانوں کو فتح بھی نصیب نہ ہوتی۔ ایسا صرف دھلی میں متحدہ کسان مورچہ میں نہیں ہوا، بلکہ ملک بھر میں جہاں جہاں بھی کسانوں نے مورچے لگائے گئے، گوردواروں نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور ہر بھوکے کسان کو وقت پر کھانا فراہم کیا۔ جب ہم نے 2018 ء میں مہاراشٹر سے کسانوں کی ریلی بمبئی تک نکالی جن میں 50۔ 40 ہزار کسان ہوتے تھے تو وہاں بھی بمبئی کے گوردواروں نے اپنے کیمپ لگا کر سب کو مفت چائے، ناشتہ اور کھانا فراہم کیا۔

حقوق کی جدوجہد میں منظم کی گئی اس تحریک کو جس طرح سے زندگی کے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں نے مدد فراہم کی اور اس کا حصہ بنے، اسے کامیاب ہونا ہی تھا۔ ہم کسانوں کا یہ نعرہ تھا کہ کسان نہیں تو خوراک نہیں، اور ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی نہیں (نو فارمر، نو فوڈ، نو فیوچر) ۔ اسی نعرے پر ساری تحریک قائم ہوئی اور کسانوں نے مطالبات تسلیم ہونے تک واپس نہ جانے کا عہد کر لیا، جس میں ہماری خواتین کسانوں کا بہت اہم کردار تھا۔ کسان پرعزم تھے کہ مودی سرکار کو شکست دیے بغیر اور اس کسان دشمن قانون کو رد کروائے بغیر واپس ہر گز نہیں جائیں گے۔ کسانوں نے تو یہاں تک اعلان کر دیا تھا کہ اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے، اور یہ ضروری سمجھا گیا، تو وہ 2024 ء کے عام انتخابات تک اپنا کسان مورچہ جاری رکھیں گے۔ یہی وہ کسانوں کا عزم تھا جو بالآخر ان کی فتح کا سبب بنا۔ مودی سرکار کو جھکنا پڑا، اور اس تحریک کے ایک سال پندرہ دن بعد انہیں اعلان کرنا پڑا کہ یہ تینوں کسان کش قوانین ہم پارلیمنٹ سے رد کروائیں گے، اور جس پارلیمنٹ سے ستمبر 2020 ء میں یہ قوانین پاس کروائے تھے، 29 نومبر 2021 ء کو اسی پارلیمنٹ نے یہ تینوں قوانین رد کیے۔ بلاشبہ یہ ہندوستانی کسانوں کے لیے بہت بڑی جیت تھی، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسانوں کے سب مسائل حل ہو گئے ہیں۔ ابھی بھی کسانوں کی اجناس کی قیمتیں مرتب کرنے کا سوال باقی ہے۔ ابھی بھی کسانوں کے سر پر قرضوں کی تلوار لٹک رہی ہے، جس کی بدولت ایک لاکھ کسانوں کو خود کشی کرنا پڑیں۔ کامریڈ اشوک دھاولے جی نے کہا کہ ہماری آل انڈیا کسان سبھا کا مطالبہ ہے کے ہندوستان بھر کے کسان، جو ملک بھر کے عوام کے لیے اناج پیدا کرتے ہیں ان کا زرعی قرضہ معاف کیا جائے۔ انہیں اجناس کی صحیح لاگت ملے، جس کے لیے ان کا مطالبہ ہے کہ لاگت کاشت پر آنے والے خرچے کا کم از کم ڈیڑھ گنا دام ہو۔ انہوں نے کہا کہ قبل ازیں ڈاکٹر سمباسیون سوامی ناتھن کمیشن، جو نیشنل کمیشن آن فارمرز بنایا گیا تھا، اس نے سفارشات پیش کی تھیں کہ اگر دیش میں کسانوں کی خودکشیاں روکنی ہیں تو تمام کسانوں کو کاشت پر آنے والے اخراجات کا ڈیڑھ گنا معاوضہ کی بنیاد پر اجناس کی قیمتوں کا تعین کرنا ہو گا اور اس پر عمل درآمد کروانے کے لیے قانون سازی کرنا ہندوستانی سرکار کی ذمہ داری ہے۔ کامریڈ اشوک دھاولے جی نے کہا کہ اس پر ہماری جدوجہد جاری ہے اور جاری رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کسانوں کا جو نقصان ہو رہا ہے، اس کے لیے ہم سرکار کی جانب سے کسانوں کی اجناس کی انشورنس کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ابھی چند ماہ قبل پانچ اپریل 2023 ء کو دھلی میں ایک لاکھ مزدوروں اور کسانوں کی پھر سے ریلی نکالی گئی ہے۔ یہ ریلی سینٹر آف انڈین ٹریڈ یونین (سی آئی ٹی یو) ، ہماری آل انڈیا کسان سبھا اور آل انڈیا ایگرکلچر ورکرز یونین نے مل کر نکالی تھی، جس میں ملک بھر سے محنت کش، کسان و مزدور ایک ساتھ آئے، اور انہوں نے مودی سرکار کی کسان دشمن اور مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی۔

آخر میں میں کہنا چاہوں گا کہ بھارت میں نریندر مودی کی بی جے پی سرکار آج دو چیزیں کر رہی ہے، ایک دیش کو بیچ ڈالنے کا کام، دوسرا دیش کو توڑنے کا کام۔ دیش کو توڑنے کا کام انہوں نے متحدہ ہندوستان پر جابرانہ قبضہ کرنے والی پرانی برطانوی سرکار سے سیکھا۔ ہم نے بھی سکول میں اور کالج میں پڑھا تھا کہ دو سو سال تک کیسے برطانوی سامراج نے ہم پر راج کیا، اس کا بنیادی اصول تقسیم کرو اور راج کرو (ڈیوائیڈ اینڈ رول) تھا، اور اسی وجہ سے بھارت اور پاکستان بنے، بٹوارہ ہوا اور 20۔ 15 لاکھ معصوم سہری مارے گئے۔ یہ ڈیوائیڈ اینڈ رول کا طریقہ انگریزوں نے برتا اور آج یہی طریقہ واردات بی جے پی، آر ایس ایس اور نریندر مودی سرکار اپنائے ہوئے ہے، کہ مذہب کے نام پر عوام کو تقسیم کرو، لڑاؤ اور راج کرو۔ اور اسی لیے یہ ہمارے دیش کو بیچنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ ملکی وسائل اور عوام کی املاک ارب پتی سرمایہ داروں اور ان کی کارپوریٹ کمپنیوں کو اور ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کو بیچ کر کھا جانا چاہتے ہیں۔ اس کے خلاف ملک بھر میں جدوجہد جاری ہے، جو 2024 ء کے انتخابات تک جاری رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ مودی سرکار کو جانا ہو گا اور اس کے لیے ہم لگا تار بھارت میں جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ادھر مودی کی فاشسٹ حکومت کے خلاف ملک کی تمام سیکولر جمہوری جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئی ہیں، اور تمام معاملات باہمی گفت و شنید سے طے کر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم سب مل کر مودی سرکار کو انجام تک پہنچانے میں کامیاب ہوں گے۔ چند روز قبل ہم لندن میں کارل مارکس کی قبر پر گئے تھے جہاں لکھا تھا کہ ورکرز آف آل لینڈز یونائٹ، یعنی دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ، آپ کے پاس کھونے کے لیے زنجیروں کے سوا کچھ نہیں، آپ کے پاس پانے کے لیے پوری دنیا پڑی ہے۔ اس پوری دنیا کو ہم جیتیں گے، اس کے لیے جو بھی کرنا پڑا ہم کریں گے۔ لوگوں کو شعور دین گے، لوگوں کو منظم کریں گے، اور بالآخر استحصال سے پاک ایک نیا معاشرہ اور نئی دنیا کی تعمیر کریں گے۔

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

پرویز فتح برطانیہ کے شہر لیذز میں مقیم ہیں اور برٹش ایروسپیس انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ وہ برطانیہ میں ساوتھ ایشین ممالک کے ترقی پسندوں کی تنظیم ساوتھ ایشین پیپلز فورم کورڈینیٹر ہیں اور برطابیہ میں اینٹی ریسزم اور سوشل جسٹس کے لئے سرگرم ہیں۔

pervez-fateh has 55 posts and counting.See all posts by pervez-fateh

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments