نئے سال کی قرارداد کے خلاف اور 2017 کا ذاتی خلاصہ


میں سنہ 2010 سے اک عادت میں مبتلا ہو گیا تھا کہ ہر سال اکتیس دسمبر کو آنے والے نئے سال کے لیے اپنی اک قرارداد لکھتا تھا۔ یہ قرارداد بلٹ پوائنٹس کی شکل میں ہوتی تھی اور پھر میں یکم جنوری سے اس قرارداد کے پیچھے لگ جایا کرتا تھا۔ کام کے دوران بیچ بیچ میں جب بھی دماغ آٹو پر ہوتا تو اس قرارداد کی یاد آتی اور میں گوگل ڈرائیو پر جا کر وہ دستاویز کھولتا، اس کے مندرجات پڑھتا اور پھر پچھتاوے کے ساتھ ساتھ خوب ”ہاسا“ بھی نکالتا۔ یہ سلسلہ 2013 تک بڑی شدومد سے اور مسلسل جاری رہا۔

فروری 2013 میں پیش آنے اور زندگی بدل دینے والے اک منفی ترین واقعہ نے گویا پچھلے اکتالیس سال کی ٹامک ٹوئیاں اک دھماکے سے اڑا ڈالیں اور پھر خود سے ہی اپنی زندگی، شخصیت، مزاج اور اس زمین پر اپنا وقت بِتانے کے ڈھنگ کی نئی طرح تلاش کرنے کی کوشش شروع کر ڈالی۔ میرے دوست اب بہت کم رہ گئے ہیں۔ کسی زمانے میں میرے بلیک بیری میں کوئی 849 لوگوں کے نمبر ہوا کرتے تھے، اور ان تمام لوگوں سے میں Effectively مِلا ہوا تھا اور ان کے بارے میں کوئی نہ کوئی پرسنل حوالہ بھی رکھتا تھا۔ اب ان 849 لوگوں میں سے میرے موجودہ اینڈرائڈ سمارٹ فون میں شاید 9 لوگ بھی باقی نہ ہوں، اور یہ سارا کام عرصہ چار سے پانچ سال میں ہو گیا۔

مجھے جاننے والے جانتے ہیں، اور ان کی ہی بنیادی طور پر اک ذاتی پرواہ بھی ہے، کہ 2013 میری زندگی کا کیسا سال تھا۔ مجھے اپنے والد صاحب کے دل کی بیماری کے علاج اور دیگر بندوبست کے لیے اپنی ذات کی گہرائی تک میں اُتری ہوئی تذلیل برداشت کرنا پڑی۔ یہ واقعہ پھر کبھی سہی، مگر اس سارے عمل میں، زندگی کے بارے میں میرا فلسفہ اور اس زندگی کو گزارنے کے حوالے سے میرا عمل ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تبدیل ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں پیش آنے والی اس تذلیل کا دلی طور پر شکرگزار ہوں کہ جس نے اک زندگی کے اک تصوراتی ہیولے سے نجات دلوائی۔

زندگی کے یہ حوادث ہیں جو اپنے ڈیڑھ دو پڑھنے والوں کی نذر کرتا رہتا ہوں۔ نہ بھی کروں تو مجھے کون سے کالے پانی یا پھانسی کی سزا ہو جانی ہے بھلا، مگر خدا شاہد کہ ایسے مضامین لکھنے میں اک حسنِ نیت کا عمل ہی کارفرما ہوتا ہے۔ سوچ یہ ہوتی ہے کہ شاید ایک آدھ پڑھنے والے کے خیال کو کوئی نئی جہت اور نیا زاویہ ملتا ہو، گو کہ زندگی کی بنیادی حقیقت ایک ہی ہے: ہر کسی کو اپنی اپنی ہی گزارنی ہوتی ہے، ہاں مگر، دوسروں کے تجربات سے چند اک نکات کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

تو صاحبو، میرے یارو، میں زندگی کے کسی بھی عمل کو اب کسی بھی ماورائی گرینڈ سکیم کا کوئی حصہ نہیں سمجھتا۔ مجھے باقی کسی سماجی و معاشی طبقہ کا اپنے طبقہ سے زیادہ کا علم نہیں تو اپنے اور اپنے جیسے لوگوں کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ ہم جیسوں کی زندگی میں کوئی ڈیفائنڈ پیٹرنز نہیں ہوتے۔ ہم جیسے اپنی اپنی زندگیوں میں مختلف بحرانوں کے طوفانوں میں سے ہوتے ہوئے جزیرے جزیرے تیرتے چلے جاتے ہیں۔ انسان کی عمومی، اور نچلے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے اور جدوجہد کرنے والے مرد و خواتین کی زندگیوں کو خوشیاں نہیں، بلکہ المناک سانحے مختلف قسم کی اشکال اور جہتیں عطا کرتی ہیں۔ ہمارے رستے، خوشیوں سے نہیں، بلکہ مختلف قسم کے ذاتی، خاندانی، معاشرتی و گروہی حادثات سے تلاشے، تراشے اور خراشے جاتے ہیں۔

ان حادثات اور بحران کے طوفانوں میں گزر جانے کے بعد جب کسی جزیرے پر چند گھڑیاں سانس لینے کا موقع ملتا ہے تو پیچھے مڑ کر میں اب کسی ماورائی طاقت کی قدرت یا زندگی کے سانچے کی بجائے، پیش آنے والے واقعات کی عقلی اور دلیلی توجیہات و وجوہات تلاش کرتے ہوئے، فزکس میں ہی جینے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس رویے نے بہت آسانی فراہم کی ہے، مگر مشکلات بھی باہم رہتی ہیں کہ وہم کی موجودگی بہرحال بہت سارے معاملات میں گویا اک دروازہ فراہم کیے رکھتی ہے جہاں انسان اپنی ناکامیوں، حسرتوں اور پیش آنے والے حوادث کی پیچھے دیکھتے ہوئے وجوہات تلاش کرکے خود کو سکون مہیا کر سکتا ہے۔ مجھے تو یہ عیاشی بھی اب مہیا نہیں، مگر عقل، دلیل، فہم اور شعور کے تیشے کو ہاتھ میں پکڑے ہوئے اپنی بساط اور حال کی گھڑی تک کی ارتقاء کی ہوئی ذاتی انسانی ذہانت کی بنیاد پر دو کا پہاڑہ تخلیق کر ہی لیتا ہوں۔

میری زندگی گزارنے کا اب یہی طریقہ، منطق اور فلسفہ ہے۔

2017 بہت سارے حوالوں سے بہت دلچسپ سال رہا۔ اس سال کے آغاز پر اپنا وزن دس کلو کم کرنے کا بھی خیال تھا۔ سال کے اختتام پر، الحمدللہ، اب وہی وزن بارہ کلو کم کرنے کا ارادہ ہے۔ اسی سال پیشہ وارانہ طور پر بہت سارے رسک لئے، اور اکثریتی کامیاب رہے۔ ایک آدھ ہے جو لٹکا ہوا ہے، مگر وہ بھی آنے والے سالوں میں اپنی کوئی شکل بنا ڈالے گا۔ اسی سال مجھے ماضی کی پارٹنرشپس کے حوالے سے ہونے والے تمام تلخ انسانی تجربات سے رہائی بھی مل گئی کہ اپنے دو ادارہ جات میں پارٹنرشپ کا معاملہ اب بہت متوازن اور تسلسل سے ترقی والا ہے۔ شکر کرتا ہوں کہ انسانوں پر اعتبار قائم رکھنے کی اک وجہ پارٹنرشپ کی شکل میں مہیا ہے، وگرنہ مارچ 2015 سے میری زندگی میں عمومی پیشہ وارانہ معاملات دگرگوں ہی رہے۔

مطالعہ کی رفتار وہ نہ رہی، مگر پھر بھی شکر ہے کہ سال میں موجود مہنیوں کی تعداد سے دوگنا سے کچھ زیادہ ہی عمدہ کتب میرا شکار رہیں۔ تارڑ کا خس و خاشاک زمانے دوسری بار پڑھنا اور علی اکبر ناطق کا نولکھی کوٹھی شاندار تجربات رہے۔ سوشل میڈیا پر ناطق صاحب کی زبان کی مسلسل تلخی اور بھاری پن نے مگر مایوس کیا۔

مسلسل خواہش کے باوجود، میں کسی سیاحتی مقام پر نہ جا سکا، اور زندگی ذمہ داریوں کے گرداب میں ہی رہی۔ اس دائروی سلسلہ سے بغاوت ضروری بھی نہیں سمجھتا، مگر کبھی کبھی خواہش ہوتی ہے کہ فرار کے چند روز کوئی اتنا بڑا گناہ نہ ہوں گے۔ فرار کا یہ گناہ، زندگی نے مہلت دی تو 2018 میں لازماً کرنا ہے۔

پیشہ وارانہ طور پر عمومی سستی کا شکار رہا۔ اکثریتی تو نہیں، مگر دس میں سے پانچ کاموں کو ٹالنے پر مصر رہا، گو کہ وہ کام بھی بعد میں کر ہی لیتا تھا، مگر اس سے کام کرنے کی خوشی و انبساط سے محرومی ہو جاتی ہے۔ آنے والے سال خوشی و انبساطی معاملات پر ان کی ڈیمانڈ کے مطابق توجہ دینے کا بھرپور خیال ہے۔

آپ تمام کو، ہم سب کے توسط سے کھانے، پینے، جینے، موج اڑانے، سفر کرنے، تجربات سے گزرنے، کامیابی حاصل کرنے، ناکامیوں سے سیکھنے، فرشتانہ زندگی سے مکمل بچنے، بھرپور انسانی زندگی میں رہنے، اپنا خیال رکھنے اور دوسروں کو ان کے خیالات کے ساتھ جیتے رہنے دینے کے ظرف کی دلی خواہشات ہیں۔
2018 میں، صاحبو، 2017 سے بہتر کیجیے۔ وگرنہ صرف جانور ہی ارتقاء سے عمومی انکاری رہے تبھی تو جانور کہلاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).