جذبۂ نوجواں


امریکہ کی معروف ترین یالے ، کولمبیا ،پرنسٹن یونیورسٹیوں میں نوجوان مورچہ زن ھوکے بیٹھ گئے ھیں وہ دنیا کے مظلوموں کی آواز بن چکے ھیں ، ان کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں۔ ان مظاھرین میں بہت سے اساتذۂ کرام بھی ان کے ھم آواز بن کے ان کے ساتھ انمول قربانیاں دے رھےھیں۔ سینکڑوں مظاھرین کو گرفتار کرلیاگیا ھے۔ سینٹر برنی سینڈرز بھی ان نوجوانوں کے داعی بن کے سامنے آۓ ھیں انہوں نے یہودی ریاست اسرائیل کو کہا ھے کہ امریکی ذھین لوگ ھیں ان کی ذھانت کا مزید امتحان نہ لیا جائے وہ اب مزید ان مظالم کو برداشت نہیں کرینگے۔کچھ لوگ ان نوجوانوں کو مسلمان شدت پسندی سے بھی جوڑتے ھیں۔ یہ تحریک اتنی مقبول ھورھی کہ لوگ اسے 1960 کے دور میں سیاہ فاموں کی آزادی حاصل کرنے والی سول رائٹس و طلباء تحریک سے بھی بڑا سمجھ رھے ھیں ۔ یہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کے طلباء ھیں جو یہاں سے نکل کر بڑے بڑے سیاستدان ، بیوروکریسی اور کارپوریشنوں کے اعلیٰ مناسب پہ پہنچتے ھیں جو اشرافیہ کلاس کہلاتی ھے لیکن آج وہ اپنا مستقبل داؤ پہ لگارھے ھیں ،گرفتاریاں ھورھی ھیں ، معطلی ھورھی ھیں مگر وہ کسی طور پہ اپنی آواز کم کرنے پہ راضی نہیں کیونکہ وہ اسے رزم حق و باطل سمجھ کے خیمہ زن ھیں وہ سمجھتے ھیں کہ ظلم و تعدی کے خلاف اب یا کبھی نہیں والی صورتحال درپیش ھےاب اگر ظلم کو برداشت کرلیا تو پھر ھمیشہ یہ جاری رھے گا جو ان کے لئے ناقابلِ برداشت ھوگا۔ ان نوجوانوں نے ایک۔دنیا عالم کو ایک ولولۂ تازہ دیا ھے جو تیانامن چوک کے شھیدوں کی یاد تازہ کرتاھے ، جو عرب اسپرنگ کی یاد تازہ کرتاھے ، جنوبی امریکی تحاریک ھوں یا جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے خلاف تحریک ھوسب کو اکٹھا کرکے بھی یہ تحریک ان سے برتر اور موثر محسوس ھوتی ھے۔اب جدید ترین اور موثر ترین میڈیا ور سوشل ایپس کا دور ھے آپ کی آواز بیک وقت پوری دنیا میں پھیل جاتی ھے ۔آج کا نوجوان ہتھیاروں سے لیس نہیں بلکہ محض اپنی ذھانت و فطانت سے یہ جنگ جیتنے کے بالکل قریب ھے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments