عورت کیا ہوتی ہے


عورت کیا ہوتی ہے۔ میرے لیے اس کا تعارف تبدیل ہوتا رہا ہے۔ جب میں بچہ تھا، تو مجھے کھانا کھلانے والی، میرا خیال رکھنے والی ایک ہستی جسے میں ’اماں‘ کہتا تھا، موجود تھی۔ وہ مجھے ابو کے غصے سے بھی بچاتی، نہلاتی، صاف کپڑے پہناتی، کئی دفعہ اسکول کھانا دینے بھی آ جاتی تھی۔ دیکھنے میں عام سی تھی۔ باہر جاتی تو موٹے سے کپڑے کا برقع پہن لیتی اور آہستہ آہستہ ننھیال جاتی، اور ہم بھی اس کے ساتھ جاتے۔ کلفیاں کھاتے اور لوٹ آتے۔ اس کے علاوہ مجھے عورت کا نہ خیال تھا، نہ تعارف۔

پھر جیسے تھوڑے بڑے ہوئے تو ٹی وی ڈراموں میں دیکھا کہ عشق کے موضوعات زیر بحث ہیں لیکن یہاں ایک مصنوعی سنجیدگی جو گھر سے گفٹ میں ملی تھی، کارآمد ہوئی اور ہم سکرین سے نظریں ملاتے تاوقتیکہ وہاں کوئی نازنین جلوہ افروز ہوتی۔ قدرت نے سارے گھرانے کی چائنا کٹنگ تو کی مگر لڑکیاں ایڈ کرنا بھول گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ لونڈے ہر گھر میں ادھم مچا رہے ہیں اور کرکٹ کو منشا حیات سمجھ کر ٹلے لگا رہے ہیں۔ کبھی کبھار گھر میں کوئی خاتون کوئی کاغذات کی تصدیق کرانے آجاتی یا کسی تہوار کے چاول آ جاتے تو ہم سارے بھائی چارپائیوں کے نیچے چھپ جاتے۔ یا ادھر ادھر کمرے میں دبک جاتے۔

میں سب سے چھوٹا تھا۔ بھائی لوگ کالج سے یونیورسٹی گئے تو میری بھی باری آ ہی گئی۔ گھر سے نکلے تو پیوبرٹی کے حملے کا زبردست شکار ہوئے۔ اب کیا بتائیں، لیوک وام سے پریشر کوکر کیونکر بنے گویا فرائیڈ میاں کے سبجیکٹ تھے۔ اور کالج کا آموختہ کہیں درمیان میں ہی رہ گیا۔ پھر ابا میاں نے کلائی پکڑی اور میڈیکل کالج میں چھوڑ آئے۔ لیکن یہاں ایک چیز مختلف تھی۔ عورتوں کی بھرمار۔ ایک سے بڑھ کے ایک، رنگ و روغن کی دنیا۔

مگر روشنی کی ایسی تیز شعاع دیکھنے کا کس کو یارا تھا۔ آنکھیں چندھیا گئی اور زور سے میچ لیں۔ لیکن یہاں ایک اور چیز بھی مشاہدے میں آئی۔ عورت بھی ہماری طرح کی ہی انسان ہے۔ لیکن یہ بات ہضم کرنا نہایت دشوار تھی۔ میرا خیال تھا، میری طرح کی کمزور، خاموش طبع اور محتاج سے چیز ہوگی۔ کیونکہ میں کام گو اور شریف قسم کا پینڈو لڑکا تھا یہاں میرا سامنا تیز، با خبر اور با صلاحیت عورت سے ہوا۔ پھر دماغ سے ہارمونز کا غبار تھوڑا کم ہوا تو ایک عجیب بات سامنے آئی۔

ہسپتال میں عورت اپنا کنسینٹ فارم سائن نہیں کرتی۔ وہ جتنی بھی خوبصورت، تعلیم یافتہ یا باصلاحیت ہو، برقع اس کی مجبوری ہے۔ وہ کسی بھی ورک انوائرمنٹ میں محفوظ نہیں۔ اسے کسی بھی محکمے یا دفتر میں احساس تحفظ نہیں، اسے کسی بھی محکمے یا دفتر میں آپٹیمم سہولت بھی میسر نہیں۔ وہ بھی ایک ڈسفنگشنل معاشرے کی اکائی ہے اور اس کے کاز اور ایفیکٹ کی برابر حصے دار ہے۔ لیکن جب اسے برابر ماحول، آگے بڑھنے کے مواقع ہی نہیں ملے، اس کے پیروں میں آہنی بیڑیاں ہیں تو وہ کرے بھی کیا۔

پرانا کلچر نئی نسل کو پیچھے کھینچتا ہے۔ بیٹا باپ کی سنتا رہے تو خوفزدہ اور تضاد کا شکار رہے گا۔ نئی اور پرانی سوچ آپس میں ٹکرا چکی ہے۔ جب اپنے بچے کو تم ملک سے باہر بھیج رہے ہو تو اسے آنے والی تبدیلیوں کے لیے احساس ندامت تو مت دو۔ یہاں بیوی شوہر کا ہاتھ نہیں تھام سکتی، ویڈیو بنانے والے پہلے آ جاتے ہیں۔ پبلک میں پیار کرنا جرم اور قتل کرنا جائز ہے۔ چوری کے پیسے سے حج کرنا جائز ہے لیکن حلال کی کمائی گلے کا پھندا بن جاتی ہے۔

یہاں سوال کرنا جرم ہے اور نظریں جھکا کر ذہنی معذور بن جانا سعادت مندی۔ یہاں حقائق چھپائے جاتے ہیں اور دیو مالائی کہانیوں کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ یہ تمہیں ذہنی غلام رکھنا چاہتے ہیں، تمہیں سوچنا نہیں سکھاتے اور تم پر فکر و عمل کے سارے دروازے بند کر دینا چاہتے ہیں۔ اب چونکہ تم بھی یہیں پروان چڑھے ہو اس لیے تمہاری بینائی بھی زائل ہونے ہی والی ہے۔ تم بھی زومبی بننے والے ہو۔ جس طرح انہوں نے عورت کے وجود کو مسخ کر دیا ہے۔

بالکل اسی طرح تم ان کی نظروں سے اوجھل نئی سوچ کا پروان چڑھانا۔ برقع پہننا تمہاری مجبوری ہے۔ لیکن سوچ کو آزاد رکھو، کسی خنجر کی طرح تیز اور ان کی بے ہودہ رسموں کی جڑیں کاٹتے رہو۔ اگر اسے کہیں بیٹھنے کی جگہ نہیں ملتی تو تم ان کے حقوق کے الم بردار بن جاؤ۔ تم تڑپتی ہوئی عورت کو ہسپتال کے اندر تو اس کا حق دے سکتے ہو۔ پھر وہی عورت تمہیں اپنا اصلی پوٹینشل اچیو کرنے کا حوصلہ دیگی۔ عورتوں، بچوں، معذوروں، بزرگوں کے حقوق ہوتے ہیں۔

جانوروں کے بھی حقوق ہوتے ہیں لیکن بچوں سے بد فعلی تمہارے کلچر کا حصہ ہے۔ جہالت اور عورت دشمنی کو تم اپنی مردانگی سمجھتے ہو۔ دیو مالائی داستانیں تم پڑھو، اب ہم نہیں پڑھیں گے۔ وہ تمہاری زندگی تھی، یہ ہماری ہے۔ یہاں عورتوں بچوں اور جانوروں کو حقوق ہیں، یہاں جادو ٹونے، اور فرسودہ رسومات کی جگہ علم اور ایویڈنس بیسڈ ریسرچ کا راج ہے۔ میں نہیں جانتا کہ آنے والی نسلیں جو مستقبل بنائیں گی وہ کتنا کامیاب ہو گا۔

اس میں کرنے لوپ ہول یا خامیاں ہوں گی لیکن میں چاہتا ہوں کہ جس طرح میری ذات میں عورت کا خلا تھا۔ اور میں ایک عرصہ تک اسے خوشبو، رنگ روغن کی دکان سمجھتا رہا اور میں نے منہ کی کھائی، اس طرح میرے بعد آنے والے نہ سمجھیں بلکہ وہ عورت کو اپنی صلاحیت، عزت اور جستجو کے مطابق بڑھنے اور اپنا مقام حاصل کرنے کا موقع دیں۔ پھر شاید سوچ کا یہ خلا بھر بھی جائے۔ فی الحال تو اس کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

اگر تم عورت کو سیاست، قانون، کامرس، پالیسی میکنگ میں جگہ دیتے تو تمہارے مذموم عزائم پہ پھندا لگ جاتا۔ عورت نہ تمہیں کرپشن کرنے دیتی نہ تمہاری سازشوں کو اتنی شہ ملتی۔ ملک کا پچاس فیصد حصہ آخر لوکل مارکیٹ، انڈسٹری، ٹرانسپورٹ، میڈیسن، کامرس، کیبنٹ، اور ایڈمنسٹریشن میں شامل کیوں نہیں ہو سکتا۔ اس کا جواب تم اچھے سے جانتے ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments