ہکلے نواب کی ادھوری کہانی


یقین تو نہیں مگر حقیت تو یہی ہوگی کہ وہ یعنی وصی چچا کب کے مر کھپ گئے ہوں گے۔ آخر کوئی ہمیشہ جینے کے لیے تو آتا نہیں۔ آخری بار انہیں اپنے ابا کے سوئم والے دن دیکھا تھا۔ صوفے کے ایک کونے پہ بیٹھے خاموشی سے آنسو بہاتے ہوئے۔ حسب معمول ان کی آنکھوں پہ اس وقت بھی پہ کالا چشمہ لگا ہوا تھا جو وہ اپنی بینائی سے محروم ایک آنکھ کو جو دوسری آنکھ سے قدرے چھوٹی اور اندر کو دھنسی ہوئی تھی، چھپانے کے لیے مستقل ہی لگاتے تھے۔ پھر جب آنسو کچھ تھمے تو ہکلاتے ہوئے کہنے لگے۔ ”بٹیا ہم نائی کی دکان پہ بال کٹوا رہے تھے وہیں اخبار دیکھا تو ماموں کے سوئم کی خبر پہ نظر پڑی۔ بس بٹیا ایسا دل بے قرار ہوا کہ جیسے تیسے کر کے بال کٹوائے اور سیدھے بس پکڑ کے یہاں آ گئے۔“ میں نے غور کیا یہ سب کہتے ہوئے صدمہ سے ان کی ہکلاہٹ بڑھ گئی تھی۔ ابا کے جانے کا دکھ اپنی جگہ مگر ان کے سوئم میں وصی چچا کی شرکت کی خوشی تھی۔ اور لوگ تو بلاوے اور یاد دھانی پہ ہی آئے، پر وصی چچا کا تو ہمیں کوئی اتا پتا ہی نہ تھا۔ اطلاع کیسے دی جاتی؟ لیکن بھئی کچھ انتظام قدرت بھی تو اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے۔ دل کے تار جڑے ہوں تو ایک جانب ارتعاش ہو تو دوسری جانب تار بج اٹھتے ہیں۔ ”تو گویا اخبار میں سوئم کی خبر وصی چچا کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے تھی؟“ میں نے سوچا۔

وصی چچا کو یوں آنسو بہاتے دیکھ کر مجھے ایک دم سے ہی دنیا کی نظروں میں غیر معتبر اور کم وقعت ہکلے نواب کے بجائے اہم اور معتبر شخصیت نظر آنے لگے۔ آخر وہ میرے ابا کے لیے غم ناک اور تصنع سے عاری وجود کے ساتھ دوڑے بھاگے چلے جو آئے تھے۔ ان کی اس بے قراری کی شاید ایک وجہ یہ بھی رہی ہوگی کہ میرے ابا اماں نے انہیں خاندان بھر کے پھٹکارے ہوئے ہونے کے باوجود ہمیشہ ایک رشتہ دار کی حیثیت سے قبول کیا۔ جبکہ خاندان کے اکثر گھروں میں ان کی آمد پہ عورتیں ہی نہیں مرد بھی کونے کھدروں میں پردے میں بیٹھ جاتے۔ مبادا یہ کہ ان سے سامنا نہ ہو جائے اور ان کی عزت داغدار نہ ہو جائے۔ آخر ایک ایسا وجود جسے خود اس کو انڈیا کے شہر لکھنو میں ہائی کورٹ کے عہدہ پہ تعینات جج والد نے تیرہ چودہ برس کی عمر میں ہی عاق کر دیا ہو، واقعی کتنا بے وقعت ہوگا۔ تاہم ہمارے والدین نے انہیں اپنے گھر میں آنے کی اجازت دی اور ان کی ازلی گپ مارنے کی عادت کے باوجود انہیں غیر معتبر نہ سمجھا۔ خاندان میں ہکلے نواب کے نام سے مشہور ہونے کے باوجود اس نام سے پکارا جو انہیں ان کے والدین نے پیدا ہونے پہ دیا ہوگا، سید وصی حیدر۔ ویسے بھی پیدائش کے وقت بچے ہکلاتے ہوئے نہیں بلکہ روتے ہوئے پیدا ہوتے ہیں دنیا کے سارے بچوں کی طرح۔

زیادہ تو نہیں ہاں سال میں تین یا چار دفعہ وصی چچا ہمارے گھر اپنا جلوہ ضرور دکھاتے۔ امی کی سنجیدہ مزاجی کی وجہ سے بمشکل ہی ادب و لحاظ سے بوجھل چند جملوں کی ادائیگی کے بعد وہ صوفہ پہ سمٹ کر بیٹھ جاتے۔ مگر پھر ہمارے ابا کی حس ظرافت سے کچھ ہلکے پھلکے ہو جاتے۔ بالکل اپنے دبلے پتلے وجود کی طرح کہ جو محبت و شفقت کے بھاری پن سے محروم ہی رہا تھا۔ جانے وہ کیا نافرمانی رہی ہوگی کہ وہ ننگ خاندان ہوئے اور ان کے سخت گیر باپ جو عزت مآب جج رہے تھے اپنی عزت پہ لگنے والے داغوں سے دامن چراتے ہوئے حفظ ماتقدم کے طور پہ ان کو عمر بھر کے لیے عاق کر دیا۔ اور وہ بھی محض چودہ برس کی عمر میں۔ وہ زمانہ متحدہ ہندوستان کا تھا۔ ہجرت کی تقسیم نہیں ہوئی تھی لیکن ان کا گھرانا اس سے پہلے ہی منقسم ہو چکا تھا۔ وہ گھر سے نکل کے جانے کہاں رہے ہوں گے لیکن باقی گھرانا جج صاحب کی عزت، دولت و مرتبہ کی پناہ میں ہی تھا۔ پھر جب پاکستان بنا تو گھر سے نکالے معتوب شدہ ہکلے نواب نے پاکستان آنے کا فیصلہ کر لیا۔ شاید نئے ملک میں اپنے وجود کو معتبر اور باعزت بنانے کے لیے، وہ عزت جو انہوں نے کچھ اپنی ہکلاہٹ اور کچھ منصف باپ کے عاق کر دینے کے فیصلے کے فیصلہ کے ہاتھوں گنوا دی تھی۔

ایک دن وہ جانے کس موڈ میں تھے کہ انہیں اپنی کئی دہائیوں ادھر بچھڑی ماں کی محبت کی گرمی یاد آ گئی تھی۔ انہوں نے بتایا جس صبح ان کی پاکستان روانگی تھی وہ رات کے اندھیرے میں چھپ کر چوروں کی طرح اپنے باپ کی کوٹھی میں داخل ہوئے۔ ان کی ایک ہی بہن تھی جسے خاندانی دولت مند جج باپ نے آکسفورڈ یونیورسٹی اعلی تعلیم کے لیے بھیج دیا تھا۔ اس سے ملاقات ممکن نہ تھی۔ لیکن وہ تو اپنی ماں سے ملنے گئے تھے اور وہ بھی آخری بار۔ عرصے سے بیٹے سے بچھڑی بے قرار ماں نے پہلے تو اولاد کو سینے سے چمٹا کر اپنے بہتے آنسووں سے کلیجے میں لگی آگ کو بجھایا اور پھر اشارے سے انہیں انتظار کرنے کو کہا۔ وہ زمانہ شوہر کی حکم عدولی کرنے والی بیویوں کا نہ تھا اور وہ بھی سخت گیر شوہر جن کے قلم کی جنبش پہ مجرموں کو پھانسی کے پھندے پہ چڑھانے کے فیصلہ پہ عمل ہوتا ہو۔ جب وہ واپس آئیں تو ان کے ایک ہاتھ میں ایک پوٹلی تھی جس میں ان کے زیور تھے اور دوسرے ہاتھ میں امام ضامن جسے بیٹے کے بازو پہ باندھتے ہوئے، آنسووں کی جھڑی میں ماں نے بیٹے کو امام زمانہ کے سپرد کیا اور ماتھے پہ رخصتی کا آخری بوسہ دیا۔ وہ بوسہ کہ جس کی گرمی آج جانے کیوں یاد آ رہی تھی۔ یہ بتاتے ہوئے ان کی آواز اور آنکھ دونوں ہی بھر آئے۔

وصی چچا یہ آپ کی آنکھ کیسے ایسی ہو گئی؟ ایک دن ہم نے اپنی معصومیت کے زمانے میں ان کی آنکھ کے متعلق ان سے پوچھا۔ اتفاق سے اس وقت کمرے میں کوئی اور نہ تھا اسی لیے انہوں نے بڑی سنجیدگی سے گپ ماری۔ ”بٹیا ایسا ہے کہ ایک زمانہ میں ملکہ برطانیہ کا طیارہ پاکستان کی طرف آیا تھا اور گر گیا۔ اس میں آگ جو لگی تو ہم نے آئو دیکھا نہ تائو بس جلتے ہوئے طیارے سے ملکہ کو بچانے دوڑ پڑے بس اسی میں ہماری آنکھ چلی گئی۔ لیکن ہمیں ہماری بہادری پہ برطانیہ کے حکومت نے تمغہ دیا۔ جو اب جانے کہاں گم ہو گیا“ ان کی بہادری نے ہمارے ننھے سے دماغ کو بہت متاثر کیا۔ ان کی عزت اور قدر ایک دم ہی ساتویں آسمان کو چھونے لگی۔ وہ اتنے معتبر لگے کہ ہم نے انہیں اپنا قاصد بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ ہوا یوں کہ ہمیں خوشخطی کا بہت شوق تھا۔ اکثر دوپہر میں نوٹ بک پہ اردو لکھنے کی مشق رہتی۔ یہی کوئی چھ برس کی عمر رہی ہوگی۔ وہ زمانہ فلموں کے عروج کا تھا۔ اخبار کے فلموں کے صفحات پہ چھپی اداکارہ شمیم آرا پہ فریفتہ ہونا کچھ عجب نہ تھا۔ وصی چچا کو اندازہ ہوا کہ ہمارا دل فلموں کی ملکہ شمیم آرا پہ آیا ہوا ہے۔ کہنے لگے۔ ”بٹیا شمیم آرا کو خط لکھ دو۔ ہم کل لاہور جانے والے ہیں ان کو گھر جا کے ان کے ہاتھ میں تمھارا خط دیں گے۔“ ہم نے بڑی مشقت سے پینسل کی نوک جما جما کے شمیم آرا کو ٹوٹی پھوٹی اردو میں اپنا محبت نامہ لکھ کر وصی چچا کو تھمایا اور عرصے تک بڑی امید سے اپنے خط کے جواب کے منتظر رہے۔ اکثر ڈاکیا سے بھی پوچھتے کہ ہمارا کوئی خط آیا ہے۔ تو ظاہر ہے کہ وہاں سے جواب کبھی بھی نہ آیا۔
وصی چچا بچوں کو ہی نہیں اکثر بڑوں کو بھی جل دے دیتے تھے۔ سنا ہے ایک دن کسی ایک برقعہ پوش نوجوان خاتون کو لے کر خاندان کے کچھ گھروں میں لے گیے۔ ان کو اپنی نوبیاہتا بیوی کے طور پہ متعارف کیا۔ نئی دلہن کو سلام کرنے پہ بزرگوں سے منہ دکھائی بھی ملی۔ اس کے بعد وہ عرصے تک غائب رہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ کوئی شادی وادی نہیں کی تھی۔ شاید پیسوں کی ضرورت رہی ہوگی تو یہ ملی بھگت کی اس خاتون کے ساتھ۔ عرصہ تک منہ نہ دکھانے کی یہی وجہ رہی ہوگی۔ کہ کہیں جھوٹ پہ پٹائی نہ لگ جائے۔ نوجوانی میں جسم لاکھ قربت کی آگ لگائے مگر وہ ٹھہرے ایک کانے، ہکلے اور والد کی جائیداد اور خاندان سے عاق ہونے والے ناکام انسان۔ انہیں کون منہ لگاتا اور جیون ساتھی بناتا؟ اور وہ بھی جس کی مناسب نوکری بھی نہ ہو۔ اب وہ بات اور ہے کہ وصی چچا انگریزی بڑی فر فر بولتے اور وہ بھی بالکل گوروں کی طرح۔ آخر کو امیر جج باپ نے انگریزوں کے اسکولوں میں تعلیم جو دلائی تھی۔ جو نویں جماعت میں ہی منقطع ہو گئی۔ عاق جو کر دیے گئے تھے۔ تاہم اس انگریزی تعلیم کا استعمال لوگوں کو متاثر کرنے اور اپنی ٹوٹی پھٹی شخصیت کا قد بڑھانے کے خوب کام آیا۔
ابا کے سدھارنے کے بعد وصی چچا بھی وقت کی دھول میں کہیں گم ہو گئے۔ سب ہی اپنی اپنی زندگیوں کے مسائل میں الجھے ہیں۔ کوئی نام بھی نہیں لیتا ان کا۔ نہ وصی چچا نہ ہکلے نواب۔ پھر بھی جب کبھی کسی کو ہکلاتے دیکھتی ہوں تو ان کی کالے چشمہ سے بے نور آنکھ چھپانے والا چہرہ یاد آ جاتا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ وہ ایک بار کہیں سے آ جائیں اور میں پوچھوں کیا مجھے شمیم آرا کو لکھے خط کا جواب اوپر ہی جا کر لینا ہوگا؟ اور ہاں ملکہ برطانیہ سے ملا تمغہ تو آپ نے دکھایا ہی نہیں؟ وہ ماں جن سے آخری ملاقات کا ذکر کرتے وقت آپ کی آنکھیں بھیگی تھیں ان سے ملاقات کیسی رہی؟ اور کیا عاق کرنے والے باپ سے ملاقات پہ ہکلاہٹ کچھ اور تو نہیں بڑھ گئی؟ یا یہ کہنے کی ہمت ہوئی کہ ہکلانے والے اور ایک آنکھ سے نابینا ہونے بچوں کو آدھے راستہ میں چھوڑ نہیں دیا جاتا۔ لیکن مجھے پتہ ہے کہ اب وہ اس سفر میں ہمیشہ کے لیے کھو گئے ہیں اور وصی چچا یعنی ہکلے نواب کی کہانی ادھوری ہی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments