زندگی تماشا


مجھے اب یاد نہیں پڑتا کہ کبھی بھی کوئی پاکستانی ڈرامہ باقاعدگی سے دیکھا ہو ماسوائے ”منٹو“ کے۔ اس زمانے میں منٹو کو ہی پڑھ رہا تھا اور پھر سرمد کھوسٹ کا ”منٹو“ منظر عام پہ آیا تو اسے مکمل انہماک سے دیکھا۔ سرمد کھوسٹ سے پہلا تعارف ”منٹو“ کے ہی توسط سے ہوا تھا۔ اب مصیبت ان دنوں یہ تھی کہ ہمارے گھر ہماری پڑھائی کی وجہ سے ٹی۔ وی نہیں تھا اور نہ ہی ان دنوں میرے پاس موبائل تھا کہ ڈرامہ دیکھ سکوں۔ ہر جمعرات کی شام ڈرامے کی نئی قسط آتی اور میں ہر جمعہ مولوی صاحب کا واعظ سننے کے بعد خالہ کے ہاں جا کر ان کے موبائل پہ یوٹیوب سے ڈرامے کی اگلی قسط دیکھا کرتا تھا۔ منٹو کے کردار کے ساتھ جو انصاف سرمد کھوسٹ نے کیا ہے وہ نوازالدین صدیقی جیسا منجھا ہوا اداکار بھی نہیں کر سکا۔ منٹو بھی باغی ہے۔ ان موضوعات پہ بات کرتا ہے جن پہ کوئی بھی بات نہیں کرتا۔ یا تو ہمیں ہمارے معاشرتی رویوں میں یہ باتیں نظر نہیں آتیں یا پھر ہم ان وحشی حقیقتوں کا اقرار نہیں کرنا چاہتے کہ ہم معاشرے میں پیدا ہونے والے ہر ہر منٹو کا تماشا بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ سرمد کھوسٹ نے بھی ”زندگی تماشا“ بنائی اور پھر اس کا ملک خداداد میں جو تماشا بنا وہ سب جانتے ہیں۔ اب ایک آرٹسٹ کو بیچ چوراہے میں یوں آئینہ پکڑ کر کھڑے ہونے کی سزا تو ملنی ہی ہوتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اسے اس بات کا علم بھی ہوتے ہے کہ اسے اس کی سزا یوں ملے گی لیکن اس گھٹن زدہ معاشرے میں بغاوت کا یہ ٹھنڈا جھونکا ہی اس کی زندگی کا ضامن بھی ہوتا ہے۔

دو چار ہفتے پہلے کچھ وقت میسر آیا تو ایک تو اچھی فلمیں دیکھنے کو ملیں۔ خدا جانے ”زندگی تماشا“ کا خیال کیسے ذہن میں آیا لیکن میں نے فلم کی تلاش شروع کر دی۔ انٹرنیٹ پہ ادھر ادھر دو نمبر ویب سائٹس کی خاک چھانی مگر ساری کوششیں ندارد۔ پھر اسی ہفتے کے آخر میں یوں ہی فیس بک پہ آوارہ گردی کر رہا تھا کہ سرمد کھوسٹ کا چہرہ اپنی تمام تر شادابی اور اداسی کے ہمراہ ابھرا کہ آخر کار اس نے زندگی تماشا کو آزاد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

مذہب ایک بڑا حساس اور پِیچیدہ موضوع ہے۔ ایسے موضوع پہ فلم بنانا بذات خود ایک بڑی بات ہے۔ اور پھر سرمد کھوسٹ نے جس گہرے مشاہدے اور تجربے کا ثبوت اس فلم میں دیا ہے اس کے لیے وہ بہت سی داد کے مستحق ہیں۔ فلم کے سبھی کردار ہی ہمیں وراثت میں ملے ہوئے مذہب کی طرح الجھے الجھائے ہیں۔ ہمیں ہمارے معاشرے نے جو مذہب سکھایا ہے، اس کے کچھ پہلو تو واقعی دین سے تعلق رکھتے ہیں لیکن جو پہلو خود ساختہ ہیں انہوں نے ہمارے معاشرتی رویوں میں بڑی دو نمبری سی پیدا کر دی ہے۔

ہمارے ہاں معاشرتی آزادی نام کی تو کوئی چیز ہے نہیں لہذا ہر بندہ ہی مرضی یا مرضی کے بغیر مذہبی ہے۔ اگر معاشرے میں تھوڑی لچک ہو تو لوگ سہی معنوں میں اپنے ذاتی میلان اور ذاتی اصولوں کے مطابق معاشرتی حدود کے دائرے میں رہتے ہوئے پوری ذمہ داری سے اپنے رویوں کو منظم کرتے ہیں۔ ورنہ ہمارے کئی اعمال صرف معاشرتی دباؤ کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں۔ جیسے اس سال کسی دوست نے فیس بک پہ پوسٹ کیا تھا کہ پاکستان میں روزہ نہ رکھنا روزہ رکھنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ خیر اس معاشرتی جبر نے ہمیں بڑا دو غلہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ ہمارا ایک کام مذہب کے عین مطابق ہوتا ہے اور دوسرا کام اس کے مکمل الٹ۔ اس سارے کھیل میں ہمارا بھی کچھ خاص قصور نہیں ہے کہ مذہب کے خود ساختہ پہلوؤں کا یہی نتیجہ نکلنا ہوتا ہے۔ زندگی تماشا مذہب کے اسی پہلو پہ سو واٹ کے تیز بلب سے روشنی ڈالتی ہے۔

مووی کے مرکزی کردار راحت خواجہ بھی ایک مذہبی آدمی ہیں۔ وہ صبح نعت رکارڈ کرواتے ہیں اور شام کے وقت گھر جانے سے پہلے مجروں کی فلمیں خریدتے ہیں اور شوق سے سنتے ہیں۔ ایک طرف حضور پاک کی شان اقدس میں عقیدت کے پھول ہیں اور دوسری طرف ڈھولک پہ تھرکتے ہوئے ہوش ربا جسم۔ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی والی بات ہوئی کہ خدا بھی راضی رہا اور دل کو بہلانے کا سامان بھی ہو گیا۔ اب آپ راحت خواجہ کو برا کہہ لیں۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر کہہ لیں، خیر ہے۔ اور یہ بات وراثتی مذہب کو مد نظر رکھیں تو ٹھیک بھی ہے۔ لیکن مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں سبھی لوگ ایسے ہیں۔ آپ بھی اسے ہیں اور میں بھی ایسا ہوں۔ آپ نماز پڑھتے ہیں اور پھر اپنی داڑھی پہ ہاتھ پھیر پھیر کر غریب کا استحصال بھی کرتے ہیں۔ میں غریب کا استحصال نہیں کرتا لیکن میں نماز نہ پڑھنے کے گناہ کا ارتکاب کرتا ہوں۔ کسی نے شلوار ٹخنوں سے اونچی باندھ رکھی ہے لیکن اس کی گردن میں سریا ہے۔ آپ غرور اور تکبر کے نشے سے بچے ہوئے ہیں لیکن روز شراب پیتے ہیں۔ اب کون سا گناہ، گناہ ہے اور کس گناہ کا وزن زیادہ ہے کی بحث میں جائے بغیر دیکھا جائے تو آپ بھی گناہ گار ہیں اور میں بھی گناہ گار ہوں۔ میں اگر صرف مسجد کی پہلی صف میں چار نمازیں پڑھ کر خود کو مسلمان کہلوانے کا حقدار نہیں ہوں تو آپ بھی غریبوں کا استحصال کر کے خود کو مسلمان کہلوانے کے اہل نہیں ہیں۔ اب عقلمندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ آپ بھی خاموش رہیں اور میں بھی خاموش رہتا ہوں۔ اگر میرے کسی فعل سے آپ کی ذات پہ کوئی براہ راست اثر نہیں پڑ رہا تو پھر آپ کو کیا ضرورت ہے کہ میری ذاتی زندگی میں دخل اندازی کریں۔ لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ اسی لیے سرمد کھوسٹ کو زندگی تماشا بنا کر ہمارے چہروں پہ شعور کے طمانچے مارنے پڑتے ہیں۔

راحت خواجہ بھی ہمارے جیسے مسلمان ہونے کے ناتے کسی شادی پہ ایک پھڑکتے ہوئے گانے پہ دو چار ٹھمکے لگاتے ہیں اور ان کی یہ وڈیو وائرل ہو جاتی ہے۔ اب آپ فوراً کہیں گے کہ انہیں ناچنا نہیں چاہیے تھا۔ یہ تو غلط بات ہے ناں! اور بھر وہ ناچے بھی ایک بدنام زمانہ گانے پہ! لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے اس عمل کو سہی کہہ کون رہا ہے؟ میں تو بالکل نہیں کہہ رہا، راحت خواجہ بھی بعد میں معافی مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں، اور سرمد کھوسٹ؟ وہ تو دکھا رہا ہے کہ ہم سبھی خواجہ راحت ہیں۔ ہر روز اس طرح کے تذبذب کا شکار ہو کر مذہب اور اپنی خواہشات کو ایک ساتھ چلانے والے! ہر روز نمازیں پڑھ کر، شلواریں ٹخنوں سے اوپر باندھ کر ایک دوسرے کا حق کھانے والے! ۔ لیکن اس بات کو سمجھے کون؟ اس بات کو صرف منٹو سمجھتا ہے۔ وہ لوگوں کو آئینہ دکھاتا ہے اور پھر خود بھی اس آئینے کو دیکھ کر اپنے بال نوچ کر گنجے فرشتوں کی طرح ہماری آنکھیں کھولنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسے پتا ہے کہ وہ بھی گناہ گار ہے۔ وہ بھی ہماری طرح دو نمبر بندہ ہے لیکن وہ ہمارے برعکس اس بات کو قبول کرتا ہے اور ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم بھی اس چیختی چنگھاڑتی حقیقت کو قبول کریں تاکہ معاشرے کی گھٹن کم ہو۔

فلم میں اس خاص طبقے کو بھی دکھایا گیا ہے جو اس معاشرتی گھٹن اور بھونڈے پن کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کی اس سارے کھیل پہ مکمل اجارہ داری ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو آپ کی ذاتی زندگی میں عمل دخل کو اپنا پورا حق سمجھتا ہے۔ اپنے تئیں خود کو دین کا رکھوالا سمجھتا ہے اور آپ کو بھی لوگوں کی ذاتی زندگیوں میں گھس کر مذہب کا رکھوالا بننے کی تلقین کرتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہم اس کی باتوں میں آ بھی جاتے ہیں۔ اس طبقے کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا کوئی بھی کام شریعت کے خلاف نہیں ہوتا۔ کسی بھی طرح کے کوئی بھی کام کرنے سے پہلے آپ کو اس طبقے کی طرف سے کسی حدیث کا حوالہ دیا جائے گا یا پھر کسی قرآنی آیت کی تشریح اس طرح سے کر پیش کی جائے گی کہ اس کا یہ کام فوراً شریعت کے دائرے کے عین بیچ دکھائی دے گا۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم نے آنکھوں پہ وہ پٹی باندھی ہے کہ ہم بھی اس طبقے کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔

خواجہ صٓاحب بھی اسی طبقے کا عتاب کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ جو وڈیو ان کی وائرل ہوتی ہے تو وہ معاشرے کو (جو اس خاص طبقے کے زیر اثر ہے ) اس قدر بری لگتی ہے کہ سبھی ان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ خواجہ صاحب کی زندگی، کہ جنہوں نے اپنی بیٹیوں کی اچھی تربیت کی کہ وہ معاشرے کی مفید شہری بنیں، ایمانداری سے رزق حلال کمایا، ۔ اس ایک وڈیو کی وجہ سے تماشا بنا دی جاتی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک نفسیاتی کیفیت ہے۔ معاشرے کا قریبا ہر بندہ ہی ہمارے سامنے ہمارا آئینہ ہے۔ میں اکثر ع۔ غ۔ سے کہتا ہوں کہ ہمیں یہاں یورپ میں زیادہ پاکستانی اس لیے بھی اچھے نہیں لگتے کہ ان میں ہمیں اپنا آپ نظر آتا ہے۔ راحت خواجہ میں بھی معاشرہ اپنا آپ دیکھتا ہے۔ جس طرح راحت خواجہ راحت دو نمبر بندے ہیں، اسی طرح ان کو دیکھ کر سبھی کو لاشعوری طور پہ اپنی دو نمبری کا احساس ہوتا ہے۔ پھر ہم سب خواجہ راحت سے نفرت کرتے ہیں، ان کو جی بھر کر گالیاں دیتے ہیں۔ ان کو ہر وہ سزا دیتے ہیں جن سے ہم خود بچنا چاہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم خواجہ راحت کو یہ سزا دے کر خود کو اس سزا سے بچا لیں گے۔

مولوی صاحب جب خواجہ راحت کو برا بھلا کہتے ہیں تو معاشرے کے یہ دو کردار ایک دوسرے کا کچا چٹھا کھولتے ہیں۔ یہ وہی بات ہوئی کہ ہوش مندی کا ثبوت یہی ہے کہ دونوں خاموش رہیں۔ لیکن نہیں، بات جب ذرا حد سے بڑھتی ہے تو مولوی صاحب کے اعمال ان کے سامنے لائے جاتے ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ مسجد کے چندے سے گھر آپ نے بنوایا ہے اور مدرسے کے معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی آپ نے کی ہے۔

یہاں مولوی صاحب معاشرے کے اسی خاص طبقے کی نمائندگی کر رہے ہیں جس کی اس سارے کھیل پہ اجارہ داری ہے۔ ہماری طرح وہ بھی دو نمبر ہیں گو ہزار دلائل دے کر اپنے اعمال کے شریعت کے دائرے میں گھسیٹ گھسیٹ کر داخل کرتے رہیں۔ لیکن یہ سب وہ قطعی طور پہ ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ ہاں دوسروں کی دو نمبری کے فوراً پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ پہلے اسے خدا سے ڈراتے ہیں۔ پھر اپنے معاشرتی اثر و رسوخ سے ڈراتے ہیں۔ آپ پوری فلم دیکھیں، اور جس منظر کو دیکھ کر آپ صحیح معنوں میں خوف زدہ اور رنجیدہ ہوں گے، وہ یہی ہے کہ جب مولوی صاحب راحت خواجہ کے محفل میلاد سے نہ جانے پہ اسے دھمکی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پھر لگواؤں نعرہ۔ اس کے بعد شہرہ آفاق نعت گنگنانے لگتے ہیں :

مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام

یہی وہ نعرہ ہے جسے لگا کر مشال خان کی جان لی گئی اور یہی وہ نعرہ ہے جس سے ڈر کر ریاستی اداروں نے زندگی تماشا کو سینما کی زینت نہ بننے دیا۔

راحت خواجہ جن کا اس خاص نعروں والے طبقے سے خاص تعلق نہیں دکھایا گیا بلکہ وہ خود اس خاص طبقے کے عتاب کا شکار بھی ہوتے ہیں، اس طبقے کے نقش قدم پہ چلتے ہیں۔ وہ اپنے تئیں دین کے خود ٹھیکے دار ہیں۔ وہ ایک محلے دار کی دکان بند کرواتے ہیں کہ وہ گناہ کے کاموں میں ملوث ہوتا ہے۔ یہاں مولوی صاحب اور راحت خواجہ کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔

سرمد کھوسٹ نے یہ فلم نہ مولوی کے خلاف بنائی ہے اور نہ راحت خواجہ کے حق میں بنائی ہے۔ اس نے بس منٹو کی طرح بلیک بورڈ پہ سفید چاک سے لکھنے کی کوشش کی ہے کہ جس سے ہمارے معاشرتی رویوں کا کھلا تضاد سامنے آ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments