نواز شریف پر جیل میں شدید ذہنی تشدد کیا جا رہا ہے


نواز شریف اڈیالہ جیل میں ہیں۔ وہیں کپتان صفدر بھِی ہیں۔ ساتھ ہی زنانہ وارڈ میں مریم نواز بھی قید ہیں۔ نواز شریف کی شکایات تو آپ نے سنی ہوں گی کہ ان کا ٹائلٹ گندا ہے اور ائیر کنڈیشنر کام نہیں کر رہا ہے لیکن ان پر جو ذہنی تشدد کیا جا رہا ہے اس کی خبر پر آپ نے توجہ نہیں دی ہو گی۔

خواہ جتنی سہولیات بھی دی جائیں لیکن جیل میں رہنا بذات خود ایک تنگی ہوتی ہے۔ اس پر اگر آپ کو ساتھ کے وارڈ میں قید بیٹی سے بھی نہ تو ملنے دیا جائے اور نہ ہی اس کو پیغام دینے کی آزادی ہو تو غم دگنا ہو جاتا ہے۔ لیکن ٹینشن یہ نہیں ہے۔ یہ تکلیفیں اپنی جگہ مگر معاملہ یہ ہے کہ نواز شریف پر جیل میں شدید ذہنی تشدد کیا جا رہا ہے۔

اب کیونکہ بڑے آدمی ہم عام لوگوں جیسے تو ہوتے نہیں ہیں کہ ان پر روایتی تشدد کیا جائے بلکہ ان پر تشدد کے دوسرے طریقے نکالے جاتے ہیں۔ تسلیم کہ آصف زرداری پر کچھ تشدد کیا گیا تھا اور ان کی زبان زخمی کی گئی تھی۔ لیکن عموماً شیخ رشید جیسے بھی ہنسی خوشی وی آئی پی قسم کی جیل کاٹ آتے ہیں۔

یہ بڑے آدمی عموماً جیل میں ٹائم پاس کرنے کے لئے کتاب لکھتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو، یوسف رضا گیلانی، جاوید ہاشمی، حتی کہ شیخ رشید جیسے کو بھی جیل نے ہی صاحب کتاب بنایا تھا۔ نواز شریف کو بتایا گیا کہ ہے صاحب کاغذ قلم آپ کا استحقاق ہے، مگر اجازت نہیں ہے۔ اب میاں صاحب زنداں نامہ جیسی بلند پایہ شاعری کرنے سے محروم رہ جائیں گے۔

غیر روایتی تشدد کی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ مثلاً نیند پوری نہیں کرنے دی جاتی۔ چوبیس گھنٹے تیز روشنی رکھی جاتی ہے۔ کھڑا رکھا جاتا ہے۔ نواز شریف کے ساتھ ایسا کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔ یہ سب نرم تشدد ہے۔

ایک چینی تشدد مشہور ہے۔ اس میں جس شخص پر تشدد کیا جانا مقصود ہو اسے کرسی سے باندھ کر بٹھا دیتے ہیں۔ اس کے سر پر پانی کی ایک مٹکی لٹکا دیتے ہیں جس سے بوند بوند پانی نکل کر اس شخص کے سر پر گرتا رہتا ہے۔ اس سے چوٹ تو نہیں لگتی۔ مگر اسے بدترین تشدد گردانا جاتا ہے۔ کیونکہ قیدی قطروں کا انتظار کر کر کے دیوانہ ہو جاتا ہے۔ ایک قطرہ بھی سر پر ایسے گرتا ہے جیسے پہاڑ آن گرا ہو۔ مگر نواز شریف پر یہ تشدد بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔ ان کے ساتھ بہت بری ہو رہی ہے۔

خبروں کے مطابق ان کو جیل میں ایک ٹی وی دیا گیا ہے جس پر صرف پی ٹی وی آتا ہے۔ کیا یہ ظلم کی انتہا نہیں ہے کہ ایک شخص کو چوبیس گھنٹے صرف پی ٹی وی دکھایا جائے؟ لیکن ظلم اس بے بھی بڑھ کر ہے۔ اس پر پی ٹی وی کے دو چینل آتے ہیں، ہوم اور سپورٹس۔

اب وہ پی ٹی وی ہوم پر جب مارننگ شو دیکھتے ہوں گے جس میں طرحدار بیبیاں چوبیس گھنٹے رنگ رنگ کے کھانے پکا رہی ہوں تو کھانے پینے وغیرہ کے شوقین میاں صاحب کا کیا حال ہوتا ہو گا؟ وہ تو جیل سے نکلتے ہی سب سے پہلے میلوڈی کی فوڈ سٹریٹ میں جانے کی ضد کریں گے۔

دوسرا چینل سپورٹس ہے۔ میاں صاحب کرکٹ کے بھی فسٹ کلاس کھلاڑی رہے ہیں۔ عمران خان کے ساتھ لاہور جمخانہ میں کھیلا کرتے تھے۔ عمران خان کے بیان کے مطابق اس زمانے میں امپائر ان سے ملا ہوتا تھا۔ اب کل جب فخر زمان نے ان کی آنکھوں کے سامنے جب ڈبل سینچری داغی ہو گی تو اپنی جوانی اور قید یاد کر کے میاں صاحب کا کیا حال ہوا ہو گا۔ ان کو تو جمخانہ اور باغ جناح یاد آتا ہو گا کہ ادھر کے مرغزاروں میں وہ دوڑتے پھریں اور چوکے چھکے لگائیں۔

لیکن میاں صاحب شکر کریں کہ ان پر ذہنی تشدد کی حد نہیں کی گئی ہے۔ اگر ان کو پی ٹی وی کی بجائے بول یا اے آر وائی لگا کر ریموٹ چھپا دیتے تو میاں صاحب یہ بھیانک تشدد کیسے برداشت کر پاتے؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1544 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar